جم خانہ کلب کے انتخابات
لاہور جم خانہ گالف کلب کو پاکستان کے قدیم ترین گالف کلبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے
تفریحی سرگرمیوں اور باہمی میل جول بڑھانے کے لیے شہروں اور دیہات میں ڈیرے اور تھڑے ہوا کرتے تھے، لیکن مغربی اقوام نے اسی مقصدکے لیے کلب کلچر کی داغ بیل ڈالی، جہاں یورپ کی ایلیٹ کلاس، لارڈز اور نائٹس اکھٹے ہوتے اورہلہ گلہ کرتے، ان کلبوں میں شام ڈھلتے ہی تفریحی سر گرمیاں زور پکڑ جاتیں ،کلب کے رستوران میں کھانوں سے لطف اندوز ہواجارہا ہے، ڈانسنگ فلور پر موسیقی کی مدھر دھنوں پر جوڑے رقص میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
کھیلوں کے دلدادہ مختلف کھیلوں میں اپنی مصروفیت ڈھونڈ لیتے جب کہ مقبول عام اسپورٹس گالف کے لیے بھی وسیع و عریض رقبہ پر یہ سہولت فراہم کی جاتی۔ یہی گورے جب دنیا پر حکمرانی کرنے لگے تو اپنی نوآبادیوں میںکلب کلچر بھی اپنے ساتھ لائے۔
برصغیر میں مغل حکمرانوں سے شاہی منصب چھین لینے کے بعد انگریز نے اس خطے میں نئے طرز حکمرانی کی داغ بیل ڈالی اورعیارانہ پالیسیوں سے اپنی حکمرانی کو مستحکم کیا۔ ہندوستان میں گورے حکمرانوں نے مقامی لوگوں سے دوری اختیار کرنا ضروری سمجھا اور اپنے لیے اپنی رہائش کے لیے وسیع و عریض رہائش گاہیں تعمیر کرائیں تاکہ گوراصاحب کی نجی زندگی کی پرچھائیوں تک بھی عام لوگوں تک نہ پہنچ سکیں۔
ایسے شاندار گھر آج بھی پاکستان کے مختلف اضلاع میں موجود ہیں جو اب ہمارے ضلعی حکمرانوں کی رہائش گاہیں ہیں، ان گھروں میں قیام پذیر دیسی گوروں کا طرز عمل بھی ان گورے حکمرانوںسے کم ہر گز نہیں ہے اور وہ عوام کے ٹیکسوں سے ان وسیع و عریض گھروں میں شاہانہ زندگی کا لطف اٹھا رہے ہیں۔
انگریز نے لاہور کے لارنس گارڈن جسے آج کل باغ جناح کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، اس خوبصورت باغ میں بھی ایک کلب کی بنیاد ڈالی جس کو لاہورجم خانہ کا نام دیا گیا ۔ اس سماجی کلب کے قیام کی تاریخ کے بارے میں ایک بات پر اتفاق رائے ہے کہ لاہورجم خانہ کا قیام 1857 اور1870 کے درمیانی عرصے میں عمل میں آیا۔
باغ جناح میں موجودہ قائد اعظم لائبریری کی جگہ جم خانہ کلب ہوا کرتا تھا اور اس کے عین سامنے کرکٹ گراونڈ بنائی گئی جیس جم خانہ کرکٹ گراونڈ کہا جاتا ہے۔ یہ تاریخی کرکٹ گراؤنڈ آج بھی کرکٹ میچز کی میزبانی کرتی ہے۔ہندوستان میں انگلش کرکٹ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس مقصد کے لیے ایک خصوصی پویلین ڈیزائن کیا گیا تھا۔
اینٹوں اور لکڑی کے ڈھانچے میں شاید مقامی طور پر تیار کی گئی اینٹوں کا استعمال کیا گیا تھا لیکن لکڑی بلوط کی تھی جو برطانیہ سے درآمد کی گئی تھی۔
