انتخابات کے التوا کی سازش
یکایک قرارداد کیسے پیش کر دی گئی اور حکومت کے کسی نمایندے کا انتظار کیے بغیر چٹ پٹ منظور بھی کر لی گئی
' چھوڑو یار، اب بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ افنان' ۔ یہ سینیٹر بہرہ مند تنگی تھے۔ جمعے کو سینیٹ میں جب انتخابات کے التوا کی قرارداد پراسرار طور پر پیش ہوئی تو جمہوریت پر یقین رکھنے والے ایک سچے سیاسی کارکن کی طرح سینیٹر افنان اللہ خان اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے قرار داد کی مخالفت کر دی۔
اس مرحلے پر انھیں بات کرنے سے روکنے میں سب سے زیادہ دل چسپی دو افراد کو تھی۔ ان میںایک تو چیئرمین سینیٹ یعنی صادق سنجرانی تھے جو تھینک یو تھینک یو کہہ کر انھیں خاموش کرانے کے درپے تھے۔ دوسرے سینیٹر بہرمند تنگی تھے جو پچھلی نشستوں سے بلند آواز میں سینیٹر افنان اللہ خان کو خاموش کرانے کی کوشش میں مصروف تھے۔
معمہ یہی ہے کہ یہ سب کیا تھا۔ یکایک قرارداد کیسے پیش کر دی گئی اور حکومت کے کسی نمایندے کا انتظار کیے بغیر چٹ پٹ منظور بھی کر لی گئی۔ جرم و سزا کی دنیا میں جرم کے ذمے دار کے تعین کے لیے ٹریک ریکارڈ سے مدد لی جاتی ہے۔
اس معاملے کے حل کے لیے بھی یہی طریقہ مفید رہے گا۔ سینیٹر تنگی انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے والی اس قرارداد کی بالواسطہ طور پر حمایت کیوں کر رہے تھے؟ یہ جواب تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے شو کاز نوٹس کی صورت میں ان سے طلب کر لیا ہے۔
وہ سردست تو شو کاز نوٹس میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس موقع پر نہ خاموشی اختیار کی اورنہ قرار داد کے حق میں ووٹ دیا لیکن یہ ان کا بیان ہے۔
حقیقت وہ ہے جس کی آڈیو اور وڈیو محفوظ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی واقعی اگر اس معاملے کو اس کے انجام تک پہنچانے پر یقین رکھتی ہوئی تو وہ ضرور اس وڈیو کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لے کر اپنے سینیٹر کا احتساب کرے گی۔ اگر یہ سب زبانی کلامی ہوا اور معاملہ رفت گزشت ہو گیا تو پھر بہت سارے سوال تشنہ جواب رہ جائیں گے ۔ توقع یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اس قضیے پر مٹی ڈالنے کے بہ جائے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ضرور کرے گی کہ یہ خود پارٹی کی ساکھ کا معاملہ ہے۔
اب آتے ہیں اس معاملے کے دوسرے پہلو کی طرف، سوال یہ ہے کہ وہ کون سا گروہ ہے، انتخابات کا التوا جس کے مفاد میں ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ موجودہ حکمراں طبقات کی خواہش ہے کہ انتخابات کچھ مزید آگے بڑھ جائیں تاکہ وہ چند روز مزید اقتدار و اختیار سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہ بات قرین قیاس ہو سکتی ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے بعض مؤثر اور معتبر صحافی ایسی باتوں کے اشارے دیتے رہے ہیں لیکن ان دعوؤں کی حقیقت اس وقت کھل گئی جب دو تین روز قبل خود نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے صحافیوں کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اور ان کی حکومت جا رہی ہے، انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اور انتخابی نتائج کے سامنے آتے ہی آیندہ منتخب حکومت اپنی ذمے داری سنبھال لے گی۔ اس دو ٹوک اعلان کے بعد نگراں وزیراعظم اور ان کی حکومت کا معاملہ تو صاف ہو جاتا ہے۔
حکومت میں اگر کسی کے دل میں ایسی خواہش تھی بھی تو وزیر اعظم کے دوٹوک اعلان کے بعد وہ اپنا قبلہ سیدھا کر چکا ہو گا پھر یہ بھی بہت اہم ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے ایوان میں نہایت واضح الفاظ میں اس قرارداد کی مخالفت کی۔
اگر نگراں حکومت اپنے اقتدار کو طول دینے میں دل چسپی نہیں رکھتی تو پھر اگلا سوال یہ ہے کہ اس کے علاوہ انتخابات کے التوا کا خواہش مند کون ہے؟ یہ سوال پیچیدہ ہے اور جیسے جیسے اس پر غور کرتے جاتے ہیں، نئے زاویے کھلتے جاتے ہیں۔
