تائیوان کے ایشو پر چین ‘ امریکا کشیدگی
امریکا نے حال ہی میں تائیوان کوجدید ہتھیاروں کی نئی فروخت کا اعلان کیا ہے
میڈیا کی ایک خبر کے مطابق چین نے امریکی دفاعی صنعت کے5 اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کا اعلان چینی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے اتوار کو کیا۔ اس فیصلے کے پس منظر میں تائیوان ایک مرکزی اور بنیادی وجہ ہے۔
امریکا نے حال ہی میں تائیوان کوجدید ہتھیاروں کی نئی فروخت کا اعلان کیا ہے اوربعض اہم چینی کاروباری اداروں اور افراد پر پابندیاں عائد کی ہیں۔لگتا ہے کہ چین نے امریکا کے ان فیصلوں کا جواب دیا ہے۔
ترجمان چینی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ امریکا کی چین کے تائیوان خطے کو اسلحے کی فروخت ''ایک چین اصول ''اور چین امریکا مشترکہ تین اعلامیوں بالخصوص 17 اگست 1982کے مشترکہ اعلامیہ کی شرائط کی سنگین خلاف ورزی ہے اور امریکا کی مختلف بہانوں سے چینی اداروں اور افراد پر غیر قانونی یکطرفہ پابندیاں عوامی جمہوریہ چین کی خودمختاری اور سلامتی کے مفادات کے لیے شدید نقصان دہ ہیں۔
چینی ترجمان کے مطابق امریکی اسلحے کی فروخت اور غیر قانونی یکطرفہ پابندیاں آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچاتی ہیں اور چینی اداروں اور افراد کے جائز، قانونی حقوق اور ان کے مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ہیں، چین اس کی شدید مذمت کرتا ہے اور سختی سے مخالفت کرتا ہے اور چین نے اس حوالے سے امریکا سے احتجاج بھی کیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید واضح کیا کہ چین کی حکومت نے امریکا کے انتہائی غلط اقدامات کے جواب میں امریکا کی دفاعی صنعت کے 5 اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ جوابی اقدامات میں چین میں ان کمپنیوں کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سمیت ان کے اثاثے منجمد کرنا اور چین میں تنظیموں اور افراد کو ان کے ساتھ لین دین اور تعاون سے روکنا شامل ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان تائیوان کی قانونی حیثیت کے حوالے سے شدید اختلافات ہیں ۔ چین کی قیادت اور حکومت تائیوان کو چین کا ہی حصہ قرار دیتے ہیں'چین تائیوان کی الگ شناخت اور اسے آزاد اور خود مختار ملک تسلیم نہیں کرتا جب کہ امریکا تائیوان پر چین کے موقف کو رد کرتا ہے اور تائیوان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک قرار دے کر اس کی مدد بھی کرتا ہے۔
ایک کے علاوہ عالمی تجارتی معاملات میں بھی چین اور امریکا کے درمیان اختلافات واضح ہیں۔ امریکا اور یورپ چین کے مختلف اداروں پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں' خصوصاً نائن الیون کے بعد امریکا اور چین کے درمیان تعلقات خاصے کشیدہ ہوئے ہیں۔ حال ہی میں تائیوان کو امریکی اسلحے کی فروخت سے چینی حکومت خاصی غصے میں ہے'اس کے ساتھ ساتھ چینی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے نے بھی چینی قیادت کو سخت ردعمل دینے پر مجبور کیا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ کہنا کہ امریکا نے تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے کا فیصلہ کر کے ایک چین کے اصول کی کھلی خلاف ورزی کی ہے 'یہی نہیں بلکہ چین اور امریکا کے مابین بات چیت کے بعد تین مشترکہ اعلامیوں بالخصوص "17 اگست" کے اعلامیے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے کا کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
چین کی حکومت نے امریکا کے ان اقدامات کو اپنی خودمختاری اور سلامتی کے مفادات اور آبنائے تائیوان کے امن و امان کو سنگین نقصان پہنچا نے کے مترادف قراردے دیاہے' یوں چین کا یہ ردعمل غیر معمولی ہے اور اسے عالمی سطح پر خاصا سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
