’’کس کی پرچھائیں ہے ‘‘
’امی جان‘ کے رویوں کو کچھ اصلاح کی ضرورت ہے
کہتے ہیں بیٹی اپنی ماں کی پرچھائی ہوتی ہے۔ میں اس بات سے سو فی صد متفق نہیں، لیکن پھر بھی اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ بیٹی ماں کا عکس ہوتی ہے، تو پھر ہمارے معاشرے کا دوسرا اہم کردار 'مرد' یعنی کہ بیٹا کس کی پرچھائی ہوگا؟
بہت سے قارئین کا جواب یقیناً یہ ہی ہوگا کہ بیٹا باپ کی پرچھائی ہوتا ہے! لیکن اس سوال کا جواب آپ کے سوچنے کے لیے چھوڑے دیتے ہیں اور مضمون کے آخر میں آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ بیٹا کس کی پرچھائی ہوتا ہے؟
اولاد چاہے بیٹا ہو یا بیٹی اس کی پہلی تربت گاہ اور درس گاہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے۔ اس ننھے پودے کی آب یاری میں یقیناً ماں اور باپ دونوں کا اپنا اپنا کردار ہے، لیکن بچہ چوں کہ دن کا بیش تر حصہ ماں کے ساتھ ہوتا ہے اس کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی وابستگی زیادہ تر ماں کے ساتھ ہوتی ہے لہٰذا بیٹا ہو یا بیٹی، اس کی پروان چڑھتی شخصیت اور تربیت میں 'امی جان' کا بہت اہم کردار ہے۔
جو خرابی، جو کمزوری آپ کو اپنی اولاد میں نظر آتی ہے، والدین خصوصاً 'امی جان' کو سب سے پہلے وہ سقم اپنے اندر ڈھونڈنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے جتنا ضروری اور اہم بیٹیوں کی تربیت کو سمجھا جاتا ہے اس کا آدھا فی صد بھی اگر لڑکوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے اندر احساس ذمہ داری اجاگر کرنے کو ضروری سمجھا جائے اور توانائیاں لڑکوں کی تربیت میں صَرف کریں، تویقیناً ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے معاشرے کے بہت سے مسائل کا حل بہ آسانی نکل سکتا ہے۔
لڑکی کی پیدائش سے ہی اس کے دوسرے گھر جانے کی فکر 'امی جان' کا رویہ بیٹیوں کے ساتھ تھوڑا متعصب بنا دیتی ہے، کیوں کہ خود 'امی جان' یہ ہی سن سن کر جوان ہوئی ہوتی ہیں کہ 'معاشرے کی تشکیل عورت کی ذمہ داری ہے' 'ایک عورت سات پیڑھیاں سنوار یا بگاڑ دیتی ہے۔
وغیرہ وغیرہ اور شاید یہ ہی وجہ سے کہ معاشرے کی تشکیل اور ساتوں پیڑھیوں کے بگڑنے سنورنے میں سے لڑکے کی تربیت مائنس ہو جاتی ہے اور تربیت کا سارا محور صرف بیٹی ہی رہ جاتی ہے، جب کہ اگر لڑکیوں کی تعلیم و تربیت سے دو گھرانے اور سات نسلیں متاثر ہوتی ہیں، تو دوسری طرف لڑکوں کو ذمہ دار بنانے اور معیاری تربیت سے نہ صرف دو خاندان اور سات نسلوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، بلکہ معاشرے بھی مثبت سمت میں آگے بڑھتا ہے۔
عمومی مشاہدہ اور تجربہ یہ ہی کہتا ہے کہ بیٹیاں باپ کی اور بیٹے ماں کے لاڈلے ہوتے ہیں، لیکن ماؤں کا بیٹوں سے بے جا لاڈ، غلطی پر ان کی حمایت، ضرورت سے زیادہ بیٹوں کے ساتھ لگاؤ اور ان کو ذمہ داری کا احساس نہ دلانا، 'اپنے پلو سے باندھ کر رکھنا' نہ صرف کم عمری، بلکہ ان کی آئندہ عملی زندگی کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
جب بچپن ہی سے ماں نے بیٹے کو ذمہ داری کا احساس ہی نہ دلایا ہو، اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینے کے بہ جائے اس کے آرام اور آسائشوں کو ترجیح دی ہو، تو 20، 22 سال بعد کیسے کسی لڑکے سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ عملی زندگی میں وہ ایک کارآمد شہری، ذمہ دار باپ اور شوہر کا کردار بخوبی نبھا سکتا ہے۔
بیٹوں کی تربیت میں جہاں ماں کا کردار اہم ہے وہیں والد کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے، لیکن ماؤں کے لیے بیٹوں کی تربیت کا خاص خیال رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کا بیرونی دنیا سے واسطہ زیادہ پڑتا ہے اور کیوں کہ بیٹے ماؤں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور 'امی جان' کی بات زیادہ پُراثر بھی ہوتی ہے۔
لہٰذا 'امی جان' کو چاہیے کہ وہ بیٹوں کی کمزوریوں اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کو چھپانے اور ان کو اپنے لاڈ پیار کا آنچل سے لپیٹنے کے بہ جائے، پہلے اپنا اور اپنی تربیت کا احتساب اورتجزیہ کریں اور پھر اپنے بیٹوں کی ان کمزوریوں پر محنت کریں، تاکہ یہ بیٹے علمی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد ملک و قوم کا سرمایہ بن سکیں اور معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔
بیٹوں کی تربیت میں 'امی جان' کے لیے یہ بات خاصی تسلی بخش ہوتی کہ ان کا بیٹا ان کا فرماں بردار ہے اور ان کا حکم ایک آواز پر بجالاتا ہے اور 'امی جان' کو اپنے بیٹے پر مکمل کنٹرول حاصل ہے، لیکن کیا 'امی جان' نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اتنا کنٹرول کرنے کے بعد کیا بیٹے کا اپنی عملی زندگی پر کنٹرول برقرار رہے گا؟ کیا امی جان کا فرماں بردار بیٹا اپنے پروفیشن، اپنی زندگی کے بارے میں کوئی آزادانہ رائے، سوچ یا فیصلہ کر پائے گا؟ کسی قسم کی ایمرجینسی کی صورت میں یا ضرورت پڑنے پر 'امی جان' کے لیے بھی کوئی اچھا فیصلہ لے پائے گا؟ یا پھر زندگی کے ہر قدم پر اور ہر فیصلے کی توثیق کے لیے وہ 'امی جان' کی اشارے کا منتظر رہے گا؟
عموماً 'امی جان' کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے لاڈلے کو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا جائے۔ کسی قسم کی بدتمیزی یا ضد کی صورت میں بھی 'امی جان' جان آپ کو بیٹے کی طرف داری کرتی ہی ملیں گی۔ مثال کے طور پر بیٹا اسکول سے آیا ہے (جو کہ صبح بھی خاصے نخرے بہانے کرنے کے بعد اسکول جانے کے لیے تیار ہوا تھا) اور اب اس کے قرآن پڑھنے یا ٹیوشن جانے کا وقت ہے، لیکن برخوردار نہ جانے کی ضد کر رہے ہیں اور بڑی بہن کہہ رہی ہے کہ تم روز ایسا ہی کرتے ہو، کتنے روز سے نہیں جا رہے۔
آج تو چلے جاؤ وغیرہ وغیرہ۔ تو پیچھے سے 'امی جان' نہ صرف بیٹے کی طرف داری کریں گی، بلکہ بڑی بہن کو ایسے میں ڈانٹ بھی پڑ جاتی ہے اور 'امی جان' کا بہن سے کہنا ہوگا کہ روز بچے کو رلاتی ہو، اس کے پیچھے ہی پڑ جاتی ہو، تھکا ہارا اسکول سے آیا ہے۔
اسے آرام کرنے دو۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ جی 'امی جان' کے اس ہی رویے کی وجہ سے 'بڑے بھیا' بھی آج تک نہ قرآن پڑھ سکے، نہ دنیاوی تعلیم میں کام یاب ہو سکے اور نہ ہی اپنی سمجھ بوجھ سے زندگی کا کوئی فیصلہ لے سکے۔ بیس سال کی عمر میں بھی بیٹے کے کپڑے 'امی جان' ہی استری کرتی ہیں، صبح ناشتے کی میز پر پراٹھے کے نوالے اپنے ہاتھ سے بنا کر کھلاتی ہیں اور جوتوں کے لیس 'ابو جان' باندھ کر دیتے ہیں، کیوں کہ برخوردار نے تو آج تک اپنے جوتے کے لیس کبھی باندھے ہی نہیں۔
تو سوچیے، ایسی صورت حال میں جب 20، 22 سال کا لڑکا صبح سے لے کر رات تک اپنے کاموں کے لیے 'امی جان' اور گھر کے دوسرے افراد کا محتاج ہے، تو آئندہ عملی زندگی میں کسی کو مشورہ دینے سے لے کردوسرے کا سہارا کیسے بنے گا؟ اپنے خاندان کی بہتری اور مستقبل کے لیے زندگی میں آزادانہ فیصلے اور اقدامات کیسے کرے گا؟
یہ تو ہو چند مثالیں تھیں، جو پرورش اور تربیت کے دوران 'امی جان' کو پتا نہیں چلتی۔ ورنہ رات کو دیر سے گھر آنے سے لے کر گلی محلے کے چبوتروں پر کبوتروں کی طرح بیٹھ کر وقت برباد کرنے تک اور ایسی نہ جانے کتنی مثالیں موجود ہیں جن کو نہ صرف 'امی جان' بلکہ 'ابو جان' اور خاندان کے دیگر افراد بھی اس لیے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ 'لڑکا ہی تو یہ نہیں کرے گا تو کیا کرے گا' ' شکر ہے گھر کے آگے نظروں کے سامنے ہی ہے' چاہے وہ 'امی جان' کی نظروں کے سامنے اپنا وقت برباد کرے لیکن 'نظروں سے دور' ہوکر کوئی تعمیری یا تخلیقی کام نہ کرے!
