’’کوئی چیز کہیں سے نہیں سیکھی زیادہ تر اساتذہ منہ ہی نہیں لگاتے تھے‘‘ ممتاز شاعر سلیم کوثر
مشاعرے میں آدھے لوگ پان کھا رہے ہوں، تو وہ تالیاں ہی بجا سکتے ہیں!
انھیں اس وقت کے اردو کے چند بڑے شعرا میں شمار کیا جا سکتا ہے، اس لیے ایک طویل عرصے سے ہماری یہ خواہش تھی کہ ہم ان سے شرفِ ملاقات حاصل کریں۔
یہ لمحہ کچھ دن قبل ہی نصیب ہوسکا اور ہم نے ایک ڈھلتی ہوئی صبح ان کے دولت کدے پر حاضری دی۔ یہ جناب سلیم کوثر کا ذکر ہے، جو گذشتہ کچھ عرصے سے علالت کے باعث زیادہ تر اپنے گھر تک ہی محدود رہتے ہیں۔
مجموعی طور پر ان کی صحت مستحکم ہے، لیکن انھیں معمول کے مطابق گفتگو کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے، اس کے باوجود انھوں نے نہ صرف ہماری مہمان نوازی کی، بلکہ ہمیں پورا پورا وقت دیا۔
سلیم کوثر نے موجودہ ہندوستانی ریاست ہریانہ کے معروف شہر 'پانی پت' میں آنکھ کھولی، اس تذکرے پر وہ یوں گویا ہوئے کہ ''23 اکتوبر تھی یا 24 اکتوبر، یہ نہیں پتا، لیکن یہ 1947ء کا 'یومِ حج' تھا۔ میرے شناختی کارڈ پر بھی غلط تاریخ درج ہے، اسے کئی دفعہ کوشش کی، لیکن ٹھیک نہ ہو سکی۔''
'پانی پت' کے تذکرے پر سلیم کوثر کا کہنا تھا کہ ''میرے بزرگوں نے بتایا کہ وہاں ہماری ورک شاپ تھی، جہاں زرعی آلات بناتے اور اس کی مرمت کرتے تھے، بٹوارے کے ہنگام میں بلوے کے دوران چھت پر سے دیکھتے کہ لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔
ہمارے پھوپھا کو بھی گولی لگ گئی تھی، ہم انھیں وہیں چھوڑ کر آگئے تھے۔ دادا نے بھی ہجرت کی۔ اس وقت جو گاڑی جہاں رک گئی، لوگ وہیں اتر جاتے، ہماری گاڑی پنجاب کے ضلع جھنگ میں رکی۔ ہمارے ساتھ 'پانی پت' کے بہت سارے لوگ بھی وہیں اتر گئے، پھر ایک بڑی حویلی میں ٹھیرے، جس کے بہت سارے 'حصے دار' ہوگئے۔ وہاں محلہ شیخ لاہوری میں چھوٹی چھوٹی گلیاں اور چھوٹے چھوٹے مکانات تھے۔''
سلیم کوثر کے بقول انھیں یہ معلوم نہیں کہ وہ حویلی انھیں ملی تھی یا وہ فقط وہاں ٹھیرے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں تو تب شیر خوار بچہ تھا، ماں نے راستے میں جو تکلیفیں اٹھائیں، وہ وہی جانتی تھیں۔
تائی، پھوپھی بھی ساتھ تھیں۔ ہم جھنگ میں کتنے دن رہے، معلوم نہیں، پھر دادا کو 'کلیم' میں خانیوال ریلوے روڈ پر دو دکانیں الاٹ ہوگئیں، جس کے اوپر گھر تھا۔ یوں ہم خانیوال آگئے۔ میرے والد بَلا کے انجینئر تھے، انھوں نے فیصل آباد ٹیکسٹائل مل اور جہلم میں بھی کام کیا، پھر اپنی ورک شاپ بنالی۔
سلیم کوثر بتاتے ہیں کہ ''میرے دادا مجھے قلم بنا کر دیتے اور تختی لکھواتے اور وہی مجھے اسکول لے کر گئے۔ یہ سب سے بڑا احسان ہے، والدین جان بوجھ کر یہ نہ کریں تو جرائم میں سے ہے۔ اسلامیہ ہائی اسکول (خانیوال) میں چھے جماعتیں پڑھنے کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول میں زیر تعلیم رہا۔
ہم نے سلیم کوثر سے کراچی آنے کا سلسلہ کھوجنا چاہا، تو انھوں نے سلسلۂ کلام کچھ اس طرح استوار کیا: 'وہاں ہمارے پڑوس میں دکانیں تھیں، ایک زینہ ہماری دکان کے اندر سے آتا تھا۔ ساری زندگی اسی بات پر جھگڑا رہا کہ یہ زینہ ہمارا ہے یا تمھارا؟ حالاں کہ جو ہمارے پڑوسی تھے ان کے پاس اندر سے بھی ایک زینہ تھا۔ آج سوچتا ہوں کہ میں ہوتا تو اس زینے سے دست بردار ہو جاتا۔ پھر میرے والد وہ دکانیں فروخت کر کے کبیروالہ چلے گئے۔
میں نے وہاں ادبی انجمن بھی بنائی، لیکن زندگی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔۔۔ ہم بکھر گئے تھے۔۔۔ زندگی بہت پریشان کرنے لگی۔ سو میں ایک روز سامان ڈھونے والے ٹرک میں بیٹھ کر اکیلے ہی کراچی چلا آیا، جب کہ والدہ واپس جھنگ چلی گئیں۔ یہاں 'بسم اللہ ہوٹل' پر ایک دکان تھی، وہاں آکر پڑا رہا۔ پھر والد کے ایک دوست 'باغ علی' کے بنیان دھونے کے ایک کارخانے میں رہنے لگا۔ یہ 1970 یا 1971ء کی بات ہے۔ میرے پاس کوئی کام نہیں تھا، لیکن شعر میں اس وقت بھی سوچتا تھا۔
''کراچی آنے کا سبب کیا تھا؟'' ہم نے تشنگی پا کر اپنا سوال دُہرایا تو انھوں نے ایک اور انکشاف کردیا۔ کچھ یوں ''میرے ساتھ 'آوازوں' کا بہت سلسلہ رہا، مجھے بچپن سے آوازیں آتی تھیں! مجھے لگتا تھا کہ کچھ آوازیں میرے ساتھ چل رہی ہیں۔ ایک منظر میں باہر دیکھ رہا ہوں، تو ایک منظر میرے اندر ہے، جو مجھے پریشان کرتا تھا کہ میں یہ منظر کیسے بتائوں۔ یہ دنیا، یہ احساس کیسا ہے؟ زندگی کے یہ معنی اور اَسرار کیسے کھلیں گے؟ سوچتا تھا، لیکن نہیں کر پاتا تھا۔
