تبدیلی قبول کیجیے
وقت کے مُثبت تغیر کو اپنانے میں حرج نہیں
ایک سوال جس کا سامنا ہم سب کو زندگی میں رہتا ہے وہ ہے کہ آپ کیا کرتی ہیں؟ اگر آپ شادی شدہ خاتون ہیں اور پھر آپ سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کیا کرتی ہیں۔ تو پاکستان میں 60 سے 70 فی صد خواتین کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ وہ 'خاتونِ خانہ' ہیں اور جب یہ جواب دیا جاتاہے تو آگے سے کچھ اس قسم کا ردعمل ہوتا ہے مطلب کچھ نہیں کرتیں!!
کیا مطلب کچھ نہیں کرتیں؟ اس ردعمل پر روہانسا ہونا تو بنتا ہے، کیوں کہ شوہر، بچے اور گھر سنبھالنا آسان کام نہیں ہوتا صبح سے رات ہوجاتی ہیں اور کام ہوتے ہیں کہ ختم نہیں ہوتے۔
مگر آج کے اس میڈیا کے دور نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، سوچنے کا انداز بیٹھنا، اٹھنا، رہنا، سہنا سب کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ زندگی کے طور طریقے بھی صبح کو ٹی وی پر چلنے والے مارننگ شو سے سیکھے اور سمجھے جاتے ہیں۔ آج کل کی خواتین ڈراموں کے کرداروں والی خواتین کی مداح ہیں، جو خود مختار ہیں اور اگر وہ نہیں ہے تو اس بات کا پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ گھاٹے کا سودا کر رہی ہیں، یہی وجہ کہ جو خواتین یہ جواب دیتی ہیں کہ وہ 'خاتونِ خانہ' ہیں، تو انھیں پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔
پھر آج کل کی اشتہاروں کی کیا بات ہے جن میں یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ آج کل کی لڑکیاں تو کچھ نہیں کرتیں، پرانے زمانے کی عورتیں کپڑے ہاتھ سے دھوتی تھیں اور مسالے بھی سل بٹے پر پیستی تھیں۔ یہ اشتہار صرف اشتہار نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی وہ حقیقت ہے، جس پر بات نہیں کی جاتی، ہم اگر آج سے پچیس، پچاس سال پیچھے چلے جائیں تو لڑکیوں کی عمو می طور پر شادیاں 16سے 18 سال کی عمر میں ہو جاتی تھی, تعلیم بھی واجبی سی ہوتی تھی۔
عام طور پر ماسیاں رکھنے کا رواج نہیں تھا اور باورچی خانے میں مسالے پیسے جاتے، اچار ڈالے جاتے، روٹی خود پکائی جاتی اور سبزیوں کا استعمال بھی کیا جاتا، اس لیے لڑکیوں کا وقت باورچی خانے اور گھر کے کاموں میں صَرف ہو جاتا تھا اور زندگی کا مقصد گھر، چولھا ہانڈی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا تھا۔
مگر آج کے دور میں باورچی خانے میں جتنا مشینوں کا استعمال ہے، اتنا کسی بھی جگہ پر نہیں چوپر، بلینڈر، ہینڈ بلینڈر غرض یہ ہر قسم کی مشینیں موجود ہیںاور پھر ہم دیکھتے ہیںکہ وقت بدل چکا ہے، آج لڑکیاں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں اور انھیں والدین کی طرف سے تائید بھی ملتی ہے تو وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں اور اپنی قابلیت کے بل بوتے پر خود مختار بھی ہوتی ہیں۔
