فاتح مودی کا ہندوستان

وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی کی سیاست، ذہانت اور صلاحیتوں کا اصل امتحان شروع ہوگا ۔۔۔


MJ Gohar May 31, 2014

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ برصغیر کی تقسیم اور پاکستان و بھارت کے قیام کی بنیادی وجہ مذہبی تفریق تھی۔ مسلمان اور ہندو یہ دو بڑی قومیں متحدہ ہندوستان میں آباد تھیں جو اپنے عقیدے، مذہب، رسم و رواج اور سماجی و معاشرتی اقدار کے باعث اپنی علیحدہ شناخت اور تاریخ رکھتی تھیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی مذہبی اختلاف کو جواز بناکر مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا تھا جہاں مسلمان آزادانہ طور پر اپنے عقیدے اور مذہب کے مطابق زندگی بسر کرسکیں قائد کا یہی مطالبہ دو قومی نظریے کی اساس تھا۔ 1947 میں پاکستان ایک آزاد مسلم ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آگیا اور آج تک اس کی یہ پہچان اور اس کا اسلامی تشخص برقرار ہے جب کہ بھارت نے اول دن سے ایک سیکولر ملک کا روپ دھار لیا۔

بھارتی آئین میں بھی ہندوستان کو ایک سیکولر ملک قرار دیا گیا۔ بھارت کی بانی جماعت کانگریس کو جب بھی موقع ملا وہ بھارت کے سیکولر چہرے کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کے لیے کوشاں رہی ہے کہ ان کے دیش میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جاتا ہے لیکن پوری دنیا جانتی ہے کہ گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران بھارت کے انتہا پسند حکمراں طبقے نے سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کیا۔

بھارت کے مختلف شہروں میں ہونیوالے ہندو مسلم فسادات، مسلم کش خونی واقعات اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ایک پوری تاریخ اور ثبوت رکھتے ہیں کہ بھارت نے بظاہر تو اپنے چہرے پر سیکولرازم کی نقاب چڑھا رکھی ہے لیکن درحقیقت وہ ہندومت کا پرچارک انتہا پسند ملک ہے اور اس کے حکمراں پرلے درجے کے متعصب، مسلمان دشمن اور انتہا پسند ہندوازم کے رکھوالے ہیں اور وہاں کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہندوازم کی سب سے بڑی داعی اور مسلم دشمن جماعت ہے جس کے کٹر متعصب سیاستدان نریندر مودی نے بھارت کے حالیہ عام انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کرکے بھارت کے سیکولر ملک ہونے کے ڈھول کا پول کھول دیا ہے۔

چھ دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ بھارت اب سیکولر ملک نہیں رہا بلکہ وہ اپنے اصل کی طرف لوٹ گیا ہے۔ بی جے پی نے لوک سبھا کے انتخابات میں اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر تین سو سے زائد نشستیں جیت کر بھاری اکثریت حاصل کرلی ہے اور اس تاریخی کامیابی کا سہرا جس سیاستدان کے سر جاتا ہے وہ بلاشبہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا سب سے زیادہ متعصب اور مسلم دشمن رہنما نریندر مودی ہے ۔

جنھوں نے انتخابات میں سیکولر ازم کی داعی اور بھارت کی بانی جماعت کانگریس کے 10 سالہ عہد کا خاتمہ کردیا۔ نریندر مودی کی جماعت بی جے پی نے لوک سبھا کی کل 543 نشستوں میں سے 283 پر کامیابی حاصل کی جب کہ اس کی اتحادی جماعتوں کے الائنس نیشنل ڈیموکریٹک نے مجموعی طور پر 337 نشستیں حاصل کیں۔ جب کہ بھارت کی بانی جماعت کانگریس کو صرف 43 نشستوں پر کامیابی ملی۔ بی جے پی نریندر مودی کو انتخابات سے قبل ہی وزیر اعظم کے لیے نامزد کردیا تھا اور 26 مئی 2014 کو وہ 125 کروڑ انسانوں کے دنیا کے دوسرے سب سے بڑے ملک اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک بھارت کے وزیر اعظم کا حلف اٹھا چکے ہیں۔