ایک رات وہاں حسب عادت سردیوں میں بنیان کے کپڑوں میں گھس کر سونے کے لیے لیٹا ہوا تھا۔ میرا ذریعہ آمدنی کچھ تھا نہیں اور میں شکایتی انداز میں سوچ رہا تھا کہ ایسے تو زندگی نہیں گزر سکتی۔ تو اس وقت مجھے ایک آواز آئی۔ آپ اسے مذاق نہیں سمجھیے گا، یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسا میں بیان کر رہا ہوں۔ اس آواز نے کہا 'میرے بندے میں تمھارا دوست ہوں، میں تمھارے قریب ہوں، مجھے آواز دو۔ میں تمھاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں۔' بس پھر اس کے بعد میں کبھی مایوس نہیں ہوا۔''
''خانیوال سے آتے ہوئے آپ نے وہاں خبر نہیں کی تھی؟''
ہمارے اس سوال پر سلیم کوثر کچھ یوں گویا ہوتے ہیں کہ انھیں خبر تھی، جب کراچی آیا تو سب 'کبیر والہ' میں تھے۔ میرے پاس 20 روپے تھے۔ دادا کا انتقال 1977ء کے قریب ہوا، والد بھی اِدھر اُدھر کام کرتے، تب انھوں نے یہاں کراچی میں ہی کوئی ورک شاپ بنائی ہوئی تھی، جہاں وہ کام کرتے تھے، لیکن ان سے ملاقات بعد میں ہوئی، آگرہ تاج کالونی میں ان کی ورک شاپ پر کام کیا۔ دراصل ہمارے گھر کی معیشت کچھ سنبھل نہ سکی۔ وہ بھی وہیں رہتے تھے، میں بھی اخبار کے دفتر میں سو جاتا تھا۔ پھر لانڈھی 'کے' ایریا میں ایک گھر لیا، میں نے ایک جنون کی زندگی گزاری۔
کراچی میں اپنے ابتدائی ایام کو یاد کرتے ہوئے سلیم کوثر بتاتے ہیں کہ 'لیاقت آباد نمبر 10 میں ایک جگہ واشنگ پائوڈر پیک ہوتا تھا۔ وہاں ڈھائی روپے گھنٹے کے عوض پہلی نوکری کی۔ جس سے بہ آسانی کھانا کھا لیتا تھا۔ پھر 'اعلان' اخبار میں پروف ریڈر ہوا۔ 'پروف ریڈنگ' کے 150 روپے ملتے تھے، اچھا گزارا ہوتا تھا۔ فارغ وقت میں بیٹھ کر خوش خطی کرتا تھا۔
میں نے کوئی چیز کہیں سے نہیں سیکھی۔ کچھ دن 'امن' اخبار میں بھی رہا، پھر بہ حیثیت خطاط 250 روپے پر روزنامہ 'آغاز' چلا گیا، جہاں خبروں کی کتابت کرتا۔ وہیں 'چراغِ ادب' کے عنوان سے ہر ہفتے کسی ایک شاعر پر کالم اور پھر روزانہ قطعہ بھی شروع کیا۔' ان کالموں اور قطعات کو جمع کرنے کے تذکرے پر نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''میرا کوئی گھر نہیں تھا، بس انھیں کاٹ کاٹ کر ایک کاپی میں لگا دیتا تھا، اب بھی کہیں پڑے ہوئے ہوں گے۔''
سلیم کوثر روزنامہ 'آغاز' میں 1971 تا 1974ء رہے۔ اس کے بعد انھوں نے رسالے 'اقدام' کے لیے بھی دو شمارے بھی نکالے۔ پھر 'رازداں' اور 'نئی آواز' کے شمارے بھی شایع کیے۔ کہتے ہیں کہ ''اب حافظہ ایسا نہیں رہا، بہت سی چیزیں اِدھر اُدھر ہوگئی ہیں۔''
انھوں نے 'پی ٹی وی' سے وابستگی کے حوالے سے ہمیں کچھ یوں بتایا کہ 1974ء میں ممتاز اردو شاعر عبید اللہ علیم وہاں پروڈیوسر ہوا کرتے تھے، ان کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں مشاعرہ تھا، وہ مشاعرہ انھوں نے میرے ہی نام کر دیا، لوگوں نے مجھے اٹھنے ہی نہیں دیا۔ مشاعرے کے بعد عبید اللہ علیم نے مجھ سے واقفیت لی اور پھر 'پی ٹی وی' میں بطور کاتب رکھ لیا، جس کی ذمہ داری اسکرپٹ نقل کرنا تھی، تب معروف شاعر افتخار عارف شعبۂ اسکرپٹ کے سربراہ تھے۔ 1975ء سے 2007ء تک 'پی ٹی وی' میں رہے۔ کہتے ہیں کہ آخری تین سال انھوں نے مجھے پروڈیوسر کا منصب دے دیا تھا۔
سلیم کوثر بتاتے ہیں کہ کراچی میں انھوں نے ماسٹرز کرنا چاہا، جس کے لیے معلوم ہوا کہ پنجاب کا میٹرک ہے، تو وہیں سے ہو سکے گا، جس سے وہ الجھن میں مبتلا ہوئے۔ بالآخر 'ادیب فاضل' کے امتحان میں بیٹھے اور ٹاپ کیا، یہ 1976ء تھا غالباً۔ پہلا گھر آٹھ نو ہزار روپے میں خریدا، جو 'غریب آباد' میں بنا بس ایک کمرا تھا۔ اب مجھے اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ زندگی میں کہاں سے راستے نکلتے ہیں۔
اپنی شاعری کا سلسلہ شروع کرنے کے حوالے سے سلیم کوثر نے ہمیں کچھ اس طرح بتایا کہ ماموں کوثر حجازی نعتیں لکھتے تھے۔ سلیم کوثر نے میٹرک میں ہی پہلا شعر کہہ دیا تھا، جو اب محفوظ نہیں۔ انھوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی، کہتے ہیں کہ اللہ میری اصلاح کرنے والا ہے، کیوں کہ آپ استادوں سے بات نہیں کر سکتے تھے، زیادہ تر تو وہ منہ ہی نہیں لگاتے تھے۔
انھوں نے اپنی پہلی کتاب بہ عنوان ''خالی ہاتھوں میں ارض وسما'' کے حوالے سے بتایا کہ 'یہ 1981ء میں منصۂ شہود پر آئی، اس زمانے میں بڑے بڑے مشاہیر موجود تھے۔ سلیم احمد، قمر جمیل، عبید اللہ علیم اور صہبا اختر۔ تو ہمیں راستہ نہیں ملتا تھا، پروین شاکر بھی مشہور ہوچکی تھیں، لیکن میں یہ سوچتا تھا کہ جو دنیا، مَیں دیکھ رہا ہوں، وہ کسی اور کی نظر میں نہیں! اچھی شاعری تو ہوتی ہے، لیکن دوسروں سے مختلف کیسے ہو سکتی ہے۔ میرے اندر اللہ کی طرف سے خود کے منفرد ہونے اعتماد موجود تھا۔
جب میری پہلی کتاب آئی، تو ساری رات اپنے بھائی کے گھر پر بیٹھا ہوا اس پر کوَر چڑھاتا رہا، صبح سوچا کہ یہ ایک ہزار نسخے ہیں، انھیں کہاں لے کر جائوں گا؟ ہمارے ایک دوست ذکی احمد ذکی کوئز کی کتابیں لکھتے تھے، انھوں نے اردو بازار میں 'ملک صاحب' سے ملوایا اور کتابیں ان کی دکان پر رکھوا دیں۔
ایک دن ذکی احمد کہنے لگے کہ آپ کو 'ملک صاحب' ڈھونڈ رہے ہیں، میں تو ڈر ہی گیا کہ اب کہیں گے کہ یہ کتاب اٹھائو یہاں سے، لیکن انھوں نے کہا کہ آپ کی کتاب کے سارے نسخے فروخت ہوگئے اور اب لوگ مانگ رہے ہیں۔ میں نے کہا ذرا پھر کہیے، کیا کہہ رہے ہیں۔ انھوں نے دُہرایا۔ پھر انھوں نے مجھے بہت سارے پیسے دیے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ تیرا عطا کیا ہوا ہنر تھا۔ میری پہلی کتاب، دوسری کتاب سے زیادہ مقبول ہوئی۔
اپنی دوسری کتاب ''یہ چراغ ہے تو جلا رہے'' کے حوالے سے سلیم کوثر نے بتایا کہ اس کا سنِ اشاعت1987ء تھا، جس میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'میں خیال ہوں کسی اور کا' شامل تھی۔ ان کا ایک نعتیہ مجموعہ بھی ہے اور دوسرا نعتیہ کلام شایع ہونے کو ہے۔
سلیم کوثر اپنی مندرجہ بالا مشہورِ زمانہ غزل کے تذکرے پر فرماتے ہیں کہ اس پر انھوں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی، لیکن یہ مشہور ہوگئی۔ انھوں نے یہ غزل 1980ء میں کہی، جب پہلا مجموعہ آیا، تو تب اس غزل کے شعر ہو رہے تھے، اس لیے یہ ان کے دوسرے مجموعے میں شامل ہو سکی، اس کے بعد بھی بہت کچھ کہا، لیکن یہ الگ اور نئی سی بات تھی، اس لیے بہت پسند کی گئی، انھیں اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا۔
سلیم کوثر کہتے ہیں کہ میں 1985ء میں ہندوستان گیا، وہاں اللہ نے بڑی پذیرائی دی۔ اندازہ ہوا، کہ میری پہلی کتاب یہاں پہنچ چکی ہے۔ وہاں جوش ملیح آبادی کی حویلی دیکھی، جس کا منظر میں بیان نہیں کر سکتا۔ اُن کے بھانجے نصرت ملیح آبادی مجھے لے گئے تھے، وہاں ایک شام منائی گئی تھی۔ جوش صاحب کے گھرانے کے افراد تھے، وہاں اچھا لگا پرانا ماحول، شعر سننا داد دینا، پھر دبئی، امریکا گیا اور پھر راستے کھلتے چلے گئے۔
''پہلا مشاعرہ کب پڑھا؟''
''خانیوال میں پڑھا ہوگا کبھی۔۔۔ اب یاد نہیں۔'' انھوں نے یاد کرتے ہوئے جواب دیا۔ اب تک کتنے مشاعرے پڑھے؟ اس حوالے سے یادداشت ساتھ نہیں دیتی۔ ہم نے پوچھا کہ ''مشاعرے میں کن اساتذہ سے داد ملی؟'' انھوں نے بتایا کہ ''اساتذہ کوئی داد واد نہیں دیتے، بس اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ آج کل شاعر اللہ کو نہیں مانتے، میں سوائے اللہ کے ایک قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اللہ دلوں میں ڈالتا ہے، لوگوں سے بہت داد ملی۔ عبید اللہ علیم نے بہت داد دی، سلیم احمد بھائی بہت پیار کرتے تھے۔''
کھڑے ہو کر مشاعرے پڑھنے کے حوالے سے ان کا خیال ہے کہ ہندوستان میں یہ روایت ہے کہ اب کھڑے ہو کر پڑھا جاتا ہے، اب 30، 30 ہزار کا مجمع ہوتا ہے۔ یہ اب یہاں بھی شروع ہوگیا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ وہاں تو اگر ہوٹل کا افتتاح بھی کرتے ہیں تو مشاعرہ کراتے ہیں، لیکن اس کی جو شکل بنا دی گئی ہے، وہ ایک الگ معاملہ ہے۔
''مجلس کے تو آداب ہونے چاہییں؟'' ہم نے مشاعرے کے آداب کے تناظر میں اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، تو وہ گویا ہوئے:
''ہاں، ہونے چاہئیں۔۔۔! دوسرے شاعروں کو بھی سننا چاہیے۔ آرام سے بیٹھنا چاہیے، مشاعرے کے درمیان سے اٹھ کر یا اپنی شاعری سنا کر نہیں چلے جانا چاہیے!''
مشاعروں میں داد دینے کے لیے تالیاں بجانے کے رواج کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ''بہت سی چیزیں شامل ہوجاتی ہیں۔ اسے آپ روک نہیں سکتے۔ یہ انسانی جذبوں کا اظہار ہے۔ پھر جب آپ کے آدھے لوگوں کے منہ میں پان رکھے ہوئے ہوں گے، تو وہ تالیاں ہی بجائیں گے۔''
ہم نے عرض کیا کہ ''پان تو لوگ پہلے بھی کھاتے تھے، کیا مشاعروں میں پان نہیں کھانے چاہئیں؟''
جس پر انھوں نے اپنے عارضے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ''یہ میں نہیں کہہ رہا ہے کہ نہ کھائیے۔ نہ کھائیے تو اچھا ہے، میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں، میں تمباکو والا پان ہی کھاتا تھا، سگریٹ تو میں نے کبھی پیا نہیں۔ اگر سامعین میں سے آدھے لوگ پان کھا رہے ہیں، تو وہ تالیاں ہی بجا سکتے ہیں!''
''شاعری کا کوئی نظریہ ہونا چاہیے؟''
ہمارے اس سوال پر سلیم کوثر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''اقبال واحد شاعر ہیں، جنھوں نے نظریے کو شاعری بنا دیا، ان کا کمال یہی ہے۔ پھر اسے زندگی بنا دیا۔ باقی شاعر جو کہتا ہے، وہ نظریہ ہی ہوتا ہے، اس کے بغیر وہ شعر کہہ نہیں سکتا۔
بس شاعری کا ہونا شرط ہے، وہ بیان نہ ہو۔ اب خیالات پیش کیے جا رہے ہیں، خیالات اور شاعری میں فرق ہوتا ہے، لیکن شاعری بھی خیالات، مشاہدات اور تجربات ہی کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ شاعری کیا ہے؟ تو میں اس کی کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکتا۔ میں نے کتابوں پر آرا بھی دی۔ لیکن شاعری کیا ہے؟ یہ آج تک نہیں بتا سکتا، سوائے اس کے کہ کوئی اچھا شعر کہہ کر بتا دوں کہ شاعری یہ ہے۔''
شاعری کی آمد کے تذکرے پر سلیم کوثر نے کہا کہ بہت سی غزلیں تو آٹھ، آٹھ نو، نو سالوں میں مکمل ہوئی ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی فکر کے سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ میں اِسے نہیں جانتا، میں سچا پکا مومن، مسلمان اور اللہ کا بندہ رہنا چاہتا ہوں، سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ میں اپنے اللہ کا فرماں بردار بندہ ہوں۔
ہم نے پوچھا کہ آپ نے فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کا نام لیا، ان کا تو بڑا واضح نظریاتی جھکائو تھا؟
وہ تائید کرتے ہوئے گویا ہوئے ''ترقی پسند تحریک نے ان موضوعات کو چھیڑا جن پر گفتگو نہیں ہو سکتی تھی، انھیں عوامی سطح پر لے آئے۔ ایسے موضوعات جنھیں بند کھڑکی سے دیکھتے تھے، انھوں نے ایک نئی کھڑکی کھول دی، جس سے عام آدمی کے مسائل پر گفتگو ہونے لگی۔''
''یہ تو اچھی بات ہے؟''
''بالکل اچھی بات ہے۔ فیض صاحب کا احتجاج شاعری ہے، اِسے 'احتجاجی شاعری' نہیں کہنا چاہیے، کیوں کہ بہت سارے لوگوں کا احتجاج صرف احتجاج ہے۔ شاعری ایک طرح کی کیفیت ڈال دیتی ہے۔ علامہ اقبال کے نظریات شاعری ہیں۔ انھوں نے نظریے کو شاعری بنایا۔ اب مسجد قرطبہ جیسی نظم کون کہہ سکتا ہے۔ آج کل یہ بات ہے کہ آپ کی چیز آپ کی نہیں رہتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم نے غلط لکھا ہمارا غلط چل گیا، لیکن آپ کا صحیح نہیں چل سکا۔''
سلیم کوثر سے کسی اور زبان میں شاعری کا بھی تذکرہ ہوا، انھوں نے اس کی نفی کی، تاہم پنجابی شاعری کے حوالے سے کہا کہ میں وہاں (پنجاب) رہتا تو کرتا، کیوں کہ ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا وہ گھر میں 'ہریانوی' بولتے تھے؟ انھوں نے بتایا 'ہم جب بڑے ہوئے، تو ہمارے گھروں میں اردو ہی بولی جاتی تھی۔' اپنی نظم ''نوحہ'' میں 'رت جگے' کے بہ جائے 'جگ راتا' لکھنے کے استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ یہ پنجابی ترکیب ہے۔ بہت سے لوگوں نے استعمال کی۔ مجھے پنجابی زبان بھی آتی ہے۔ سرائیکی بھی سمجھ لیتا ہوں۔
پسندیدہ شعرا کے سوال پر اقبال، میر اور غالب کا نام لیتے ہوئے سلیم کوثر کہتے ہیں کہ جو اچھا شعر لکھتا ہے، وہ اچھا ہے۔ ہم نے اپنے عہد کے شعرا پوچھے، تو بہت سوچتے ہوئے، فیض احمد فیض کا نام لیا، بتایا کہ ان سے ملاقات تو نہیں ہوئی، لیکن ان کے ساتھ جامعہ کراچی اور غالب لائبریری میں مشاعرے پڑھے۔
احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، ناصر کاظمی، عبید اللہ علیم، احمد فرازیہ سب اچھے شاعر ہیں، میر انیس بہت پسند ہیں، ان کے مرثیوں میں جو زبان وبیان کا احساس ہے، وہ اور طرح سے ہے۔ اس کے ساتھ پروفیسر سحر انصاری، احمد نوید، جاوید صبا، فراست رضوی، عنبرین حسیب عنبر، سبین سیف، عمار اقبال، عمیر نجمی، اظہر فراغ، صہیب مغیرہ صدیقی اور سلمان ثروت کا پسندیدہ شاعر کے طور پر نام لیا۔
ہم نے اردو کے مقبول و معروف شاعر جون ایلیا سے ان کی قربت کے حوالے سے دریافت کرنا چاہا، تو وہ کہنے لگے کہ 'ایسا نہیں ہے کہ صبح وشام ساتھ رہے ہوں، لیکن ہم نے ساتھ مشاعرے پڑھے ہیں، وہ اپنے انداز کے شاعر تھے، ان کی ایک اپنی دنیا تھی، جیسا کہ ہر شاعر کی ہوتی ہے۔'
ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی کے تذکرے پر وہ کہتے ہیں کہ وہ میرے سنیئر، اور اس شہر میں میرے سب سے پہلے جاننے والے تھے۔ انھیں میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ زہرہ نگاہ بہت خیال رکھتی ہیں، محسن بھوپالی کا ساتھ بہت اچھا رہا۔ شاعر انور شعور کے ذکر پر ان سے نہایت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔
ظفر اقبال کو بزرگوں میں شمار کرتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ اور عطا الحق قاسمی سے رابطوں کا بتاتے ہیں۔ ذاتی دوستوں میں صفدر صدیق رضی، سلیم مغل، رضوان صدیقی، شاہد کمال اور شیخ عبدالرحمٰن کو شمار کرتے ہیں۔ سلیم مغل، ابو اجر عاکف نے کتب کی اشاعت میں معاونت کی۔ اللہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے انھیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔
بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہمیں جن کا ادراک ہوچکا ہوتا ہے، لیکن ہم اسے بتا نہیں پاتے۔ ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے، اظہار کے لیے لفظ نہیں ملتے، یا گفتگو میں وہ احساس نہیں ہوتا۔ اقبالؔ جو دنیا دیکھتے تھے، وہ وہی دیکھ سکتے تھے، وہ زمانہ مختلف تھا اور وہ آنے والے زمانے کی ترتیب تھی۔ جو میرؔ وغالبؔ دیکھتے تھے وہ الگ دنیا تھی، ایسے ہی میں جو دیکھتا ہوں وہ بالکل الگ دنیا ہے۔ نئے لوگ جو شعر کہہ رہے ہیں وہ بھی ایک الگ بات کہہ رہے ہیں۔
آج کل کے ناشرین سے شکوہ کرتے ہوئے سلیم کوثر گویا ہوتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ شاعر وادیب خرچہ کریں اور اس کو کچھ دیا بھی نہ جائے، بلکہ جو رہا سہا ہے، وہ بھی چھین لیا جائے۔ دراصل اب یہاں کتاب بیچنے والے رہ گئے۔ مصنف کو معاہدے کے تحت اس کے پیسے ملنے چاہییں، لیکن یہاں ہر آدمی جلدی جلدی امیر ہونا چاہتا ہے۔
یہ لمحہ کچھ دن قبل ہی نصیب ہوسکا اور ہم نے ایک ڈھلتی ہوئی صبح ان کے دولت کدے پر حاضری دی۔ یہ جناب سلیم کوثر کا ذکر ہے، جو گذشتہ کچھ عرصے سے علالت کے باعث زیادہ تر اپنے گھر تک ہی محدود رہتے ہیں۔
مجموعی طور پر ان کی صحت مستحکم ہے، لیکن انھیں معمول کے مطابق گفتگو کرنے میں دشواری محسوس ہوتی ہے، اس کے باوجود انھوں نے نہ صرف ہماری مہمان نوازی کی، بلکہ ہمیں پورا پورا وقت دیا۔
سلیم کوثر نے موجودہ ہندوستانی ریاست ہریانہ کے معروف شہر 'پانی پت' میں آنکھ کھولی، اس تذکرے پر وہ یوں گویا ہوئے کہ ''23 اکتوبر تھی یا 24 اکتوبر، یہ نہیں پتا، لیکن یہ 1947ء کا 'یومِ حج' تھا۔ میرے شناختی کارڈ پر بھی غلط تاریخ درج ہے، اسے کئی دفعہ کوشش کی، لیکن ٹھیک نہ ہو سکی۔''
'پانی پت' کے تذکرے پر سلیم کوثر کا کہنا تھا کہ ''میرے بزرگوں نے بتایا کہ وہاں ہماری ورک شاپ تھی، جہاں زرعی آلات بناتے اور اس کی مرمت کرتے تھے، بٹوارے کے ہنگام میں بلوے کے دوران چھت پر سے دیکھتے کہ لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔
ہمارے پھوپھا کو بھی گولی لگ گئی تھی، ہم انھیں وہیں چھوڑ کر آگئے تھے۔ دادا نے بھی ہجرت کی۔ اس وقت جو گاڑی جہاں رک گئی، لوگ وہیں اتر جاتے، ہماری گاڑی پنجاب کے ضلع جھنگ میں رکی۔ ہمارے ساتھ 'پانی پت' کے بہت سارے لوگ بھی وہیں اتر گئے، پھر ایک بڑی حویلی میں ٹھیرے، جس کے بہت سارے 'حصے دار' ہوگئے۔ وہاں محلہ شیخ لاہوری میں چھوٹی چھوٹی گلیاں اور چھوٹے چھوٹے مکانات تھے۔''
سلیم کوثر کے بقول انھیں یہ معلوم نہیں کہ وہ حویلی انھیں ملی تھی یا وہ فقط وہاں ٹھیرے تھے۔ کہتے ہیں کہ میں تو تب شیر خوار بچہ تھا، ماں نے راستے میں جو تکلیفیں اٹھائیں، وہ وہی جانتی تھیں۔
تائی، پھوپھی بھی ساتھ تھیں۔ ہم جھنگ میں کتنے دن رہے، معلوم نہیں، پھر دادا کو 'کلیم' میں خانیوال ریلوے روڈ پر دو دکانیں الاٹ ہوگئیں، جس کے اوپر گھر تھا۔ یوں ہم خانیوال آگئے۔ میرے والد بَلا کے انجینئر تھے، انھوں نے فیصل آباد ٹیکسٹائل مل اور جہلم میں بھی کام کیا، پھر اپنی ورک شاپ بنالی۔
سلیم کوثر بتاتے ہیں کہ ''میرے دادا مجھے قلم بنا کر دیتے اور تختی لکھواتے اور وہی مجھے اسکول لے کر گئے۔ یہ سب سے بڑا احسان ہے، والدین جان بوجھ کر یہ نہ کریں تو جرائم میں سے ہے۔ اسلامیہ ہائی اسکول (خانیوال) میں چھے جماعتیں پڑھنے کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول میں زیر تعلیم رہا۔
ہم نے سلیم کوثر سے کراچی آنے کا سلسلہ کھوجنا چاہا، تو انھوں نے سلسلۂ کلام کچھ اس طرح استوار کیا: 'وہاں ہمارے پڑوس میں دکانیں تھیں، ایک زینہ ہماری دکان کے اندر سے آتا تھا۔ ساری زندگی اسی بات پر جھگڑا رہا کہ یہ زینہ ہمارا ہے یا تمھارا؟ حالاں کہ جو ہمارے پڑوسی تھے ان کے پاس اندر سے بھی ایک زینہ تھا۔ آج سوچتا ہوں کہ میں ہوتا تو اس زینے سے دست بردار ہو جاتا۔ پھر میرے والد وہ دکانیں فروخت کر کے کبیروالہ چلے گئے۔
میں نے وہاں ادبی انجمن بھی بنائی، لیکن زندگی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔۔۔ ہم بکھر گئے تھے۔۔۔ زندگی بہت پریشان کرنے لگی۔ سو میں ایک روز سامان ڈھونے والے ٹرک میں بیٹھ کر اکیلے ہی کراچی چلا آیا، جب کہ والدہ واپس جھنگ چلی گئیں۔ یہاں 'بسم اللہ ہوٹل' پر ایک دکان تھی، وہاں آکر پڑا رہا۔ پھر والد کے ایک دوست 'باغ علی' کے بنیان دھونے کے ایک کارخانے میں رہنے لگا۔ یہ 1970 یا 1971ء کی بات ہے۔ میرے پاس کوئی کام نہیں تھا، لیکن شعر میں اس وقت بھی سوچتا تھا۔
''کراچی آنے کا سبب کیا تھا؟'' ہم نے تشنگی پا کر اپنا سوال دُہرایا تو انھوں نے ایک اور انکشاف کردیا۔ کچھ یوں ''میرے ساتھ 'آوازوں' کا بہت سلسلہ رہا، مجھے بچپن سے آوازیں آتی تھیں! مجھے لگتا تھا کہ کچھ آوازیں میرے ساتھ چل رہی ہیں۔ ایک منظر میں باہر دیکھ رہا ہوں، تو ایک منظر میرے اندر ہے، جو مجھے پریشان کرتا تھا کہ میں یہ منظر کیسے بتائوں۔ یہ دنیا، یہ احساس کیسا ہے؟ زندگی کے یہ معنی اور اَسرار کیسے کھلیں گے؟ سوچتا تھا، لیکن نہیں کر پاتا تھا۔
ایک رات وہاں حسب عادت سردیوں میں بنیان کے کپڑوں میں گھس کر سونے کے لیے لیٹا ہوا تھا۔ میرا ذریعہ آمدنی کچھ تھا نہیں اور میں شکایتی انداز میں سوچ رہا تھا کہ ایسے تو زندگی نہیں گزر سکتی۔ تو اس وقت مجھے ایک آواز آئی۔ آپ اسے مذاق نہیں سمجھیے گا، یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسا میں بیان کر رہا ہوں۔ اس آواز نے کہا 'میرے بندے میں تمھارا دوست ہوں، میں تمھارے قریب ہوں، مجھے آواز دو۔ میں تمھاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں۔' بس پھر اس کے بعد میں کبھی مایوس نہیں ہوا۔''
''خانیوال سے آتے ہوئے آپ نے وہاں خبر نہیں کی تھی؟''
ہمارے اس سوال پر سلیم کوثر کچھ یوں گویا ہوتے ہیں کہ انھیں خبر تھی، جب کراچی آیا تو سب 'کبیر والہ' میں تھے۔ میرے پاس 20 روپے تھے۔ دادا کا انتقال 1977ء کے قریب ہوا، والد بھی اِدھر اُدھر کام کرتے، تب انھوں نے یہاں کراچی میں ہی کوئی ورک شاپ بنائی ہوئی تھی، جہاں وہ کام کرتے تھے، لیکن ان سے ملاقات بعد میں ہوئی، آگرہ تاج کالونی میں ان کی ورک شاپ پر کام کیا۔ دراصل ہمارے گھر کی معیشت کچھ سنبھل نہ سکی۔ وہ بھی وہیں رہتے تھے، میں بھی اخبار کے دفتر میں سو جاتا تھا۔ پھر لانڈھی 'کے' ایریا میں ایک گھر لیا، میں نے ایک جنون کی زندگی گزاری۔
کراچی میں اپنے ابتدائی ایام کو یاد کرتے ہوئے سلیم کوثر بتاتے ہیں کہ 'لیاقت آباد نمبر 10 میں ایک جگہ واشنگ پائوڈر پیک ہوتا تھا۔ وہاں ڈھائی روپے گھنٹے کے عوض پہلی نوکری کی۔ جس سے بہ آسانی کھانا کھا لیتا تھا۔ پھر 'اعلان' اخبار میں پروف ریڈر ہوا۔ 'پروف ریڈنگ' کے 150 روپے ملتے تھے، اچھا گزارا ہوتا تھا۔ فارغ وقت میں بیٹھ کر خوش خطی کرتا تھا۔
میں نے کوئی چیز کہیں سے نہیں سیکھی۔ کچھ دن 'امن' اخبار میں بھی رہا، پھر بہ حیثیت خطاط 250 روپے پر روزنامہ 'آغاز' چلا گیا، جہاں خبروں کی کتابت کرتا۔ وہیں 'چراغِ ادب' کے عنوان سے ہر ہفتے کسی ایک شاعر پر کالم اور پھر روزانہ قطعہ بھی شروع کیا۔' ان کالموں اور قطعات کو جمع کرنے کے تذکرے پر نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''میرا کوئی گھر نہیں تھا، بس انھیں کاٹ کاٹ کر ایک کاپی میں لگا دیتا تھا، اب بھی کہیں پڑے ہوئے ہوں گے۔''
سلیم کوثر روزنامہ 'آغاز' میں 1971 تا 1974ء رہے۔ اس کے بعد انھوں نے رسالے 'اقدام' کے لیے بھی دو شمارے بھی نکالے۔ پھر 'رازداں' اور 'نئی آواز' کے شمارے بھی شایع کیے۔ کہتے ہیں کہ ''اب حافظہ ایسا نہیں رہا، بہت سی چیزیں اِدھر اُدھر ہوگئی ہیں۔''
انھوں نے 'پی ٹی وی' سے وابستگی کے حوالے سے ہمیں کچھ یوں بتایا کہ 1974ء میں ممتاز اردو شاعر عبید اللہ علیم وہاں پروڈیوسر ہوا کرتے تھے، ان کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں مشاعرہ تھا، وہ مشاعرہ انھوں نے میرے ہی نام کر دیا، لوگوں نے مجھے اٹھنے ہی نہیں دیا۔ مشاعرے کے بعد عبید اللہ علیم نے مجھ سے واقفیت لی اور پھر 'پی ٹی وی' میں بطور کاتب رکھ لیا، جس کی ذمہ داری اسکرپٹ نقل کرنا تھی، تب معروف شاعر افتخار عارف شعبۂ اسکرپٹ کے سربراہ تھے۔ 1975ء سے 2007ء تک 'پی ٹی وی' میں رہے۔ کہتے ہیں کہ آخری تین سال انھوں نے مجھے پروڈیوسر کا منصب دے دیا تھا۔
سلیم کوثر بتاتے ہیں کہ کراچی میں انھوں نے ماسٹرز کرنا چاہا، جس کے لیے معلوم ہوا کہ پنجاب کا میٹرک ہے، تو وہیں سے ہو سکے گا، جس سے وہ الجھن میں مبتلا ہوئے۔ بالآخر 'ادیب فاضل' کے امتحان میں بیٹھے اور ٹاپ کیا، یہ 1976ء تھا غالباً۔ پہلا گھر آٹھ نو ہزار روپے میں خریدا، جو 'غریب آباد' میں بنا بس ایک کمرا تھا۔ اب مجھے اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ زندگی میں کہاں سے راستے نکلتے ہیں۔
اپنی شاعری کا سلسلہ شروع کرنے کے حوالے سے سلیم کوثر نے ہمیں کچھ اس طرح بتایا کہ ماموں کوثر حجازی نعتیں لکھتے تھے۔ سلیم کوثر نے میٹرک میں ہی پہلا شعر کہہ دیا تھا، جو اب محفوظ نہیں۔ انھوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی، کہتے ہیں کہ اللہ میری اصلاح کرنے والا ہے، کیوں کہ آپ استادوں سے بات نہیں کر سکتے تھے، زیادہ تر تو وہ منہ ہی نہیں لگاتے تھے۔
