پولیو ٹیموں پر دہشت گردوں کے حملے

پاکستان میں سرگرم عمل دہشت گرد گروپ جدید ترین امریکی ساختہ ہتھیاروں سے لیس ہیں

پاکستان میں سرگرم عمل دہشت گرد گروپ جدید ترین امریکی ساختہ ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ فوٹو : ایکسپریس نیوز

ملک کے دور دراز علاقوں میں جب بھی پولیو کے خاتمے کے لیے مہم کا آغاز ہوتا ہے تو دہشت گرد گروہ پولیو ٹیموں پر حملے کرتے رہے ہیں۔

اسی طرح کی دہشت گردی باجوڑ میں ہوئی ہے۔ میڈیا کے مطابق گزشتہ روز باجوڑکی تحصیل ماموند کے علاقے بیلوٹ فراش میں انسداد پولیو ورکرز اور سیکیورٹی ٹیم پر دہشت گردوں نے بم حملے کیے ہیں، ان حملوں میں سات پولیس اہلکار شہید اور اٹھائیس زخمی ہوگئے۔

پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کی حفاظت موثر ہونے سے اب دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں بھی بچوں کو پولیو سے محفوظ رکھنے کے قطرے پلائے جانے میں آسانی پیدا ہوگئی ہے، لیکن ان حفاظتی انتظامات کے باوجود بعض علاقوں میں دہشت گرد گروہ موقع ملنے پر دہشت گردانہ کارروائیوں سے گریز نہیں کرتے۔ پاکستان میں پولیو ویکسین کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر حملے کوئی نئی بات نہیں، تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ پاکستان میں وہ کون لوگ ہیں، جو اس مہم کو ناکام بنانا چاہتے ہیں اور اس شرپسندی سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

پاکستان میں دہشت گردوں کی سہولت کاری کون لوگ کررہے ہیں؟ ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنزکی پہچان تو ہوچکی ہے لیکن پاکستان کے سسٹم میں موجود کون لوگ ہیں، جو ان تنظمیوں کی سہولت کاری کررہے ہیں، انھیں خفیہ معلومات فراہم کررہے ہیں، مالی مدد فراہم کرتے ہیں، دہشت گردوں کو پاکستان کے اندر محفوظ پناہ گاہیں فراہم کراتے ہیں، انھیں ہدف تک پہنچانے کے لیے کیئرز کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

جب تک ڈبل چہرے رکھنے والے ان لوگوں کو بے نقاب کرکے ، انھیں قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا، پاکستان میں دہشت گردی ، بدامنی ، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران ختم نہیں ہوگا۔ دنیا بھر میں پولیو وائرس پاکستان، افغانستان، کانگو، نائجیریا، صومالیہ اور یمن میں پایا جاتا ہے جس کے خاتمے کے لیے عالمی صحت کے ادارے سرگرم ہیں۔

پاکستان میں اس وائرس کا پھیلاؤ پاک افغان سرحد سے متصل خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے اضلاع میں زیادہ ہے۔

ان علاقوں کے عمائدین اور شہری بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے حامی ہیں لیکن دہشت گرد علاقے کے محل وقوع اور سیکیورٹی اداروں کی مکمل رسائی نہ ہونے کا فائدہ اٹھا کر دہشت گردی کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، یوں پاکستان دنیا میں بدنام بھی ہورہا ہے اور اس کے مفادات کو بھی نقصان پہنچ رہاہے۔

پولیو مہم کی راہ میں سب سے بڑی رکاؤٹ دہشت گردی ہے ،بدقسمتی سے پاکستان کے اندر ہی ایسا بااثر اور دولت مند طبقہ موجود ہے ، جو اپنے ہی ملک کے عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف کام کررہا ہے ۔

ریاست پاکستان کے وسائل ہڑپ کرکے دولت مند بننے اور بڑے ریاستی عہدوں کا لطف اٹھانے اٹھانے والا مخصوص مائنڈسیٹ رکھنے والا ایک طبقہ پاکستانی عوام کے اجتماعی مفادات سے کھیل رہا ہے ۔ یہ طبقہ انتہائی ماڈرن ہے، مغربی طرز زندگی کا حامل ہے لیکن پاکستان میں رجعت پسندی، انتہاپسندی اور بنیادی پرستی کی سرپرستی کرتا ہے۔

خود امریکا، کینڈا، آسڑیلیا، برطانیہ، جرمنی اورفرانس میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے، یورپ کی رنگا رنگ ثقافت میں گھل مل جاتا ہے لیکن پاکستان میں ایسے قوانین کو سپورٹ کرتا ہے جو انتہاپسند مذہبی گروہوں کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔ قبائلی، سرداری اور جاگیرداری نظام کو قائم رکھنے کا حامی ہے، جدید کاروباری کوپریٹ کلچر پر بھی قبضہ کرنا چاہتے ہے ۔

ہر ایجاد اور نئی چیزکی مخالفت کرنے والے گروہ کا اتحادی بھی یہی طبقہ ہے۔ وہ فوک کلچر کا مخالف ہے ، روایتی میلوں ٹھیلوں، روایتی کھیلوں اور لوگ داستانوں کا دقیانوسیت اور پسماندگی سے تعبیر کرتا ہے ۔

وہ عام لوگوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پولیو مہم کے دوران بچوں کو ویکسین کے قطروں کا پلایا جانا اغیار کی سازش ہے۔ان کے ذریعے ہمارے بچوں کو آیندہ عمر بھر کے لیے کم ہمت بنانا مقصود ہے یا یہ کہ اِن قطروں کو پینے والے بچے اپنی تولیدی صلاحیت سے محروم ہوجائیں گے۔


