شاہین کو شان نہیں سمجھیے گا
اگر ہمیں یقین ہوتا ہے کہ آسٹریلیا میں نہیں جیت سکتے تو وہاں جاتے ہی کیوں ہیں؟
آپ نے اکثر بڑے بزرگوں سے کہانیاں سنی ہوں گی کہ ہمارے زمانے میں ایسا ہوتا تھا، اگر ان میں سے کوئی کرکٹ کے شوقین ہیں تو یہ بھی بتاتے ہوں گے کہ اس وقت معاوضہ اتنا ملتا تھا یا فخر سے یہ بھی کہتے ہوں گے کہ تب پاکستانی ٹیم نے فلاں کو شکست دی تھی، البتہ افسوس دورہ آسٹریلیا کے حوالے سے کسی کی بھی کوئی خوشگوار یاد نہیں ہو گی،60 سال سے ٹیم وہاں جا رہی ہے مگر کوئی سیریز نہیں جیت سکی۔
1964 پہلا میلبورن ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیم کے ایک رکن سے میں نے سوال پوچھا کہ سر اس زمانے کی کوئی یاد تازہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ''اب تو اتنا وقت گذر چکا کہ میرے بیٹے کے بالوں میں بھی سفیدی آ چکی اور پوتا بھی جوان ہو گیا، مجھے بھلا کہاں کچھ یاد ہوگا ہاں اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ ہمیں 3 یا 4 ڈالر بطور معاوضہ ملے تھے، اس وقت ہمارے لیے ملک کی نمائندگی ہی سب سے بڑا اعزاز تھا۔
پیسوں کا تو ہم سوچتے ہی نہیں تھے'' ان کی بات سن کر میں نے سوچا کہ اب فرق یہ آ چکا کہ پاکستانی کرکٹرز کا معاوضہ لاکھوں ،کروڑوں میں پہنچ گیا، صرف ٹیم کے ایک اعلیٰ آفیشل ہی 500 ڈالر (تقریبا ڈیڑھ لاکھ روپے) ڈیلی الاؤنس اور ایک لاکھ روپے یومیہ معاوضہ وصول کر رہے ہیں،60 سال پہلے ملک اولین ترجیح ہوتی تھی اب اگر کھلاڑیوں کا بس چلے تو صرف لیگز ہی کھیل کر کروڑوں روپے کمایا کریں۔
ہم آسٹریلیا میں کیوں نہیں جیت پاتے؟ اگر پاکستان امیر ملک ہوتا تو اس پر باقاعدہ تحقیق کرائی جا سکتی تھی لیکن ظاہر ہے یہاں ایسا ممکن نہیں، ہر بار ٹیم کسی الگ کپتان اور کوچ کے ساتھ جاتی ہے، کارکردگی 0-2 یا 0-3 ہی رہتی ہے، ساتھ جواز بھی یکساں ہوتے ہیں کہ ''مواقع ضائع کیے اس لیے ہار گئے، بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا'' وغیرہ وغیرہ، بھائی 60 سال سے آپ بس سیکھ ہی رہے ہیں۔
اس سے اچھا ہے کہ کہہ دیں کہ ہم صرف سری لنکا اور بنگلہ دیش کو ہی ہرا سکتے ہیں، اس بار محمد حفیظ اور شان مسعود نے بھی ہارنے پر ماضی کے جیسی ہی باتیں کیں، مجھے یاد ہے کہ سابقہ ٹور میں ایک سابق آسٹریلوی کرکٹر نے یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان جیسی ٹیم کو بلاتے ہی کیوں ہیں، اب یہ سننے کو ملا کہ ایشیا سے اتنی کمزور ٹیم پہلے کبھی آسٹریلیا نہیں آئی۔
اگر ہمیں یقین ہوتا ہے کہ آسٹریلیا میں نہیں جیت سکتے تو وہاں جاتے ہی کیوں ہیں؟اس بار ٹیم ڈائریکٹر کے بلند و بانگ دعووں نے امیدیں بھی زیادہ بڑھا دیں لیکن نتیجہ ماضی جیسا ہی رہا، ہم کوئی زمبابوے یا آئرلینڈ تھوڑی ہیں جو میچ میں چند اچھے لمحات پر ہی خوشیاں منائیں ہمیں تو حریف کو ٹف ٹائم دیتے ہوئے کم از کم ایک فتح تو حاصل کرنا ہی چاہیے تھی، مگر جن پر انحصار تھا وہی کھلاڑی کچھ نہ کر سکے۔
بابر اعظم نے سخت مایوس کیا، شاہین شاہ آفریدی بھی توقعات پر پورا نہ اتر سکے، سعود شکیل ، امام الحق ،عبد اللہ شفیق سمیت کوئی بھی ایسا کھلاڑی نہیں جس نے اچھا پرفارم کیا، صرف عامر جمال نے ہی کچھ لاج رکھی، یا رضوان بہتر بیٹنگ کرتے نظر آئے،ٹیم کی فیلڈنگ تو ایسی رہی کہ بولرز بال نوچنے پر مجبور ہو گئے ہوں گے۔
