نازیبا ویڈیومعاملہ شاہ لطیف یونیورسٹی کے وائس چانسلر کوجبری رخصت پر بھیج دیا گیا
مبینہ نازیبا ویڈیو سمیت دیگر الزامات کی تحقیقات کے لیے تین جامعات کے وائس چانسلروں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیدی گئی
صوبے کی سرکاری جامعات کی کنٹرولنگ اتھارٹی وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیرپور کے وائس چانسلر ڈاکٹر خلیل ابوپوٹو کو جبری رخصت پر بھیج دیا ہے اور ان کے خلاف سامنے آنے والی شکایت کے تناظر میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
حکومت سندھ کے ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں بھجوائی گئی ایک سمری کی پیر کو وزیر اعلی سندھ کی جانب سے منظوری دی گئی جس کا نوٹیفکیشن ابھی ہونا باقی ہے۔
نگراں وزیر اعلی سندھ کی جانب سے منظور کردہ سمری کے مطابق معاملے کی تحقیقات کرنے والی سہ رکنی کمیٹی وائس چانسلرز پر مشتمل ہے جس میں این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، سندھ مدرسہ الاسلام یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب صحرائی اور ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سعید قریشی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کے وائس چانسلر کے خلاف سنگین نوعیت کے کچھ الزامات ہیں اور مبینہ طور پر ان کی ایک نازیبا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور میں صورتحال خراب تھی۔
اساتذہ و ملازمین کی جانب سے اس سلسلے میں احتجاج کیا جارہا تھا جبکہ یونیورسٹی کی انجمن اساتذہ کی جانب سے معاملے پر ایک خط نگراں وزیر اعلی سندھ کو بجھوایا گیا تھا جس میں ان سے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ مطالبہ اور احتجاج مسلسل زور پکڑتا چلا گیا جس کے بعد ذرائع بتاتے ہیں کہ نگراں وزیر اعلی سندھ نے اس سلسلے میں سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع سے تجاویز مانگی تھی اور سندھ ایچ ای سی کی جانب سے مذکورہ ناموں پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
سندھ ایچ ای سی کی جانب سے انہی سفارشات پر مشتمل ایک سمری وزیر اعلی سندھ کو بھجوائی گئی تھی جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے وائس چانسلر جامعہ شاہ عبدالطیف کو انکوائری مکمل ہونے تک چھٹی پر جانے کی ہدایت کی۔
یاد رہے کہ فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) پاکستان کے جنرل سیکریٹری اور شاہ لطیف یونیورسٹی کی اساتذہ کی انجمن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اختیار علی گھمرو اور انجمن کے سیکریٹری پروفیسر ڈاکٹر حسام الدین شیخ نے اس معاملے پر نگراں وزیر اعلی سندھ جسٹس(ر) مقبول باقر سے وائس چانسلر کو عہدے سے ہٹاکر فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
''ایکسپریس'' سے بات کرتے ہوئے فپواسا کے جنرل سیکریٹری اور انجمن اساتذہ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کے صدر ڈاکٹر گھمرو نے بتایا تھا کہ وائس چانسلر کی مبینہ ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس کے بعد وزیر اعلی سندھ کو بھجوائے گئے مکتوب میں انجمن اساتذہ کے صدر اور جنرل سیکریٹری نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ وائس چانسلر کی مبینہ نازیبا ویڈیو پر سنجیدگی سے فوری نوٹس لیں۔
مکتوب میں نگراں وزیراعلیٰ سے مزید کہا گیا تھا کہ اس ویڈیو سے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کی ساکھ شدید مجروح ہوئی ہے جس میں بظاہر وائس چانسلر ملوث ہیں، اس وائرل ویڈیو نے یونیورسٹیز کی لیڈر شپ پر سنجیدہ سوالات اٹھادیے ہیں جو اداروں کی ساکھ کے لیے شدید خطرہ بھی ہیں۔
یہ ویڈیو یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ اور عام لوگوں کے لیے حیران کن ہے اور سب کو اس پر شدید تحفظات ہیں ، خط میں نگراں وزیر اعلی سندھ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ جامعات پر عوام کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے اس معاملے کی فوری اور غیر جانبدار تحقیقات کرائیں جائیں۔
