ڈاکٹروں وکلا انجینئروں آرکیٹکٹس اور سروسز فراہم کرنے والوں پر10فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کی تجویز
کلب اور بزنس کلاس میں سفرکرنے والوں پر بھی ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھانے کاامکان
آئندہ مالی سال 2014-15 کیلیے بجٹ میں لاکھوں پرچون فروش تاجروں کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن کیلیے نیا نظام متعارف کرانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔
بجٹ میں کلب اور بزنس کلاس کے ذریعے بیرون ملک سفر کرنے والے مسافروں پر عائد قابل ایڈجسٹ ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھا کر10 فیصد، چارٹرڈ فلائٹس کے ذریعے سفر کرنے والوں کیلیے ایئرٹکٹ پر10 فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کے علاوہ ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئروں، ڈینٹسٹ، انٹیریر ڈیکورٹیز اورآرکٹیکٹس سمیت دیگر سروسز فراہم کرنے والوں پر بھی10فیصد قابل ایڈجسٹ ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اگر بجٹ میں فیڈرل ایکسائزڈیوٹی کی معیاری شرح16سے بڑھا کر17فیصد کی جاتی ہے تو چارٹرڈ فلائٹس کے ذریعے سفر پر بھی17فیصد کے حساب سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائیگی۔ بجٹ میں پنشن کیلیے 163ارب روپے جبکہ تنخواہوں کیلیے 294 ارب جبکہ دفاعی بجٹ کی مد میں690ارب مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ سبسڈی کا حجم ساڑھے3کھرب جبکہ مالیاتی خسارہ15 کھرب 50ارب روپے ہونے کا امکان ہے۔ پی ایس ڈی پی کے تحت ترقیاتی کاموں کیلیے525 ارب مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ پولٹری فیڈ پربھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے وفاقی بجٹ میں 250 ارب روپے کے ریونیو اور ایڈمنسٹریٹو اقدامات کی منظوری کے ساتھ3.7 سے 3.8 ٹریلین روپے حجم کے وفاقی بجٹ کے مسودے کی منظوری دیدی ہے۔
تاہم وفاق اور صوبوں کے مشترکہ و مجموعی کانسالیٹیڈ حجم4ٹریلین روپے سے زائد ہونے کی توقع ہے۔ یہ منظوری وزیراعظم نے اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ کے اہداف کے تعین کے بارے میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دی۔ اجلاس میں آئندہ مالی سال کیلیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2810 ارب روپے مقررکرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ دو سے ڈھائی سو ارب روپے مالیت کے اضافی ریونیو اور ایڈمنسٹریٹو اقدامات میں سے70 سے 80 ارب روپے کا اضافی ریونیو ٹیکسوں میں دی جانیوالی چھوٹ اور رعایات کے ایس آراوز واپس لینے سے حاصل ہونگے جبکہ باقی170 ارب کا اضافی ریونیو نئے ٹیکس لگا کر اور نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے ساتھ انتظامی اور انفورسمنٹ اقدامات کے تحت اکٹھے کیے جائیں گے۔
اس بارے میں وزارت خزانہ کے سنیئر افسر نے بتایاکہ نواز شریف نے آئندہ مالی سال 2014-15 کیلیے2810 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کے ہدف پر مشتمل بجٹ کے مسودے کی منظوری دیدی ہے جس میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کا حجم 3.8 ٹریلین کے لگ بھگ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وفاقی بجٹ کے ابتدائی خدوخال کے مطابق پنشن اور تنخواہوں میں5 سے10فیصد اضافے کے ساتھ ملازمین کے ہاؤس رینٹ، ہائرنگ اور دیگر الاؤنسز میں اضافے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ البتہ اس بارے میں حتمی فیصلہ بجٹ کے روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہوگا۔
ذرائع نے یہ بھی بتایاکہ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے سابق دور حکومت میں گریڈ 20 تا 22 کی طاقتور بیوروکریسی کو لازمی ٹرانسپورٹ مونیٹائزیشن پالیسی کے تحت ملنے والے الاؤنس کیلیے انکم ٹیکس میں دی جانیوالی رعایت واپس لینے کی بھی تجویزدی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈزکی روک تھام کیلیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے فیصلہ کیا ہے کہ ترمیم شدہ رولز متعارف کرائے جائیںگے جن میں مینوفیچرنگ یونٹس کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن کیلیے مینوفیکچرنگ یونٹ کی فزیکل تصدیق کو بھی لازمی قرار دیا جسکتا ہے۔ اس کے علاوہ آئندہ وفاقی بجٹ میں ٹیکسٹائل، لیدر، گارمنٹس اور سرجیکل سمیت پانچ زیرو ریٹڈ شعبوں کیلیے سیلز ٹیکس کی موجودہ رجیم پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ علاوہ ازیں انجینئرنگ، پروکیورمنٹ اور کنسٹرکشن کمپنیوں کیلیے سیلزٹیکس رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔
بجٹ میں کلب اور بزنس کلاس کے ذریعے بیرون ملک سفر کرنے والے مسافروں پر عائد قابل ایڈجسٹ ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح بڑھا کر10 فیصد، چارٹرڈ فلائٹس کے ذریعے سفر کرنے والوں کیلیے ایئرٹکٹ پر10 فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کے علاوہ ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئروں، ڈینٹسٹ، انٹیریر ڈیکورٹیز اورآرکٹیکٹس سمیت دیگر سروسز فراہم کرنے والوں پر بھی10فیصد قابل ایڈجسٹ ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
اگر بجٹ میں فیڈرل ایکسائزڈیوٹی کی معیاری شرح16سے بڑھا کر17فیصد کی جاتی ہے تو چارٹرڈ فلائٹس کے ذریعے سفر پر بھی17فیصد کے حساب سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جائیگی۔ بجٹ میں پنشن کیلیے 163ارب روپے جبکہ تنخواہوں کیلیے 294 ارب جبکہ دفاعی بجٹ کی مد میں690ارب مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ سبسڈی کا حجم ساڑھے3کھرب جبکہ مالیاتی خسارہ15 کھرب 50ارب روپے ہونے کا امکان ہے۔ پی ایس ڈی پی کے تحت ترقیاتی کاموں کیلیے525 ارب مختص کیے جانے کا امکان ہے۔ پولٹری فیڈ پربھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے وفاقی بجٹ میں 250 ارب روپے کے ریونیو اور ایڈمنسٹریٹو اقدامات کی منظوری کے ساتھ3.7 سے 3.8 ٹریلین روپے حجم کے وفاقی بجٹ کے مسودے کی منظوری دیدی ہے۔
تاہم وفاق اور صوبوں کے مشترکہ و مجموعی کانسالیٹیڈ حجم4ٹریلین روپے سے زائد ہونے کی توقع ہے۔ یہ منظوری وزیراعظم نے اگلے مالی سال کے وفاقی بجٹ کے اہداف کے تعین کے بارے میں اعلیٰ سطح کے اجلاس میں دی۔ اجلاس میں آئندہ مالی سال کیلیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2810 ارب روپے مقررکرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ دو سے ڈھائی سو ارب روپے مالیت کے اضافی ریونیو اور ایڈمنسٹریٹو اقدامات میں سے70 سے 80 ارب روپے کا اضافی ریونیو ٹیکسوں میں دی جانیوالی چھوٹ اور رعایات کے ایس آراوز واپس لینے سے حاصل ہونگے جبکہ باقی170 ارب کا اضافی ریونیو نئے ٹیکس لگا کر اور نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے ساتھ انتظامی اور انفورسمنٹ اقدامات کے تحت اکٹھے کیے جائیں گے۔
اس بارے میں وزارت خزانہ کے سنیئر افسر نے بتایاکہ نواز شریف نے آئندہ مالی سال 2014-15 کیلیے2810 ارب روپے کی ٹیکس وصولیوں کے ہدف پر مشتمل بجٹ کے مسودے کی منظوری دیدی ہے جس میں آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ کا حجم 3.8 ٹریلین کے لگ بھگ رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وفاقی بجٹ کے ابتدائی خدوخال کے مطابق پنشن اور تنخواہوں میں5 سے10فیصد اضافے کے ساتھ ملازمین کے ہاؤس رینٹ، ہائرنگ اور دیگر الاؤنسز میں اضافے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ البتہ اس بارے میں حتمی فیصلہ بجٹ کے روز ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہوگا۔
ذرائع نے یہ بھی بتایاکہ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے سابق دور حکومت میں گریڈ 20 تا 22 کی طاقتور بیوروکریسی کو لازمی ٹرانسپورٹ مونیٹائزیشن پالیسی کے تحت ملنے والے الاؤنس کیلیے انکم ٹیکس میں دی جانیوالی رعایت واپس لینے کی بھی تجویزدی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ سیلز ٹیکس ریفنڈزکی روک تھام کیلیے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے فیصلہ کیا ہے کہ ترمیم شدہ رولز متعارف کرائے جائیںگے جن میں مینوفیچرنگ یونٹس کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن کیلیے مینوفیکچرنگ یونٹ کی فزیکل تصدیق کو بھی لازمی قرار دیا جسکتا ہے۔ اس کے علاوہ آئندہ وفاقی بجٹ میں ٹیکسٹائل، لیدر، گارمنٹس اور سرجیکل سمیت پانچ زیرو ریٹڈ شعبوں کیلیے سیلز ٹیکس کی موجودہ رجیم پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ علاوہ ازیں انجینئرنگ، پروکیورمنٹ اور کنسٹرکشن کمپنیوں کیلیے سیلزٹیکس رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