آپ لوگ برا نہیں مانیے گا میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ اس وقت ٹیم ٹکڑوں میں بٹی نظر آ رہی ہے،جس طرح نائنٹیز میں کئی کپتان ساتھ ہوتے اور ایک دوسرے سے ناخوش رہتے تھے ویسا ہی دور اب واپس آ گیا ہے لیکن ماضی کی رقابت میں کھلاڑی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلیے بہترین کھیل پیش کرنے کی کوشش کرتے اب ایسا نظر نہیں آیا۔
حفیظ کا بھی رویہ مختلف رہا، بابر اعظم، شاہین آفریدی اور محمد رضوان کو انھوں نے الگ انداز سے ڈیل کیا جبکہ دیگر پلیئرز پر سختی بھی دکھائی،شان مسعود کو کپتان بنوانے میں ان کا بھی کردار ہے، عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی انھوں نے بورڈ کو اپنی رائے دے دی تھی، شان چونکہ بابر کی طرح کے پرفارمر نہیں اس لیے انھیں کنٹرول کرنا آسان تھا، وہی ہوا سیریز میں حفیظ اپنی بات منواتے رہے۔
البتہ جب کلین سوئپ پر تنقید ہوئی تو کپتان کو بس کے آگے پھینکتے ہوئے کہہ دیا کہ ''عامر جمال کو آخری اننگز میں تاخیر سے بولنگ دینے کا فیصلہ شان کا تھا'' اسی طرح شاہین آفریدی کو آرام دینے کے فیصلے پر جب سوال اٹھائے گئے تو ٹیم ڈائریکٹر نے اپنا دامن جھاڑتے ہوئے کہہ دیا کہ '' شاہین نے مجھ سے بات کی اور آرام مانگا'' ٹیم کے کوچ (ڈائریکٹر ) کی حیثیت بزرگ جیسی ہوتی ہے، اسے چھوٹوں کا دفاع کرنا پڑتا ہے، ایسے نہیں کہ اچھا ہو تو میرا فیصلہ تھا، کچھ غلط ہو تو دوسروں نے ایسا کیا، اب ٹیم نیوزی لینڈ جا رہی ہے۔
وہاں شاہین شاہ آفریدی کپتان ہوں گے، وہ شان سے بالکل مختلف شخصیت کے مالک ہیں، انھیں کنٹرول کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی، حفیظ لاہور قلندرز میں شاہین کی زیرقیادت کھیل چکے، پیسر کی اچھی عادت ہے کہ وہ اپنے سینئرز کی بہت عزت کرتے ہیں،البتہ آپ کو عزت چاہیے تو دوسروں کو عزت دینا بھی پڑتی ہے، حفیظ کو شاہین کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
مجھے بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی اس سیریز کے کسی نہ کسی میچ میں ٹوٹتی بھی نظر آ رہی ہے، ایسے کئی اور منفرد فیصلے بھی ہوں گے، البتہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان کا کوئی فائدہ بھی ہوگا، اصل بات ٹیم کا اتحاد ہے، اسے برقرار رکھنا اہم ہوگا، ورلڈکپ اب 5 ماہ کے فاصلے پر ہے، اس سے قبل یکجہتی ہونا لازمی ہے،بابر اعظم کو بھی آرام نہیں بلکہ اعتماد دینا چاہیے۔
ابھی اگر آؤٹ آف فارم ہونے پر بٹھایا گیا تو کہیں مزید نیچے نہ چلے جائیں، ایک بڑی اننگز پرانے والے بابر کو واپس لا سکتی ہے، انھیں مسلسل کھلانا چاہیے،شاہین کی قیادت کا انداز مختلف ہے، وہ اپنے سے زیادہ ٹیم کیلیے سوچتے ہیں،اسی لیے کھلاڑی بھی ان سے خوش رہتے ہیں۔
