زباں فہمی نمبر200صَہْیوُن غَزّہ حَماس اور فِلَسطین

خاکسار کی حتیٰ المقدور کوشش ہوتی ہے کہ جب کہیں، خصوصاً تحریر میں کوئی شعر نقل کرے

فوٹو : روزنامہ ایکسپریس

گزشتہ چند ماہ سے مندرجہ بالا نام ہماری سماعت سے مسلسل ، تقریباً چوبیس گھنٹے ٹکرا رہے ہیں اور آفرین ہے ہمارے ذرایع ابلاغ (بشمول اخبارات، رسائل وٹیلیوژن، ریڈیو) پر کہ ہم ایسے ''مفت '' اصلاح کرنے والوں کی سعی پیہم کے باوجود، متواتر غلط (صیہون، غَزہ، حَمّاس اور فَلسطین) ہی بول اور لکھ رہے ہیں۔

وہ اپنی ڈگر پر قائم ہیں اور غلط دَرغلط ہی بول رہے ہیں، لکھ رہے ہیں، کیوں؟ کیونکہ اُنھیں غلط بولنے اور لکھنے کے پیسے ملتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی کو کوئی غیرقانونی، ناجائز اور غلط کام کرنے کا معاوضہ دیا گیا ہو اور وہ کسی مُصلح ۔ یا۔ مُصلحیِن کی لاکھ کوشش کے باوجود، صحیح یا نیک کام کرنے پر محض اس لیے آمادہ نہ ہوکہ بدلے میں مجھے کیا ملے گا؟ رہی بات ثواب وعذاب کی تو ایسے میں بندہ، دہریہ بن کر کہتا ہے کہ کل کس نے دیکھا ہے، آخرت کی خبر خُدا جانے۔ بقول مغل شاعر بادشاہ، شاہ عالَم ثانی آفتابؔ:

صبح اُٹھ جام سے گزرتی ہے

شب دلا رام سے گزرتی ہے

(دل آرام محبوب کنیز کا نام تھا جس کی صحبت میں زوال پذیر سلطنت کے اُس تاجدار کا شبینہ وقت، بقول خود، اچھا گزرتا تھا)

عاقبت کی خبر خدا جانے

اب تو آرام سے گزرتی ہے

(حوالہ: ''اردو کے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں'' از محمد شمس الحق)

یہ قطعہ بہت مشہور ہے، مگر عموماً لوگ اِس کے شاعر کے نام سے ناواقف ہیں، نیزعوام الناس کُجا، ہمارے اکثر اہل قلم یہ قطعہ اپنی سمجھ کے مطابق اُلٹا سیدھا پڑھتے اور نقل کرتے ہیں۔

خاکسار کی حتیٰ المقدور کوشش ہوتی ہے کہ جب کہیں، خصوصاً تحریر میں کوئی شعر نقل کرے، وہ بالتحقیق صحیح ہو کیونکہ ہمارے بہت سے قارئین ومداحیِن کے نزدیک ہمارا لکھا ہوا سند ہوجاتا ہے، جبکہ بعض 'ہمہ وقت معترض' لوگ حسبِ عادت، اس صحیح متن پر بغیر تحقیق کیے، اعتراض جڑدیتے ہیں کہ آپ نے غلط لکھا ہے، یوں نہیں، یوں ہے۔ صحافت، ادب، نشریات اور تشہیر سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں جہاں جہاں بھی زبان کا کوئی استعمال ہوتا ہے، بہت بُرا حال ہے۔

اپنا ہی کہا ہوا، لکھا ہوا قول دُہراتا ہوں کہ ''کم علمی/لاعلمی ہمارا قومی شعار ہے''۔ صحیح لفظ صَہیون ہے نہ کہ صیہون، اور یہ انگریزی Zion یا عبرانی کے سیّون [Siyyon]۔یا ۔ سی اون [Sion]کا عربی مترادف ہے۔ یہ نام مختلف معانی میں مستعمل رہا ہے اور زیادہ مشہور یہ ہے کہ صَہْیوُن، بیت المقدس یا یروشلم کا دوسرا نام ہے۔ اسی نسبت سے اس شہر کے قریب واقع ایک پہاڑ کا نام بھی جبلِ صَہْیوُن [Mount Zion] ہے۔ عمومی معنیٰ میں پوری سرزمین اسرائیل (یعنی اصل میں فلسطین) کے لیے بھی مستعمل رہا۔

اس سرزمین کا قدیم نام سرزمینِِ کنعان [Land of Canaanites] تھا جہاں آج شام، لُبنان (یہ لَبنان نہیں)، اُردَن (اُردُن نہیں) اور فلسطین آباد ہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی معلومہ تاریخ کے مطابق، اولین (یا یکے از اولین) قانون ساز، حمورَبی [HAMMURABI] (دورِ حکومت:1792 ق م تا1750 ق م) نے اپنی سلطنت میں توسیع کرتے ہوئے اس سرزمین پر بھی قبضہ کرلیا تھا۔

وہ دَرحقیقت، عراق کے قدیم شہر بابِل [Babylon] کا بادشاہ تھا جو بعض روایات کی رُو سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معاصر تھا اور بعض کے قیاس کے مطابق شاید وہی نمرود تھا۔ اُس کے قوانین سے بنی اسرائیل نے بھی بہت اکتساب کیا اور اِن کا ترجمہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوا۔ اردو کے نام ور اَدیب، مالک رام نے مولوی عبدالحق کے ایماء پر ترجمے کے ساتھ ساتھ ان قوانین کا جائزہ لیتے ہوئے کتاب تحریر کی: ''حمورَبی اور بابِلی تہذیب وتمدن''۔ اس کتاب کا بھرپور تعارف ہمارے بزرگ معاصر ڈاکٹر اَحمد سہیل (مقیم امریکا) نے 22 نومبر 2018ء کو فیس بک پر پیش کیا تھا۔ حمورَبی کے قانون نامے اور عہدنامہ قدیم کے قوانین کا تقابلی جائزہ کے عنوان سے ایک مضمون یا مختصر مقالہ، جامعہ ہری پور، خیبرپختون خوا کے چند طلبہ نے تحریر کرکے اَپلوڈ کیا ہے جو https://irjrs.com پر موجود ہے۔

(یہاں ایک وَضاحت: ہمارے یہاں اکثر لوگ بشمول اہل قلم بابِل کو بابُل یعنی باپ بولتے ہیں، حالانکہ یہ بالکل الگ لفظ ہے۔ ایک بزرگ شاعرہ نے جب علامہ اقبال سے متعلق ایک سیمینار میں مقالہ پڑھتے ہوئے ایک سے زائد بار، بابُل کہا تو خاکسار کو ہنسی ضبط کرنا محال ہوگیا۔ میرے برابر بزرگ معاصر حمایت علی شاعر ؔ مرحوم تشریف فرما تھے۔ میں نے انھیں بھی متوجہ کیا، وہ مسکرا دیے)۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں تو اُردو میں دائرۃ المعارف (Encyclopaedia) کی سطح پر بھی بجائے صَہْیوُن کے صیہون لکھا ہوا ملتا ہے۔ اردو جامع انسائیکلوپیڈیا اور شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں ایسا ہی ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کے پیش رَو پیغمبر، حضرت سموئیل یا اشموعیل علیہ السلام سے منسوب صحیفے میں اس شہر کا ذکر یوں آیا ہے:''تو بھی داؔؤد نے صِیوّؔن کا قلعہ لے لیا۔ وُہی داؔؤد کا شہر ہے''۔

[Nevertheless David took the stronghold of Zion, which is now the city of David(2 Samuel 5:7):

https://bible.oremus.org/?passage=2%20

Samuel%205:7&version=nrsv]