منطقی طور پر، گیبلڈ پورچ، سرخ ٹائلوں کی ڈھلوانی چھت، کھڑکیوں اور سامنے کی چوٹی پر ایک اونچی اسکائی لائٹ نے پویلین کو لاہور میں وکٹورین دور کے فن تعمیر کی ایک نشانی بنا دیا۔بعد ازاں جم خانہ کلب کی عمارت کو اپر مال پر منتقل کر دیا گیا جہاں پر جم خانہ کے زیر اہتمام گالف کی سہولت پہلے سے ہی موجود تھی۔
لاہور جم خانہ گالف کلب کو پاکستان کے قدیم ترین گالف کلبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہ لاہورشہر میں ایک وسیع سماجی رابطوں اور کھیلوں کا کلب ہے اور بلا شبہ مشہور بھی ہے۔ اپنے اراکین کو کھیلوں اور سماجی میل جول کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔
یہ وہی جم خانہ کلب ہے جہاں پر 1965 کی جنگ میں بھارتی جرنیل لاہور فتح کرنے کے بعد شام کو اس کا جشن لاہور کے مشہور و معروف جم خانہ کلب میں منانا چاہتے تھے لیکن پاکستان فوج کے دلیر جوانوں نے بھارتی سوماروں کو سرحد پار دھکیل کر ان کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنا دیا۔
پرویز مشرف کے دور حکومت میں لاہور میں ایف سی کالج کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے ایک رٹائرڈ بھارتی جرنیل بھی پاکستان آئے جو 1965 کی جنگ کا حصہ تھے، وہ اپنے ایک مقامی دوست کے ہاں کینٹ میں رہائش پذیر تھے۔
ان کو کالج سے گھر تک چھوڑنے کی ذمے داری میرے سپرد کی گئی تو جم خانہ کے سامنے مال روڈ سے گزرتے ہوئے میں نے انھیں شرارتاً بتایا کہ ہم جم خانہ کلب کے سامنے سے گزر رہے ہیں۔اس پر انھوں نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔ پاکستان کے قیام کے بعدکلب کاانتظام اور رکنیت مقامی ہاتھوں میں چلی گئی، یہ 1949 کی بات ہے۔ آج کل اس کا انتظام ایک کمیٹی کے سپرد ہے جس کے اراکین کا چناؤ کلب کے مستقل ممبران کرتے ہیں ۔
جم خانہ کلب میں ایک مقررہ مدت کے بعد انتخابات منعقد ہوتے ہیں اور اس سال تو یہ انتخابات اپنی مقررہ مدت سے قبل ہی ہو گئے ہیں کیونکہ کلب ممبران کا یہ مطالبہ تھا کہ ماضی کی طرح ہر سال کلب کی انتظامی کمیٹی کے انتخابات ہونے چاہئیں جس پر کلب کے صدر سلمان صدیق اور ان کے رفقائے کار جن میں میاں مصباح الرحمن بھی شامل ہیں انھوں نے مقررہ مدت سے دو سال پہلے ہی انتخابات کرانے کی منظوری کا دلیرانہ فیصلہ کیا اور کسی حیل و حجت کے بغیر انتخابی عمل کو کامیابی سے مکمل کر لیا جس کا نتیجہ ان کے حق میں نکل آیا اور وہ یہ انتخابات جیت گئے۔ جم خانہ کلب کے انتخابات پاکستان کے انتخابات سے جڑے ہوئے ہیں۔
جم خانہ کے انتخابات کے متعلق ایک بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں عام الیکشن سے پہلے ایک الیکشن اپنے اعلان کردہ شیڈول پر منعقد ہو گئے ہیںاور مزید برآں کہ یہ شفاف بھی تھے اور تمام امیدواروں کو لیول پلینگ فیلڈ بھی میسر تھی۔دیکھتے ہیں پاکستانی عوام کو آٹھ فروری کو حق رائے دہی اورامیدواروں کو لیول پلینگ فیلڈ میسر آتی ہے یا نہیں؟