انتخابات کے التوا کی قرارداد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی تھی۔ سینیٹر دلاور خان کون ہیں؟ جب یہ قرارداد منظور ہوئی اور سینیٹر دلاور خان کا نام سامنے آیا تو مخالفین کی ٹرولنگ کرنے والے گروہ ہی کی طرف سے یہ تاثر دیا جانے لگا کہ اس سینیٹر کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے لیکن اس قسم کی غلط بیانیاں زیادہ دیر چل نہیں پاتیں جلد ہی ان کا کچا چٹھا کھل جاتا ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ ذرا سی دیر میں ہی یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ یہ سینیٹر صاحب وہی ہیں جو چھ سینیٹروں کے ایک آزاد گروپ کی قیادت فرماتے ہیں۔
یہ چھ سینیٹر وہ ہیں جن کی جادو گری سے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور بعد میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر حزب اختلاف کی عددی برتری اقلیت میں بدل گئی۔ یوں نہ تحریک عدم اعتماد منظور ہو سکی اور نہ حزب اختلاف کے امیدوار یعنی سینیٹر میر حاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ بن سکے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سینیٹ کے اس نام نہاد آزاد گروپ کے رشتے ناتے پی ٹی آئی کے ساتھ پرانے ہیں اور وہ قومی زندگی کے اس اہم مرحلے پر قومی مفاد پر اپنے تعلق کو ترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
امکانی طور چیئرمین سینیٹ بھی اس کھیل کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔اس قرارداد کے پس پشت عناصر کی نشان دہی ہو جانے کے بعد اب اس بات کا تعین مناسب ہو گا کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ لمحہ موجود میں وہ کون سا گروہ ہے، انتخابات سے فرار جس کے مفاد میں ہے۔ بہ ظاہر پی ٹی آئی سمیت ملک کی کوئی سیاسی جماعت انتخابات کے التوا کی حامی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
یہ اچھی بات ہے لیکن اس دعوے کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے۔ یہ کسوٹی دو تین سوالات سے تشکیل پاتی ہے مثلا ًوہ کون سی جماعت ہے جس نے انتخابات کی دہائی دینے کے باوجود انتخابی عمل کی راہ میں عملی رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ یہ صرف ایک ہی جماعت ہے اور وہ ہے پی ٹی آئی۔ اس جماعت نے سب سے پہلے اپنے تنظیمی انتخابات اتنے برے طریقے سے کرائے کہ اس کا انتخابی عمل میں شریک ہونا ناممکن ہو گیا لہٰذا وہ اپنے انتخابی نشان سے محروم ہو گئی۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ جماعت درست انتخابات کرا نہیں سکتی تھی۔ یہ ممکن تھا لیکن اگر درست انتخابات ہو جاتے تو عام انتخابات میں اس کی شکست یقینی تھی اس شکست سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ انتخابی عمل سے باہر رہ کر سارا بوجھ الیکشن کمیشن پر ڈال کر انتخابی عمل کو متنازع بنا دیا جائے اور انتخابات کو کم از کم اتنا ملتوی کرا دیا جائے کہ کم از کم دوتین قومی اداروں کی قیادت تبدیل ہو جائے۔
ایسا ممکن ہے یا نہیں لیکن ڈوبنے والے تنکے کا سہارا اسی طرح لیا کرتے ہیں۔ اس جماعت کی طرف سے انتخابی عمل کو متنازع بنانے کی دوسری کارروائی آئی ایم ایف کے ساتھ ملاقات کی صورت میں سامنے آئی ہے جس میں اس جماعت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اب چونکہ انتخابی عمل کے شفاف ہونے کی اسے امید نہیں رہی لہٰذا وہ پاکستان کے ساتھ آئی ایف کے معاہدے کے سلسلے میں دی گئی حمایت واپس لیتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے نوجوان اور با صلاحیت سینیٹر افنان اللہ اس قضیے میں ہیرو بن کر ابھرے ہیں جنھوں نے تنہا ہونے کے باوجود بڑی بہادری کے ساتھ اس سازش کو بے نقاب کر دیا۔
نگراں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی بھی قابل مبارک باد ہیں جنھوں نے قرارداد کی مخالفت کر کے نگراں حکومت کی نیت اس سلسلے میں واضح کر کے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی خطرناک سازش ناکام بنا دی۔ امید ہے کہ اس ناکام تجربے کے بعد آیندہ کوئی ایسی مضحکہ خیز مہم جوئی نہیں کرے گا۔
اس مرحلے پر انھیں بات کرنے سے روکنے میں سب سے زیادہ دل چسپی دو افراد کو تھی۔ ان میںایک تو چیئرمین سینیٹ یعنی صادق سنجرانی تھے جو تھینک یو تھینک یو کہہ کر انھیں خاموش کرانے کے درپے تھے۔ دوسرے سینیٹر بہرمند تنگی تھے جو پچھلی نشستوں سے بلند آواز میں سینیٹر افنان اللہ خان کو خاموش کرانے کی کوشش میں مصروف تھے۔
معمہ یہی ہے کہ یہ سب کیا تھا۔ یکایک قرارداد کیسے پیش کر دی گئی اور حکومت کے کسی نمایندے کا انتظار کیے بغیر چٹ پٹ منظور بھی کر لی گئی۔ جرم و سزا کی دنیا میں جرم کے ذمے دار کے تعین کے لیے ٹریک ریکارڈ سے مدد لی جاتی ہے۔
اس معاملے کے حل کے لیے بھی یہی طریقہ مفید رہے گا۔ سینیٹر تنگی انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے والی اس قرارداد کی بالواسطہ طور پر حمایت کیوں کر رہے تھے؟ یہ جواب تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے شو کاز نوٹس کی صورت میں ان سے طلب کر لیا ہے۔
وہ سردست تو شو کاز نوٹس میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس موقع پر نہ خاموشی اختیار کی اورنہ قرار داد کے حق میں ووٹ دیا لیکن یہ ان کا بیان ہے۔
حقیقت وہ ہے جس کی آڈیو اور وڈیو محفوظ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی واقعی اگر اس معاملے کو اس کے انجام تک پہنچانے پر یقین رکھتی ہوئی تو وہ ضرور اس وڈیو کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لے کر اپنے سینیٹر کا احتساب کرے گی۔ اگر یہ سب زبانی کلامی ہوا اور معاملہ رفت گزشت ہو گیا تو پھر بہت سارے سوال تشنہ جواب رہ جائیں گے ۔ توقع یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اس قضیے پر مٹی ڈالنے کے بہ جائے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ضرور کرے گی کہ یہ خود پارٹی کی ساکھ کا معاملہ ہے۔
اب آتے ہیں اس معاملے کے دوسرے پہلو کی طرف، سوال یہ ہے کہ وہ کون سا گروہ ہے، انتخابات کا التوا جس کے مفاد میں ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ موجودہ حکمراں طبقات کی خواہش ہے کہ انتخابات کچھ مزید آگے بڑھ جائیں تاکہ وہ چند روز مزید اقتدار و اختیار سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہ بات قرین قیاس ہو سکتی ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے بعض مؤثر اور معتبر صحافی ایسی باتوں کے اشارے دیتے رہے ہیں لیکن ان دعوؤں کی حقیقت اس وقت کھل گئی جب دو تین روز قبل خود نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے صحافیوں کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ وہ اور ان کی حکومت جا رہی ہے، انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اور انتخابی نتائج کے سامنے آتے ہی آیندہ منتخب حکومت اپنی ذمے داری سنبھال لے گی۔ اس دو ٹوک اعلان کے بعد نگراں وزیراعظم اور ان کی حکومت کا معاملہ تو صاف ہو جاتا ہے۔
حکومت میں اگر کسی کے دل میں ایسی خواہش تھی بھی تو وزیر اعظم کے دوٹوک اعلان کے بعد وہ اپنا قبلہ سیدھا کر چکا ہو گا پھر یہ بھی بہت اہم ہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے ایوان میں نہایت واضح الفاظ میں اس قرارداد کی مخالفت کی۔
اگر نگراں حکومت اپنے اقتدار کو طول دینے میں دل چسپی نہیں رکھتی تو پھر اگلا سوال یہ ہے کہ اس کے علاوہ انتخابات کے التوا کا خواہش مند کون ہے؟ یہ سوال پیچیدہ ہے اور جیسے جیسے اس پر غور کرتے جاتے ہیں، نئے زاویے کھلتے جاتے ہیں۔