اسی لیے جب شادی کے بعد عمومی طور پر ساسوں کی طرف سے یہ زور دیا جاتا ہے کہ نوکری چھوڑو، گھر گرہستی سنبھالو تو ان لڑکیوں کے لیے اس چیز کو ہضم کرنا کافی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ ان کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں جس حلقے میں ان کا اٹھنا بیٹھنا ہے، وہاں اس جواب پر کہ وہ ایک 'خاتون خانہ' ہیں، یہی ردعمل ملے گا کچھ نہیں کرتی۔
اس لیے میرا سوال ان ساسوں سے یہ ہے کہ آج کے مشینی دور میں جہاں گھر کے کام صرف چند گھنٹوںپر محیط ہیں، چوں کہ آج کل سب کاموں کے لیے مشینیں موجود ہیں، ایسے میں اگر آپ ایک پڑھی لکھی بہو کو صرف گھر کے کاموں میں الجھا رہی ہیں تو کیا آپ کی نظر میں یہ ایک عقل مندی ہے؟ وقت کے ساتھ بدلنا ضروری ہوتا ہے، اگر آپ وقت کے ساتھ بدلیںگی تو ہو سکتا ہے کہ کسی کے خواب ٹوٹنے سے بچ جائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری نہیں نوکری ہی کی جائے یا گھر کے باہر جا کر ہی کمایا جائے، آج کل لڑکیاں گھر بیٹھ کر اپنی قابلیت اپنے اور اپنے بچوں کے استعمال میں لا رہی ہیں، اگر آپ کو بہو کا باہر جا کر کام کرنا پسند نہیں، تو اس کا اتنا ساتھ دیں کہ وہ 'آن لائن' کام کر سکے، ٹیوشن پڑھا سکے کچھ نہیں تو آپ کے ساتھ ملکر کسی چھوٹے سے کاروبار ہی کا آغاز کر سکے۔ آپ بھی بہو کا ساتھ دے نیک نیتی کے ساتھ کاروبار کرنے کا فیصلہ کریں، اور خود بھی معاشی جدوجہد میں حصے دارے بنیں۔
میرا تو بس یہی خیال ہے کہ وقت کے ساتھ خود کو بدلے اس فرق کو سمجھے کہ دور بدل چکا ہے، آج کم وقت میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اگر نیت صاف ہو اور زندگی کا مقصد اچھا ہو، تو اپنی بھی اور سامنے والے کی بھی زندگی بہتر ہو سکتی ہے، تو پھر کیا خیال ہے آج کی اور پچھلی صدی کے فرق کو سمجھ کر جینا ہے یا پھر پرانے زمانے میں جی کر خود کو پرانا ہی رکھنا ہے اور دوسروں کی نظر میں دقیانوسی بن کر زندگی کو دوریوں میں گزارنا ہے؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!
کیا مطلب کچھ نہیں کرتیں؟ اس ردعمل پر روہانسا ہونا تو بنتا ہے، کیوں کہ شوہر، بچے اور گھر سنبھالنا آسان کام نہیں ہوتا صبح سے رات ہوجاتی ہیں اور کام ہوتے ہیں کہ ختم نہیں ہوتے۔
مگر آج کے اس میڈیا کے دور نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے، سوچنے کا انداز بیٹھنا، اٹھنا، رہنا، سہنا سب کچھ تبدیل کر دیا ہے۔ زندگی کے طور طریقے بھی صبح کو ٹی وی پر چلنے والے مارننگ شو سے سیکھے اور سمجھے جاتے ہیں۔ آج کل کی خواتین ڈراموں کے کرداروں والی خواتین کی مداح ہیں، جو خود مختار ہیں اور اگر وہ نہیں ہے تو اس بات کا پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ گھاٹے کا سودا کر رہی ہیں، یہی وجہ کہ جو خواتین یہ جواب دیتی ہیں کہ وہ 'خاتونِ خانہ' ہیں، تو انھیں پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔
پھر آج کل کی اشتہاروں کی کیا بات ہے جن میں یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ آج کل کی لڑکیاں تو کچھ نہیں کرتیں، پرانے زمانے کی عورتیں کپڑے ہاتھ سے دھوتی تھیں اور مسالے بھی سل بٹے پر پیستی تھیں۔ یہ اشتہار صرف اشتہار نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کی وہ حقیقت ہے، جس پر بات نہیں کی جاتی، ہم اگر آج سے پچیس، پچاس سال پیچھے چلے جائیں تو لڑکیوں کی عمو می طور پر شادیاں 16سے 18 سال کی عمر میں ہو جاتی تھی, تعلیم بھی واجبی سی ہوتی تھی۔