یہ عمومی مشاہدہ ہے یعنی کہ عام طور پر 70 فی صد (یہ تناسب زیادہ بھی ہو سکتا ہے) ہمارے معاشرے کی 'امی جان' اپنے بیٹوں کی اس ہی طرح تربیت کرتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ ساری امی جان ایسی ہوں۔ یقیناً ہمارے معاشرے میں ایسی مائیں بھی ہیں جو اپنے بیٹوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دہتی ہیں۔
عورت جس روپ اور جیسے کپڑوں میں ہو اس کی عزت کرنے سے لے احساس ذمہ داری اجاگر کرنے تک ان کی مکمل تربیت کر کے ان کو معاشرے کا ایک فعال اور کارآمد انسان بناتی ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے کے بہ جائے ان کی تربیت ان اطوار پر کرتی ہیں کہ ان کو اپنی تربیت اور بیٹوں پر مکمل اعتماد ہوتا ہے اور چوں کہ ان بیٹوں کی تربیت مکمل اور جامع ہوئی ہوتی ہے اس لیے پھر ماؤں کو ان کو کنٹرول کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ اب یہ اپنے خود فیصلہ کرنا ہے کہ بیٹا 'امی جان' کی پرچھائی ہوتا ہے یا پھر 'ابو جان' کی!
بہت سے قارئین کا جواب یقیناً یہ ہی ہوگا کہ بیٹا باپ کی پرچھائی ہوتا ہے! لیکن اس سوال کا جواب آپ کے سوچنے کے لیے چھوڑے دیتے ہیں اور مضمون کے آخر میں آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ بیٹا کس کی پرچھائی ہوتا ہے؟
اولاد چاہے بیٹا ہو یا بیٹی اس کی پہلی تربت گاہ اور درس گاہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے۔ اس ننھے پودے کی آب یاری میں یقیناً ماں اور باپ دونوں کا اپنا اپنا کردار ہے، لیکن بچہ چوں کہ دن کا بیش تر حصہ ماں کے ساتھ ہوتا ہے اس کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی وابستگی زیادہ تر ماں کے ساتھ ہوتی ہے لہٰذا بیٹا ہو یا بیٹی، اس کی پروان چڑھتی شخصیت اور تربیت میں 'امی جان' کا بہت اہم کردار ہے۔
جو خرابی، جو کمزوری آپ کو اپنی اولاد میں نظر آتی ہے، والدین خصوصاً 'امی جان' کو سب سے پہلے وہ سقم اپنے اندر ڈھونڈنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے جتنا ضروری اور اہم بیٹیوں کی تربیت کو سمجھا جاتا ہے اس کا آدھا فی صد بھی اگر لڑکوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے اندر احساس ذمہ داری اجاگر کرنے کو ضروری سمجھا جائے اور توانائیاں لڑکوں کی تربیت میں صَرف کریں، تویقیناً ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ ساتھ ہی ہمارے معاشرے کے بہت سے مسائل کا حل بہ آسانی نکل سکتا ہے۔
لڑکی کی پیدائش سے ہی اس کے دوسرے گھر جانے کی فکر 'امی جان' کا رویہ بیٹیوں کے ساتھ تھوڑا متعصب بنا دیتی ہے، کیوں کہ خود 'امی جان' یہ ہی سن سن کر جوان ہوئی ہوتی ہیں کہ 'معاشرے کی تشکیل عورت کی ذمہ داری ہے' 'ایک عورت سات پیڑھیاں سنوار یا بگاڑ دیتی ہے۔
وغیرہ وغیرہ اور شاید یہ ہی وجہ سے کہ معاشرے کی تشکیل اور ساتوں پیڑھیوں کے بگڑنے سنورنے میں سے لڑکے کی تربیت مائنس ہو جاتی ہے اور تربیت کا سارا محور صرف بیٹی ہی رہ جاتی ہے، جب کہ اگر لڑکیوں کی تعلیم و تربیت سے دو گھرانے اور سات نسلیں متاثر ہوتی ہیں، تو دوسری طرف لڑکوں کو ذمہ دار بنانے اور معیاری تربیت سے نہ صرف دو خاندان اور سات نسلوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، بلکہ معاشرے بھی مثبت سمت میں آگے بڑھتا ہے۔