انتخابات کے التوا کی قرارداد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی تھی۔ سینیٹر دلاور خان کون ہیں؟ جب یہ قرارداد منظور ہوئی اور سینیٹر دلاور خان کا نام سامنے آیا تو مخالفین کی ٹرولنگ کرنے والے گروہ ہی کی طرف سے یہ تاثر دیا جانے لگا کہ اس سینیٹر کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے لیکن اس قسم کی غلط بیانیاں زیادہ دیر چل نہیں پاتیں جلد ہی ان کا کچا چٹھا کھل جاتا ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ ذرا سی دیر میں ہی یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ یہ سینیٹر صاحب وہی ہیں جو چھ سینیٹروں کے ایک آزاد گروپ کی قیادت فرماتے ہیں۔
یہ چھ سینیٹر وہ ہیں جن کی جادو گری سے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور بعد میں تحریک عدم اعتماد کے موقع پر حزب اختلاف کی عددی برتری اقلیت میں بدل گئی۔ یوں نہ تحریک عدم اعتماد منظور ہو سکی اور نہ حزب اختلاف کے امیدوار یعنی سینیٹر میر حاصل بزنجو چیئرمین سینیٹ بن سکے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سینیٹ کے اس نام نہاد آزاد گروپ کے رشتے ناتے پی ٹی آئی کے ساتھ پرانے ہیں اور وہ قومی زندگی کے اس اہم مرحلے پر قومی مفاد پر اپنے تعلق کو ترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں۔
امکانی طور چیئرمین سینیٹ بھی اس کھیل کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔اس قرارداد کے پس پشت عناصر کی نشان دہی ہو جانے کے بعد اب اس بات کا تعین مناسب ہو گا کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ لمحہ موجود میں وہ کون سا گروہ ہے، انتخابات سے فرار جس کے مفاد میں ہے۔ بہ ظاہر پی ٹی آئی سمیت ملک کی کوئی سیاسی جماعت انتخابات کے التوا کی حامی دکھائی نہیں دیتی ہے۔
یہ اچھی بات ہے لیکن اس دعوے کو عمل کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے۔ یہ کسوٹی دو تین سوالات سے تشکیل پاتی ہے مثلا ًوہ کون سی جماعت ہے جس نے انتخابات کی دہائی دینے کے باوجود انتخابی عمل کی راہ میں عملی رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ یہ صرف ایک ہی جماعت ہے اور وہ ہے پی ٹی آئی۔ اس جماعت نے سب سے پہلے اپنے تنظیمی انتخابات اتنے برے طریقے سے کرائے کہ اس کا انتخابی عمل میں شریک ہونا ناممکن ہو گیا لہٰذا وہ اپنے انتخابی نشان سے محروم ہو گئی۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ جماعت درست انتخابات کرا نہیں سکتی تھی۔ یہ ممکن تھا لیکن اگر درست انتخابات ہو جاتے تو عام انتخابات میں اس کی شکست یقینی تھی اس شکست سے بچنے کے لیے ضروری تھا کہ انتخابی عمل سے باہر رہ کر سارا بوجھ الیکشن کمیشن پر ڈال کر انتخابی عمل کو متنازع بنا دیا جائے اور انتخابات کو کم از کم اتنا ملتوی کرا دیا جائے کہ کم از کم دوتین قومی اداروں کی قیادت تبدیل ہو جائے۔
ایسا ممکن ہے یا نہیں لیکن ڈوبنے والے تنکے کا سہارا اسی طرح لیا کرتے ہیں۔ اس جماعت کی طرف سے انتخابی عمل کو متنازع بنانے کی دوسری کارروائی آئی ایم ایف کے ساتھ ملاقات کی صورت میں سامنے آئی ہے جس میں اس جماعت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اب چونکہ انتخابی عمل کے شفاف ہونے کی اسے امید نہیں رہی لہٰذا وہ پاکستان کے ساتھ آئی ایف کے معاہدے کے سلسلے میں دی گئی حمایت واپس لیتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے نوجوان اور با صلاحیت سینیٹر افنان اللہ اس قضیے میں ہیرو بن کر ابھرے ہیں جنھوں نے تنہا ہونے کے باوجود بڑی بہادری کے ساتھ اس سازش کو بے نقاب کر دیا۔
نگراں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی بھی قابل مبارک باد ہیں جنھوں نے قرارداد کی مخالفت کر کے نگراں حکومت کی نیت اس سلسلے میں واضح کر کے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کی خطرناک سازش ناکام بنا دی۔ امید ہے کہ اس ناکام تجربے کے بعد آیندہ کوئی ایسی مضحکہ خیز مہم جوئی نہیں کرے گا۔