البتہ فرنچائز اورقومی ٹیم کی کپتانی میں بہت فرق ہوگا، لاہور قلندرز میں شاہین کی اتھارٹی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا، یہاں پروفیسر بھی ہیں کنگ بھی ہیں،لہذا سب کو بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوگی، اگر ٹیم فتحیاب رہی تو ورلڈکپ سے قبل بھرپور اعتماد حاصل ہو جائے گا،امید یہی کرتے ہیں کہ نیوزی لینڈ میں پاکستانی کرکٹرز آسٹریلیا کے مقابلے میں مختلف روپ میں دکھائی دیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)
1964 پہلا میلبورن ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیم کے ایک رکن سے میں نے سوال پوچھا کہ سر اس زمانے کی کوئی یاد تازہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ''اب تو اتنا وقت گذر چکا کہ میرے بیٹے کے بالوں میں بھی سفیدی آ چکی اور پوتا بھی جوان ہو گیا، مجھے بھلا کہاں کچھ یاد ہوگا ہاں اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ ہمیں 3 یا 4 ڈالر بطور معاوضہ ملے تھے، اس وقت ہمارے لیے ملک کی نمائندگی ہی سب سے بڑا اعزاز تھا۔
پیسوں کا تو ہم سوچتے ہی نہیں تھے'' ان کی بات سن کر میں نے سوچا کہ اب فرق یہ آ چکا کہ پاکستانی کرکٹرز کا معاوضہ لاکھوں ،کروڑوں میں پہنچ گیا، صرف ٹیم کے ایک اعلیٰ آفیشل ہی 500 ڈالر (تقریبا ڈیڑھ لاکھ روپے) ڈیلی الاؤنس اور ایک لاکھ روپے یومیہ معاوضہ وصول کر رہے ہیں،60 سال پہلے ملک اولین ترجیح ہوتی تھی اب اگر کھلاڑیوں کا بس چلے تو صرف لیگز ہی کھیل کر کروڑوں روپے کمایا کریں۔
ہم آسٹریلیا میں کیوں نہیں جیت پاتے؟ اگر پاکستان امیر ملک ہوتا تو اس پر باقاعدہ تحقیق کرائی جا سکتی تھی لیکن ظاہر ہے یہاں ایسا ممکن نہیں، ہر بار ٹیم کسی الگ کپتان اور کوچ کے ساتھ جاتی ہے، کارکردگی 0-2 یا 0-3 ہی رہتی ہے، ساتھ جواز بھی یکساں ہوتے ہیں کہ ''مواقع ضائع کیے اس لیے ہار گئے، بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا'' وغیرہ وغیرہ، بھائی 60 سال سے آپ بس سیکھ ہی رہے ہیں۔
اس سے اچھا ہے کہ کہہ دیں کہ ہم صرف سری لنکا اور بنگلہ دیش کو ہی ہرا سکتے ہیں، اس بار محمد حفیظ اور شان مسعود نے بھی ہارنے پر ماضی کے جیسی ہی باتیں کیں، مجھے یاد ہے کہ سابقہ ٹور میں ایک سابق آسٹریلوی کرکٹر نے یہ بیان دیا تھا کہ پاکستان جیسی ٹیم کو بلاتے ہی کیوں ہیں، اب یہ سننے کو ملا کہ ایشیا سے اتنی کمزور ٹیم پہلے کبھی آسٹریلیا نہیں آئی۔
اگر ہمیں یقین ہوتا ہے کہ آسٹریلیا میں نہیں جیت سکتے تو وہاں جاتے ہی کیوں ہیں؟اس بار ٹیم ڈائریکٹر کے بلند و بانگ دعووں نے امیدیں بھی زیادہ بڑھا دیں لیکن نتیجہ ماضی جیسا ہی رہا، ہم کوئی زمبابوے یا آئرلینڈ تھوڑی ہیں جو میچ میں چند اچھے لمحات پر ہی خوشیاں منائیں ہمیں تو حریف کو ٹف ٹائم دیتے ہوئے کم از کم ایک فتح تو حاصل کرنا ہی چاہیے تھی، مگر جن پر انحصار تھا وہی کھلاڑی کچھ نہ کر سکے۔
بابر اعظم نے سخت مایوس کیا، شاہین شاہ آفریدی بھی توقعات پر پورا نہ اتر سکے، سعود شکیل ، امام الحق ،عبد اللہ شفیق سمیت کوئی بھی ایسا کھلاڑی نہیں جس نے اچھا پرفارم کیا، صرف عامر جمال نے ہی کچھ لاج رکھی، یا رضوان بہتر بیٹنگ کرتے نظر آئے،ٹیم کی فیلڈنگ تو ایسی رہی کہ بولرز بال نوچنے پر مجبور ہو گئے ہوں گے۔