عمومی مشاہدہ اور تجربہ یہ ہی کہتا ہے کہ بیٹیاں باپ کی اور بیٹے ماں کے لاڈلے ہوتے ہیں، لیکن ماؤں کا بیٹوں سے بے جا لاڈ، غلطی پر ان کی حمایت، ضرورت سے زیادہ بیٹوں کے ساتھ لگاؤ اور ان کو ذمہ داری کا احساس نہ دلانا، 'اپنے پلو سے باندھ کر رکھنا' نہ صرف کم عمری، بلکہ ان کی آئندہ عملی زندگی کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
جب بچپن ہی سے ماں نے بیٹے کو ذمہ داری کا احساس ہی نہ دلایا ہو، اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینے کے بہ جائے اس کے آرام اور آسائشوں کو ترجیح دی ہو، تو 20، 22 سال بعد کیسے کسی لڑکے سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ عملی زندگی میں وہ ایک کارآمد شہری، ذمہ دار باپ اور شوہر کا کردار بخوبی نبھا سکتا ہے۔
بیٹوں کی تربیت میں جہاں ماں کا کردار اہم ہے وہیں والد کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے، لیکن ماؤں کے لیے بیٹوں کی تربیت کا خاص خیال رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ان کا بیرونی دنیا سے واسطہ زیادہ پڑتا ہے اور کیوں کہ بیٹے ماؤں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور 'امی جان' کی بات زیادہ پُراثر بھی ہوتی ہے۔
لہٰذا 'امی جان' کو چاہیے کہ وہ بیٹوں کی کمزوریوں اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کو چھپانے اور ان کو اپنے لاڈ پیار کا آنچل سے لپیٹنے کے بہ جائے، پہلے اپنا اور اپنی تربیت کا احتساب اورتجزیہ کریں اور پھر اپنے بیٹوں کی ان کمزوریوں پر محنت کریں، تاکہ یہ بیٹے علمی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد ملک و قوم کا سرمایہ بن سکیں اور معاشرے میں اپنا فعال کردار ادا کر سکیں۔
بیٹوں کی تربیت میں 'امی جان' کے لیے یہ بات خاصی تسلی بخش ہوتی کہ ان کا بیٹا ان کا فرماں بردار ہے اور ان کا حکم ایک آواز پر بجالاتا ہے اور 'امی جان' کو اپنے بیٹے پر مکمل کنٹرول حاصل ہے، لیکن کیا 'امی جان' نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اتنا کنٹرول کرنے کے بعد کیا بیٹے کا اپنی عملی زندگی پر کنٹرول برقرار رہے گا؟ کیا امی جان کا فرماں بردار بیٹا اپنے پروفیشن، اپنی زندگی کے بارے میں کوئی آزادانہ رائے، سوچ یا فیصلہ کر پائے گا؟ کسی قسم کی ایمرجینسی کی صورت میں یا ضرورت پڑنے پر 'امی جان' کے لیے بھی کوئی اچھا فیصلہ لے پائے گا؟ یا پھر زندگی کے ہر قدم پر اور ہر فیصلے کی توثیق کے لیے وہ 'امی جان' کی اشارے کا منتظر رہے گا؟
عموماً 'امی جان' کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے لاڈلے کو ہاتھ کا چھالا بنا کر رکھا جائے۔ کسی قسم کی بدتمیزی یا ضد کی صورت میں بھی 'امی جان' جان آپ کو بیٹے کی طرف داری کرتی ہی ملیں گی۔ مثال کے طور پر بیٹا اسکول سے آیا ہے (جو کہ صبح بھی خاصے نخرے بہانے کرنے کے بعد اسکول جانے کے لیے تیار ہوا تھا) اور اب اس کے قرآن پڑھنے یا ٹیوشن جانے کا وقت ہے، لیکن برخوردار نہ جانے کی ضد کر رہے ہیں اور بڑی بہن کہہ رہی ہے کہ تم روز ایسا ہی کرتے ہو، کتنے روز سے نہیں جا رہے۔