(ان مقدس نبی کا نام درحقیقت، عربی نام اسمٰعیل کا عبرانی رُوپ ہے : س ا ص)۔ حضرت اشموعیل سے بھی پہلے، حضرت یوشع علیہ السلام [Joshua] کے صحیفے میں مذکور، یَبوسی یا یِبوسی قبیلے کے قلعے کا نام صہیون ہی اس لفظ کا ماخذ ہے جس کے معانی اس کے مادّہ اشتقاق کی بحث کے بعد، قلعہ یا خشک زمین /صحرا بتائے گئے ہیں۔ اسی صہیون سے نسبت دیتے ہوئے یہودی انتہا پسند تحریک صہیونیت [Zionism] کا آغاز کیا گیا۔ یہ اصطلاح آسٹریا کے یہودی صحافی و ادیبNathan Birnbaumنے1890ء میں وضع کی ۔1897ء میں اسے باقاعدہ یہودی وطن پرست، قوم پرست تحریک کی شکل دی گئی۔

بظاہر یہ تحریک یہودیوں کی سرزمینِ موعود ''اسرائیل'' کے قیام کے لیے (یعنی جس کے لیے اُن سے خُدا نے وعدہ کیا تھا) شروع کی گئی تھی، مگر درپردہ اس کا مقصد پوری دنیا کے تمام نظام ہائے معیشت ومعاشرت پر قبضہ کرنا تھا۔ تحریک کی ابتداء میں مغربی استعمار نے مسلمانوں کی وحدت کی آخری نشانی خلافتِ عثمانیہ کو سازش کے ذریعے یوں ختم کیا کہ ایک طرف عربوں کو تُرکوں کے خلاف، اُکساتے ہوئے، لارنس آف عربیہ جیسے جاسوس کی مدد سے عرب قومیت کی تحریک شروع کی اور اِنھیں ہتھیار اور سرپرستی فراہم کرکے الگ عرب وطن کا خوا ب دکھایا، تو دوسری طرف ترکی میں خلافت کے خلاف چلنے والی خفیہ صہیونی تحریک اور اس کے اثرات سے جنم لینے والی تُرک قومیت کی تحریک کو بڑھاوا دیا جو بظاہر جدید نظام جمہوریت کی تشکیل کے لیے شروع ہوئی تھی۔ سامراج نے عظیم عثمانی سلطنت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہوئے کئی ممالک قائم کردیے اور ''سرزمینِ انبیائ'' فِلَسطین پر یہودیوں کو بڑے پیمانے پر لاکر آباد کرنے کے بعد، اسرائیل کی غیرقانونی ریاست قائم کردی۔

اس مناقشے میں ہماری سیاسی تاریخ اور اردو زبان وادب کی تاریخ کا ایک اہم باب یعنی تحریکِ تحفظِ خلافت عثمانیہ (مختصراً تحریک ِ خلافت) کا ذکر ہر لحاظ سے اہم ہے۔ 'علی برادران' (مولانا محمد علی جوہرؔ اور مولانا شوکت علی) سے کون واقف نہیں اور کس نے یہ شعر نہیں سنا:

بولیں اَمّاں محمد علی کی

جان بیٹا خلافت پہ دے دو


یہ تحریک منظم طریقے سے چلی اور منظم طریقے سے ناکا م بھی کردی گئی۔ اِس کے بعد جدید ترکی نے جنم لیا جو محض ایک چھوٹا سا ملک تھا۔ علامہ اقبال ؔ نے اسی تناظر میں کہا تھا:

چاک کردی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا

سادگی مسلم کی دیکھ، اَوروں کی عیّاری بھی دیکھ

صُورتِ آئینہ سب کچھ دیکھ اور خاموش رہ

شورشِ امروز میں محوِ سرودِ دوش رہ!