انھوں نے اپنی پہلی کتاب بہ عنوان ''خالی ہاتھوں میں ارض وسما'' کے حوالے سے بتایا کہ 'یہ 1981ء میں منصۂ شہود پر آئی، اس زمانے میں بڑے بڑے مشاہیر موجود تھے۔ سلیم احمد، قمر جمیل، عبید اللہ علیم اور صہبا اختر۔ تو ہمیں راستہ نہیں ملتا تھا، پروین شاکر بھی مشہور ہوچکی تھیں، لیکن میں یہ سوچتا تھا کہ جو دنیا، مَیں دیکھ رہا ہوں، وہ کسی اور کی نظر میں نہیں! اچھی شاعری تو ہوتی ہے، لیکن دوسروں سے مختلف کیسے ہو سکتی ہے۔ میرے اندر اللہ کی طرف سے خود کے منفرد ہونے اعتماد موجود تھا۔
جب میری پہلی کتاب آئی، تو ساری رات اپنے بھائی کے گھر پر بیٹھا ہوا اس پر کوَر چڑھاتا رہا، صبح سوچا کہ یہ ایک ہزار نسخے ہیں، انھیں کہاں لے کر جائوں گا؟ ہمارے ایک دوست ذکی احمد ذکی کوئز کی کتابیں لکھتے تھے، انھوں نے اردو بازار میں 'ملک صاحب' سے ملوایا اور کتابیں ان کی دکان پر رکھوا دیں۔
ایک دن ذکی احمد کہنے لگے کہ آپ کو 'ملک صاحب' ڈھونڈ رہے ہیں، میں تو ڈر ہی گیا کہ اب کہیں گے کہ یہ کتاب اٹھائو یہاں سے، لیکن انھوں نے کہا کہ آپ کی کتاب کے سارے نسخے فروخت ہوگئے اور اب لوگ مانگ رہے ہیں۔ میں نے کہا ذرا پھر کہیے، کیا کہہ رہے ہیں۔ انھوں نے دُہرایا۔ پھر انھوں نے مجھے بہت سارے پیسے دیے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ یہ تیرا عطا کیا ہوا ہنر تھا۔ میری پہلی کتاب، دوسری کتاب سے زیادہ مقبول ہوئی۔
اپنی دوسری کتاب ''یہ چراغ ہے تو جلا رہے'' کے حوالے سے سلیم کوثر نے بتایا کہ اس کا سنِ اشاعت1987ء تھا، جس میں ان کی مشہور زمانہ غزل 'میں خیال ہوں کسی اور کا' شامل تھی۔ ان کا ایک نعتیہ مجموعہ بھی ہے اور دوسرا نعتیہ کلام شایع ہونے کو ہے۔
سلیم کوثر اپنی مندرجہ بالا مشہورِ زمانہ غزل کے تذکرے پر فرماتے ہیں کہ اس پر انھوں نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی، لیکن یہ مشہور ہوگئی۔ انھوں نے یہ غزل 1980ء میں کہی، جب پہلا مجموعہ آیا، تو تب اس غزل کے شعر ہو رہے تھے، اس لیے یہ ان کے دوسرے مجموعے میں شامل ہو سکی، اس کے بعد بھی بہت کچھ کہا، لیکن یہ الگ اور نئی سی بات تھی، اس لیے بہت پسند کی گئی، انھیں اس کا اندازہ بالکل نہیں تھا۔
سلیم کوثر کہتے ہیں کہ میں 1985ء میں ہندوستان گیا، وہاں اللہ نے بڑی پذیرائی دی۔ اندازہ ہوا، کہ میری پہلی کتاب یہاں پہنچ چکی ہے۔ وہاں جوش ملیح آبادی کی حویلی دیکھی، جس کا منظر میں بیان نہیں کر سکتا۔ اُن کے بھانجے نصرت ملیح آبادی مجھے لے گئے تھے، وہاں ایک شام منائی گئی تھی۔ جوش صاحب کے گھرانے کے افراد تھے، وہاں اچھا لگا پرانا ماحول، شعر سننا داد دینا، پھر دبئی، امریکا گیا اور پھر راستے کھلتے چلے گئے۔
''پہلا مشاعرہ کب پڑھا؟''
''خانیوال میں پڑھا ہوگا کبھی۔۔۔ اب یاد نہیں۔'' انھوں نے یاد کرتے ہوئے جواب دیا۔ اب تک کتنے مشاعرے پڑھے؟ اس حوالے سے یادداشت ساتھ نہیں دیتی۔ ہم نے پوچھا کہ ''مشاعرے میں کن اساتذہ سے داد ملی؟'' انھوں نے بتایا کہ ''اساتذہ کوئی داد واد نہیں دیتے، بس اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ آج کل شاعر اللہ کو نہیں مانتے، میں سوائے اللہ کے ایک قدم نہیں اٹھا سکتا۔ اللہ دلوں میں ڈالتا ہے، لوگوں سے بہت داد ملی۔ عبید اللہ علیم نے بہت داد دی، سلیم احمد بھائی بہت پیار کرتے تھے۔''
کھڑے ہو کر مشاعرے پڑھنے کے حوالے سے ان کا خیال ہے کہ ہندوستان میں یہ روایت ہے کہ اب کھڑے ہو کر پڑھا جاتا ہے، اب 30، 30 ہزار کا مجمع ہوتا ہے۔ یہ اب یہاں بھی شروع ہوگیا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ وہاں تو اگر ہوٹل کا افتتاح بھی کرتے ہیں تو مشاعرہ کراتے ہیں، لیکن اس کی جو شکل بنا دی گئی ہے، وہ ایک الگ معاملہ ہے۔
''مجلس کے تو آداب ہونے چاہییں؟'' ہم نے مشاعرے کے آداب کے تناظر میں اپنی گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، تو وہ گویا ہوئے:
''ہاں، ہونے چاہئیں۔۔۔! دوسرے شاعروں کو بھی سننا چاہیے۔ آرام سے بیٹھنا چاہیے، مشاعرے کے درمیان سے اٹھ کر یا اپنی شاعری سنا کر نہیں چلے جانا چاہیے!''
مشاعروں میں داد دینے کے لیے تالیاں بجانے کے رواج کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ''بہت سی چیزیں شامل ہوجاتی ہیں۔ اسے آپ روک نہیں سکتے۔ یہ انسانی جذبوں کا اظہار ہے۔ پھر جب آپ کے آدھے لوگوں کے منہ میں پان رکھے ہوئے ہوں گے، تو وہ تالیاں ہی بجائیں گے۔''
ہم نے عرض کیا کہ ''پان تو لوگ پہلے بھی کھاتے تھے، کیا مشاعروں میں پان نہیں کھانے چاہئیں؟''
جس پر انھوں نے اپنے عارضے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ''یہ میں نہیں کہہ رہا ہے کہ نہ کھائیے۔ نہ کھائیے تو اچھا ہے، میں آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہوں، میں تمباکو والا پان ہی کھاتا تھا، سگریٹ تو میں نے کبھی پیا نہیں۔ اگر سامعین میں سے آدھے لوگ پان کھا رہے ہیں، تو وہ تالیاں ہی بجا سکتے ہیں!''
