ہدایت کار ایم اے رشید نئی سوچ کے مالک تھے
ایم اے رشید جدت پسند تھے۔ انھوں نے نئے نئے تجربات بھی کیے اور چھوٹے فنکاروں کو اہم کردار دیے
تقسیم ہندوستان کے بعد لاہور کی فلم انڈسٹری بالکل اجڑ گئی تھی پھربتدریج فلم انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑی ہوئی اور اسے پروان چڑھانے میں جن چند فلم سازوں اور ہدایت کاروںکا کردار ہے' ان میں ہدایت کار انور کمال پاشا، ہدایت کار خلیل قیصر اور ہدایت کار ایم اے رشید کا بھی نام آتا ہے۔
ایم اے رشید جدت پسند تھے۔ انھوں نے نئے نئے تجربات بھی کیے اور چھوٹے فنکاروں کو اہم کردار دیے اور وہ نام ور فنکار بن گئے۔ انھوں نے اداکار ظریف کو فلم پاٹے خان میں ہیرو کا کردار دیا حالانکہ دوستوں نے انھیں منع کیا۔ فلم پاٹے خاں نے کامیابی کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ظریف ہیرو کے رول میں کامیاب رہا ۔
ایم اے رشید نے میڈم نور جہاں کو اس فلم میں ہیروئن لیا تھا جب کہ مسرت نذیر کو سائیڈ اداکارہ کے طور پر کاسٹ کیا تھا۔ اسلم پرویز کو بھی پہلی بار بطور ہیرو اپنی فلم میں پیش کیا۔
اسلم پرویز کو ہدایت کار انور کمال پاشا نے اپنی فلم قاتل میں متعارف کرایا تھا جو ایک چھوٹا سا کردار تھا، اس فلم میں اسلم پرویز ، ضیاء کے نام سے منظر عام پر آیا تھا، بعد میں اسلم پرویز کے نام سے مشہور ہوا۔ پھر اسلم پرویز پاکستان کا نامور ولن بن گیا تھا۔ ایم اے رشید نے فلم آس پاس میں اداکار علاؤ الدین کو مرکزی کردار میںکاسٹ کیا۔ اس فلم کی بے مثال کامیابی کے بعد علاؤ الدین کو عوامی اداکار کا خطاب دیا گیا تھا۔
اداکار ساقی کو فلم لکھ پتی میں ٹائٹل رول میں کاسٹ کیا تھا۔ یہ فلم 1958 میں ریلیز ہوئی تھی، اس فلم میں ساقی کے ساتھ نگہت سلطانہ کو ہیروئن لیا تھا۔ فلم آنسو بن گئے موتی میں ڈھاکا کی فلم آرٹسٹ نسیمہ خان کو اداکارہ شمیم آرا کے ساتھ کاسٹ کیا تھا،شبنم تو بہت بعد میں لاہور کی فلموں میں آئی تھی مگر نسیمہ خان کو لاہور کا فلمی ماحول راس نہ آسکا تھا۔
اور پھر مذکورہ فلم کو زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی مگر ڈھاکا کے فلم آرٹسٹوں کے لیے لاہور کی فلم انڈسٹری کے راستے ہدایت کار ایم اے رشید نے ہی کھولے تھے، اسی طرح نیپال کے مشہور ایکشن ہیرو شیوا کو بھی اپنی فلم مضبوط میں ڈھاکا ہی کی ایک اور اداکارہ سبیتا کے ساتھ ہیرو کاسٹ کیا تھا۔ اس میں شیوا کے ساتھ مصطفیٰ قریشی کی ٹسل دکھائی گئی تھی، یہ فلم 1993 میں ریلیز ہوئی تھی اور فلم بینوں نے اس فلم کو کافی پسند کیا تھا۔
پاٹے خاں کے بعد ایم اے رشید نے پنجابی فلم میرا ناں پاٹے خاں بھی بنائی تھی جس میں ظریف کے چھوٹے بھائی منور ظریف کو ہیرو لیا تھا ، پھر منور ظریف بھی پنجابی فلموں کا ہیرو بن کر فلم انڈسٹری میں چھا گیا تھا۔ ہدایت کار ایم اے رشید نے اردو فلموں کے ساتھ ساتھ کئی پنجابی فلمیں بھی بنائیں، وہ سب کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، ان فلموں میں ''لال بجھکڑ'' ،'' تم سلامت رہو'' بنائی، اس فلم میں محمد علی اور وحید مراد کو پہلی بار اکھٹے کاسٹ کیا ۔ یہ دو بڑے ہیروز کی پہلی فلم تھی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نیا نیا لاہور کی فلم انڈسٹری میں بطور فلمی صحافی داخل ہوا تھا اور میں کراچی سے لاہور ہفت روزہ نگار ویکلی کا نمایندہ خاص بن کر آیا تھا۔
میری ایم اے رشید صاحب سے ایک دو بار فلم کے سیٹ پر ملاقاتیں رہی تھیں۔ ان کی کامیاب ترین فلموں میں راستے کا پتھر، ملن، آدمی، نصیب، قاتل کی تلاش، پناہ، صاحب جی اور آخری فلم ان کی تھی میری توبہ۔ اس فلم میں استاد نصرت فتح علی خاں کی آواز میں ایک شان دار قوالی بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ان کی فلم دل میرا دھڑکن تیری کے گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی اور مسعود رانا کی آواز میں ایک گیت بڑا ہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے:جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا
اس گیت کی وجہ سے مسعود رانا بھی احمد رشدی کے بعد معروف گلوکاروں کی صف میں آ گیا تھا۔ ہدایت کار ایم اے رشید کی فلم سرحد کی گود میں اداکارہ فردوس کی آخری اردو فلم تھی۔ بعد میں وہ پنجابی فلموں کی سپرہٹ ہیروئن بن گئی تھی۔
بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ ہدایت کار ایم اے رشید کو ابتدا میں اداکاری کا شوق تھا مگر وہ اداکار کے بجائے ایک ہدایت کار کے روپ میں فلم انڈسٹری میں کامیاب ہوئے۔
انھوں نے پچاس ساٹھ کے قریب اردو اور پنجابی فلموں کی ڈائریکشن دی اس دوران آٹھ فلمیں خود بھی پروڈیوس کیں ، انھوں نے فلم ہزار داستان اور شاہی محل میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ پھر فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد وہ اپنی فیملی کے ساتھ لندن چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا تھا ۔ ان کی ایک بیٹی نادیہ رشید نے ٹیلی وژن سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا ہے اور اپنے باپ کے فنی ورثے کو آگے بڑھا رہی ہے۔
ایم اے رشید جدت پسند تھے۔ انھوں نے نئے نئے تجربات بھی کیے اور چھوٹے فنکاروں کو اہم کردار دیے اور وہ نام ور فنکار بن گئے۔ انھوں نے اداکار ظریف کو فلم پاٹے خان میں ہیرو کا کردار دیا حالانکہ دوستوں نے انھیں منع کیا۔ فلم پاٹے خاں نے کامیابی کے ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ظریف ہیرو کے رول میں کامیاب رہا ۔
ایم اے رشید نے میڈم نور جہاں کو اس فلم میں ہیروئن لیا تھا جب کہ مسرت نذیر کو سائیڈ اداکارہ کے طور پر کاسٹ کیا تھا۔ اسلم پرویز کو بھی پہلی بار بطور ہیرو اپنی فلم میں پیش کیا۔
اسلم پرویز کو ہدایت کار انور کمال پاشا نے اپنی فلم قاتل میں متعارف کرایا تھا جو ایک چھوٹا سا کردار تھا، اس فلم میں اسلم پرویز ، ضیاء کے نام سے منظر عام پر آیا تھا، بعد میں اسلم پرویز کے نام سے مشہور ہوا۔ پھر اسلم پرویز پاکستان کا نامور ولن بن گیا تھا۔ ایم اے رشید نے فلم آس پاس میں اداکار علاؤ الدین کو مرکزی کردار میںکاسٹ کیا۔ اس فلم کی بے مثال کامیابی کے بعد علاؤ الدین کو عوامی اداکار کا خطاب دیا گیا تھا۔
