مہنگائی معیشت اور ٹیکس کلچر

عام آدمی کی زندگی مہنگائی نے اذیت سے دوچارکردی، دو وقت کی روٹی غریب آدمی کے لیے خواب بن کر رہ گئی

عام آدمی کی زندگی مہنگائی نے اذیت سے دوچارکردی، دو وقت کی روٹی غریب آدمی کے لیے خواب بن کر رہ گئی۔ فوٹو: فائل

ہماری حکومتیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے غیرملکی قرض حاصل کرنے کے لیے تو پلان کرتی ہیں لیکن ملک اور عوام کی بہتری کے لیے کبھی پروگرام ترتیب نہیں دیتی ہیں، ایسے ہی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کا بچہ بچہ غیر ملکی قرضے کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے۔

دوسری جانب ایکسپریس میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 38 فیصد اضافے کے ساتھ 158 ارب روپے کا ٹیکس جمع کرایا ہے، دوسری طرف اس دوران ایکسپورٹرز نے 4.3 ہزار ارب روپے کمائے ہیں،اور اس کا محض ایک فیصد یعنی46 ارب روپے بطور ٹیکس جمع کرائے ہیں۔

بلاشبہ ملک چلانے کے لیے حکومت کو محصولات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کا ٹیکس نظام بنیادی طور پر صرف محصولات جمع کرنے کا ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعے کاروباری سرگرمیوں کو فروغ اور سرمایہ کاری کے لیے قابل اعتماد ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔ موثر ٹیکس نظام میں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔

حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ ٹیکس گزاروں سے حاصل کردہ محصولات شفاف، مناسب ترجیحات کے مطابق اور منصفانہ انداز میں خرچ کرے۔ ٹیکس وصولی کے نظام میں کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کی موجودگی میں ٹیکس گزار شاکی رہتے ہیں کہ ان کے ٹیکس محصولات مناسب طریقے سے ملک کے بہترین مفاد میں استعمال نہیں ہو رہے اور یوں ٹیکس گزاری سے پہلوتہی کا رجحان فروغ پاتا ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت میں دستاویزی کاروبار ایک مستحکم مالیاتی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔

پاکستان میں تمام تر کوششوں کے باوجود بلیک اکانومی کا حجم بڑھتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے محتاط اندازے کے مطابق یہ حجم روایتی معیشت کے برابر بلکہ کچھ ماہرین کے مطابق ساٹھ فی صد سے بھی زائد ہے۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ٹیکس گزاری کا کلچر فروغ نہیں پارہا، دوسری طرف کالے دھن پرگرفت کمزور ہونے کی وجہ سے بلیک اکانومی میں محاورتاً ہی نہیں بلکہ حقیقتاً دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔

نئے صنعتی اور کاروباری پروجیکٹس کے بجائے آئے روز اخبارات نت نئے رئیل اسٹیٹ پروجیکٹس سے بھرے ہوتے ہیں۔ ملک سے باہر پراپرٹی کے لیے بھی پرکشش اشتہارات کی بھرمار ہے۔ پراپرٹی کے علاوہ دیگر بے شمار شعبوں میں کیش ٹرانزیکشنز ہی کا چلن رائج ہے۔

ایسے میں حیرت نہیں ہوتی کہ پاکستان میں تمام کوششوں کے باوجود ٹیکس جی ڈی پی شرح خطے میں سب سے کم کیوں ہے یعنی نو فیصد کے لگ بھگ۔ کل ٹیکس گزاروں کی تعداد بمشکل ایک ملین کے لگ بھگ ہے۔ بلیک اکانومی کو لگام ڈالے بغیر معیشت مستحکم بنیادوں پر استوار ہونے کا امکان بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہے۔

قومی معیشت کی دستاویز بندی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ ہماری معیشت کا 70 فیصد کاروباری لین دین کسی لکھت پڑھت میں نہیں آتا۔ مثال کے طور پر منڈیوں کا تمام کاروبار ٹیلی فون کے ذریعے یا چٹوں پر ہوتا ہے، جو کسی بھی کھاتے میں ریکارڈ نہیں کیا جاتا۔ اِسی طرح بازاروں میں مال کی خریدوفروخت بغیر رسیدوں کے ہورہی ہے۔

جائیدادوں کی خرید وفروخت میں مڈل مین کروڑوں روپے کے سودے کرواتا ہے، لیکن حکومت کو ایک پائی بھی ٹیکس ادا نہیں کرتا۔ ایک متبادل معیشت چل رہی ہے، جس میں کچھ ناجائزکاروبار بھی شامل ہیں، جیسے منشیات کا دھندا اور اسمگلنگ وغیرہ۔ دستاویز بندی کے ذریعے زیر زمین معیشت کو قومی دھارے میں لایا جا سکتا ہے۔

اس سے محصولات میں اضافہ ہوگا اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار میں کمی واقع ہوگی۔ دوسری طرف معیشت میں ٹیکس کلچر اس طرح کا ہونا ضروری ہے کہ ٹیکس چوروں کو قرار واقعی سزا ملے اور ٹیکس چھپانے کی سیاسی اور قانونی سطح پر حوصلہ شکنی ہو۔

نئی سرمایہ کاری کے لیے جائز دولت گردش میں ہو اورکالے دھن سے کاروبارکرنا ناممکن اور قانون شکنی کے خوف سے اٹا ہوا ہو۔