(غُرّہ شوّال یعنی ہِلال عید)

اور یہ کلام اقبال ؔ بھی ماضی کی وہی دل خراش یاد تازہ کرتا ہے:

گر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹُوٹا تو کیا غم ہے

کہ خُونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحَر پیدا

جہاں بانی سے ہے دُشوار تر کارِ جہاں بینی

جگر خُوں ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے

بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا

نوا پیرا ہو اے بُلبل کہ ہو تیرے ترنّم سے

کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

ترے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے

مسلماں سے حدیثِ سوز و سازِ زندگی کہہ دے

(طلوعِ اِسلام)

آگے بڑھنے سے پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ خلافت ِعثمانیہ کا احیاء ایک خواب یا دیرینہ خواہش سہی، شاید وہ پوری نہ بھی ہو، مگر ماضی قریب میں لامذہب اور مغرب زدہ طرزِحکومت میں دراڑ پڑنے سے 'اسلام پسند' برسرِاقتدار آئے، فوج کو لگام دی گئی اور دیگر اصلاحات کے ساتھ ساتھ خوش آیند تبدیلی یہ ہوئی کہ عثمانلی یا عثمانی تُرکی زبان جو فقط دینی مدارس یا دیہات کے بزرگوں کی زبان تک محدود ہوگئی تھی، اس کی تعلیم جامعات کی سطح پر عام ہوگئی اور یہ بات بھی یقیناً مستحسن ہے کہ قدیم نام 'تُرکیہ ' (تُرکیے) بحال ہوگیا۔

اب بات کرتے ہیں زیرِبحث موضوع کی۔ صہیونی تحریک ایک حدتک یوں کامیاب ہوچکی ہے کہ آج دنیا بھر میں انہی کی شروع کی ہوئی، مبنی بَر سُود معیشت، بینکاری کی شکل میں، کاغذی کرنسی نوٹوں کی شکل میں اور اِس سے جُڑی ہوئی تمام تجارت انہی کے تسلط میں جکڑی ہوئی ہے۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، مگر ہمارے جیسے نیم خواندہ معاشروں میں اس کی تشہیر بہت ضروری ہے۔

یہاں یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ تمام یہودی، صہیونی تحریک اور غیرقانونی ریاستِ اسرائیل کے حامی نہیں۔ خاکسار کو ماضی بعید میں امریکا میں قائم ہونے والی ایسی ہی ایک تنظیم کی طرف سے، بذریعہ ای میل معلوماتی مواد موصول ہوا جو کچھ عرصہ قبل امریکا اور یورپ میں فلسطین پر ہونے والے مظالم کے خلاف تحریک میں دیگر کے شانہ بشانہ مظاہرے کرتی نظر آئی۔ کلمہ ٔ حق یا سچی بات کسی کے بھی منہ سے نکل سکتی ہے اور اُسے سراہنا چاہیے اور اس پر مستزاد، یہ حقیقت یاد رکھیں کہ آپ کے حق میں آپ کے مخالف یا دشمن کی اُٹھائی ہوئی آواز بھی معتبر ثابت ہوسکتی ہے۔

زیر نظر موضوع کا دوسرا اہم نام ہے، غَزّہ جسے سہواً یا انگریزی Gaza پر محمول کرتے ہوئے بلاتشدید غَزہ یا غازہ کہا جارہا ہے۔ غازہ عربی میں Face powder کو کہتے ہیں۔

اس علاقے کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہاں آبادکاری کوئی چار ہزار سال قبل شروع ہوئی تھی۔ یہ شہرحضر ت ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ') کے عہد میں خلافتِ اسلامیہ کا حصہ بنا۔ یہاں ہمارے پیارے رسول (ﷺ)کے پردادا جناب ہاشم کی قبر ہے اور فقہ کے چار اَئمہ میں شامل امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہاں پیدا ہوئے تھے۔

اس شہر نے تاریخ کے زرّیں اَدوار دیکھے اور ہوتے ہوتے یہ حَماس کا مرکز بن گیا۔ ہمارے ٹی وی چینلز بڑے شدّومدّ سے حماس کو ''حم۔ماس'' مع تشدید کہہ رہے ہیں جو غلط ہے۔ یہ نام "حركة المقاومة الإسلامية" کا مخفف ہے۔

سب سے آخر میں یہ بات بھی بتانی ضروری ہے کہ فِلَسطین کو فَلَسطین کہنا رائج ومروج کے اصول کے تحت، درست مان لیا گیا ہے، مگر درست تلفظ وہی ہے جو ابتداء میں بیان کیاگیا۔
Load Next Story