سوچ بدلنے کی ضرورت

بے جوڑ ناتے سے صنفِ نازک کے ساتھ ساتھ صنف قوی کی زندگی بھی تباہ ہو جاتی ہے


ثمرہ کاشف January 09, 2024

سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان کہلاتا ہے۔ یعنی معاشرہ یا سماج خاندان سے تشکیل پاتا ہے اور خاندان کی شروعات 'شادی' سے ہوتی ہے۔ گویا یہ بندھن ایک نہایت اہم معاملہ ہے۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہم اس نازک اور حساس موضوع پر کھل کر یا مُثبت طریقے سے بات نہیں کرتے۔ لکھنے والوں نے اس جذباتی مسئلے کو ہیجانی خلجان سے زیادہ کم ہی سمجھا ہے، اس پر کہانیاں بُنیں، افسانے لکھے، فلمیں اور ڈرامے تخلیق کیے۔ لیکن خاندان کی اس بنیادی سوچ اور بدلتے ہوئے چینلجوں پر شاذ ونادر ہی بات کی۔

ہاں بات کی تو 'آزادی' کے نام پر اس بندھن کو جبر بنا کر دکھانے کی اور اسے توڑ کر مادر پدر آزاد ہونے کی۔ میری زندگی، میری مرضی، میں 'کوئی غلام نہیں' نام کے نعروں سے۔ یہ بندھن مقدس و خوب صورت ہونے کے ساتھ ساتھ ذمے داری اور فرائض سے بھی آراستہ ہے، جب ازدواج باقاعدہ اس ناتے سے منسلک ہوتے ہیں ، تو دونوں ہی اس کے تقاضے انتہائی ذمے داری اور دیانت داری سے نبھانے کے پابند ہو جاتے ہیں۔

جب میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق و فرائض بہ خوبی ادا کرتے ہیں، تب ہی ایک صحت مند اور باشعور نسل پروان چڑھتی ہے، وگرنہ دوسری صورت میں معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، جو دراصل خاندان کے اندر ہی سے شروع ہوتا ہے۔

یہ خیال بالکل درست ہے کہ ہمارے بہت سے مسائل کا حل شادی شدہ زندگی ہوتی ہے، مگر آج کل تو یہ بھی سچائی ہی ہے کہ ہر مسئلے کا حل شادی نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کے اکثر و بیش تر والدین اسی فکر کے حامل ہوتے ہیں کہ بیٹیاں جلد از جلد اپنے گھر کی ہو جائیں۔

ان کی یہ سوچ غلط بھی نہیں، مگر وہ والدین جن کی بیٹیوں کے ساتھ کوئی نفسیاتی و ذہنی مسائل ہوتے ہیں یا پھر کسی اور وجوہ کی بنا پر ان کی شخصیت میں کسی قسم کا خلا ہوتا ہے، تو ایسے والدین یہ چاہتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرا دیں۔ ان کے عزیز رشتے دار بھی انہیں یہی مشورہ دیتے ہیں کہ بیٹی کی شادی کر دو، شادی کے بعد یہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی وغیرہ جب کہ ایسا کرنے سے بعض اوقات لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں۔

اگر کسی لڑکی کے ساتھ کسی قسم کا کوئی جذباتی یا نفسیاتی مسئلہ ہے یا پھر وہ لڑکی ذہنی طور پر شادی جیسی گمبھیر ذمے داری کو اٹھانے کی متحمل نہیں ہے اور شادی کرنے سے خائف ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ بچکانہ ذہن کی مالک ہے، تو ایسی صورت میں والدین کو اس کا واحد حل شادی ہی دکھائی دیتا ہے اور پھر ہوتا یوں ہے کہ وہ لڑکی اپنی زندگی میں اچانک آنے والی اتنی بڑی تبدیلی کو قبول نہیں کر پاتی اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے ماں باپ کے گھر واپس آجاتی ہے یا پھر اس کے ذہن میں اس تبدیلی کی بنا پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو جاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک واقعہ ہمارے سامنے کا ہے کہ جب ایسی ہی ایک لڑکی کو یہ سوچ کر بیاہا گیا کہ ان کی صاحب زادی جو نفسیاتی طور پر صحت مند نہیں تھی، وہ شادی کے بعد وہ ٹھیک ہو جائے گی، مگر نتیجہ اس کے برعکس برآمد ہوا۔ ہوا یوں کہ وہ چند ہی دنوں میں ناکام شادی کا شکار ہوگئی۔ ظاہر ہے، ایسے عاقبت نااندیش فیصلوں کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ بھی بہت اہم وجہ ہے کہ جو شرح طلاق میں اضافے کا باعث بن رہی ہے، بلکہ بعض اوقات اس قسم کی صورت حال میں بچے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

بالکل اسی طرح لڑکیوں کے والدین کی بھی یہی سوچ ہوتی ہے۔ اگر ان کا لڑکا منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو گیا ہے یا پھر اس نے غلط صحبت اختیار کرلی ہے، تو ماں باپ کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی سیدھی سادی نیک فطرت لڑکی سے فی الفور اس کو نتھی کر دیا جائے، تاکہ آنے والی لڑکی ان کے بیٹے کو جو ان سے تو سدھر نہیں سکا، وہ اسے آکر سدھارے۔ ایسا کر کے وہ انتہائی خود غرضی کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں۔