آپ نریندر مودی کی سیاست کو دو حوالوں سے دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں۔ اول ان کا ماضی اور دوئم ان کا مستقبل یعنی بھارت کا وزیر اعظم بننے کے بعد کی سیاست۔ اگر آپ ان کے پہلے دور پر نظر ڈالیں تو مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق نریندر مودی کا ماضی الزامات کی زد میں نظر آتا ہے۔ ان پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ وہ بھارت کے آئین کے مطابق اس کے سیکولرازم کو اجاگر کرنے کی بجائے کٹر انتہا پسند ہندو ذہنیت کے حامل سیاستدان کے طور پر بھارت کو بھی ہندو شناخت دینا چاہتے ہیں اور دنیا بھر میں بھارت کو اسی پہچان سے متعارف کرانا چاہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے خلاف نفرت و انتقام میں فرنٹ لائن پر نظر آتے ہیں واضح رہے کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق بھارت میں 25 کروڑ کے لگ بھگ مسلمان آباد میں جو بھارت کی کل آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ ہیں۔ نریندر مودی کی مسلم دشمنی کی روشن مثال ان کی گجرات کی وزارت اعلیٰ کے دور سے دی جاتی ہے جہاں 2002 میں ہونیوالے ہندو مسلم فسادات پر نریندر مودی بطور وزیراعلیٰ کردار ادا کرنے کی بجائے پارٹی بن کر تعصب کی تلوار سے حملہ آور ہوگئے اور مسلمانوں کا اس بے دردی سے قتل عام کیا گیا کہ گجرات کے خون آشام واقعات نریندر مودی کی وزارت پر بدنما داغ بن کر آج بھی نمایاں نظر آتے ہیں۔

بمبئی حملوں کے حوالے سے بھی پاکستان سے نفرت و دشمنی کے پس منظر میں ان کا معروف موقف رہا ہے کہ بھارت بھی پاکستان کو اسی کی زبان میں کرارا جواب دے نہ کہ Love Letter لکھے جائیں یعنی بمبئی حملوں کی تحقیقات کے بارے میں دونوں ممالک کے درمیان جو خط و کتابت ہوتی رہی نریندر مودی اسے نامناسب سمجھتے ہیں۔ وہ تاریخی بابری مسجد کی شہادت پر مسرور اور اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے زبردست حامی رہے ہیں جو ان کی مسلم دشمنی اور ہندو ازم کی ترویج کی ایک اور مثال ہے اسی طرح وہ داؤد ابراہیم کی پاکستان میں موجودگی کے مفروضے کے طرفدار اور انتخابات میں کامیابی کے قبل ہی پاکستان میں ایبٹ آباد پرواز کی طرح کمانڈو کارروائی کرکے داؤد ابراہیم کی زندہ یا مردہ گرفتاری کا عندیا دے چکے ہیں۔

نریندر مودی چونکہ کٹر انتہا پسند ہندو سیاستدان کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ماضی میں متعصب و انتہا پسند ہندو جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے بھی وابستہ رہے ہیں اسی باعث مسلمانوں اور پاکستان سے دشمنی، نفرت، رقابت، کینہ، بغض، عداوت اور انتقام کے جذبات ان کے دل و دماغ کو کھولاتے رہتے ہیں۔ آپ ان کی پوری انتخابی مہم پر نظر ڈال لیجیے ان کی تقاریر، انٹرویوز اور پریس کانفرنسوں کی روداد پڑھ لیجیے یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ نریندر مودی کی پوری انتخابی مہم کی بنیاد ہی مسلم دشمنی اور پاکستان نفرت پر رکھی گئی ہے اور یہی ''کمال ہنر'' ان کی تاریخی فتح کا باعث بنا۔

اب وزیر اعظم بننے کے بعد نریندر مودی کی سیاست، ذہانت اور صلاحیتوں کا اصل امتحان شروع ہوگا۔ ان کے ماضی کے قول و قرار، دعوؤں، وعدوں اور کانگریس سے کیے گئے جذباتی مطالبوں کے حوالے سے انھیں کڑی آزمائش، امتحانوں اور چیلنجوں کا سامنا کرنا ہے۔ بھارت کے ہندو ملک ہونے کا بھرم رکھتے، مسلمانوں سے دشمنی اور پاکستان سے نفرت کے شعلہ فشاں جذبات کو وہ کس طرح نبھائیں گے، سنبھال کر رکھیں گے یا مزید بھڑکائیں گے۔ نریندر مودی سے ''خیر'' کی امیدیں باندھنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہوگا۔ جب تک مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کے خدوخال سامنے نہیں آئے اس وقت فاتح مودی کے ''موڈ'' کا پتا نہیں چلے گا۔ ان کا ہندوستان خطے میں کس طرح کی پالیسی اختیار کرے گا اور اس میں پاکستان کہاں کھڑا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں