قصہ پاکستانی چائے کا

چائے کے ایک محبوب کا سفرِشنکیاری اور دیکھنا چائے کی تیاری


چائے کے ایک محبوب کا سفرِشنکیاری اور دیکھنا چائے کی تیاری ۔ فوٹو : فائل

اگرچہ گنے کے رس کو پاکستان کا قومی مشروب گردانا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کے اس ملک میں سب سے زیادہ پیا جانے جانے والا مشروب چائے ہے۔

خوشی ہو یا غم، جشن ہو یا مُسرت کا کوئی اور موقع، ناشتہ ہو یا رات کا کھانا، پہلی ملاقات ہو یا کوئی پیارا دور دیس جا رہا ہو، چائے کسی نا کسی صورت میں ہماری سب سے پہلی ترجیح رہتی ہے۔

چوںکہ چائے ایک عام، من پسند اور سستا مشروب ہے اس لیے اسے دنیا کے کئی ممالک میں شہری و دیہی علاقوں کے لوگ اسے شوق سے پیتے ہیں اور مہمانوں کی تواضع بھی اسی سے کرتے ہیں۔

بطور ایک ڈاکٹر اور ایک سیاح، مجھے تو چائے کی شدید طلب رہتی ہے اور ہم نے تو ایسے ایسے ''چہوڑے'' بھی دیکھے ہیں جو گرمی میں بھی پانچ چھے کپ چڑھا جاتے ہیں۔

چائے جسم کو تروتازہ اور چاق و چوبند رکھنے کے ساتھ نزلہ، سر درد اور زکام میں بھی راحت پہنچاتی ہے۔ ایک اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ چائے کینسر کی روک تھام میں بھی مددگار ہے۔

پاکستان میں چائے کی کھپت اور درآمد

چائے طویل عرصے سے دنیا بھر میں ایک محبوب مشروب رہا ہے، لیکن کچھ ممالک نے اس کی کھپت کو ایک فن کی شکل میں بڑھایا ہے۔

ان قوموں نے چائے پینے کا کلچر پروان چڑھایا ہے، جہاں چائے کے گرم گھونٹ، روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ چائے پر رکھی گئیں خوب صورت تقریبات سے لے کر چائے کے برتن کے اردگرد دوستوں کے اکٹھ تک، یہ ممالک چائے کو صرف ایک مشروب سمجھنے کی بجائے زندگی کا ایک طریقہ مانتے ہیں۔

انہی ممالک میں ایشیا کے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان بھی شامل ہے جو اپنی کثیر آبادی کی وجہ سے چائے کا بہت بڑا خریدار ہے۔

پاکستان میں چائے کی کھپت ڈیڑھ کلو گرام فی کس سالانہ ہے جو ترکی، آئرلینڈ اور برطانیہ کے بعد چوتھے نمبر پر ہے۔

پاکستان اپنی ضرورت کی چائے دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے جن میں چین، کینیا، روانڈا، یوگنڈا، سری لنکا، ویتنام اور بھارت شامل ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 2021 میں پاکستان نے پانچ سو چھیانوے ملین ڈالر مالیت کی 2،258،000 کلو سبز اور کالی چائے درآمد کی تھی۔ یوں پاکستان 2021 میں سب سے زیادہ چائے درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔

دوسری جانب اردو اخبار، روزنامہ ایکسپریس (ایڈیشن 23 دسمبر بروز ہفتہ ) کی ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ میں پاکستانی 79 ارب 81 کروڑ روپے کی چائے پی گئے اور گذشتہ مالی سال 55 ارب19 کروڑ روپے کی چائے درآمد کی گئی تھی۔

2023 میں دنیا کے سب سے زیادہ چائے پیدا کرنے والے ممالک میں چین، بھارت، کینیا، سری لنکا، ویتنام، ترکی، ایران، انڈونیشیا، ارجنٹینا اور جاپان جب کہ چائے بیچنے والے ممالک میں چین، سری لنکا، انڈیا، کینیا، جاپان، ویتنام، پولینڈ، روانڈا اور ارجنٹینا شامل ہیں۔

پاکستان میں چائے کی کاشت کا آغاز

پاکستان میں چائے کی اہمیت اور ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے 1982 میں چین سے چائے کی کاشت کا ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک تفصیلی سروے کے ذریعے چائے کے لیے موزوں علاقوں کا انتخاب کیا گیا۔ اِن میں ہزارہ اور مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع مانسہرہ، بٹگرام، سوات اور شانگلہ شامل تھے۔



