پنجاب پولیس کے ٹرانس جینڈروکٹم سپورٹ آفیسرز کو لوگوں کے ہتک آمیز رویے کی شکایت

ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ساتھ ایسا رویہ انہیں نفسیاتی مسائل سے دوچار کرسکتا ہے، ماہرین

فوٹو: ایکسپریس

پنجاب پولیس کی طرف سے بنائے گئے خدمت مراکز میں ڈیوٹی دینے والی ٹرانس جینڈرز کا کہنا ہے کہ یونیفارم کی وجہ سے ان کے ساتھ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آئی ہے تاہم اب بھی خواجہ سراؤں کو سوسائٹی اور حکومتی اداروں کی طرف سے مکمل طور پر قبول نہیں کیا جارہا ۔

بعض اسٹاف ممبران اور شکایات لے کر آنے والے شہریوں کا رویہ اور برتاؤ ہتک آمیز اورطنزیہ ہوتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ساتھ ایسا رویہ انہیں نفسیاتی مسائل سے دوچار کرسکتا ہے۔

زعنایہ چوہدری ٹرانس جینڈرپرسن ہیں جو کئی برسوں سے اپنی کمیونٹی کے حقوق اور ویلفیئر کے لیے سرگرم ہیں لیکن ان دنوں زعنایہ چوہدری لاہور میں پنجاب پولیس کے خدمت مرکز میں بطور وکٹم سپورٹ آفیسر ( وی ایس او) کام کررہی ہیں۔

زعنایہ چوہدری کی طرح 40 خواجہ سرا لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں وکٹم سپورٹ آفیسر کے طور پر کام کررہی ہیں۔ پنجاب ملک کا پہلا صوبہ ہے جہاں اتنی تعداد میں خواجہ سرا برادری کو سرکاری ملازمت اور خاص طور پر پولیس میں بھرتی کیا گیا ہے۔

زعنایہ چوہدری کہتی ہیں کہ جب وہ لوگ بغیریونیفارم کے کام کرتے تھے تو انہیں اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی جبکہ خدمت مرکز میں آنے والے شہری بھی اکثر انہیں نظر انداز کرتے تھے لیکن جب سے یونیفارم پہننا شروع کی ہے تو عام شہریوں اور سٹاف کے رویے میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی ہے۔

ان کی اپنی کمیونٹی سمیت خدمت مرکز میں آنے والی خواتین کھل کران کے ساتھ اپنے مسائل پر گفتگو کرتی ہیں۔ زعنایہ کے مطابق پولیس میں موجود خواتین پولیس آفیسرز کی وجہ سے انہیں کافی حوصلہ اورہمت ملی ہے۔

زعنایہ کا کہنا ہے کہ پولیس میں بطور افسربھرتی ہونے کے بعد ان کی زندگی کے نئے سفرکا آغاز ہواہے، ان کے اندر خود اعتمادی آئی ہے ،وہ اپنی صلاحتیوں اورمحنت سے معاشرے اورخاص طور پراپنی کمیونٹی کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہیں لیکن ان سمیت دیگرخواجہ سراؤں کےدل میں ایک خوف ہے کہ کہیں انہیں نوکری سے فارغ نہ کردیا جائے کیونکہ ابھی یہ تمام خواجہ سرا کنٹریکٹ پر بھرتی کی گئی ہیں۔


زعنایہ کے علاوہ اس وقت لاہور میں تین اور خواجہ سرا بھی بطور وکٹم سپورٹ آفیسر کام کررہی ہیں جن میں معصومہ علی لبرٹی خدمت مرکز، کشش خان داتا دربار اور اذنہ خانزادی لاری اڈا خدمت مرکز میں خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

پنجاب میں بطور وکٹم سپورٹ آفیسر خدمات سرانجام دینے والی ایک خواجہ سرا نے اپنا نام اور تعیناتی کی جگہ ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ خدمت مرکز میں آنے والے بعض شہریوں، ان کے اسٹاف اور بعض افسران کا رویہ ان کے ساتھ طنزیہ، ہتک آمیز اور دل دکھی کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ لوگ ذہنی طورپر ابھی تک یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ایک خواجہ سرا بھی ان کے برابر بیٹھ سکتا ہے۔

کلینیکل سائیکولوجسٹ و ہپنوتھراپسٹ فاطمہ طاہر کہتی ہیں کہ ٹرانس جینڈر سے متعلق ہمارے رویوں اوربرتاؤ میں تبدیلی آنے میں ابھی کافی وقت لگے گا، ہماری سوسائٹی توابھی مکمل طور پرخواتین کو برابری کا درجہ دینے کو تیار نہیں ہے تو یقیناً ٹرانس جینڈرکمیونٹی خواہ وہ کسی بھی جگہ کام کررہی ہے، اسے مختلف اقسام کی ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑےگا۔

فاطمہ طاہر نے کہا کہ خواجہ سرا کمیونٹی اینٹی سوشل اپروچ رکھتی ہے، یہ لوگ رشتے بنانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ جب انہیں ان کے والدین اوربہن بھائی ٹھکرا دیتے ہیں تو پھر وہ باقی رشتوں پر بھی اعتماد نہیں کرتے، اب اگر ورک پلیس پر بھی ان کے ساتھ امتیازی اورہتک آمیزسلوک ہوتا ہے، انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے تو اس سے ان کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

اے ایس پی گلبرگ سیدہ شہربانو نقوی نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب خواتین نے پولیس فورس جوائن کرنا شروع کی تواس وقت مرد اسٹاف اورافسران کی طرف سے انہیں ہراساں کیے جانے اور ناپسندیدہ جملے سننے کو ملتے تھے۔ پھر ہم نے اس کلچر کو ختم کرنا شروع کیا۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح اب جب ٹرانس جینڈرز کو بطور وکٹم سپورٹ آفیسر بھرتی کیا گیا تو یہ خدشہ تھا کہ جب ٹرانس جینڈر وکٹم سپورٹ آفیسر فیلڈ میں جائیں گی تو ممکن ہے عوام کی طرف سے انہیں وہ قبولیت نہ ملے جو دیگر پولیس افسران کوملتی، انہیں ناپسندیدہ جملے سننے کو ملیں گے،ان کی تضحیک کی جاسکتی ہے اس لیے ضروری تھا کہ پہلے خود محکمے کی طرف سے ان افسران کو عزت اور اہمیت دینا ہوگی۔

سیدہ شہربانو نقوی نے بتایا کہ جب وکٹم سپورٹ آفیسرز کے عہدوں پر خواجہ سراؤں کو بھرتی کیا گیا تو اس وقت کے ایس ایس پی آپریشنز نے لاہور کے تمام ایس ایچ اوز کی میٹنگ کی ،اس میٹنگ میں سب سے پہلے بھرتی ہونے والی دو ٹرانس جینڈر وکٹم سپورٹ آفیسرز زعنایہ چوہدری اور معصومہ علی بھی شریک ہوئیں۔

اس میٹنگ تمام ایس ایچ او کو واضح اور دو ٹوک ہدایات دی گئیں کہ وہ وکٹم سپورٹس آفیسر کی کال پراسی طرح رسپانڈ کریں گے جیسے دیگر افسران کی کال پرکیا جاتا ہے۔اسی طرح آئی جی پنجاب کی طرف سے صوبے کے تمام ریجنل پولیس افسران کو بھی ایسی ہی ہدایات دی گئی ہیں۔
Load Next Story