آج تو چلے جاؤ وغیرہ وغیرہ۔ تو پیچھے سے 'امی جان' نہ صرف بیٹے کی طرف داری کریں گی، بلکہ بڑی بہن کو ایسے میں ڈانٹ بھی پڑ جاتی ہے اور 'امی جان' کا بہن سے کہنا ہوگا کہ روز بچے کو رلاتی ہو، اس کے پیچھے ہی پڑ جاتی ہو، تھکا ہارا اسکول سے آیا ہے۔
اسے آرام کرنے دو۔ بعد میں پتا چلتا ہے کہ جی 'امی جان' کے اس ہی رویے کی وجہ سے 'بڑے بھیا' بھی آج تک نہ قرآن پڑھ سکے، نہ دنیاوی تعلیم میں کام یاب ہو سکے اور نہ ہی اپنی سمجھ بوجھ سے زندگی کا کوئی فیصلہ لے سکے۔ بیس سال کی عمر میں بھی بیٹے کے کپڑے 'امی جان' ہی استری کرتی ہیں، صبح ناشتے کی میز پر پراٹھے کے نوالے اپنے ہاتھ سے بنا کر کھلاتی ہیں اور جوتوں کے لیس 'ابو جان' باندھ کر دیتے ہیں، کیوں کہ برخوردار نے تو آج تک اپنے جوتے کے لیس کبھی باندھے ہی نہیں۔
تو سوچیے، ایسی صورت حال میں جب 20، 22 سال کا لڑکا صبح سے لے کر رات تک اپنے کاموں کے لیے 'امی جان' اور گھر کے دوسرے افراد کا محتاج ہے، تو آئندہ عملی زندگی میں کسی کو مشورہ دینے سے لے کردوسرے کا سہارا کیسے بنے گا؟ اپنے خاندان کی بہتری اور مستقبل کے لیے زندگی میں آزادانہ فیصلے اور اقدامات کیسے کرے گا؟
یہ تو ہو چند مثالیں تھیں، جو پرورش اور تربیت کے دوران 'امی جان' کو پتا نہیں چلتی۔ ورنہ رات کو دیر سے گھر آنے سے لے کر گلی محلے کے چبوتروں پر کبوتروں کی طرح بیٹھ کر وقت برباد کرنے تک اور ایسی نہ جانے کتنی مثالیں موجود ہیں جن کو نہ صرف 'امی جان' بلکہ 'ابو جان' اور خاندان کے دیگر افراد بھی اس لیے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ 'لڑکا ہی تو یہ نہیں کرے گا تو کیا کرے گا' ' شکر ہے گھر کے آگے نظروں کے سامنے ہی ہے' چاہے وہ 'امی جان' کی نظروں کے سامنے اپنا وقت برباد کرے لیکن 'نظروں سے دور' ہوکر کوئی تعمیری یا تخلیقی کام نہ کرے!
یہ عمومی مشاہدہ ہے یعنی کہ عام طور پر 70 فی صد (یہ تناسب زیادہ بھی ہو سکتا ہے) ہمارے معاشرے کی 'امی جان' اپنے بیٹوں کی اس ہی طرح تربیت کرتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ ساری امی جان ایسی ہوں۔ یقیناً ہمارے معاشرے میں ایسی مائیں بھی ہیں جو اپنے بیٹوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دہتی ہیں۔
عورت جس روپ اور جیسے کپڑوں میں ہو اس کی عزت کرنے سے لے احساس ذمہ داری اجاگر کرنے تک ان کی مکمل تربیت کر کے ان کو معاشرے کا ایک فعال اور کارآمد انسان بناتی ہیں۔ ان کو کنٹرول کرنے کے بہ جائے ان کی تربیت ان اطوار پر کرتی ہیں کہ ان کو اپنی تربیت اور بیٹوں پر مکمل اعتماد ہوتا ہے اور چوں کہ ان بیٹوں کی تربیت مکمل اور جامع ہوئی ہوتی ہے اس لیے پھر ماؤں کو ان کو کنٹرول کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ اب یہ اپنے خود فیصلہ کرنا ہے کہ بیٹا 'امی جان' کی پرچھائی ہوتا ہے یا پھر 'ابو جان' کی!