ہیلتھ ورکرز پر دہشت گردوں کے حملوں کا تعلق واضح طور پر ہمارے ملک کی دشمن طاقتوں سے ہے، جو ہمارے پُر امن شہریوں پر بم حملے، خودکش حملے، ہماری ایئر پورٹس پر راکٹ حملے اور سیکیورٹی فورسز پر بارود سے بھری گاڑیاں ٹکرانے والے دہشت گردوں کی سہولت کاری میں مصروف ہیں، جو ہمارے معاشرے میں ہر طرف افراتفری اور بے یقینی کی فضا پیدا کرنے کے لیے کمربستہ ہیں، ہماری حکومت مشینری زنگ آلود ہوچکی ہے۔

وہ دہشت گردوں کا تعاقب کرنے، انھیں ان کی خفیہ پناہ گاہوں سے باہر نکالنے میں ناکام ہے، پولیو ٹیموں کی حفاظت کا معاملہ بھی سیکیورٹی کمزوریوں کا شکار ہے۔

بہت سے کام ایسے ہیں جن میں ہماری حکومتوں کی ناکامی دہشت گردوں کا کام آسان بنا رہی ہے، مثلاً غیر ملکیوں کے متعلق ضروری کوائف جمع کرنے، شہروں ، قصبوں اور دیہات خصوصاً قبائلی علاقوں کو اسلحے سے پاک کرنے، اسلحہ کی اسمگلنگ روکنے، رجسٹریشن اور ڈیٹا بینک کے ذریعے ہر طرح کی گاڑیوں کی چوریاں روکنے، بینک اکاؤنٹس کے ذریعے ناجائز دولت پکڑنے اور پکڑے جانے والے وائٹ کالر کریمنلز کو سزائیں دلانے اور ان کے مقدمات کے سلسلے میں ججوں اور گواہوں کو مکمل تحفظ دینے جیسے کاموں میں حکومتوں کی ناکامی اظہرمن الشمس ہے ۔

حالیہ کچھ عرصے سے دہشت گردوں کی سرگرمیوں میں تیزی آگئی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں، ان میں سے ٹی ٹی پی اور بلوچستان میں سرگرم مسلح گروہ ملوث ہیں۔ یہ گروپس پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔

پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر شمال مغربی ایریاز میں حملوں سے یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی کے بعد وہ دہشت گرد عناصر متحرک ہوگئے ہیں جن کے ٹھکانے افغانستان کے اندر موجود ہیں۔ یہ ماضی میں اپنائی گئی ہماری تباہ کُن پالیسیوں کا خمیازہ ہے جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔

بہت سے شرپسند تو ان علاقوں میں واپس آچکے ہیں لیکن ان کی قیادت اب بھی افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں موجود ہیں جہاں وہ طالبان حکومت کے تحفظ میں ہیں۔ بلوچستان بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور بلوچستان میں موجود مسلح تنظمیوں کے درمیان مشترکہ اہداف پر اتفاق رائے موجود ہے اور دونوں گروہ ایک دوسرے کے مدد گار بن کر کام کررہے ہیں۔

یہ بات پریشان کُن ہے کہ بلوچستان کے کچھ علاقوں میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کی ذمے داری ایسے گروہوں نے قبول کی جن کا ٹی ٹی پی کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ یہ خطہ پہلے ہی عسکریت پسندی کا شکار تھا۔ اس اتحاد نے علاقے میں سیکیورٹی فورسز کی مشکلات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

حالیہ دہشت گرد حملوں سے یہ ظاہر ہوا کہ پاکستان میں سرگرم عمل دہشت گرد گروپ جدید ترین امریکی ساختہ ہتھیاروں سے لیس ہیں، یہ ہتھیار وہ ہیں جو امریکا اور نیٹو فورسز افغانستان سے انخلا کے وقت وہیں چھوڑ گئے تھے اور یہ اسلحہ افغان طالبان کے کنٹرول میں آگیا تھا۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ غیر محفوظ سرحدوں نے اسمگلروںاور شرپسندوں کو آزادانہ نقل و حرکت کا موقع دیا ہے۔

ان عسکریت پسندوں کو جدید ہتھیاروں کی دستیابی نے صورتحال کو انتہائی تشویش ناک بنا دیا ہے۔ پاکستان نے کئی بار افغانستان کی حکومت کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے لیکن شاید طالبان حکومت میں شامل طاقتور گروہ ٹی پی پی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے اور نہ وہ القاعدہ ، داعش اور وسط ایشائی انتہاپسند تنظیموں کے لوگوں کے ٹھوس کارروائی کر پارہے ہیں۔

یہ واضح ہے کہ افغانستان حکومت دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدامات نہیں کر پا رہی ، اس وجہ سے پاکستان کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، اگر پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ٹی ٹی پی اورکالعدم گروہوں کے خلاف طالبان انتظامیہ نے اقدامات نہ کیے تو معاملات زیادہ گمبھیر ہوسکتے ہیں۔

ٹی ٹی پی کافی منظم گروپ ہے افغانستان سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے پر ان کا اثر و رسوخ بھی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مقامی لوگ اور سرکردہ افراد ان سے ڈرتے ہیں۔

سابقہ فاٹا اور افغانستان کی سرحد سے متصل بلوچستان کے علاقوں میںحکومت کی مکمل رٹ نہیں ہے، مقامی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انھیں ٹی ٹی پی کے لوگوں سے لڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ انھیں جانی اور مالی نقصان پہنچے گا۔ افغانستان کے ساتھ متصل پاکستانی علاقوں کے لیے ایک جامع اور جارحانہ سیکیورٹی پالیسی کی ضرورت تھی۔
Load Next Story