سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

پرتشدد سیاسی تحریک حکمرانوں کو عوام پر وحشیانہ ظلم کا موقع دیتی ہے جس سے سیاسی کلچر کمزور ہوجاتا ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan January 10, 2024
[email protected]

1979 کا سال ہے، 12 اگست کا دن ہے۔ طلبہ یونین کے انتخابات میں پروگریسو فرنٹ کے رفیق پٹیل سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔

اسلامی جمعیت طلبہ کے حسین حقانی کو صدر قرار دیدیا گیا تھا۔ بائیں بازو کے طلبہ نے الیکشن دھاندلی کا شکوہ کیا اور ایک جلوس کی شکل میں اسٹوڈنٹس ٹیچرز سینٹر کی طرف رواں دواں تھے جہاں انتظامیہ حلف برداری کا انعقاد کررہی تھی۔

طلبہ ایس ٹی سی ہال کی سیڑھیوں پر چڑھ رہے تھے کہ اچانک فضا فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھی۔ شعبہ فلسفہ کے طالب علم یونس شاد ، شعبہ سیاسیات کے طالب علم ضیاء اعوان اور ایک طالبہ نسرین کوثر کو گولیاں لگیں۔

عباسی شہید اسپتال کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ یونس شاد کی حالت نازک ہے۔ چند دنوں میں بعد باقی زخمی اسپتال سے رخصت کردیے گئے مگر یونس شاد کو اسپتال میں روک لیا گیا۔ پیپلز پارٹی اس زمانہ میں زیر عتاب تھی۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو جیل میں سزائے موت دیدی گئی۔

محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی والدہ نصرت بھٹو نظربندی ختم ہونے پر کراچی پہنچ گئی تھیں۔ بے نظیر بھٹو عباسی شہید اسپتال پہنچیں۔ڈاکٹروں نے یونس شاد کا تفصیلی معائنہ کیا مگر تمام سرجن نے اس کے جسم میں لگی گولیاں نکالنے سے معذرت کرلی۔ ڈاکٹروں نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ اگر ان کے جسم سے گولی نہ نکالی گئی تو یونس شاد کی جان بھی جاسکتی ہے۔

اس وقت کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ کے استاد ڈاکٹر ظفر عارف انجمن اساتذہ کے صدر تھے، ان کی قیادت میں اساتذہ اور طلبہ کی ایک کمیٹی قائم ہوئی ۔ اس کمیٹی نے یونس شاد کو برطانیہ بھجوانے کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم شروع کی۔ جب یہ مہم شروع ہوئی تو بیگم نصرت بھٹو نے یہ اعلان کیاکہ وہ یونس شاد کے لیے لندن کا دو طرفہ ٹکٹ دیں گی۔

اس دوران بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو مستقل نظربند رکھا گیا مگر اساتذہ اور طلبہ کی کمیٹی نے اپنا ہدف پورا کیا تو پھر یونس شاد کے ٹکٹ کا مسئلہ پیدا ہوا۔ اس وقت کے ترقی پسند صحافی مجاہد بریلوی کام آئے۔

انھوں نے 70 کلفٹن میں نظربند بھٹو خاندان کی خواتین سے بے نظیر بھٹو کی ایک دوست کے ذریعہ رابطہ کیا، یوں نصرت بھٹو نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ ڈاکٹر ظفر عارف نے بریڈ فورڈ کے ایک اسپتال میں یونس کے آپریشن کا انتظام کیا، یونس کے جسم سے گولیاں نکال لی گئیں، وہ اپاہج ہونے سے بچ گئے۔ یونس شاد کو برطانیہ میں سیاسی پناہ کے مواقع حاصل ہوئے۔

لندن میں مقیم قوم پرست بلوچ رہنماؤں کی رائے تھی کہ یونس کی صحت بہت زیادہ بہتر نہیں ہے اور پاکستان میں سیاسی کارکنوں کے لیے حالات ناموافق ہیں، اس لیے یونس شاد کو برطانیہ میں رک جانا چاہیے مگر یونس مظلوم عوام کی تحریک کا حصہ بننا چاہتے تھے، یوں یونس پاکستان آگئے۔

یونس شاد نوجوانی میں میر غوث بخش بزنجو کے فلسفہ سے متاثر ہوئے اور زندگی کی آخری رمق سے بزنجو کی پرامن سیاسی جدوجہد پر کاربند رہے۔ انھیں 1972 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کراچی کا صدر منتخب کیا گیا، پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔

وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگادی تھی اور بلوچستان کی منتخب حکومت کی قیادت گورنر بلوچستان میر غوث بخش اور وزیر اعلیٰ سردار عطاء اﷲ مینگل کی حکومت کو برطرف کردیا گیا تھا، نیپ کی پوری قیادت جیلوں میں بند تھی۔ بی ایس او نیپ کی ذیلی تنظیم سمجھی جاتی تھی، یوں غیر سرکاری طور پر بی ایس او پر بھی پابندی عائد تھی، یوں یونس شاد کو ڈی پی آر کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔

اس وقت وہ عبداﷲ ہارون کالج کھڈا مارکیٹ کے طالب علم تھے۔ کئی مہینوں کی نظربندی کے بعد رہا ہوئے۔ یونس شاد کا تعلق نچلے متوسط طبقہ سے تھا۔ ان کے والد ایک غیر ملکی فضائی کمپنی میں ملازم تھے۔ باقی بھائی بھی پڑ ھ رہے تھے اور روزگار سے منسلک ہوئے تھے مگر یونس شاد کے لیے تعلیم کی تکمیل کے ساتھ سیاسی کام بھی انتہائی اہم تھا۔

یونس شاد کو لیاری میں معرو ف دانش ور لعل بخش رند، یوسف مستی خان، بی ایم کٹی ، صدیق بلوچ اور لطیف بلوچ وغیرہ کی سنگت میسر آئی تھی۔ عبداﷲ ہارون کالج میں ڈاکٹر م ن حسان، پروفیسر اقبال جیسے دانش وروں کی صحبت میسر تھی۔

یوں وہ کارل مارکس کے نظریات کے اسیر ہوئے۔ یونس شاد نے ایل ایل بی کرنے کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کیا اور معروف ترقی پسندقانون دان اختر حسین کے دفتر سے منسلک ہوگئے۔ اختر حسین عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما ہیں، آج کل پارٹی کے صدر ہیں۔ یونس شاد ، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور حاصل بزنجو نیشنل پارٹی سے منسلک رہے مگر یہ اختر حسین کی عظمت تھی اور یونس شاد کی وضع داری تھی کہ بعض اختلافات کے باوجود ایک ساتھ کام کرتے رہے۔

یونس شاد وکلاء تحریک میں ہمیشہ متحرک رہے، انھوں نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں حصہ لیا۔ کراچی بار، ہائی کورٹ بار اور سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں اپنے گروپ کے امیدواروں کے لیے مہم چلاتے رہے مگر کبھی کسی عہدے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ بی ایس او کے سابق صدر نیشنل پارٹی سندھ کے رہنما مجید ساجدی ہیں جن کی ساری زندگی یونس شاد کے ساتھ گزری کہتے ہیں کہ یونس ہمیشہ آہستہ بات کرتے تھے۔

کبھی ان کے چہرہ پر غصہ نہیں آیا اور کبھی خود کسی عہدے کی خواہش نہیں کرتے تھے۔ جب پی ایم اے ہاؤس میں بائیں بازو کے رہنما یونس شاد کے قریبی دوست یوسف مستی خان کانفرنس میں جلسہ ہوا تو یونس شاد پہلے سے موجود تھے اور یوسف مستی خان کے بارے میں سب سے زیادہ جانتے تھے مگر خود تقریر کرنے کی خواہش نہیں کی البتہ بعد میں انتہائی شائستگی سے شکوہ ضرور کیا۔ یونس شاد کراچی کی قدیم سلاوٹ برادری کی جدوجہد کا حصہ تھے۔

لالہ حسین، شکیل سلاوٹ اور ڈاکٹر زین فاروق اعظم کے ساتھ ہر جدوجہد میں شانہ بشانہ شریک ہوتے تھے۔ یونس شاد ایک متحرک خاموش کارکن تھے اور وہ ہمیشہ اس مؤقف کے حامی ہی رہے کہ پرامن سیاسی جدوجہد سے ہی حقوق حاصل ہوسکتے ہیں۔

پرتشدد سیاسی تحریک حکمرانوں کو عوام پر وحشیانہ ظلم کا موقع دیتی ہے جس سے سیاسی کلچر کمزور ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھوں نے ہمیشہ میر غوث بخش بزنجو کے نظریہ کو تھامے رکھا۔ یونس شاد جیسے کارکن ہی ریاست پر عوام کی بالادستی کی تحریک کو متحرک رکھ سکتے ہیں۔ گزشتہ صدی کے شاعر بسمل کے یہ اشعار یونس شاد کی زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں