پتھر پہ لکیر
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں 2024 انتخابات کا سال ہے
کسی بھی ملک میں ہونے والے عام انتخابات جمہوریت کا جزولاینفک اور جمہوری نظام کا حسن ہوتے ہیں۔ پاکستان میں تمام رجسٹرڈ ووٹرز کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے ۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو ووٹرز براہ راست منتخب کرتے ہیں۔
آئین کی دفعہ 218 کے تحت یہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ پورے ملک میں قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخابات کو شفاف، منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انعقاد کو یقینی بنائے تاکہ اس کے نتائج سب کے لیے قابل قبول ہوں۔
آئین کے تحت لازم ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر منعقد کیے جائیں اور ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے برابری کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ کسی ایک سیاسی جماعت کی طرفداری کا تاثر پیدا نہ ہو اور نہ ہی مخالفت کا کوئی شائبہ نظر آئے تب ہی الیکشن کے نتائج قابل قبول ہو سکتے ہیں ۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں 2024 انتخابات کا سال ہے۔ پاکستان میں 8 فروری 2024 کو انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے۔ ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے لیکن الیکشن کا وہ ماحول بنتا نظر نہیں آ رہا ہے بلکہ اس کے مقررہ وقت پر انعقاد پر اب تک شکوک و شبہات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
ایک جانب عدالت عظمیٰ نے دو ٹوک اور حتمی فیصلہ دے دیا ہے کہ عام انتخابات 8 فروری2024 کو ہوں گے۔ یہ پتھر پر لکیر ہے اور کوئی کسی خوش فہمی میں نہ رہے، ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کی کہ الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے منفی خبریں نہ پھیلائی جائیں۔ لیکن دوسری جانب پارلیمان کے ایوان بالا میں درجن بھر سینٹرز نے الیکشن کے التوا کی نہ صرف قرارداد منظور کی بلکہ عجلت میں نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق ایک آزاد سینیٹر دلاور خان نے سینیٹ میں الیکشن ملتوی کرانے کی قرارداد پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ صوبہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے لیے حالات موزوں نہیں ، وہاں دہشت گردی کی کارروائیاں ہو رہی ہیں، مولانا فضل الرحمن کے قافلے پر حملہ ہو چکا ہے، الیکشن مہم چلانے کے مواقعے نہیں مل رہے ہیں۔
قرارداد میں محکمہ صحت کے حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس بھی پھیل رہا ہے، ایسی نازک صورت حال میں دونوں صوبوں میں 8 فروری کو الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں لہٰذا الیکشن کمیشن 8 فروری کا الیکشن شیڈول معطل کرے۔ قرارداد کی منظوری کے وقت سینیٹ میں کل 14 ارکان تھے جن میں سے 12 ارکان نے قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا۔
پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ایک ایک رکن وہاں موجود تھے ، جنھوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا، (ن) لیگ کے سینیٹر نے قرارداد کی مخالفت کی۔ حیرت کی بات یہ کہ قرارداد کی منظوری کے وقت سینیٹ کا کوئی کورم بھی پورا نہیں تھا، اس کے باوجود چیئرمین سینیٹ نے قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی اور کسی رکن نے کورم پورا نہ ہونے کی جانب چیئرمین سینیٹ کی توجہ بھی مبذول نہیں کروائی۔
سینیٹ میں منظور ہونے والی اس قرارداد کے حوالے سے ملک کے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں الیکشن کے التوا کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ میں الیکشن کے ملتوی کرنے کی قرارداد ہمارے موقف کی تائید ہے،کچھ وقت کے لیے اگر الیکشن ملتوی ہو جائیں تو آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا، کے پی کے اور بلوچستان میں حالات کی سنگینی کا ادراک کیا جائے۔
مولانا اس سے قبل بھی اپنے متعدد بیانات اور انٹرویوز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ کے پی کے اور بلوچستان میں امن و امان کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ وہاں کے دگرگوں حالات کی وجہ سے انتخابی مہم چلانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا الیکشن کو کچھ وقت کے لیے ملتوی کر دیا جائے۔ جب کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی سمیت دیگر سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے مقررہ تاریخ 8 فروری کو الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی سے بھی قرارداد منظور کیوں نہ ہو جائے الیکشن 8 فروری ہی کو ہوں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ سینیٹ کی قرارداد کے آگے پیچھے کوئی بھی ہو الیکشن شیڈول پر عمل ہوگا، اور الیکشن 8 فروری ہی کو ہوں گے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے سینیٹ میں جوابی قرارداد جمع کرواتے ہوئے موقف اختیارکیا ہے کہ الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد کی منظوری ماورائے آئین ہے، یہ نگراں حکومت اور الیکشن کمیشن کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ مقررہ وقت پر الیکشن کے انعقاد کو یقینی بنائیں، ادھر الیکشن کے التوا کی قرارداد پاس کرنے والے سینٹزز کے خلاف غداری کے مقدمے کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواست بھی دائر کردی گئی ہے۔مبصرین و تجزیہ نگار سینیٹ کی قرارداد اور مولانا فضل الرحمن کی تائید کے تناظر میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ عدالت عظمیٰ کے واضح حکم جیسا کہ منصف اعلیٰ کا فرمان ہے کہ 8 فروری کے الیکشن پتھر پر لکیر ہیں وہ کون سی خفیہ قوتیں ہیں جو الیکشن کے التوا کے تانے بانے بننے کے لیے کوشاں ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ سال 2023 میں عدالت عظمیٰ نے پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن کے لیے پہلے 30 اپریل پھر 14 مئی کا حتمی فیصلہ دیا لیکن وہ پتھر پر لکیر ثابت نہ ہو سکا اور اب 8 فروری کے الیکشن کو بھی دھندلانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