چینی وزرت خارجہ کے ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ چینی حکومت قومی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کے دفاع اور چینی کاروباری اداروں اور شہریوں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک چین کے اصول اور چین اور امریکا کے تین مشترکہ اعلامیوں پر سختی سے عمل کرے، بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرے، تائیوان کو اسلحے کی فراہمی اور چین کے خلاف غیر قانونی یکطرفہ پابندیاں عائد کرنا بند کرے ، ورنہ چین اس کا بھرپور جواب دے گا۔
چین کے ان اقدامات کو عالمی سطح پر امریکا کے اشتعال انگیز اقدامات کا اپ گریڈ شدہ جوابی قدم سمجھا جا رہا ہے،عالمی امور کے بعض ماہرین کے خیال میں تائیوان کو مسلح کرنے کے حوالے سے چین کی برداشت کمزور پڑ رہی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جزیرے کے علاقائی رہنما کے انتخاب سے قبل تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت پر چین اور امریکا کے درمیان تازہ ترین جھگڑا امریکا کے لیے ایک انتباہی سگنل بھیجتا ہے کہ وہ دن میں خواب دیکھنا بند کر دے کہ تائیوان کے سوال پر اشتعال انگیزی کر کے وہ چین کے جوابی وار سے بچ سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ چین اس حساس ایشو پر کسی بھی اشتعال انگیز اقدام کا سخت جواب دیں گے اور چین نے ایسا ہی کیا ہے۔
تائیوان کو امریکی اسلحہ کی فروخت کی خبر گزشتہ ماہ ایک عالمی خبر رساں ادارے نے دی تھی۔ امریکا کے محکمہ دفاع پینٹاگون کی گزشتہ ماہ جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز کا حوالہ دیتے ہوئے،اس عالمی خبر رساں ادارے نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے تائیوان کو 300 ملین ڈالر کے دفاعی آلات کی فروخت کی منظوری دی ہے۔
پینٹاگون کی ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی نے تصدیق کی کہ یہ دفاعی آلات تائیوان کے کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشنز اینڈ کمپیوٹرز کے لیے فالو آن لائف سائیکل سپورٹ کے لیے ہیں۔سیدھی سی بات ہے کہ امریکا نے تائیوان کو اس قدر جدید آلات دے کر تائیوان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے اور اس کا سوائے چین کے کسی اور ملک کو کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اس معاملے پر چین کا ردعمل فطری ہے۔
چین کی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا چین کے بنیادی تحفطات کو نظر انداز کرتا ہے، چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے اور آبنائے تائیوان میں جان بوجھ کرکشیدگی میں اضافہ کرتا ہے۔چین تائیوان پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتا ہے اور اگر ضروری ہواتو اسے طاقت کے بل پر فتح کرنے کو بھی تیار ہے۔
ترجمان نے وزارت کی ویب سائیٹ پر ایک بیان میں کہا ہے کہ '' اس اقدام سے تائیوان کے لیے ایک خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے جو تائیوانی عوام کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے ''۔انھوں نے کہا کہ طاقت کے زور پر آزادی کا حصول ایک بے معنی سوچ ہے جس کا انجام ناکامی ہے۔
انھوں نے چین کی پیپلز لبریشن آرمی تیار ہے اور آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام برقرار رکھے گی۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا '' ایک چین'' کی پالیسی کو تسلیم کرتا ہے جس کے تحت وہ تائیوان کی باضابطہ آزادی کو تسلیم نہیں کرتا اور چین کی وجہ سے تائیوان کے ساتھ اس کے کوئی رسمی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔تاہم امریکی قانون تائیوان جزیرے کو درپیش تمام خطرات کو ''شدید تشویش'' کے معاملات کے طور پر دیکھتے ہوئے اس کے لیے قابل اعتماد دفاع کا تقاضا کرتا ہے۔