1986 میں ''پاکستان زرعی کونسل'' نے چین سے مختلف اقسام کا بیج درآمد کیا اور ضلع مانسہرہ کے خوب صورت مقام، شنکیاری میں 33 ایکڑ رقبے پر چائے کی تجرباتی کاشت شروع کر دی۔ تجربہ کام یاب رہا تو ایک چائے ساز کمپنی نے بھی 1986 میں مانسہرہ کے مقام ''اچھڑیاں'' میں ایک تحقیقاتی اسٹیشن قائم کیا، جس کا کام شنکیاری میں پیدا ہونے والی چائے کا موازنہ عالمی منڈی میں دوسرے ممالک کی چائے سے کیا گیا۔ بین الاقوامی معیار پر پورا اترنے پر نہ صرف پاکستان کی کئی کمپنیوں نے اس پراجیکٹ میں بھرپور دل چسپی کا اظہار کیا بلکہ اردگرد کے کسانوں نے بھی اپنی زمینوں پر چائے کی کاشت شروع کردی۔

قومی تحقیقاتی ادارہ برائے چائے

نیشنل ٹی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، 1986 میں شنکیاری ضلع مانسہرہ میں 50 ایکڑ اراضی پر ریسرچ اسٹیشن کے طور پر قائم کیا گیا تھا جو نیشنل فوڈ سیکیوریٹی اسلام آباد کے تحت کام کر رہا تھا۔ 1996 میں اسے انسٹی ٹیوٹ کی سطح پر اپ گریڈ کیا گیا اور 2013 میں دیگر اہم فصلوں کو شامل کرکے اس کا نام ''نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ'' رکھ دیا گیا۔ اب چائے کے علاوہ اعلیٰ قیمت والی باغ بانی فصلیں (جیسے زیتون، بادام، خوبانی، چیری، کیوی) بھی انسٹی ٹیوٹ کے مینڈیٹ میں شامل ہیں۔

یہاں پر چائے کی کاشت کے علاوہ چائے کے پروسیسنگ یونٹس، پانی اور مٹی کی جانچ کے لیے لیبارٹری، سبزیوں کے بیج کی پیداوار، فروٹ نرسری، مختلف دفاتر و کانفرنس ہال سمیت چائے کی پراسیسنگ لیبارٹری بھی موجود ہے۔ ادارے کی فراہم کردہ سہولیات میں جنگلی زیتون کی پیوند کاری اور تیل نکالنا، مٹی اور پانی کے تجزیہ میں کاشتکاروں اور محققین کو لیبارٹری کی سہولیات کی فراہمی، مختلف جامعات کے طلباء کو انٹرن شپ اور تحقیقی خدمات مہیا کرنا، ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ٹیکنالوجی کی منتقلی اور علاقے میں باغبانی کو فروغ دینے کے لیے کاشت کاروں کے لیے اہم پھلوں جیسے آڑو، خوبانی، بادام، چیری، اخروٹ، سیب، ناشپاتی، انجیر، انار، کیوی فروٹ اور زیتون کے بیماری سے پاک پودوں کی فراہمی شامل ہیں۔

میں، شنکیاری اور چائے

شنکیاری اور یہاں کے چائے کے باغات شاید بچپن سے ہی مجھے لبھاتے آئے۔ ابا حضور اکثر اپنی سفر کہانیوں میں اس کا ذکر کرتے تھے۔ وہ جب بھی کبھی گلگت، ہنزہ یا بشام کو جاتے، یہیں قراقرم ہائی وے سے گزرتے ہوئے اس جگہ کو دیکھتے۔ بس اسی وقت سوچ لیا تھا کے گنے، گندم، کپاس اور آم کے اس ملک میں چائے جیسی چیز کے نایاب باغات کو ضرور دیکھوں گا۔ قدرت نے 2023 مئی میں جب وادیٔ سرن کی جانب اکیلے سفر کا موقع دیا تو واپسی پر شنکیاری، اپنے لذیذ چپلی کبابوں کے ساتھ ہمارے راستے میں پلکیں بچھائے بیٹھا تھا۔

ہم اب اتنے بھی کٹھور نہیں کہ چپلی کباب چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے، سو آرام سے کبابوں پر ہاتھ صاف کیا اور چائے کے باغات کے سامنے آن کھڑے ہوئے۔ چوکی دار سے تعارف کروایا تو وہ اندر لے گیا۔ ایک سرکاری افسر نے جوش و خروش سے خوش آمدید کہا اور دفتر میں بٹھا کے چائی پلائی۔ وہ ایک سیاح مسافر کے اس طرف آنے پر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ عموماً ہمارے سیاح حضرات جب بھی سفر پر جاتے ہیں تو ایسی منفرد جگہوں کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں جہاں معلومات کا خزانہ چھپا ہوتا ہے۔ اس لیے جب بھی کہیں نکلیں، اس علاقے کی سب جگہوں کو ایکسپلور کریں۔

خیر، چائے پینے کے بعد مجھے باغات دکھائے گئے جہاں جا کر معلوم ہوا کے یہاں ایک ایکڑ سے لگ بھگ 4000 کلوگرام سے بھی زیادہ پتے حاصل کیے جاتے ہیں جن سے قریباً آٹھ سو کلو گرام چائے تیار ہو سکتی ہے۔ پودوں کی عمر بڑھنے پر یہ پیداوار زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد بلیک ٹی پراسیسنگ یونٹ میں لے جا کر بریفنگ دی گئی جو میں آگے لکھ رہا ہوں۔

