’پلمونری ایمبولزم‘ کیا ہے
سالانہ دس لاکھ باشندے امریکا میں اس مرض کا شکار بنتے ہیں
آپ نے سوشل یا الیکٹرونک میڈیا میں کبھی نہ کبھی ایسی وڈیو دیکھی ہوگی جس میں دکھایا جاتا ہے کہ کوئی شخص بیٹھا دوست احباب سے باتیں کر رہا ہے۔
اچانک اس نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا اور ایک جانب لڑھک گیا۔ لوگ اسے دیکھنے دوڑ پڑتے ہیں۔ عموماً ایسا انسان جلد ہی مر جاتا ہے اور اسے ہسپتال لے جانے کی نوبت بھی نہیں آتی۔
یہ وڈیو دیکھنے والے حیران ہو کر سوچتے ہیں کہ مرنے والا دیکھنے میں تو بھلا چنگا تھا، پھر موت نے یک دم کیوں اسے آن دبوچا؟اس کی موت کا ذمے دار ایک ایسا طبی خلل بھی ہو سکتا ہے جس کے بارے میں پاکستانی زیادہ نہیں جانتے۔ یہ طبی خلل ''پلمونری ایمبولزم'' (Pulmonary embolism) کہلاتا ہے۔
پاکستان میں تو اعداد وشمار دستیاب نہیں کہ ہمارے ہاں یہ طبی خلل ہر سال کتنے مرد و زن کو اپنا نشانہ بناتا ہے، تاہم امریکا میں سالانہ دس لاکھ باشندے اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ طبی خلل کا بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے چل بستے ہیں۔ امریکا میں امراض قلب کے گروہ میں پلمونری ایمبولزم، ہارٹ اٹیک اورسٹروک کے بعد اموات کا تیسرا بڑا ذمے دار ہے۔
پلمونری ایمبولزم کا علاج بڑا پیچیدہ اور کٹھن ہے۔ اسی لیے اس کا شکار ہزارہا مردوزن دوران علاج ہی چل بستے ہیں۔
پچھلے سال مگر ایک کشمیری نژاد امریکی معالج، ڈاکٹر ریاض بشیر نے پلمونری ایمبولزم کا سہل علاج دریافت کر کے پورے امریکا میں شہرت وعزت پا لی۔ ان کے ایجاد کردہ آلات سے یہ ممکن ہو گیا کہ جو لاکھوں امریکی اور دیگر ممالک میں بھی رہنے والے لوگ پلمونری ایمبولزم کی وجہ سے موت کے دہانے پہ پہنچ چکے، ان کی قیمتی زندگیاں بچائی جا سکیں۔
ایک انسان کی جان بچانا بہت بڑی سعادت ونیکی ہے جو خوش قسمت معالجین ہی کو ملتی ہے۔ ڈاکٹر ریاض بشیر کی ایجاد کیا ہے، یہ جاننے سے قبل پلمونری ایمبولزم کو سمجھ لیجیے کہ آخر یہ بلا کیسی ہے۔
طبی خلل کو سمجھیے
پلمونری ایمبولزم میں درج ذیل مردو زن مبتلا ہوتے ہیں:
٭جو موٹرسائیکل، کار، بس، ریل یا ہوائی جہاز میں طویل سفر کرتے ہوئے کئی گھنٹے زیادہ حرکت نہ کریں۔ یہ حالت آپریشن کے بعد بھی رونما ہو سکتی ہے۔ ٭جن کی ٹانگوں یا بازوؤں میں فریکچر ہوا ہو یا کوئی زخم لگ گیا ٭برتھ کنٹرول گولیاں استعمال کریں یا ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی اپنا لیں ٭سگریٹ نوشی کریں ٭فربہ ہوں جس کی وجہ سے وزن بڑھ جائے ٭حاملہ خاتون یا پچھلے چھ ہفتے میں بچے کو جنم دیاہو ٭بازو یا ٹانگ میں کیتھیٹرکا استعمال۔
ہوتا یہ ہے کہ درج بالا کسی بھی صورت حال کی وجہ سے خصوصاً ٹانگ یا بازو کی کسی رگ (vessel) میں رواں دواںخون جم جاتا ہے۔ معنی یہ کہ رگ میں کسی جگہ خون کا لوتھڑا (clot ) جنم لیتا ہے۔ اکثراوقات یہ خونی لوتھڑا خون کے ساتھ بہتے بہتے پھیپھڑوں کی شریانوں (arteries) میں پہنچ جاتا ہے۔ یہی حالت پھر'' پلمونری ایمبولزم ''کہلاتی ہے۔
ہمارا '' قلبی وعائی نظام''
یہ یاد رہے کہ ہمارے جسم میں خون چل پھر کر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جذب کرتا ہے جو خلیوں کی سرگرمیوں کے باعث جنم لیتی ہے۔ خون انہی خلیوں کو آکسیجن گیس بھی سپلائی کرتا ہے جو اس نے پھیپڑوں سے لی ہوتی ہے۔ تاہم خون جب جسم کا چکر لگا کر واپس دل تک پہنچے تو اس میں آکسیجن کی مقدار کم جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا دل یہ گندا خون پھیپھڑوں کی طرف بھیج دیتا ہے تاکہ وہاں نہ صرف اسے آکسیجن مل جائے بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی پاک صاف ہو سکے۔ پھیپھڑوںکی شریانیں گندا خون وہاں تک لاتی جبکہ ان کی وریدیں (veins) آکسیجن والا خون دل تک لے جاتی ہیں۔
دل اور پھیپھڑوں کے تعاون سے خون کی صفائی کا یہ نظام''پھیپھڑائی گردش'' (Pulmonary circulation) کہلاتا ہے۔ یہ انسانی جسم میں خون کی گردش کے نظام یعنی'' قلبی وعائی نظام'' (Circulatory system) کا ذیلی حصہ ہے۔خون کی گردش میں دل اور پھیپھڑوں کے قریبی تعلق کی وجہ ہی سے پلمونری ایمبولزم یعنی خون کا لوتھڑا خاص طور پہ پھیپھڑے میں پہنچ کر بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔
موت کی کیا وجہ؟
وجہ یہ ہے کہ لوتھڑے کی وجہ سے پھیپھڑوںمیں خون کی روانی میں رکاوٹ جنم لیتی ہے۔ تب دل کو یہ رکاوٹ دور کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ دل جب مسلسل تیزی سے دھڑکتا رہے تو قدرتاً کمزور ہونے لگتا ہے۔ اگر خون کا لوتھڑا اپنی جگہ قائم رہے تو کبھی نہ کبھی دل تھک ہار کر رک جاتا ہے۔ تبھی انسان پہ ہارٹ اٹیک کا حملہ ہوتا ہے۔
اگر یہ حملہ زوردار ہو تو انسان جلد چل بستا ہے۔ اور دیکھنے والے حیران پریشان رہ جاتے ہیں۔ انھیں سمجھ نہیں آتا کہ بظاہر تندرست نظر آنے والا ان کا پیارا اچانک موت کا شکار کیسے ہو گیا۔ طبی معائنے کے بعد ہی انکشاف ہوتا ہے کہ موت کی وجہ پھیپھڑوں کی شریان میں جما خون کا لوتھڑا تھا۔ اسی لیے اس موذی کا بروقت علاج کرنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ریاض میدان ِعمل میں
ڈاکٹر ریاض بشیر سری نگر، مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئے۔ چھوٹے ہی تھے کہ والدین بھارتی حکمران طبقے کی غلامی کا طوق اتار کر امریکا چلے آئے۔ انھوں نے وہیں ڈاکٹری کی تعلیم پائی اور امراض قلب کو اپنا شعبہ بنایا۔ طویل عرصے سے فلاڈلفیا شہر میں واقع ہسپتال، ٹیمپل یونیورسٹی ہوسٹل سے بطور سرجن امراض ِقلب وابستہ ہیں۔ نیز اسی شہر میں واقع تعلیمی ادارے، ٹیمپل یونیورسٹی سکول آف میڈیسن میں پروفیسر میڈیسن بھی ہیں۔
جیسا کہ بتایا گیا، پلمونری ایمبولزم کا علاج بڑا کٹھن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر پھیپھڑے میں خون کا لوتھڑا پھنس جائے تو اسے نکالنے کے لیے اوپن ہارٹ سرجری کرنا پڑتی ہے جو ایک طویل، بہت مہنگا اور مشکل آپریشن ہے۔ یہی وجہ ہے، ہر سال دنیا میں کئی مردوزن پلمونری ایمبولزم میں مبتلا ہو کر چل بستے ہیں کیونکہ ان کا شافی علاج نہیں ہو پاتا۔ پچھلے ایک عشرے سے کیتھیٹر علاج متعارف کرایا گیا مگر وہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکا۔
پلمونری ایمبولزم کے علاج میں درج بالا رکاوٹیں دیکھ کر ڈاکٹر ریاض بشیر نے فیصلہ کیا کہ اپنا تجربہ بروئے کار لا کر ایسے کیتھیٹر ایجاد کیے جائیں جن کی بدولت پلمونری ایمبولزم کا آپریشن کرنا آسان ہو جائے۔ انھوں نے اپنے منصوبے کے متعلق ساتھی ڈاکٹروں کو بتایا تووہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ ڈاکٹروں کو یقین تھا کہ ریاض بشیر کبھی اپنی ایجاد پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔
ڈاکٹر ریاض کی نیت مگر صاف تھی۔وہ مالی منفعت نہیں انسانیت کی خدمت کے لیے یہ کیتھیٹربنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے خدائے برتر نے بھی اپنے بندے پہ کرم فرمایا۔ رفتہ رفتہ انھیں دوران راہ ساتھی ملتے گئے جنھوں نے تحقیق وتجربات کے لیے سرمایہ فراہم کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب کوامریکی وفاقی حکومت اور ریاست پنسیلوانیا نے بھی پچاس لاکھ ڈالر کی امداد سے نوازا۔ ایجاد آخر پانچ سال کی طویل جدوجہد اور ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر کے خرچ سے پچھلے برس پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔
ڈاکٹر ریاض بشیر کی زیرنگرانی انجام پانے والی ایجاد کوانہی کے نام پر ''بشیر اینڈوویسکولر کیتھیٹر'' (BASHIR™ Endovascular Catheter) کا نام دیا گیا۔ اپریل 2023ء میں امریکا کے سرکاری ادارے، ایف ڈی اے نے انسانوں کے پھیپھڑوں اور ٹانگوں سے خون کے لوتھڑے نکالنے کی خاطر 'بشیر اینڈوویسکولر کیتھیٹر' کے استعمال کی اجازت دے دی۔ آج امریکا ہی نہیں پوری دنیا میں سرجن خون کے لوتھڑے نکالنے کی خاطر ایک کشمیری ڈاکٹر کی یہ استعمال میں آسان ایجاد کامیابی سے برت رہے ہیں۔ یہ سبھی سرجن ڈاکٹر ریاض کی تعریف کرتے اور انھیں انسان دوست معالج قرار دیتے ہیں۔ 'بشیر اینڈوویسکولر کیتھیٹر' کی سات اقسام ہیں۔ پانچ ٹانگوں اور دو پھیپھڑوںسے لوتھڑے نکالنے میں کام آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا ایجاد کردہ کیتھیٹر اپنے ابتدائی حصے میں ننھی منی اور باریک تاریں رکھتا ہے۔ جب کاندھے میں شگاف ڈال کر یہ کیتھیٹر مریض کے جسم میں داخل کیا جائے تو اس کی تاریں بند ہوتی ہیں۔ اسے پھر ننھے کیمرے کی مدد سے متعلقہ شریان میں اس جگہ پہنچایا جاتا ہے جہاں خونی لوتھڑے نے خون کی روانی روک رکھی ہے۔ اس جگہ پہنچ کر کیتھیٹر کی تاریں کسی غبارے کی طرح پھول جاتی ہیں۔ یوں شریان بھی پھیل جاتی ہے۔ اس طرح خون کو بہنے میں آسانی ملتی ہے۔ ساتھ ہی کیتھیٹر سے ایسی دوا لوتھڑے پہ ڈالی جاتی ہے جو اس کو گھلا دے۔
یہ اوپن ہارٹ سرجری کے مقابلے میں نسبتاً آسان اور کم خرچ آپریشن ہے۔اسی لیے پہلی بارخو ن کا لوتھڑا ختم نہ ہو تو جلد دوسرا آپریشن بھی کیا جاتا ہے۔ مریض کا خون کم سے کم نکلتا ہے۔ نیز بعض اوقات تو اسے بے ہوش بھی نہیں کرنا پڑتا، بس متعلقہ حصہ سُن کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ بشیر اینڈوویسکولر کیتھیٹر نے انسانی جسم میں خون کے لوتھڑے سے چھٹکارا بہت آسان بنا دیا، اسی لیے یہ معالجین اور مریضوں، دونوں میں بہت مقبول ہو رہا ہے۔مریض شفا پا کر ڈاکٹر ریاض کو دعائیں دیتے ہیں۔ یوں انھوں نے دنیا میں رہتے ہوئے ہی جنت پا لی۔
پلمونری ایمبولزم کی علامات
اس مرض کی ابتدائی علامت سانس لینے میں دشواری پیدا ہونا ہے۔ نیز سینے میں درد ہوتا ہے۔ یہ درد کاندھے، بازو، گردن اور جبڑے تک بھی پھیل سکتا ہے۔شدت بڑھ جائے تو کھانسی آنے لگتی ہے جو خون آلود بھی ہو سکتی ہے۔ جلد پیلی پڑ جاتی ہے۔ دل تیزی سے دھڑکتا ہے۔ پسینہ بکثرت آتا ہے۔ بعض اوقات بے چینی اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔
اس مرض سے بچنے کے لیے ورزش باقاعدگی سے کیجیے۔ چل نہیں سکتے تو ہر گھنٹے بعد بازو، ٹانگیں اور پیر چند منٹ تک ہلائیے۔ طویل عرصے بیٹھنا ہو تو خون کا بہائو نارمل رکھنے کے لیے سٹاکنگز پہنیے۔ پانی پیجیے۔ کیفین سے پرہیز کریں۔
سگریٹ سے دور رہیے۔ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر نہ بیٹھیں۔ چست کپڑے زیب تن نہ کریں۔ فربہ ہیں تو وزن کم کریں۔ اگر آپ کی ٹانگوں، بازو یا کسی بھی حصہ ِجسم میں خون کا لوتھڑا جنم لے چکا تو احتیاطی تدابیر کے بارے میں اپنے معالج سے مشورہ کیجیے۔
اچانک اس نے اپنے سینے پہ ہاتھ رکھا اور ایک جانب لڑھک گیا۔ لوگ اسے دیکھنے دوڑ پڑتے ہیں۔ عموماً ایسا انسان جلد ہی مر جاتا ہے اور اسے ہسپتال لے جانے کی نوبت بھی نہیں آتی۔
یہ وڈیو دیکھنے والے حیران ہو کر سوچتے ہیں کہ مرنے والا دیکھنے میں تو بھلا چنگا تھا، پھر موت نے یک دم کیوں اسے آن دبوچا؟اس کی موت کا ذمے دار ایک ایسا طبی خلل بھی ہو سکتا ہے جس کے بارے میں پاکستانی زیادہ نہیں جانتے۔ یہ طبی خلل ''پلمونری ایمبولزم'' (Pulmonary embolism) کہلاتا ہے۔
پاکستان میں تو اعداد وشمار دستیاب نہیں کہ ہمارے ہاں یہ طبی خلل ہر سال کتنے مرد و زن کو اپنا نشانہ بناتا ہے، تاہم امریکا میں سالانہ دس لاکھ باشندے اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ طبی خلل کا بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے چل بستے ہیں۔ امریکا میں امراض قلب کے گروہ میں پلمونری ایمبولزم، ہارٹ اٹیک اورسٹروک کے بعد اموات کا تیسرا بڑا ذمے دار ہے۔
پلمونری ایمبولزم کا علاج بڑا پیچیدہ اور کٹھن ہے۔ اسی لیے اس کا شکار ہزارہا مردوزن دوران علاج ہی چل بستے ہیں۔