تائیوان 1949 کی انقلابی جدوجہد کے دوران مرکزی چین سے الگ ہو گیا تھا۔اس جزیرے پر چیانگ کائی شک کے نظریات کے حامیوں نے کنٹرول حاصل کر لیا 'مرکزی چین پر چیئرمین ماؤ کی قیادت میں سوشلسٹ پارٹی اقتدار میں آ گئی 'تب سے چین اور تائیوان کا مسئلہ چل رہا ہے 'ہانگ کانگ اور مکاؤ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا 'اب یہ مرکزی چین کے زیر کنٹرول آ چکے ہیں جب کہ تائیوان تاحال اپنی خود مختاری قائم رکھے ہوئے ہے۔
امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک تائیوان کو مالی اور دفاعی سپورٹ فراہم کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ 1949 سے ہی جاری ہے ۔اب امریکا نے تائیوان کو مزید جدید دفاعی آلات فراہم کر کے اس تنازع کی شدت میں اضافہ کیا ہے ۔
امریکا دعویٰ کر رہا ہے کہ جدید دفاعی آلات کی فروخت سے تائیوان کی سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی اور خطے میں سیاسی استحکام ، فوجی توازن اور اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔
امریکا کے اس موقف میں کتنا ہی وزن کیوں نہ ہو لیکن اس کے پیچھے چھپے مقاصد واضح ہوتے ہیں ۔تائیوان کی قیادت بھی یہ سمجھتی ہے کہ امریکا سے F-16 لڑاکا طیارے ور دوسرے سازو سامان کی خرید سے تائیوان اپنی دفاعی صنعت کو مضبوط بنا رہا ہے۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ چین کی وسیع فوج تقریباً ہرشعبے میں تائیوان پر حاوی ہے، تائیوان نے اس کو دیکھتے ہوئے جوابی حکمت عملی تیار کی ہے جس کے تحت کسی بحرانی صورت حال میں بیرونی مدد پہنچنے تک چینی افواج کو کافی دیر کے لیے روکے رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
بہر حال یہ صورت حال جزیرہ نما تائیوان کے لیے اچھی نہیں ہو گی۔امریکا کے اپنے مفادات ہیں۔ سوچنے کا کام تائیوان کی قیادت کا ہے کیونکہ یہ حقیقت واضح ہے کہ تائیوان جتنی بھی دفاعی قوت حاصل کر لے 'وہ چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا لہٰذا تائیوانی قیادت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ مرکزی چین کا حصہ بن جائے 'جیسے ہانگ کانگ چین کا حصہ بن گیا ہے۔
امریکا نے حال ہی میں تائیوان کوجدید ہتھیاروں کی نئی فروخت کا اعلان کیا ہے اوربعض اہم چینی کاروباری اداروں اور افراد پر پابندیاں عائد کی ہیں۔لگتا ہے کہ چین نے امریکا کے ان فیصلوں کا جواب دیا ہے۔
ترجمان چینی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے ایک سوال پر کہا کہ امریکا کی چین کے تائیوان خطے کو اسلحے کی فروخت ''ایک چین اصول ''اور چین امریکا مشترکہ تین اعلامیوں بالخصوص 17 اگست 1982کے مشترکہ اعلامیہ کی شرائط کی سنگین خلاف ورزی ہے اور امریکا کی مختلف بہانوں سے چینی اداروں اور افراد پر غیر قانونی یکطرفہ پابندیاں عوامی جمہوریہ چین کی خودمختاری اور سلامتی کے مفادات کے لیے شدید نقصان دہ ہیں۔
چینی ترجمان کے مطابق امریکی اسلحے کی فروخت اور غیر قانونی یکطرفہ پابندیاں آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچاتی ہیں اور چینی اداروں اور افراد کے جائز، قانونی حقوق اور ان کے مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ہیں، چین اس کی شدید مذمت کرتا ہے اور سختی سے مخالفت کرتا ہے اور چین نے اس حوالے سے امریکا سے احتجاج بھی کیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے مزید واضح کیا کہ چین کی حکومت نے امریکا کے انتہائی غلط اقدامات کے جواب میں امریکا کی دفاعی صنعت کے 5 اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ترجمان نے کہا کہ جوابی اقدامات میں چین میں ان کمپنیوں کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سمیت ان کے اثاثے منجمد کرنا اور چین میں تنظیموں اور افراد کو ان کے ساتھ لین دین اور تعاون سے روکنا شامل ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان تائیوان کی قانونی حیثیت کے حوالے سے شدید اختلافات ہیں ۔ چین کی قیادت اور حکومت تائیوان کو چین کا ہی حصہ قرار دیتے ہیں'چین تائیوان کی الگ شناخت اور اسے آزاد اور خود مختار ملک تسلیم نہیں کرتا جب کہ امریکا تائیوان پر چین کے موقف کو رد کرتا ہے اور تائیوان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک قرار دے کر اس کی مدد بھی کرتا ہے۔
ایک کے علاوہ عالمی تجارتی معاملات میں بھی چین اور امریکا کے درمیان اختلافات واضح ہیں۔ امریکا اور یورپ چین کے مختلف اداروں پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں' خصوصاً نائن الیون کے بعد امریکا اور چین کے درمیان تعلقات خاصے کشیدہ ہوئے ہیں۔ حال ہی میں تائیوان کو امریکی اسلحے کی فروخت سے چینی حکومت خاصی غصے میں ہے'اس کے ساتھ ساتھ چینی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے نے بھی چینی قیادت کو سخت ردعمل دینے پر مجبور کیا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ کہنا کہ امریکا نے تائیوان کو اسلحہ فروخت کرنے کا فیصلہ کر کے ایک چین کے اصول کی کھلی خلاف ورزی کی ہے 'یہی نہیں بلکہ چین اور امریکا کے مابین بات چیت کے بعد تین مشترکہ اعلامیوں بالخصوص "17 اگست" کے اعلامیے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے کا کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
چین کی حکومت نے امریکا کے ان اقدامات کو اپنی خودمختاری اور سلامتی کے مفادات اور آبنائے تائیوان کے امن و امان کو سنگین نقصان پہنچا نے کے مترادف قراردے دیاہے' یوں چین کا یہ ردعمل غیر معمولی ہے اور اسے عالمی سطح پر خاصا سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
چینی وزرت خارجہ کے ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ چینی حکومت قومی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کے دفاع اور چینی کاروباری اداروں اور شہریوں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایک چین کے اصول اور چین اور امریکا کے تین مشترکہ اعلامیوں پر سختی سے عمل کرے، بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرے، تائیوان کو اسلحے کی فراہمی اور چین کے خلاف غیر قانونی یکطرفہ پابندیاں عائد کرنا بند کرے ، ورنہ چین اس کا بھرپور جواب دے گا۔
چین کے ان اقدامات کو عالمی سطح پر امریکا کے اشتعال انگیز اقدامات کا اپ گریڈ شدہ جوابی قدم سمجھا جا رہا ہے،عالمی امور کے بعض ماہرین کے خیال میں تائیوان کو مسلح کرنے کے حوالے سے چین کی برداشت کمزور پڑ رہی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ جزیرے کے علاقائی رہنما کے انتخاب سے قبل تائیوان کو ہتھیاروں کی فروخت پر چین اور امریکا کے درمیان تازہ ترین جھگڑا امریکا کے لیے ایک انتباہی سگنل بھیجتا ہے کہ وہ دن میں خواب دیکھنا بند کر دے کہ تائیوان کے سوال پر اشتعال انگیزی کر کے وہ چین کے جوابی وار سے بچ سکتا ہے۔ لگتا ہے کہ چین اس حساس ایشو پر کسی بھی اشتعال انگیز اقدام کا سخت جواب دیں گے اور چین نے ایسا ہی کیا ہے۔
تائیوان کو امریکی اسلحہ کی فروخت کی خبر گزشتہ ماہ ایک عالمی خبر رساں ادارے نے دی تھی۔ امریکا کے محکمہ دفاع پینٹاگون کی گزشتہ ماہ جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز کا حوالہ دیتے ہوئے،اس عالمی خبر رساں ادارے نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ نے تائیوان کو 300 ملین ڈالر کے دفاعی آلات کی فروخت کی منظوری دی ہے۔