آپ لوگ برا نہیں مانیے گا میں پورے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ اس وقت ٹیم ٹکڑوں میں بٹی نظر آ رہی ہے،جس طرح نائنٹیز میں کئی کپتان ساتھ ہوتے اور ایک دوسرے سے ناخوش رہتے تھے ویسا ہی دور اب واپس آ گیا ہے لیکن ماضی کی رقابت میں کھلاڑی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلیے بہترین کھیل پیش کرنے کی کوشش کرتے اب ایسا نظر نہیں آیا۔
حفیظ کا بھی رویہ مختلف رہا، بابر اعظم، شاہین آفریدی اور محمد رضوان کو انھوں نے الگ انداز سے ڈیل کیا جبکہ دیگر پلیئرز پر سختی بھی دکھائی،شان مسعود کو کپتان بنوانے میں ان کا بھی کردار ہے، عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی انھوں نے بورڈ کو اپنی رائے دے دی تھی، شان چونکہ بابر کی طرح کے پرفارمر نہیں اس لیے انھیں کنٹرول کرنا آسان تھا، وہی ہوا سیریز میں حفیظ اپنی بات منواتے رہے۔
البتہ جب کلین سوئپ پر تنقید ہوئی تو کپتان کو بس کے آگے پھینکتے ہوئے کہہ دیا کہ ''عامر جمال کو آخری اننگز میں تاخیر سے بولنگ دینے کا فیصلہ شان کا تھا'' اسی طرح شاہین آفریدی کو آرام دینے کے فیصلے پر جب سوال اٹھائے گئے تو ٹیم ڈائریکٹر نے اپنا دامن جھاڑتے ہوئے کہہ دیا کہ '' شاہین نے مجھ سے بات کی اور آرام مانگا'' ٹیم کے کوچ (ڈائریکٹر ) کی حیثیت بزرگ جیسی ہوتی ہے، اسے چھوٹوں کا دفاع کرنا پڑتا ہے، ایسے نہیں کہ اچھا ہو تو میرا فیصلہ تھا، کچھ غلط ہو تو دوسروں نے ایسا کیا، اب ٹیم نیوزی لینڈ جا رہی ہے۔
وہاں شاہین شاہ آفریدی کپتان ہوں گے، وہ شان سے بالکل مختلف شخصیت کے مالک ہیں، انھیں کنٹرول کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی، حفیظ لاہور قلندرز میں شاہین کی زیرقیادت کھیل چکے، پیسر کی اچھی عادت ہے کہ وہ اپنے سینئرز کی بہت عزت کرتے ہیں،البتہ آپ کو عزت چاہیے تو دوسروں کو عزت دینا بھی پڑتی ہے، حفیظ کو شاہین کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
مجھے بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ جوڑی اس سیریز کے کسی نہ کسی میچ میں ٹوٹتی بھی نظر آ رہی ہے، ایسے کئی اور منفرد فیصلے بھی ہوں گے، البتہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان کا کوئی فائدہ بھی ہوگا، اصل بات ٹیم کا اتحاد ہے، اسے برقرار رکھنا اہم ہوگا، ورلڈکپ اب 5 ماہ کے فاصلے پر ہے، اس سے قبل یکجہتی ہونا لازمی ہے،بابر اعظم کو بھی آرام نہیں بلکہ اعتماد دینا چاہیے۔
ابھی اگر آؤٹ آف فارم ہونے پر بٹھایا گیا تو کہیں مزید نیچے نہ چلے جائیں، ایک بڑی اننگز پرانے والے بابر کو واپس لا سکتی ہے، انھیں مسلسل کھلانا چاہیے،شاہین کی قیادت کا انداز مختلف ہے، وہ اپنے سے زیادہ ٹیم کیلیے سوچتے ہیں،اسی لیے کھلاڑی بھی ان سے خوش رہتے ہیں۔
البتہ فرنچائز اورقومی ٹیم کی کپتانی میں بہت فرق ہوگا، لاہور قلندرز میں شاہین کی اتھارٹی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا، یہاں پروفیسر بھی ہیں کنگ بھی ہیں،لہذا سب کو بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہوگی، اگر ٹیم فتحیاب رہی تو ورلڈکپ سے قبل بھرپور اعتماد حاصل ہو جائے گا،امید یہی کرتے ہیں کہ نیوزی لینڈ میں پاکستانی کرکٹرز آسٹریلیا کے مقابلے میں مختلف روپ میں دکھائی دیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)