بلوچستان اور قومی دھارا
حکومت اور اداروں کو اس کامیابی کے بعد بلوچستان کو اپنا سمجھنا ہوگا
بی ایل اے کے ایک اہم رہنما سرفراز بنگلزئی نے اپنے ستر ساتھیوں سمیت قومی دھارے میں شامل ہونے کے بعد پریس کانفرنس میں جو حقائق بیان کیے ہیں، وہ چونکا دینے والے بھی ہیں اور سبق آموز بھی۔ یہ حقائق بلوچستان کے ان افراد جو پراپیگنڈا کا شکار ہوکر مسلح گروہوں کا چارہ بنے اور بن رہے ہیں۔
ان کی آنکھیں کھولنے کے کافی ہے بلکہ ان سے زیادہ ان قوتوں کے لیے زیادہ لمحہ فکریہ ہے جن کی وجہ سے مسلح گروہ کو وجود میں لایا گیا تھا، یہ قوتیں بلوچستان کے عوام یا اپنے صوبے کو نہیں بلکہ اپنے ذاتی اور مالی مفاد کو مقدم رکھتی ہیں، انھوں نے بلوچ عوام کو گمراہ کرکے اپنی ہی ریاست سے متنفرکیا جس کے نتیجے میں بلوچستان کی محرومیاں کیا ختم ہونی تھیں، بلکہ وہ مزید بڑھ گئیں اور گیہوں کے ساتھ گھن پسنا شروع ہو گیا تھا جس سے غریب اور پسماندہ بلوچ عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ سارا نقصان انھی کا ہوا ہے۔
تمام فوائد سرداروں، سیاستدانوں اور سرکاری افسروں نے اٹھائے اور بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کی دہشت گردی کی سزا صرف بلوچستان کے غریب بلوچ عوام اور بلوچستان میں آباد دیگر صوبوں کے محنت کشوں نے بھگتی جن میں بھاری اکثریت کاتعلق پنجاب سے تھا۔
بلوچستان کے عام لوگوں کو تاثر دیا گیا کہ بلوچستان کی پسماندگی اور خراب حالات کے ذمے دار پنجاب سے تعلق رکھنے والے کاروباری افراد ، محنت کش اور سرکاری افسران ہیں جنھوں نے بلوچستان میں ترقی نہیں ہونے دی، کرپشن کی اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے بجائے بلوچوں کو دہشت گرد بنا کر پیش کیا۔ بلوچ نوجوانوں کو ہی نہیں بلکہ ان کے بڑوں اور خواتین تک کو نہیں بخشا گیا۔
دیکھنا یہ ہے کہ بلوچستان میںاس سارے کھیل کا بینیفشری کون سا گروہ ، طبقہ یا قومیت ہے؟ غور کیا جائے تو بلوچستان میں بلوچ عوام کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، سارے لاپتہ افراد بلوچ ہیں۔
بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں، سرکاری ملازمتوں اور کاروبار سے محروم بلوچ نوجوان ہیں، یوں جن بلوچوں کے نام پر پورا صوبہ بلوچستان قائم ہے، اس میں سب سے زیادہ غریب، پسماندہ اور مظالم کا شکار بلوچ عوام ہیں۔ پھر بلوچستان میں پنجابی آباد کاروں کا بھاری مالی اور جانی نقصان ہوا ہے، ہزارہ منگول لوگوں کا قتل عام کیا گیا ہے اور ان کا بھاری مالی نقصان ہوا ہے،بلوچستان میں آباد کسی اور کمیونٹی کا اتنا نقصان نہیں ہوا ہے ۔
ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے بھرپور کوشش کی تھی جو کامیاب اس لیے نہیں ہونے دی گئی کہ بلوچستان کو پہلی بار بلوچوں کا ہمدرد وزیر اعلیٰ ملا تھا جو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا تعلیم یافتہ مگر قبائلی سردار نہیں تھا۔
بہت سے حقائق ایک سابق کمانڈر نے بیان کرکے سب کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے اور وہ وجوہات بھی بتائی ہیں جن کے باعث وہ بی ایل اے کے مقاصد کے لیے کام کرتے تھے اور اپنے ملک سے بدظن ہوئے مگر انھیں تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ملا اور اپنے خاندانوں کا مستقبل بھی تباہ کیا،جس کا احساس اب انھیں ہوا تو واپس آئے مگر ان کے آنے سے نقصانات کی تلافی نہیں ہو سکتی ۔
سرفراز بنگلزئی نے حکومت بلوچستان کے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات کی موجودگی میں پریس کانفرنس میں بتایا کہ وہ سرکاری ملازم تھا، 2009 میں بی ایل اے میں شامل ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ صرف بھارت نہیں بلکہ افغانستان کی موجودہ اور گزشتہ حکومتیں بھی بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی مکمل مدد کرتی رہی ہیں جس سے بلوچ عوام کو کوئی بھی فائدہ نہیں بلکہ بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
نگراں وزیر اعظم انور کاکڑ نے سابق عسکریت پسندوں کے قومی دھارے میں آنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ریاست اور ادارے ایک ہم آہنگی کے نقطہ نظر کے تحت امن کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے نتیجے میں جنگجو قومی دھارے میں واپس آ رہے ہیں جس سے صوبے میں دیرپا امن قائم ہوگا ۔
بی ایل اے کے سابق سربراہ گلزار امام شنبے کے بعد سرفراز بنگلزئی کے 70 ساتھیوں سمیت قومی دھارے میں شمولیت بلوچستان میں امن کے لیے بڑی کامیابی ہے اور توقع ہے کہ باقی عسکریت پسند بھی واپس قومی دھارے میں آجائیں گے۔
سرفراز بنگلزئی نے بھی بلوچستان میں کی جانے والی کرپشن کی نشاندہی کی ہے اور کہا کہ صوبے کے لیے ملنے والی حکومتی امداد اگر نصف بھی خرچ ہوتی تو ترقی نظر آتی۔ اب بھی عسکریت پسندوں کو حقائق جان کر مسلح جدوجہد ختم کردینی چاہیے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں اور صوبے میں خوشحالی آئے۔
حکومت اور اداروں کو اس کامیابی کے بعد بلوچستان کو اپنا سمجھنا ہوگا جس کے ساتھ ہر طرف سے زیادتیاں اور ناانصافیاں ہوئیں جن کا فوری ازالہ کرنا ہوگا اور عملی طور پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن سے غلطیوں کی تلافی ممکن ہو سکے ۔