اتحاد تشکیل دینے کیلیے محسود طالبان کے دیگر گروپوں سے رابطے
حکومتی شخصیات سے محسود طالبان گروپ کے رابطے، معاہدے کے حوالے سے بات چیت شروع
کالعدم تحریک طالبان کے گروپوں میں اختلافات اور نئے دھڑے ''محسود طالبان گروپ '' کی تشکیل کے بعد اس گروپ نے بڑا اتحاد تشکیل دینے کے لیے مختلف طالبان گروپوں سے رابطے شروع کر دیے ہیں اور اس سلسلے میں محسود طالبان، حافظ گل بہادر گروپ، جنوبی وزیرستان میں ملا نذیر، پنجابی طالبان گروپ اور دیگر گروپوں سے پس پردہ رابطے شروع ہو گئے ہیں۔
محسود طالبان گروپ کے سربراہ خالد محسود (خالد سعید عرف سجنا) کے ساتھ حقانی نیٹ ورک کے بھی اچھے روابط ہیں اور اس گروپ نے اپنی تشکیل کے بعد جن اہم نکات کو اپنی پالیسی کا حصہ بنایا ہے، ان میںسب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے یا قبضہ جمانے اور عوامی مقامات پر دھماکے کو حرام سمجھتے ہیں، اس گروپ کی مولوی فضل اللہ گروپ سے علیحدگی کی یہی وجہ سامنے آئی ہے، محسود طالبان گروپ کو جنوبی وزیرستان کے علاقے میں اکثریت حاصل ہے تاہم اس گروپ کے بارے میں یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ وہ معاملات کو امن پالیسی کے تحت حل کرنا چاہتا ہے۔ اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گروپ کی تشکیل کے اعلان سے قبل ہی ان کے طالبان کے مختلف گروپوں سے رابطے ہیں اور اس گروپ کو ان کی پس پردہ حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ حکومت کی جانب سے پس پردہ طالبان سے مذاکرات کرنے والی اہم شخصیات سے محسود طالبان گروپ کے رابطے ہو گئے ہیں اور اس گروپ سے ان حلقوں کی معاہدے کے حوالے سے بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے بھی مذاکرات کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس پالیسی کے تحت حکومت کی نئی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جائے گی جس میں اہم حکومتی، سیاسی شخصیات اور جید علمائے کرام کے علاوہ ان علاقوں کے حالات پر نگاہ اور تعلقات رکھنے والی شخصیات کو شامل کیا جائے گا۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے موجود رابطہ کار کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے بھی اس حوالے سے مشاورت کی جائے گی، اس کے علاوہ وفاق مذاکرتی پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے اہم سیاسی اور مذہبی قوتوں کو بھی اعتماد میں لے گی، ذرائع کاکہنا ہے کہ نئی مذاکراتی پالیسی کے حوالے سے وزیر اعظم نے وفاقی وزیر داخلہ کواہم ٹاسک دے دیا ہے۔
محسود طالبان گروپ کے سربراہ خالد محسود (خالد سعید عرف سجنا) کے ساتھ حقانی نیٹ ورک کے بھی اچھے روابط ہیں اور اس گروپ نے اپنی تشکیل کے بعد جن اہم نکات کو اپنی پالیسی کا حصہ بنایا ہے، ان میںسب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے یا قبضہ جمانے اور عوامی مقامات پر دھماکے کو حرام سمجھتے ہیں، اس گروپ کی مولوی فضل اللہ گروپ سے علیحدگی کی یہی وجہ سامنے آئی ہے، محسود طالبان گروپ کو جنوبی وزیرستان کے علاقے میں اکثریت حاصل ہے تاہم اس گروپ کے بارے میں یہ اطلاعات بھی موجود ہیں کہ وہ معاملات کو امن پالیسی کے تحت حل کرنا چاہتا ہے۔ اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گروپ کی تشکیل کے اعلان سے قبل ہی ان کے طالبان کے مختلف گروپوں سے رابطے ہیں اور اس گروپ کو ان کی پس پردہ حمایت حاصل ہے۔
دوسری جانب ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ حکومت کی جانب سے پس پردہ طالبان سے مذاکرات کرنے والی اہم شخصیات سے محسود طالبان گروپ کے رابطے ہو گئے ہیں اور اس گروپ سے ان حلقوں کی معاہدے کے حوالے سے بات چیت شروع ہو گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے بھی مذاکرات کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس پالیسی کے تحت حکومت کی نئی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جائے گی جس میں اہم حکومتی، سیاسی شخصیات اور جید علمائے کرام کے علاوہ ان علاقوں کے حالات پر نگاہ اور تعلقات رکھنے والی شخصیات کو شامل کیا جائے گا۔ طالبان سے مذاکرات کے لیے موجود رابطہ کار کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے بھی اس حوالے سے مشاورت کی جائے گی، اس کے علاوہ وفاق مذاکرتی پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے اہم سیاسی اور مذہبی قوتوں کو بھی اعتماد میں لے گی، ذرائع کاکہنا ہے کہ نئی مذاکراتی پالیسی کے حوالے سے وزیر اعظم نے وفاقی وزیر داخلہ کواہم ٹاسک دے دیا ہے۔