عام طور پر ماسیاں رکھنے کا رواج نہیں تھا اور باورچی خانے میں مسالے پیسے جاتے، اچار ڈالے جاتے، روٹی خود پکائی جاتی اور سبزیوں کا استعمال بھی کیا جاتا، اس لیے لڑکیوں کا وقت باورچی خانے اور گھر کے کاموں میں صَرف ہو جاتا تھا اور زندگی کا مقصد گھر، چولھا ہانڈی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا تھا۔
مگر آج کے دور میں باورچی خانے میں جتنا مشینوں کا استعمال ہے، اتنا کسی بھی جگہ پر نہیں چوپر، بلینڈر، ہینڈ بلینڈر غرض یہ ہر قسم کی مشینیں موجود ہیںاور پھر ہم دیکھتے ہیںکہ وقت بدل چکا ہے، آج لڑکیاں تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں اور انھیں والدین کی طرف سے تائید بھی ملتی ہے تو وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں اور اپنی قابلیت کے بل بوتے پر خود مختار بھی ہوتی ہیں۔
اسی لیے جب شادی کے بعد عمومی طور پر ساسوں کی طرف سے یہ زور دیا جاتا ہے کہ نوکری چھوڑو، گھر گرہستی سنبھالو تو ان لڑکیوں کے لیے اس چیز کو ہضم کرنا کافی مشکل ہوتا ہے، کیوں کہ ان کو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں جس حلقے میں ان کا اٹھنا بیٹھنا ہے، وہاں اس جواب پر کہ وہ ایک 'خاتون خانہ' ہیں، یہی ردعمل ملے گا کچھ نہیں کرتی۔
اس لیے میرا سوال ان ساسوں سے یہ ہے کہ آج کے مشینی دور میں جہاں گھر کے کام صرف چند گھنٹوںپر محیط ہیں، چوں کہ آج کل سب کاموں کے لیے مشینیں موجود ہیں، ایسے میں اگر آپ ایک پڑھی لکھی بہو کو صرف گھر کے کاموں میں الجھا رہی ہیں تو کیا آپ کی نظر میں یہ ایک عقل مندی ہے؟ وقت کے ساتھ بدلنا ضروری ہوتا ہے، اگر آپ وقت کے ساتھ بدلیںگی تو ہو سکتا ہے کہ کسی کے خواب ٹوٹنے سے بچ جائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری نہیں نوکری ہی کی جائے یا گھر کے باہر جا کر ہی کمایا جائے، آج کل لڑکیاں گھر بیٹھ کر اپنی قابلیت اپنے اور اپنے بچوں کے استعمال میں لا رہی ہیں، اگر آپ کو بہو کا باہر جا کر کام کرنا پسند نہیں، تو اس کا اتنا ساتھ دیں کہ وہ 'آن لائن' کام کر سکے، ٹیوشن پڑھا سکے کچھ نہیں تو آپ کے ساتھ ملکر کسی چھوٹے سے کاروبار ہی کا آغاز کر سکے۔ آپ بھی بہو کا ساتھ دے نیک نیتی کے ساتھ کاروبار کرنے کا فیصلہ کریں، اور خود بھی معاشی جدوجہد میں حصے دارے بنیں۔
میرا تو بس یہی خیال ہے کہ وقت کے ساتھ خود کو بدلے اس فرق کو سمجھے کہ دور بدل چکا ہے، آج کم وقت میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اگر نیت صاف ہو اور زندگی کا مقصد اچھا ہو، تو اپنی بھی اور سامنے والے کی بھی زندگی بہتر ہو سکتی ہے، تو پھر کیا خیال ہے آج کی اور پچھلی صدی کے فرق کو سمجھ کر جینا ہے یا پھر پرانے زمانے میں جی کر خود کو پرانا ہی رکھنا ہے اور دوسروں کی نظر میں دقیانوسی بن کر زندگی کو دوریوں میں گزارنا ہے؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!