چائے کا پودا اور مرحلہ وار تیاری

چائے کے پودے کا سائسنسی نام ''کیمیلیا سائنِنسز'' Camellia Sinensisہے، جو جھاڑی اور درخت دونوں حالتوں میں اُگایا جا سکتا ہے۔ چائے اصل میں ان ننھے پتوں سے تیار کی جاتی ہے جو اس پودے کی شاخوں کے ِسروں پر اگتے ہیں۔ چائے اگرچہ منطقہ حارہ خطے کے بارانی علاقے میں پیدا ہوتی ہے لیکن نیم استوائی اور معتدل خطوں کے مرطوب علاقوں میں بھی اب اس کی کاشت عام ہے۔

چائے ایک نقدآور فصل ہے جو تیزابیت پسند اور سدابہار ہے۔ اس کی افزائش بیج اور قلم دونوں کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ اس کی پیداواری عمر اسی سے سو سال اور بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ایک ہی پودا آپ کو سبز اور کالی چائے فراہم کرتا ہے۔ صرف اس کی پروسیسنگ کا طریقہ مختلف ہوتا ہے۔

چائے کی تیاری میں سب سے پہلا مرحلہ مناسب زمین کا حصول ہے، جو ڈھلوانی اور ریتلی ہونی چاہیے اور اس کا تعامل 5۔4 سے 5۔5 تک ہو۔ پھر درجۂ حرارت، آب و ہوا اور دیگر لوازمات کو مدنظر رکھ کر چائے اگائی جاتی ہے۔

دوسرا مرحلہ نرسریوں کی تیاری اور کیڑوں سے اس کی حفاظت ہے۔

تیسرے نمبر پر پودوں کی نرسری سے کھیت میں باحفاظت منتقلی اور گوڈی سمیت مناسب کھاد کا استعمال ہے۔ پھر آب پاشی، سرپوشی، شاخ تراشی اور پتوں کی چنائی کا نمبر آتا ہے۔

پتے چُننے کا عمل بہت اہم ہے کہ کاشت کار کا منافع اسی سے منسلک ہے۔ عام طور پر دو پتوں اور ایک گانٹھ کو چُنا جاتا ہے، اور اگر پتے بہت چھوٹے چن لیے جائیں تو اگلی بار پیداوار کم ہوتی ہے۔ چنائی کے بعد اسے پراسیسنگ پلانٹ تک لے جایا جاتا ہے جہاں ''مرجھاؤ'' کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس میں پتوں کو ایلومینیم سے بنے ایک جالی دار فریم میں پھیلاکر مشین کے ذریعے تازہ ہوا گزاری جاتی ہے تاکہ پتوں کا درجۂ حرارت مناسب رہے اور اضافی پانی بخارات بن کے اڑ جائے۔

اگلے مرحلے میں مرجھائے ہوئے پتوں کو مروڑا جاتا ہے تاکہ پتوں کے خلیوں میں موجود کیمیائی مادہ باہر نکل کے ایک آمیزہ بنا لے۔ پھر انہیں ٹرالیوں میں رکھ کر مخصوص کمرے میں لے جایا جاتا ہے جہاں ان کے اندر تازہ ہوا اور نمی گزاری جاتی ہے۔

اس دوران ان کی رنگت سبز سے بھوری ہوجاتی ہے اور پھر ڈرائیر مشین سے خشک کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ مشین سے گرم ہوا چائے کے ذرات کے اوپر سے گزاری جاتی ہے۔



خشک شدہ چائے، مختلف سائز کے پتوں کی ڈنڈیوں کا آمیزہ ہوتا ہے سو اس کو غیرضروری مواد سے پاک کرکے بلحاظ حجم درجہ بندی کی جاتی ہے۔ پھر اسے صاف کر کے پیکنگ کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے۔

یہ مرحلہ بھی بہت اہم مانا جاتا ہے کیوںکہ چائے کی کوالٹی، ہوا میں موجود نمی اور اردگرد موجود اشیاء کی خوشبو سے بہت متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا تیار شدہ چائے کو فوراً پلاسٹک لگی بوریوں کے اندر بند کر کے سٹور کردیا جاتا ہے۔

اور یوں سرسبز باغات سے ہو کر یہ خوشبودار چائے ہم تک پہنچتی ہے۔

یہ سب سن اور سمجھ کے میں نے چائے والے بابو سے اجازت لی تو میرے ذوق کو دیکھتے ہوئے وہ مجھے عمارت کی چھت پر لے گئے جہاں سے چائے کے باغات کا زبردست نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ یہاں سے کچھ تصاویر اتاریں اور بہت سی یادیں سمیٹ کے میں نے اجازت چاہی اور ایبٹ آباد کا راستہ ناپا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں