تاریخ مودی کی منتظر ہے…
ممبئی حملے میں جتنا جانی نقصان ہوا ہے اس سے ہزار گنا زیادہ جانی نقصان اب تک پاکستان کو ہوچکا ہے۔۔۔
ہندوستان کے حالیہ انتخابات کے بعد نریندر مودی دنیا کے اس دوسرے بڑے ملک کے وزیراعظم بن گئے، نریندر مودی ہندوستان کے تمام سابق وزرائے اعظم میں بدنام ترین وزیراعظم ہیں۔ اس بدنامی کی وجہ ان کی مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی انتہاپسندی کا نتیجہ گجرات میں مسلمانوں کا وہ قتل عام ہے جس کی ذمے داری نریندر مودی پر عائد ہوتی ہے، اس بدنامی کی انتہا یہ ہے کہ ہندو اہل دانش، اہل قلم نریندر مودی کا نام انتہائی حقارت سے لیتے ہیں اور ہندو شاعرگجرات کے قتل عام پر ''ماں'' جیسی دل ہلادینے والی اور آنکھیں نم کرنے والی نظمیں لکھتے ہیں۔ ایسے وزیراعظم سے کسی خیر کی امید رکھنا کسی کارنامے کی توقع کرنا فضول ہے، لیکن تاریخ بہرحال اپنے صفحات کھولے کھڑی ہے کہ ہندوستان کا یہ وزیراعظم تاریخ کو کیا دیتا ہے؟
نریندر مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں دوسرے بہت سارے سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی، اس دعوت اور نواز شریف کے دورۂ دہلی پر مختلف اور متضاد آراء کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات سے بڑی بڑی امیدیں باندھنے والوں کو اس وقت بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب مودی نے دونوں ملکوں کے بڑے متنازع مسائل پر بات کرنے کے بجائے نواز شریف کے آگے پانچ ایسے مطالبات رکھ دیے جو اسے ورثے میں ملے ہیں۔ اس رویے کے سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مودی کو نہ قسمت نے وزیراعظم بنایا ہے نہ بھگوان نے۔
اس کو وزیراعظم اس ''جمہوری نظام'' نے بنایا ہے جو عوام کو وزیراعظم بنانے کا اختیار تو دیتا ہے لیکن وزیراعظم بنانے کے بعد عوام سے تمام جمہوری اختیارات سلب کرلیتاہے۔ مودی کو وزیراعظم بنانے میں وہ اشرافیہ شامل ہے جو مودی سے روبوٹ کا کام لینا چاہتی ہے۔ مودی کو وزیراعظم بنانے میں ان کروڑوں ہندوؤں کے ووٹ بھی شامل ہیں جن کے ذہن سنگھ پریوار نے مذہبی نفرتوں سے آلودہ کردیے ہیں اور جو بھارت کو رام راجیہ دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کروڑوں غریبوں کے ووٹ بھی شامل ہیں جو کانگریس اور اس کے اتحادیوں کے دس سالہ دور حکومت سے مایوس ہوکر اپنے مسائل کے حل کے لیے مودی کی پناہ میں آگئے ہیں۔ یہ سب اپنے ووٹ کی قیمت کے طلبگار ہیں، اپنی حمایت کا معاوضہ چاہتے ہیں۔
پاکستان کے حکمران مودی سے دوستی کے خواہش مند ہیں، وہ مودی سے مسئلہ کشمیر سمیت تمام متنازعہ مسائل کے حل کی امید بھی رکھتے ہیں لیکن اس امید کا کیا حشر ہوا اس کا اندازہ پاکستانی اخبارات کی سرخیوں سے ہوسکتا ہے جن کے مطابق ''مبارکباد دینے گئے، شوکاز نوٹس کے ساتھ واپس''، مودی نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لیے کارروائی شروع کردی۔ اخبارات کی ان سرخیوں سے نواز شریف کے دورۂ بھارت کے نتائج اور بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ غالباً یہ سمجھنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں کہ اس ترقی یافتہ دنیا جمہوریت کا مطلب طاقت کی برتری ہے۔ اس اصول کو مہذب دنیا جنگل کا قانون کہتی ہے۔
نریندر مودی نے نواز شریف کو جو پانچ مطالبات پیش کیے ہیں ان میں پہلا مطالبہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں تعاون، دوسرا ممبئی حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی، تیسرا پاکستان دہشت گردوں کے حملوں کو روکے، چوتھا ممبئی حملہ کیس کے ٹرائل کو جلد اس کے منطقی انجام تک پہنچائے، پانچواں پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث ملزمان کے وائس سمپلز مہیا کرے۔
حیرت ہے کہ یہ پانچ مطالبے دہشت گردی سے ہی وابستہ ہیں اور پاکستان دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ملک ہے، ممبئی حملے میں جتنا جانی نقصان ہوا ہے اس سے ہزار گنا زیادہ جانی نقصان اب تک پاکستان کو ہوچکا ہے، دونوں ملکوں کے اصل مسائل کو پس پشت ڈال کر جو دہشت گردی کے اصل محرک ہیں لکیر پیٹنے کا مطلب بڑے متنازعہ مسائل کو جوتوں سے روندنے کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے؟ نریندر مودی اگرچہ ملک کے سربراہ ہیں لیکن پالیسیاں بنانے کا اختیار اس بیورو کریسی کے پاس ہے، وزیراعظم کو وہی کہنا پڑتا ہے جو اسکرپٹ میں درج ہو اور بیورو کریسی کا اصل فرض سامراج اور اس کے گماشتوں کے مفادات کا تحفظ ہے اور یہ کام بیورو کریسی ہی ''قومی مفادات'' کے نام پر کرتی ہے۔
جن حلقوں کو یہ گمان ہے کہ بی جے پی کی حکومت اور اس کا سربراہ توقع اور خدشات کے برخلاف اپنے پڑوسیوں خصوصاً پاکستان سے تعلقات میں بہتری کے لیے متنازعہ مسائل کو حل کرنے میں کانگریس سے زیادہ فعال کردار ادا کریںگے، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اس قسم کے تنازعات جہاں پیدا ہوتے ہیں انھیں قومی مفادات کے بانسری بجانے والے کبھی حل نہیں کرسکتے، ایسے تنازعات صرف وہ لوگ، وہ قیادت حل کرسکتی ہے جو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی نہ ہوں، صرف انسان ہو۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک غریب کا بیٹا وزیراعظم تو بن گیا، انسان نہیں بن سکا۔ مودی جب تک یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ وہ ایک انسان کی حیثیت سے دنیا میں آیا ہے بعد میں اسے ہندو بنایا گیا ہے اس وقت تک وہ کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔
بی جے پی کی قیادت سیاسی دباؤ کی وجہ سے اپنے آپ کو سیکولرزم کا پیروکار کہتی ہے لیکن عملاً وہ کٹر مذہب پرست اور مذہبی انتہاپسند ہے اور جب تک وہ اپنے سیاسی چہرے سے یہ ماسک نہیں اتارے گی پاکستان سے نہ تعلقات بہتر بناسکے گی نہ متنازعہ مسائل حل کرسکے گی۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ہر وزیراعظم ہر صدر مملکت سامراجی ملکوں اور داخلی طورپر اس کے ایجنٹوں کا گماشتہ ہوتا ہے، اسے وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو یہ دونوں طاقتیں چاہتی ہیں۔ ان خدمات کے عوض ان لوگوں کو لوٹ مار کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔
نریندر مودی کی سادگی اور ایمانداری کے بہت چرچے ہورہے ہیں، ہوسکتا ہے مودی اتنا ہی سادہ اور ایماندار ہو لیکن جب تک وہ اپنے ملک خطے اور دنیا کے عوام سے ایماندار نہیں ہوگا نہ وہ حقیقی معنوں میں سادہ ہوسکتاہے نہ ایماندار۔ برصغیر اور جنوبی ایشیا کے اربوں غریب اور مفلوک الحال عوام پاک بھارت تنازعات کی چکی میں پس کر غریب تر ہورہے ہیں، اگر مودی کو واقعی غریبوں کا خیال ہے تو پھر اسے اس خطے کے اربوں غربا کی بہتر زندگی کے لیے بی جے پی کی سیاست کے حصار سے نکلنا ہوگا اور ایک خالص انسان کی حیثیت سے ان تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہوگا جو اس خطے میں غربت، نفرت اور جنگوں کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ تاریخ اپنا در وا کیے کھڑی ہوئی ہے، مودی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایک عظیم انسان کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات پر اپنی جگہ بنائے یا ایک متعصب مذہبی انتہا پسند کی حیثیت سے تاریخ کا چہرہ مسخ کرے۔
نریندر مودی نے اپنی حلف برداری کی تقریب میں دوسرے بہت سارے سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو بھی اس تقریب میں شرکت کی دعوت دی، اس دعوت اور نواز شریف کے دورۂ دہلی پر مختلف اور متضاد آراء کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہوں کی ملاقات سے بڑی بڑی امیدیں باندھنے والوں کو اس وقت بڑی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب مودی نے دونوں ملکوں کے بڑے متنازع مسائل پر بات کرنے کے بجائے نواز شریف کے آگے پانچ ایسے مطالبات رکھ دیے جو اسے ورثے میں ملے ہیں۔ اس رویے کے سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مودی کو نہ قسمت نے وزیراعظم بنایا ہے نہ بھگوان نے۔
اس کو وزیراعظم اس ''جمہوری نظام'' نے بنایا ہے جو عوام کو وزیراعظم بنانے کا اختیار تو دیتا ہے لیکن وزیراعظم بنانے کے بعد عوام سے تمام جمہوری اختیارات سلب کرلیتاہے۔ مودی کو وزیراعظم بنانے میں وہ اشرافیہ شامل ہے جو مودی سے روبوٹ کا کام لینا چاہتی ہے۔ مودی کو وزیراعظم بنانے میں ان کروڑوں ہندوؤں کے ووٹ بھی شامل ہیں جن کے ذہن سنگھ پریوار نے مذہبی نفرتوں سے آلودہ کردیے ہیں اور جو بھارت کو رام راجیہ دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کروڑوں غریبوں کے ووٹ بھی شامل ہیں جو کانگریس اور اس کے اتحادیوں کے دس سالہ دور حکومت سے مایوس ہوکر اپنے مسائل کے حل کے لیے مودی کی پناہ میں آگئے ہیں۔ یہ سب اپنے ووٹ کی قیمت کے طلبگار ہیں، اپنی حمایت کا معاوضہ چاہتے ہیں۔
پاکستان کے حکمران مودی سے دوستی کے خواہش مند ہیں، وہ مودی سے مسئلہ کشمیر سمیت تمام متنازعہ مسائل کے حل کی امید بھی رکھتے ہیں لیکن اس امید کا کیا حشر ہوا اس کا اندازہ پاکستانی اخبارات کی سرخیوں سے ہوسکتا ہے جن کے مطابق ''مبارکباد دینے گئے، شوکاز نوٹس کے ساتھ واپس''، مودی نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے لیے کارروائی شروع کردی۔ اخبارات کی ان سرخیوں سے نواز شریف کے دورۂ بھارت کے نتائج اور بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ غالباً یہ سمجھنے میں ابھی تک ناکام رہے ہیں کہ اس ترقی یافتہ دنیا جمہوریت کا مطلب طاقت کی برتری ہے۔ اس اصول کو مہذب دنیا جنگل کا قانون کہتی ہے۔
نریندر مودی نے نواز شریف کو جو پانچ مطالبات پیش کیے ہیں ان میں پہلا مطالبہ دہشت گردی کو ختم کرنے میں تعاون، دوسرا ممبئی حملوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی، تیسرا پاکستان دہشت گردوں کے حملوں کو روکے، چوتھا ممبئی حملہ کیس کے ٹرائل کو جلد اس کے منطقی انجام تک پہنچائے، پانچواں پاکستان ممبئی حملوں میں ملوث ملزمان کے وائس سمپلز مہیا کرے۔
حیرت ہے کہ یہ پانچ مطالبے دہشت گردی سے ہی وابستہ ہیں اور پاکستان دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار ملک ہے، ممبئی حملے میں جتنا جانی نقصان ہوا ہے اس سے ہزار گنا زیادہ جانی نقصان اب تک پاکستان کو ہوچکا ہے، دونوں ملکوں کے اصل مسائل کو پس پشت ڈال کر جو دہشت گردی کے اصل محرک ہیں لکیر پیٹنے کا مطلب بڑے متنازعہ مسائل کو جوتوں سے روندنے کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے؟ نریندر مودی اگرچہ ملک کے سربراہ ہیں لیکن پالیسیاں بنانے کا اختیار اس بیورو کریسی کے پاس ہے، وزیراعظم کو وہی کہنا پڑتا ہے جو اسکرپٹ میں درج ہو اور بیورو کریسی کا اصل فرض سامراج اور اس کے گماشتوں کے مفادات کا تحفظ ہے اور یہ کام بیورو کریسی ہی ''قومی مفادات'' کے نام پر کرتی ہے۔
جن حلقوں کو یہ گمان ہے کہ بی جے پی کی حکومت اور اس کا سربراہ توقع اور خدشات کے برخلاف اپنے پڑوسیوں خصوصاً پاکستان سے تعلقات میں بہتری کے لیے متنازعہ مسائل کو حل کرنے میں کانگریس سے زیادہ فعال کردار ادا کریںگے، وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ اس قسم کے تنازعات جہاں پیدا ہوتے ہیں انھیں قومی مفادات کے بانسری بجانے والے کبھی حل نہیں کرسکتے، ایسے تنازعات صرف وہ لوگ، وہ قیادت حل کرسکتی ہے جو ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی نہ ہوں، صرف انسان ہو۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک غریب کا بیٹا وزیراعظم تو بن گیا، انسان نہیں بن سکا۔ مودی جب تک یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ وہ ایک انسان کی حیثیت سے دنیا میں آیا ہے بعد میں اسے ہندو بنایا گیا ہے اس وقت تک وہ کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔
بی جے پی کی قیادت سیاسی دباؤ کی وجہ سے اپنے آپ کو سیکولرزم کا پیروکار کہتی ہے لیکن عملاً وہ کٹر مذہب پرست اور مذہبی انتہاپسند ہے اور جب تک وہ اپنے سیاسی چہرے سے یہ ماسک نہیں اتارے گی پاکستان سے نہ تعلقات بہتر بناسکے گی نہ متنازعہ مسائل حل کرسکے گی۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں ہر وزیراعظم ہر صدر مملکت سامراجی ملکوں اور داخلی طورپر اس کے ایجنٹوں کا گماشتہ ہوتا ہے، اسے وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو یہ دونوں طاقتیں چاہتی ہیں۔ ان خدمات کے عوض ان لوگوں کو لوٹ مار کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔
نریندر مودی کی سادگی اور ایمانداری کے بہت چرچے ہورہے ہیں، ہوسکتا ہے مودی اتنا ہی سادہ اور ایماندار ہو لیکن جب تک وہ اپنے ملک خطے اور دنیا کے عوام سے ایماندار نہیں ہوگا نہ وہ حقیقی معنوں میں سادہ ہوسکتاہے نہ ایماندار۔ برصغیر اور جنوبی ایشیا کے اربوں غریب اور مفلوک الحال عوام پاک بھارت تنازعات کی چکی میں پس کر غریب تر ہورہے ہیں، اگر مودی کو واقعی غریبوں کا خیال ہے تو پھر اسے اس خطے کے اربوں غربا کی بہتر زندگی کے لیے بی جے پی کی سیاست کے حصار سے نکلنا ہوگا اور ایک خالص انسان کی حیثیت سے ان تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہوگا جو اس خطے میں غربت، نفرت اور جنگوں کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ تاریخ اپنا در وا کیے کھڑی ہوئی ہے، مودی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایک عظیم انسان کی حیثیت سے تاریخ کے صفحات پر اپنی جگہ بنائے یا ایک متعصب مذہبی انتہا پسند کی حیثیت سے تاریخ کا چہرہ مسخ کرے۔