''شاعری کا کوئی نظریہ ہونا چاہیے؟''
ہمارے اس سوال پر سلیم کوثر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''اقبال واحد شاعر ہیں، جنھوں نے نظریے کو شاعری بنا دیا، ان کا کمال یہی ہے۔ پھر اسے زندگی بنا دیا۔ باقی شاعر جو کہتا ہے، وہ نظریہ ہی ہوتا ہے، اس کے بغیر وہ شعر کہہ نہیں سکتا۔
بس شاعری کا ہونا شرط ہے، وہ بیان نہ ہو۔ اب خیالات پیش کیے جا رہے ہیں، خیالات اور شاعری میں فرق ہوتا ہے، لیکن شاعری بھی خیالات، مشاہدات اور تجربات ہی کا مجموعہ ہوتی ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ شاعری کیا ہے؟ تو میں اس کی کوئی وضاحت پیش نہیں کر سکتا۔ میں نے کتابوں پر آرا بھی دی۔ لیکن شاعری کیا ہے؟ یہ آج تک نہیں بتا سکتا، سوائے اس کے کہ کوئی اچھا شعر کہہ کر بتا دوں کہ شاعری یہ ہے۔''
شاعری کی آمد کے تذکرے پر سلیم کوثر نے کہا کہ بہت سی غزلیں تو آٹھ، آٹھ نو، نو سالوں میں مکمل ہوئی ہیں۔ دائیں اور بائیں بازو کی فکر کے سوال کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ میں اِسے نہیں جانتا، میں سچا پکا مومن، مسلمان اور اللہ کا بندہ رہنا چاہتا ہوں، سب کچھ اللہ کی مرضی سے ہوتا ہے۔ میں اپنے اللہ کا فرماں بردار بندہ ہوں۔
ہم نے پوچھا کہ آپ نے فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کا نام لیا، ان کا تو بڑا واضح نظریاتی جھکائو تھا؟
وہ تائید کرتے ہوئے گویا ہوئے ''ترقی پسند تحریک نے ان موضوعات کو چھیڑا جن پر گفتگو نہیں ہو سکتی تھی، انھیں عوامی سطح پر لے آئے۔ ایسے موضوعات جنھیں بند کھڑکی سے دیکھتے تھے، انھوں نے ایک نئی کھڑکی کھول دی، جس سے عام آدمی کے مسائل پر گفتگو ہونے لگی۔''
''یہ تو اچھی بات ہے؟''
''بالکل اچھی بات ہے۔ فیض صاحب کا احتجاج شاعری ہے، اِسے 'احتجاجی شاعری' نہیں کہنا چاہیے، کیوں کہ بہت سارے لوگوں کا احتجاج صرف احتجاج ہے۔ شاعری ایک طرح کی کیفیت ڈال دیتی ہے۔ علامہ اقبال کے نظریات شاعری ہیں۔ انھوں نے نظریے کو شاعری بنایا۔ اب مسجد قرطبہ جیسی نظم کون کہہ سکتا ہے۔ آج کل یہ بات ہے کہ آپ کی چیز آپ کی نہیں رہتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ہم نے غلط لکھا ہمارا غلط چل گیا، لیکن آپ کا صحیح نہیں چل سکا۔''
سلیم کوثر سے کسی اور زبان میں شاعری کا بھی تذکرہ ہوا، انھوں نے اس کی نفی کی، تاہم پنجابی شاعری کے حوالے سے کہا کہ میں وہاں (پنجاب) رہتا تو کرتا، کیوں کہ ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا وہ گھر میں 'ہریانوی' بولتے تھے؟ انھوں نے بتایا 'ہم جب بڑے ہوئے، تو ہمارے گھروں میں اردو ہی بولی جاتی تھی۔' اپنی نظم ''نوحہ'' میں 'رت جگے' کے بہ جائے 'جگ راتا' لکھنے کے استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ یہ پنجابی ترکیب ہے۔ بہت سے لوگوں نے استعمال کی۔ مجھے پنجابی زبان بھی آتی ہے۔ سرائیکی بھی سمجھ لیتا ہوں۔
پسندیدہ شعرا کے سوال پر اقبال، میر اور غالب کا نام لیتے ہوئے سلیم کوثر کہتے ہیں کہ جو اچھا شعر لکھتا ہے، وہ اچھا ہے۔ ہم نے اپنے عہد کے شعرا پوچھے، تو بہت سوچتے ہوئے، فیض احمد فیض کا نام لیا، بتایا کہ ان سے ملاقات تو نہیں ہوئی، لیکن ان کے ساتھ جامعہ کراچی اور غالب لائبریری میں مشاعرے پڑھے۔
احمد ندیم قاسمی، منیر نیازی، ناصر کاظمی، عبید اللہ علیم، احمد فرازیہ سب اچھے شاعر ہیں، میر انیس بہت پسند ہیں، ان کے مرثیوں میں جو زبان وبیان کا احساس ہے، وہ اور طرح سے ہے۔ اس کے ساتھ پروفیسر سحر انصاری، احمد نوید، جاوید صبا، فراست رضوی، عنبرین حسیب عنبر، سبین سیف، عمار اقبال، عمیر نجمی، اظہر فراغ، صہیب مغیرہ صدیقی اور سلمان ثروت کا پسندیدہ شاعر کے طور پر نام لیا۔
ہم نے اردو کے مقبول و معروف شاعر جون ایلیا سے ان کی قربت کے حوالے سے دریافت کرنا چاہا، تو وہ کہنے لگے کہ 'ایسا نہیں ہے کہ صبح وشام ساتھ رہے ہوں، لیکن ہم نے ساتھ مشاعرے پڑھے ہیں، وہ اپنے انداز کے شاعر تھے، ان کی ایک اپنی دنیا تھی، جیسا کہ ہر شاعر کی ہوتی ہے۔'
ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی کے تذکرے پر وہ کہتے ہیں کہ وہ میرے سنیئر، اور اس شہر میں میرے سب سے پہلے جاننے والے تھے۔ انھیں میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ زہرہ نگاہ بہت خیال رکھتی ہیں، محسن بھوپالی کا ساتھ بہت اچھا رہا۔ شاعر انور شعور کے ذکر پر ان سے نہایت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔
ظفر اقبال کو بزرگوں میں شمار کرتے ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ اور عطا الحق قاسمی سے رابطوں کا بتاتے ہیں۔ ذاتی دوستوں میں صفدر صدیق رضی، سلیم مغل، رضوان صدیقی، شاہد کمال اور شیخ عبدالرحمٰن کو شمار کرتے ہیں۔ سلیم مغل، ابو اجر عاکف نے کتب کی اشاعت میں معاونت کی۔ اللہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے انھیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔
بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ ہمیں جن کا ادراک ہوچکا ہوتا ہے، لیکن ہم اسے بتا نہیں پاتے۔ ایک عجیب کیفیت ہوتی ہے، اظہار کے لیے لفظ نہیں ملتے، یا گفتگو میں وہ احساس نہیں ہوتا۔ اقبالؔ جو دنیا دیکھتے تھے، وہ وہی دیکھ سکتے تھے، وہ زمانہ مختلف تھا اور وہ آنے والے زمانے کی ترتیب تھی۔ جو میرؔ وغالبؔ دیکھتے تھے وہ الگ دنیا تھی، ایسے ہی میں جو دیکھتا ہوں وہ بالکل الگ دنیا ہے۔ نئے لوگ جو شعر کہہ رہے ہیں وہ بھی ایک الگ بات کہہ رہے ہیں۔
آج کل کے ناشرین سے شکوہ کرتے ہوئے سلیم کوثر گویا ہوتے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ شاعر وادیب خرچہ کریں اور اس کو کچھ دیا بھی نہ جائے، بلکہ جو رہا سہا ہے، وہ بھی چھین لیا جائے۔ دراصل اب یہاں کتاب بیچنے والے رہ گئے۔ مصنف کو معاہدے کے تحت اس کے پیسے ملنے چاہییں، لیکن یہاں ہر آدمی جلدی جلدی امیر ہونا چاہتا ہے۔