اس کے ساتھ ہی ملکی بجٹ میں آمدن اور اخراجات میں توازن بھی ضروری ہے۔ معاشی بے اعتدالی ملک کی مالی حیثیت کو کھوکھلا کر دیتی ہے جس کا لازمی نتیجہ بار بارکی مالی بدحالی کی صورت میں نکلتا ہے، ایسے میں آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری بن جاتا ہے جس کی شرائط میں مقروض ملک کے لیے مزید مشکلات کا سامان پنہاں ہوتا ہے، لہٰذا ٹھوس، مناسب معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کے بغیر دیرپا معاشی ترقی کا سفر ممکن نہیں۔


عام آدمی کی زندگی مہنگائی نے اذیت سے دوچارکردی، دو وقت کی روٹی غریب آدمی کے لیے خواب بن کر رہ گئی اور اس صورتحال سے ملک میں جرائم کی شرح میں جہاں اضافہ ہوا ہے وہیں غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں تنگ خود کشیاں کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

وقتی فیصلوں یا ڈنگ ٹپاؤ پالیسیوں سے کبھی ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتے ملک کی پائیدار ترقی کے لیے طویل مدتی منصوبے پلان کرنے کی ضرورت ہے۔

جب کوئی بھی ملک ضرورت سے زائد بیرونی قرض لیتا ہے تو اس کے ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے پاکستان کے حکمرانوں نے گزشتہ برسوں میں ضرورت سے زیادہ غیر ملکی قرض لیا، ناقص طرز حکمرانی کے باعث ادائیگیوں کا توازن جب بگڑا تو ملک میں معاشی بحران کے باعث ملک دیوالیہ ہونے کا تاثر قائم ہوا۔

پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے نے عوام میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ اچانک اضافہ بہت سے لوگوں کے لیے صدمے سے کم نہیں جو موجودہ معاشی ماحول میں پہلے سے ہی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

پٹرول کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے نے جہاں انڈسٹری کا پہیہ روک دیا ہے وہیں صنعت کاروں، تاجروں، مزدوروں اور عام شہریوں کے لیے بجلی کے بلوں کی ادائیگی سب سے بڑا معاشی مسئلہ بن چکی ہے۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی شدید اثر پڑا ہے۔ ٹرانسپورٹیشن کی صنعت اس اضافے سے شدید متاثر ہوئی ہے۔

سامان اور خدمات کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، کیونکہ کاروباروں کو نقل و حمل کی اضافی لاگت برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔ اس اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ تیل کی عالمی منڈی میں قیمت میں اتار چڑھاؤ ہے، چونکہ پاکستان درآمدی تیل پر بہت زیادہ انحصارکرتا ہے، اس لیے بین الاقوامی منڈی میں کوئی بھی تبدیلی مقامی قیمتوں پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔

مشرق وسطیٰ جوکہ تیل پیدا کرنے والا ایک بڑا خطہ ہے، میں حالیہ کشیدگی بھی قیمتوں میں اضافے کا سبب بنی ہے۔ ایک اور عنصر جس نے اس اضافے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہ ہے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی۔ چونکہ تیل کی زیادہ تر درآمدات ڈالر میں ہوتی ہیں، روپے کی قدر میں کمی نے پاکستان کے لیے تیل کی درآمد کو مزید مہنگا کردیا ہے۔

حکومت نے پٹرول پر اضافی ٹیکس بھی لگا دیا ہے جس سے صارفین پر مزید بوجھ پڑ گیا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے کے حکومتی فیصلے کا مقصد ریونیو پیدا کرنا تھا لیکن اس کی صورت میں عوام کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ بہت سے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے۔

اگرچہ حکومت کے ایندھن پر ٹیکس بڑھانے کے فیصلے کی جائز وجوہات ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ شہریوں اورکاروبار پر پڑنے والے اثرات کوکم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس میں کمزورگروپوں کے لیے ٹارگٹڈ سبسڈیزکے ساتھ ساتھ معیشت میں پیداواری صلاحیت اور مسابقت کو بڑھانے کے اقدامات شامل ہو سکتے ہیں۔ بالآخر، اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرزکی جانب سے ایک ٹھوس کوشش کی ضرورت ہوگی تا کہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس قیمت میں اضافے کے منفی اثرات کو کم کیا جائے۔

مالیاتی اشاریے اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے چین پاک اکنامک کوریڈور کا منصوبہ ملکی معیشت کے لیے ایک نادر موقع ہے، جس کے ذریعے اگلے دس سالوں میں چھیالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ممکن ہے۔

بیشتر سرمایہ کاری توانائی اور انفرااسٹرکچر منصوبوں کے لیے مخصوص ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ سرمایہ کاری کے ان منصوبوں میں شفافیت، درست علاقائی ترجیحات اور مناسب کاروباری چھان پھٹک کا اہتمام کیا جائے تاکہ یہ منصوبے سیاسی تنازعات کی زد میں نہ آئیں اور ان منصوبوں سے ملک کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو۔ یہ اہتمام اس لیے بھی ضروری ہے کہ آنے والے سالوں میں منافع اور اصل زر کی واپسی خزانے پر بوجھ نہ ہو بلکہ اضافی پیداواری صلاحیتوں سے ادائیگیاں ممکن ہو سکیں۔

ماضی میں ضایع ہونے والے معاشی امکانات کا بار بار کیا رونا ! کم ازکم آج کے امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھانے میں کوتاہی تو نہیں ہونی چاہیے۔ معاشی بڑھوتری کے لیے معاون پالیسیوں اور ملکی مفاد میں تلخ فیصلوں پر بھرپور عملدرآمد وقت کی ضرورت ہے۔
Load Next Story