اداکار ساقی کو فلم لکھ پتی میں ٹائٹل رول میں کاسٹ کیا تھا۔ یہ فلم 1958 میں ریلیز ہوئی تھی، اس فلم میں ساقی کے ساتھ نگہت سلطانہ کو ہیروئن لیا تھا۔ فلم آنسو بن گئے موتی میں ڈھاکا کی فلم آرٹسٹ نسیمہ خان کو اداکارہ شمیم آرا کے ساتھ کاسٹ کیا تھا،شبنم تو بہت بعد میں لاہور کی فلموں میں آئی تھی مگر نسیمہ خان کو لاہور کا فلمی ماحول راس نہ آسکا تھا۔
اور پھر مذکورہ فلم کو زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی مگر ڈھاکا کے فلم آرٹسٹوں کے لیے لاہور کی فلم انڈسٹری کے راستے ہدایت کار ایم اے رشید نے ہی کھولے تھے، اسی طرح نیپال کے مشہور ایکشن ہیرو شیوا کو بھی اپنی فلم مضبوط میں ڈھاکا ہی کی ایک اور اداکارہ سبیتا کے ساتھ ہیرو کاسٹ کیا تھا۔ اس میں شیوا کے ساتھ مصطفیٰ قریشی کی ٹسل دکھائی گئی تھی، یہ فلم 1993 میں ریلیز ہوئی تھی اور فلم بینوں نے اس فلم کو کافی پسند کیا تھا۔
پاٹے خاں کے بعد ایم اے رشید نے پنجابی فلم میرا ناں پاٹے خاں بھی بنائی تھی جس میں ظریف کے چھوٹے بھائی منور ظریف کو ہیرو لیا تھا ، پھر منور ظریف بھی پنجابی فلموں کا ہیرو بن کر فلم انڈسٹری میں چھا گیا تھا۔ ہدایت کار ایم اے رشید نے اردو فلموں کے ساتھ ساتھ کئی پنجابی فلمیں بھی بنائیں، وہ سب کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، ان فلموں میں ''لال بجھکڑ'' ،'' تم سلامت رہو'' بنائی، اس فلم میں محمد علی اور وحید مراد کو پہلی بار اکھٹے کاسٹ کیا ۔ یہ دو بڑے ہیروز کی پہلی فلم تھی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نیا نیا لاہور کی فلم انڈسٹری میں بطور فلمی صحافی داخل ہوا تھا اور میں کراچی سے لاہور ہفت روزہ نگار ویکلی کا نمایندہ خاص بن کر آیا تھا۔
میری ایم اے رشید صاحب سے ایک دو بار فلم کے سیٹ پر ملاقاتیں رہی تھیں۔ ان کی کامیاب ترین فلموں میں راستے کا پتھر، ملن، آدمی، نصیب، قاتل کی تلاش، پناہ، صاحب جی اور آخری فلم ان کی تھی میری توبہ۔ اس فلم میں استاد نصرت فتح علی خاں کی آواز میں ایک شان دار قوالی بھی ریکارڈ کی گئی تھی۔ ان کی فلم دل میرا دھڑکن تیری کے گیتوں نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی اور مسعود رانا کی آواز میں ایک گیت بڑا ہٹ ہوا تھا جس کے بول تھے:جھوم اے دل وہ میرا جان بہار آئے گا
اس گیت کی وجہ سے مسعود رانا بھی احمد رشدی کے بعد معروف گلوکاروں کی صف میں آ گیا تھا۔ ہدایت کار ایم اے رشید کی فلم سرحد کی گود میں اداکارہ فردوس کی آخری اردو فلم تھی۔ بعد میں وہ پنجابی فلموں کی سپرہٹ ہیروئن بن گئی تھی۔
بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگا کہ ہدایت کار ایم اے رشید کو ابتدا میں اداکاری کا شوق تھا مگر وہ اداکار کے بجائے ایک ہدایت کار کے روپ میں فلم انڈسٹری میں کامیاب ہوئے۔
انھوں نے پچاس ساٹھ کے قریب اردو اور پنجابی فلموں کی ڈائریکشن دی اس دوران آٹھ فلمیں خود بھی پروڈیوس کیں ، انھوں نے فلم ہزار داستان اور شاہی محل میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ پھر فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد وہ اپنی فیملی کے ساتھ لندن چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہوا تھا ۔ ان کی ایک بیٹی نادیہ رشید نے ٹیلی وژن سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا ہے اور اپنے باپ کے فنی ورثے کو آگے بڑھا رہی ہے۔