پچھلے سال مگر ایک کشمیری نژاد امریکی معالج، ڈاکٹر ریاض بشیر نے پلمونری ایمبولزم کا سہل علاج دریافت کر کے پورے امریکا میں شہرت وعزت پا لی۔ ان کے ایجاد کردہ آلات سے یہ ممکن ہو گیا کہ جو لاکھوں امریکی اور دیگر ممالک میں بھی رہنے والے لوگ پلمونری ایمبولزم کی وجہ سے موت کے دہانے پہ پہنچ چکے، ان کی قیمتی زندگیاں بچائی جا سکیں۔
ایک انسان کی جان بچانا بہت بڑی سعادت ونیکی ہے جو خوش قسمت معالجین ہی کو ملتی ہے۔ ڈاکٹر ریاض بشیر کی ایجاد کیا ہے، یہ جاننے سے قبل پلمونری ایمبولزم کو سمجھ لیجیے کہ آخر یہ بلا کیسی ہے۔
طبی خلل کو سمجھیے
پلمونری ایمبولزم میں درج ذیل مردو زن مبتلا ہوتے ہیں:
٭جو موٹرسائیکل، کار، بس، ریل یا ہوائی جہاز میں طویل سفر کرتے ہوئے کئی گھنٹے زیادہ حرکت نہ کریں۔ یہ حالت آپریشن کے بعد بھی رونما ہو سکتی ہے۔ ٭جن کی ٹانگوں یا بازوؤں میں فریکچر ہوا ہو یا کوئی زخم لگ گیا ٭برتھ کنٹرول گولیاں استعمال کریں یا ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی اپنا لیں ٭سگریٹ نوشی کریں ٭فربہ ہوں جس کی وجہ سے وزن بڑھ جائے ٭حاملہ خاتون یا پچھلے چھ ہفتے میں بچے کو جنم دیاہو ٭بازو یا ٹانگ میں کیتھیٹرکا استعمال۔
ہوتا یہ ہے کہ درج بالا کسی بھی صورت حال کی وجہ سے خصوصاً ٹانگ یا بازو کی کسی رگ (vessel) میں رواں دواںخون جم جاتا ہے۔ معنی یہ کہ رگ میں کسی جگہ خون کا لوتھڑا (clot ) جنم لیتا ہے۔ اکثراوقات یہ خونی لوتھڑا خون کے ساتھ بہتے بہتے پھیپھڑوں کی شریانوں (arteries) میں پہنچ جاتا ہے۔ یہی حالت پھر'' پلمونری ایمبولزم ''کہلاتی ہے۔
ہمارا '' قلبی وعائی نظام''
یہ یاد رہے کہ ہمارے جسم میں خون چل پھر کر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جذب کرتا ہے جو خلیوں کی سرگرمیوں کے باعث جنم لیتی ہے۔ خون انہی خلیوں کو آکسیجن گیس بھی سپلائی کرتا ہے جو اس نے پھیپڑوں سے لی ہوتی ہے۔ تاہم خون جب جسم کا چکر لگا کر واپس دل تک پہنچے تو اس میں آکسیجن کی مقدار کم جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا دل یہ گندا خون پھیپھڑوں کی طرف بھیج دیتا ہے تاکہ وہاں نہ صرف اسے آکسیجن مل جائے بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھی پاک صاف ہو سکے۔ پھیپھڑوںکی شریانیں گندا خون وہاں تک لاتی جبکہ ان کی وریدیں (veins) آکسیجن والا خون دل تک لے جاتی ہیں۔
دل اور پھیپھڑوں کے تعاون سے خون کی صفائی کا یہ نظام''پھیپھڑائی گردش'' (Pulmonary circulation) کہلاتا ہے۔ یہ انسانی جسم میں خون کی گردش کے نظام یعنی'' قلبی وعائی نظام'' (Circulatory system) کا ذیلی حصہ ہے۔خون کی گردش میں دل اور پھیپھڑوں کے قریبی تعلق کی وجہ ہی سے پلمونری ایمبولزم یعنی خون کا لوتھڑا خاص طور پہ پھیپھڑے میں پہنچ کر بہت خطرناک ہو جاتا ہے۔
موت کی کیا وجہ؟
وجہ یہ ہے کہ لوتھڑے کی وجہ سے پھیپھڑوںمیں خون کی روانی میں رکاوٹ جنم لیتی ہے۔ تب دل کو یہ رکاوٹ دور کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ زور لگانا پڑتا ہے۔ دل جب مسلسل تیزی سے دھڑکتا رہے تو قدرتاً کمزور ہونے لگتا ہے۔ اگر خون کا لوتھڑا اپنی جگہ قائم رہے تو کبھی نہ کبھی دل تھک ہار کر رک جاتا ہے۔ تبھی انسان پہ ہارٹ اٹیک کا حملہ ہوتا ہے۔
اگر یہ حملہ زوردار ہو تو انسان جلد چل بستا ہے۔ اور دیکھنے والے حیران پریشان رہ جاتے ہیں۔ انھیں سمجھ نہیں آتا کہ بظاہر تندرست نظر آنے والا ان کا پیارا اچانک موت کا شکار کیسے ہو گیا۔ طبی معائنے کے بعد ہی انکشاف ہوتا ہے کہ موت کی وجہ پھیپھڑوں کی شریان میں جما خون کا لوتھڑا تھا۔ اسی لیے اس موذی کا بروقت علاج کرنا بہت ضروری ہے ورنہ یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ریاض میدان ِعمل میں
ڈاکٹر ریاض بشیر سری نگر، مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئے۔ چھوٹے ہی تھے کہ والدین بھارتی حکمران طبقے کی غلامی کا طوق اتار کر امریکا چلے آئے۔ انھوں نے وہیں ڈاکٹری کی تعلیم پائی اور امراض قلب کو اپنا شعبہ بنایا۔ طویل عرصے سے فلاڈلفیا شہر میں واقع ہسپتال، ٹیمپل یونیورسٹی ہوسٹل سے بطور سرجن امراض ِقلب وابستہ ہیں۔ نیز اسی شہر میں واقع تعلیمی ادارے، ٹیمپل یونیورسٹی سکول آف میڈیسن میں پروفیسر میڈیسن بھی ہیں۔
جیسا کہ بتایا گیا، پلمونری ایمبولزم کا علاج بڑا کٹھن ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر پھیپھڑے میں خون کا لوتھڑا پھنس جائے تو اسے نکالنے کے لیے اوپن ہارٹ سرجری کرنا پڑتی ہے جو ایک طویل، بہت مہنگا اور مشکل آپریشن ہے۔ یہی وجہ ہے، ہر سال دنیا میں کئی مردوزن پلمونری ایمبولزم میں مبتلا ہو کر چل بستے ہیں کیونکہ ان کا شافی علاج نہیں ہو پاتا۔ پچھلے ایک عشرے سے کیتھیٹر علاج متعارف کرایا گیا مگر وہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکا۔
پلمونری ایمبولزم کے علاج میں درج بالا رکاوٹیں دیکھ کر ڈاکٹر ریاض بشیر نے فیصلہ کیا کہ اپنا تجربہ بروئے کار لا کر ایسے کیتھیٹر ایجاد کیے جائیں جن کی بدولت پلمونری ایمبولزم کا آپریشن کرنا آسان ہو جائے۔ انھوں نے اپنے منصوبے کے متعلق ساتھی ڈاکٹروں کو بتایا تووہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ ڈاکٹروں کو یقین تھا کہ ریاض بشیر کبھی اپنی ایجاد پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے۔
ڈاکٹر ریاض کی نیت مگر صاف تھی۔وہ مالی منفعت نہیں انسانیت کی خدمت کے لیے یہ کیتھیٹربنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے خدائے برتر نے بھی اپنے بندے پہ کرم فرمایا۔ رفتہ رفتہ انھیں دوران راہ ساتھی ملتے گئے جنھوں نے تحقیق وتجربات کے لیے سرمایہ فراہم کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب کوامریکی وفاقی حکومت اور ریاست پنسیلوانیا نے بھی پچاس لاکھ ڈالر کی امداد سے نوازا۔ ایجاد آخر پانچ سال کی طویل جدوجہد اور ایک کروڑ ستر لاکھ ڈالر کے خرچ سے پچھلے برس پایہ تکمیل تک پہنچ گئی۔