پینٹاگون کی ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی نے تصدیق کی کہ یہ دفاعی آلات تائیوان کے کمانڈ، کنٹرول، کمیونیکیشنز اینڈ کمپیوٹرز کے لیے فالو آن لائف سائیکل سپورٹ کے لیے ہیں۔سیدھی سی بات ہے کہ امریکا نے تائیوان کو اس قدر جدید آلات دے کر تائیوان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے اور اس کا سوائے چین کے کسی اور ملک کو کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اس معاملے پر چین کا ردعمل فطری ہے۔
چین کی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکا چین کے بنیادی تحفطات کو نظر انداز کرتا ہے، چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے اور آبنائے تائیوان میں جان بوجھ کرکشیدگی میں اضافہ کرتا ہے۔چین تائیوان پر اپنی ملکیت کا دعوی کرتا ہے اور اگر ضروری ہواتو اسے طاقت کے بل پر فتح کرنے کو بھی تیار ہے۔
ترجمان نے وزارت کی ویب سائیٹ پر ایک بیان میں کہا ہے کہ '' اس اقدام سے تائیوان کے لیے ایک خطرناک صورتحال پیدا ہو گئی ہے جو تائیوانی عوام کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے ''۔انھوں نے کہا کہ طاقت کے زور پر آزادی کا حصول ایک بے معنی سوچ ہے جس کا انجام ناکامی ہے۔
انھوں نے چین کی پیپلز لبریشن آرمی تیار ہے اور آبنائے تائیوان میں امن اور استحکام برقرار رکھے گی۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا '' ایک چین'' کی پالیسی کو تسلیم کرتا ہے جس کے تحت وہ تائیوان کی باضابطہ آزادی کو تسلیم نہیں کرتا اور چین کی وجہ سے تائیوان کے ساتھ اس کے کوئی رسمی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔تاہم امریکی قانون تائیوان جزیرے کو درپیش تمام خطرات کو ''شدید تشویش'' کے معاملات کے طور پر دیکھتے ہوئے اس کے لیے قابل اعتماد دفاع کا تقاضا کرتا ہے۔
تائیوان 1949 کی انقلابی جدوجہد کے دوران مرکزی چین سے الگ ہو گیا تھا۔اس جزیرے پر چیانگ کائی شک کے نظریات کے حامیوں نے کنٹرول حاصل کر لیا 'مرکزی چین پر چیئرمین ماؤ کی قیادت میں سوشلسٹ پارٹی اقتدار میں آ گئی 'تب سے چین اور تائیوان کا مسئلہ چل رہا ہے 'ہانگ کانگ اور مکاؤ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا 'اب یہ مرکزی چین کے زیر کنٹرول آ چکے ہیں جب کہ تائیوان تاحال اپنی خود مختاری قائم رکھے ہوئے ہے۔
امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک تائیوان کو مالی اور دفاعی سپورٹ فراہم کر رہے ہیں اور یہ سلسلہ 1949 سے ہی جاری ہے ۔اب امریکا نے تائیوان کو مزید جدید دفاعی آلات فراہم کر کے اس تنازع کی شدت میں اضافہ کیا ہے ۔
امریکا دعویٰ کر رہا ہے کہ جدید دفاعی آلات کی فروخت سے تائیوان کی سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی اور خطے میں سیاسی استحکام ، فوجی توازن اور اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔
امریکا کے اس موقف میں کتنا ہی وزن کیوں نہ ہو لیکن اس کے پیچھے چھپے مقاصد واضح ہوتے ہیں ۔تائیوان کی قیادت بھی یہ سمجھتی ہے کہ امریکا سے F-16 لڑاکا طیارے ور دوسرے سازو سامان کی خرید سے تائیوان اپنی دفاعی صنعت کو مضبوط بنا رہا ہے۔یہ اس لیے ضروری ہے کہ چین کی وسیع فوج تقریباً ہرشعبے میں تائیوان پر حاوی ہے، تائیوان نے اس کو دیکھتے ہوئے جوابی حکمت عملی تیار کی ہے جس کے تحت کسی بحرانی صورت حال میں بیرونی مدد پہنچنے تک چینی افواج کو کافی دیر کے لیے روکے رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔
بہر حال یہ صورت حال جزیرہ نما تائیوان کے لیے اچھی نہیں ہو گی۔امریکا کے اپنے مفادات ہیں۔ سوچنے کا کام تائیوان کی قیادت کا ہے کیونکہ یہ حقیقت واضح ہے کہ تائیوان جتنی بھی دفاعی قوت حاصل کر لے 'وہ چین کا مقابلہ نہیں کر سکتا لہٰذا تائیوانی قیادت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ مرکزی چین کا حصہ بن جائے 'جیسے ہانگ کانگ چین کا حصہ بن گیا ہے۔