ملکی سیاست اور عوامی مسائل
اندرونی حالات تو ہیں ہی دگرگوں مگر بیرونی حالات بھی کچھ کم اہمیت کے نہیں ہیں بلکہ سنگین ہیں۔۔۔
ISLAMABAD:
یوں سمجھئے کہ قومی سیاست کا دھارا عوامی مسائل کی طرف سے کسی دوسری طرف موڑ دیا گیا ہے۔ عوامی مسائل سے ہٹ کر دیگر نان ایشوز پر باتیں کی جا رہی ہیں۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ہرسیاسی جماعت اور اس کے رہنما اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں عوام کی تقسیم کی جا رہی ہے۔ ٹھیک ہے تمام سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو اپنے اپنے منشور کے مطابق چلنا ہے لیکن اجتماعی سوچ کا بھی تو کوئی تصور ہے۔
عوامی مفادات کو ترجیح دینا ضروری ہے نہ کہ رنجشوں کی سیاست کرنا ہے۔ جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ اختلاف اور اتفاق رائے کا حق ہر جماعت اور رہنما کو حاصل ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپس کے نظریاتی و سیاسی اختلافات کی بنا پر عوام کا استحصال کیا جائے۔ ملک میں جمہوریت قائم ہوگئی ہے۔ عوام کے حقوق کی طرف توجہ کی زیادہ ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا موقع نہیں ہے۔
دیکھنے میں تو عموماً یہی نظر آیا اور محسوس ہوتا ہے کہ عوام کی خدمت میں عظمت کا فلسفہ کسی سیاستدان یا سیاسی جماعت کے منشور میں شامل نہیں۔ حقیقت تو کہتی ہے عوام نے ہی اپنی اپنی پسند کی جماعت کو منتخب کیا ہے یعنی سب کو الگ الگ مینڈیٹ دیا ہے کسی کو زیادہ کسی کو کم۔ اگر کسی جماعت کو اکثریتی مینڈیٹ ملا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسری منتخب جماعتوں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ان کے حقوق کو سبوتاژ کردے۔ چونکہ وہ بھی منتخب نمایندے ہیں اس لیے ان کو بھی برابر کا شریک سمجھنا چاہیے۔ ان کی باتوں سے اکثریتی نمایندوں کو اختلاف ہو تو ''مشاورت'' و ''مفاہمت'' کا راستہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ اقلیتی جماعتوں کو یکسر مسترد کردینا یا ان کے آزادیٔ رائے کے حق پر ڈاکہ ڈالنا کسی صورت مثبت نہیں منفی سیاست ہوتی ہے۔
اب تو دنیا کے تمام ممالک میں نظام حیات چلانے کے لیے معاشرے ہی میں سے نمایندے منتخب کر لیے جاتے ہیں اور ان نمایندوں پر مشتمل ہی حکومتیں قائم ہوتی ہیں۔ یہی جمہوریت کہلاتی ہے۔ جمہوری حکومت کا فرض اولین عوام کی خدمت کرنا اور ان کے حقوق سے عہدہ برا ہوتا ہے۔ اس فرض سے اگر کوئی حکومت منحرف ہوجائے یا نظرانداز کرے تو وہ جمہوری حکومت نہیں بلکہ آمریت ہوتی ہے۔ آمریت بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک ''فوجی'' تو دوسری ''سیاسی''۔ جیساکہ ہمارے ملک میں آج کل ''سیاسی آمریت'' کا دور ہے۔
یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ موجودہ حکومت اکثریتی مینڈیٹ کے ساتھ وجود میں آکر اپنی من مانی خواہشات کے مطابق حکومت کر رہی ہے۔ عوامی حقوق یا عوام کے دیے ہوئے مینڈیٹ کا خیال ہی نہیں رکھا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بھاری مینڈیٹ والی حکومت کو اپنے ابتدائی دور ہی میں مشکلات اور تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ابھی تو اور منزلیں طے کرنا ہیں۔ حادثات وواقعات تو ہر حکومت کے دور میں ہوتے رہتے ہیں یہ کوئی انہونی بات نہیں۔ لیکن موجودہ منتخب جمہوری حکومت کو ابتدا ہی میں دشوار گزار مرحلوں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ابھی تو ایک سال ہی گزرا ہے ابھی تو چار سال اور حکومت چلانا ہے۔
اندرونی حالات تو ہیں ہی دگرگوں مگر بیرونی حالات بھی کچھ کم اہمیت کے نہیں ہیں بلکہ سنگین ہیں۔ بیرونی طاقتیں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ ہمارے اندرونی حالات سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جاسوس ہمارے ملک میں بھیج دیتے ہیں۔ یہی جاسوس ہمارے ملک کے اندرونی حالات کے بگاڑ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ آپ میرا اشارہ سمجھ گئے ہوں گے اس لیے تفصیل میں جانا مناسب نہیں سمجھتا۔
اب صورتحال یہ ہوگئی کہ نہ بجلی ہے نہ پانی ہے اور نہ گیس ہے پٹرولیم مصنوعات کی عدم فراہمی کی وجہ سے ایندھن کی سپلائی بھی مسئلہ بن گئی ہے جس کی وجہ سے صنعت کار صرف پریشان حال ہی نہیں ہیں بلکہ صنعتوں کی بندش اور پیداوار میں مسلسل کمی کے باعث بیرونی آرڈر پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ صنعتی مزدور بھی کام نہ ہونے کی وجہ سے بیروزگار ہوگئے ہیں۔ ظاہر بات ہے جب روزگار نہ ہوگا تو غربت میں اضافہ ہوگا۔
ماضی کی حکومتیں (بالخصوص پی پی کی حکومتیں) تو عوام کو ''روٹی، کپڑا اور مکان'' کے دلفریب نعرے سے بہلایا کرتی تھی لیکن موجودہ حکومت تو روٹی، کپڑا، مکان کی بات ہی نہیں کرتی، دیکھیے نا کتنی افسوس ناک بات ہے کہ بجلی پانی اور گیس کے ستائے ہوئے غریب اب ''آٹے'' کے بحران سے دوچار ہوگئے ہیں۔ آٹا دستیاب نہیں۔ ملیں گندم پیس نہیں رہیں۔ ملیں بند کردی گئیں۔ اور جن علاقوں میں آٹا مل رہا ہے تو من مانی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ مل رہا ہے۔ ایسے میں غریب کیا کھائے گا۔ کیا پیے گا اور کیا پہنے گا۔ بچوں کی پرورش کیسے کرے گا ان کو تعلیم کیسے دلوائے گا۔ مگر یہاں معاملہ کچھ یوں معلوم ہو رہا ہے کہ حکومت ایسی منصوبہ بندی پر کاربند ہے کہ نہ غریب رہے نہ غربت اس لیے غریب کو ہی ماردو۔ سب مسئلے خود بخود حل ہوجائیں گے۔
اب چونکہ حالات کروٹ بدل رہے ہیں اس لیے نتائج کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ طویل مدت تک انتظار کرنا پڑے گا بلکہ بہت جلد اور بہت تیزی سے حقیقی سیاسی منظر نامہ عوام کے سامنے آنے کو ہے۔ اب سیاسی شخصیات نے عوام کو گرمانا شروع کردیا ہے اور عوام کو حقوق کے حصول کے لیے ''تنگ آمد بجنگ آمد'' پر تیار کر رہے ہیں۔ مگر حکومت کا یہ حال ہے کہ ساون کے اندھے کو ہرا ہی ہرا نظر آتا ہے۔ عوامی مسائل اور سیاسی رہنماؤں کی طرف سے غافل ہیں۔
جیساکہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ عموماً طالب علم سال بھر پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں لیکن جب امتحانات سر پر آجاتے ہیں پریشان رہتے ہیں۔ وقت گزر جانے پر پچھتاتے ہیں کہ کاش ہم نے سال بھر پڑھائی کی طرف دھیان دیا ہوتا۔ مگر جناب! ''اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت''۔ یہی حال ہمارے سیاسی رہنماؤں کا ہے اقتدار میں آتے ہی عوام کے مسائل اور ان کو حل کرنے کے وعدے سب بھول جاتے ہیں۔ مسائل حل بھی کیسے ہوں جب منتخب نمایندے ہی نظر نہ آتے ہوں اور نہ ہی دفتروں یا سائٹ پر ملتے ہوں۔ ہاں جب معیاد اسمبلی رکنیت ختم ہونے کے قریب آجاتی ہے تو سارے کے سارے منتخب نمایندے اپنے اپنے حلقوں میں نظر آنے لگتے ہیں۔
جمہوریت، جمہوریت کا گیت تو ہر کوئی گاتا ہے لیکن حقیقتاً جمہوریت کی ''ج'' سے بھی کوئی واقف نہیں ہوا۔ بھلا ایسے میں عوام کے مسائل حل ہوں تو کیسے۔ ہاں، ہاں! میں جانتا ہوں آپ کی پریشانیوں کو۔ آپ کی شکایت ''بیوروکریٹس'' کے متعلق سو فیصد درست ہے۔ بیوروکریٹس کا کردار ہی یہی رہا ہے کہ جمہوریت کو ناکام ثابت کرکے اس کی بساط لپیٹ دو۔ ہمارے ملک میں سیاسی ماحول میں ہم آہنگی نہیں۔ بیوروکریٹس کا رویہ عوام کے منتخب نمایندوں کے ساتھ غیر مناسب رہتا ہے۔
وہ تو منتخب نمایندوں کی عوام مشکلات کو دور کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے پر کمر کسے رہتے ہیں۔ تاکہ عوام میں ان کے منتخب نمایندوں میں ساکھ متاثر ہو عوام ان نمایندوں سے بددل اور متنفر ہوجائیں۔ بیوروکریٹس کا چال چلن اس طرح کا ہو تو جمہوری نظام کیسے چلے گا اور عوامی مسائل کس طرح حل ہوںگے۔ عوامی مسائل تو تسلسل کے ساتھ ابھرتے اور حل طلب ہوتے ہیں۔ ان کے دبانے سے سیاسی ماحول خراب نہ ہوگا تو پھر کیا ہوگا۔ پھر جمہوریت کی ریل ''ڈی ریل'' کیوں نہیں ہوگی۔ ارے بھائی! یہی تو چاہتے ہیں بیوروکریٹس کہ جمہوری نظام بدنام ہوجائے اور جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے۔