ادھر اس معاملے پر یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف تھا کہ وائس چانسلر اس ویڈیو کو جعلی قرار دے چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اس ویڈیو کو ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے بنایا گیا ہے، اس یونیورسٹی کے اندر اور باہر سے کئی لوگ اس میں ملوث ہیں جو وائس چانسلر سے کہتے ہیں کہ سابق انتظامیہ کی طرز پر انھیں accommodate کیا جائے۔
حکومت سندھ کے ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں بھجوائی گئی ایک سمری کی پیر کو وزیر اعلی سندھ کی جانب سے منظوری دی گئی جس کا نوٹیفکیشن ابھی ہونا باقی ہے۔
نگراں وزیر اعلی سندھ کی جانب سے منظور کردہ سمری کے مطابق معاملے کی تحقیقات کرنے والی سہ رکنی کمیٹی وائس چانسلرز پر مشتمل ہے جس میں این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی، سندھ مدرسہ الاسلام یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجیب صحرائی اور ڈائو میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سعید قریشی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کے وائس چانسلر کے خلاف سنگین نوعیت کے کچھ الزامات ہیں اور مبینہ طور پر ان کی ایک نازیبا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور میں صورتحال خراب تھی۔
اساتذہ و ملازمین کی جانب سے اس سلسلے میں احتجاج کیا جارہا تھا جبکہ یونیورسٹی کی انجمن اساتذہ کی جانب سے معاملے پر ایک خط نگراں وزیر اعلی سندھ کو بجھوایا گیا تھا جس میں ان سے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
یہ مطالبہ اور احتجاج مسلسل زور پکڑتا چلا گیا جس کے بعد ذرائع بتاتے ہیں کہ نگراں وزیر اعلی سندھ نے اس سلسلے میں سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع سے تجاویز مانگی تھی اور سندھ ایچ ای سی کی جانب سے مذکورہ ناموں پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی گئی تھی۔
سندھ ایچ ای سی کی جانب سے انہی سفارشات پر مشتمل ایک سمری وزیر اعلی سندھ کو بھجوائی گئی تھی جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے وائس چانسلر جامعہ شاہ عبدالطیف کو انکوائری مکمل ہونے تک چھٹی پر جانے کی ہدایت کی۔
یاد رہے کہ فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) پاکستان کے جنرل سیکریٹری اور شاہ لطیف یونیورسٹی کی اساتذہ کی انجمن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اختیار علی گھمرو اور انجمن کے سیکریٹری پروفیسر ڈاکٹر حسام الدین شیخ نے اس معاملے پر نگراں وزیر اعلی سندھ جسٹس(ر) مقبول باقر سے وائس چانسلر کو عہدے سے ہٹاکر فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
''ایکسپریس'' سے بات کرتے ہوئے فپواسا کے جنرل سیکریٹری اور انجمن اساتذہ شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کے صدر ڈاکٹر گھمرو نے بتایا تھا کہ وائس چانسلر کی مبینہ ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس کے بعد وزیر اعلی سندھ کو بھجوائے گئے مکتوب میں انجمن اساتذہ کے صدر اور جنرل سیکریٹری نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ وائس چانسلر کی مبینہ نازیبا ویڈیو پر سنجیدگی سے فوری نوٹس لیں۔
مکتوب میں نگراں وزیراعلیٰ سے مزید کہا گیا تھا کہ اس ویڈیو سے شاہ عبدالطیف یونیورسٹی خیرپور کی ساکھ شدید مجروح ہوئی ہے جس میں بظاہر وائس چانسلر ملوث ہیں، اس وائرل ویڈیو نے یونیورسٹیز کی لیڈر شپ پر سنجیدہ سوالات اٹھادیے ہیں جو اداروں کی ساکھ کے لیے شدید خطرہ بھی ہیں۔
یہ ویڈیو یونیورسٹی کے طلبہ، اساتذہ اور عام لوگوں کے لیے حیران کن ہے اور سب کو اس پر شدید تحفظات ہیں ، خط میں نگراں وزیر اعلی سندھ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ جامعات پر عوام کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے اس معاملے کی فوری اور غیر جانبدار تحقیقات کرائیں جائیں۔
ادھر اس معاملے پر یونیورسٹی انتظامیہ کا موقف تھا کہ وائس چانسلر اس ویڈیو کو جعلی قرار دے چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اس ویڈیو کو ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے بنایا گیا ہے، اس یونیورسٹی کے اندر اور باہر سے کئی لوگ اس میں ملوث ہیں جو وائس چانسلر سے کہتے ہیں کہ سابق انتظامیہ کی طرز پر انھیں accommodate کیا جائے۔