ڈاکٹر ریاض بشیر کی زیرنگرانی انجام پانے والی ایجاد کوانہی کے نام پر ''بشیر اینڈوویسکولر کیتھیٹر'' (BASHIR™ Endovascular Catheter) کا نام دیا گیا۔ اپریل 2023ء میں امریکا کے سرکاری ادارے، ایف ڈی اے نے انسانوں کے پھیپھڑوں اور ٹانگوں سے خون کے لوتھڑے نکالنے کی خاطر 'بشیر اینڈوویسکولر کیتھیٹر' کے استعمال کی اجازت دے دی۔ آج امریکا ہی نہیں پوری دنیا میں سرجن خون کے لوتھڑے نکالنے کی خاطر ایک کشمیری ڈاکٹر کی یہ استعمال میں آسان ایجاد کامیابی سے برت رہے ہیں۔ یہ سبھی سرجن ڈاکٹر ریاض کی تعریف کرتے اور انھیں انسان دوست معالج قرار دیتے ہیں۔ 'بشیر اینڈوویسکولر کیتھیٹر' کی سات اقسام ہیں۔ پانچ ٹانگوں اور دو پھیپھڑوںسے لوتھڑے نکالنے میں کام آتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا ایجاد کردہ کیتھیٹر اپنے ابتدائی حصے میں ننھی منی اور باریک تاریں رکھتا ہے۔ جب کاندھے میں شگاف ڈال کر یہ کیتھیٹر مریض کے جسم میں داخل کیا جائے تو اس کی تاریں بند ہوتی ہیں۔ اسے پھر ننھے کیمرے کی مدد سے متعلقہ شریان میں اس جگہ پہنچایا جاتا ہے جہاں خونی لوتھڑے نے خون کی روانی روک رکھی ہے۔ اس جگہ پہنچ کر کیتھیٹر کی تاریں کسی غبارے کی طرح پھول جاتی ہیں۔ یوں شریان بھی پھیل جاتی ہے۔ اس طرح خون کو بہنے میں آسانی ملتی ہے۔ ساتھ ہی کیتھیٹر سے ایسی دوا لوتھڑے پہ ڈالی جاتی ہے جو اس کو گھلا دے۔
یہ اوپن ہارٹ سرجری کے مقابلے میں نسبتاً آسان اور کم خرچ آپریشن ہے۔اسی لیے پہلی بارخو ن کا لوتھڑا ختم نہ ہو تو جلد دوسرا آپریشن بھی کیا جاتا ہے۔ مریض کا خون کم سے کم نکلتا ہے۔ نیز بعض اوقات تو اسے بے ہوش بھی نہیں کرنا پڑتا، بس متعلقہ حصہ سُن کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ بشیر اینڈوویسکولر کیتھیٹر نے انسانی جسم میں خون کے لوتھڑے سے چھٹکارا بہت آسان بنا دیا، اسی لیے یہ معالجین اور مریضوں، دونوں میں بہت مقبول ہو رہا ہے۔مریض شفا پا کر ڈاکٹر ریاض کو دعائیں دیتے ہیں۔ یوں انھوں نے دنیا میں رہتے ہوئے ہی جنت پا لی۔
پلمونری ایمبولزم کی علامات
اس مرض کی ابتدائی علامت سانس لینے میں دشواری پیدا ہونا ہے۔ نیز سینے میں درد ہوتا ہے۔ یہ درد کاندھے، بازو، گردن اور جبڑے تک بھی پھیل سکتا ہے۔شدت بڑھ جائے تو کھانسی آنے لگتی ہے جو خون آلود بھی ہو سکتی ہے۔ جلد پیلی پڑ جاتی ہے۔ دل تیزی سے دھڑکتا ہے۔ پسینہ بکثرت آتا ہے۔ بعض اوقات بے چینی اور گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے۔
اس مرض سے بچنے کے لیے ورزش باقاعدگی سے کیجیے۔ چل نہیں سکتے تو ہر گھنٹے بعد بازو، ٹانگیں اور پیر چند منٹ تک ہلائیے۔ طویل عرصے بیٹھنا ہو تو خون کا بہائو نارمل رکھنے کے لیے سٹاکنگز پہنیے۔ پانی پیجیے۔ کیفین سے پرہیز کریں۔
سگریٹ سے دور رہیے۔ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر نہ بیٹھیں۔ چست کپڑے زیب تن نہ کریں۔ فربہ ہیں تو وزن کم کریں۔ اگر آپ کی ٹانگوں، بازو یا کسی بھی حصہ ِجسم میں خون کا لوتھڑا جنم لے چکا تو احتیاطی تدابیر کے بارے میں اپنے معالج سے مشورہ کیجیے۔