اپنے بے ڈھب بیٹے کو کسی شریف اور معصوم لڑکی سے بیاہ کر وہ اس لڑکی کی زندگی کی تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہیں، جب کہ اسی طرح لڑکیوں کے والدین بھی کسی وجوہ کی بنا پر شادی کے لیے نامناسب لڑکی کی شادی کر کے، وہ لڑکے کو فریب اور دھوکا دیتے ہیں۔ یہ عمل دو خاندانوں کی جانب سے ایک دوسرے کو دھوکا دینے کا باعث ہوتا ہے۔ اس سوچ کی اصلاح ہونی چاہیے، پہلے کسی فرد کو اپنی انفرادی زندگی میں اس لائق بنائیے کہ وہ ایک دوسری زندگی کو قبول کرنے اور حصہ دینے کے لیے تیار ہو۔ بہ صورت دیگر وہی نتائج نکلتے ہیں، جیسے ہمارے معاشرے میں نکل رہے ہیں۔

ہمارے معاشرے کا ایک چلن یہ بھی ہے کہ ان کے بچے اگر خود ہی اپنے لیے شریک سفر منتخب کر لیتے ہیں اور والدین کو کسی بھی وجہ سے اس شادی سے اعتراض ہوتا ہے، تو وہ زبردستی اپنے بچوں کی شادی اپنی پسند اور مرضی کی جگہ کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑکی اپنے اوپر زبردستی تھوپے جانے والے شوہر کو پسند نہیں کرتی اور لڑکا اپنے ماں باپ کی پسند کی بیوی کو قبول نہیں کرپاتا اور پھر بالآخر تباہی وبربادی مقدر بنتی ہے، جب کہ بعض شادی شدہ جوڑے اگر سمجھوتہ کر بھی لیں، تو ان کی زندگیاں گویا سولی پر لٹکنے کی مانند گزرتی ہیں۔

اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکی اپنی تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے بہت زیادہ جذباتی ہوتی ہے، مگر اچھا رشتہ آنے کی صورت میں والدین زبردستی اس کی شادی وہاں کر دیتے ہیں۔ اپنی تعلیم ادھوری رہ جانے اور خوابوں کے ٹوٹ جانے کی بنا پر بھی لڑکیاں ازدواجی زندگی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر پاتیں اور خود کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں کو بھی بے سکون و مضطرب کر دیتی ہیں، جب کہ بیش تر لڑکوں کے والدین کا یہ طرز عمل ہوتا ہے کہ اگر ان کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں ملک سے باہر جا رہا ہے، تو والدین اس خوف سے کہ کہیں بیٹا کسی غیر ملکی لڑکی سے شادی نہ کر لے زبردستی اس کا نکاح کرا دیتے ہیں، یہ عمل بھی بہت دفعہ مسائل کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ اس میں سارا دھیان اسی طرف لگ جاتا ہے کہ لڑکے کی شادی ہوجائے۔ نہ اس کا خیال کہ خاندان اور رکھ رکھاؤ کیسا ہے اور نہ جذباتی میلان اور رجحان کی کوئی فکر۔

شادی ہمارے مشرقی معاشرے میں بہت سے مسائل کا حل گردانی جاتی ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ یہاں اب کچھ معاملات اتنے گمبھیر اور پیچیدہ ہونے لگے ہیں، کہ جہاں شادی بندھن کم اور گلے کا پھندا زیادہ ثابت ہوتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شادی کرنا بہت آسان ہے، مگر اسے نبھانا از حد مشکل اور یہ بات لڑکی اور لڑکا دونوں کے والدین بہ خوبی جانتے ہیں، کیوں کہ یقیناً وہ بھی ازدواجی زندگی کی پُرخار اور کھٹن راہوں سے گزر کر ہی گلستان میں پہنچے ہوں گے۔

ایسی لڑکی کے والدین جن کی بیٹی کے ساتھ کوئی نفسیاتی یا ذہنی مسئلہ ہے، تو اس کی شادی کر کے اس پر ظلم مت کیجیے، بلکہ اسے خوش گوار اور دوستانہ ماحول فراہم کرکے ان وجوہات کو جاننے اور پھر انھیں دور کرنے کی کوشش کیجیے جس کی بدولت آپ کی اولاد کسی نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہوگئی ہے، اسے وقت دیجیے اور اس کے مسائل کو سلجھانے اور اسے سمجھانے کی کوشش کیجیے۔

اس ضمن میں آپ کسی اچھے نفسیاتی معالج کی خدمات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کی بیٹی ازدواجی زندگی کے تقاضوں سے خائف ہے یا شادی کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے اور منع کر رہی ہے، تو اس کے ساتھ ہرگز زبردستی مت کیجیے، بلکہ اسے اپنے تعاون کا یقین دلائیے اور پھر آہستہ آہستہ اسے شادی کی اہمیت اور افادیت سے گاہے بگاہے آگاہ کرتے رہیے۔

گھر کی بزرگ خواتین، نانی، دادی، بڑی خالہ، تائی وغیرہ پر اثر انداز میں لڑکی کو شادی کرنے پر راضی کریں، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کی ذمے داریوں اور فرائض سے بھی آگاہ کرتی رہیں اور ساتھ ساتھ اس کی ذہنی الجھنوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کیجیے۔ ہم دُہرائیں گے کہ اگر معاشرہ مضبو ط بنانا ہے تو اس کاراستہ شادی کے رشتے اور شادی کے ادارے کو اس کی روح کے مطابق اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں