الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق

پی ٹی آئی کے وکلا قابل اعتراض تقاریر کر رہے ہیں اور نگراں حکومت ان کے آگے بے بس ہے


Muhammad Saeed Arain January 11, 2024
[email protected]

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن ضابطہ اخلاق کے تحت فوج اور عدلیہ کے خلاف بیانات کو ممنوع قرار دیا ہے۔ سیاسی جماعتیں 8 فروری تک اس پابندی پر عمل کریں گی لیکن سیاسی رہنما ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی انتخابی تقاریر میں کوئی نہ کوئی بات کر ہی لیا کریں گے۔

موجودہ سیاسی حالات میں فوج اور عدلیہ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ پی ٹی آئی کے حامی وکلا، بعض وکلا تنظیموں خصوصاً لاہور اور کے پی کے وکیلوں نے اختیار کیا ہوا ہے ۔

سینئر وکلا چوہدری اعتزاز احسن، سردار لطیفہ کھوسہ جو آج کل بانی پی ٹی آئی حامی اور سپورٹر بنے ہوئے ہیں، پیپلز پارٹی نے ا لطیف کھوسہ سے تعلق ختم کرلیا ہے اور وہ اب باقاعدہ طور پر پی ٹی آئی میں شامل ہو چکے ہیں ، وہ اپنی پارٹی کے بانی کے وکیل ہیں اور خاصی دھوان دھار گفتگو کررہے ہیں ۔

چوہدری اعتزاز احسن بانی پی ٹی آئی کے حامی ضرور ہیں مگر وہ لطیف کھوسہ نہیں بنے جسکی وجہ سے پیپلز پارٹی میں ان کا احترام ابھی تک باقی ہے اور جس طرح انھوں نے شریفوں کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے اس پر پیپلز پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ پی پی کی انتخابی سیاست ہے جس کے تحت بلاول بھٹو پی ٹی آئی پر کم اور شریفوں پر زیادہ تنقید کرتے آ رہے ہیں۔ چوہدری اعتزاز احسن ماضی میں نواز شریف کے وکیل بھی رہ چکے ہیں۔

بینظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کے درمیان لندن میں میثاق جمہوریت تھا ۔ اس کے بعد کوئی لندن پلان تیار ہوا ہے یا نہیں، اس کے بارے میں میں نہیں جانتا ، البتہ اڈیالہ جیل کے قیدی کو ہر چیز میں لندن پلان نظر آ رہا ہے جس کی تائید پی ٹی آئی کے ہمدردوں کے سوا کوئی اور نہیں کررہا۔ البتہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں، وکیلوں اور حامیوں نے موجودہ حالات میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے فوج اور سپریم کورٹ خصوصاً چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر کڑی تنقید شروع کر رکھی ہے اور یہ یہ گروہ مسلسل زہریلا پراپیگنڈا کررہے ہیں۔

پی ٹی آئی مخالف حلقوں میں ایک تاثر یہ ہے کہ چونکہ پشاور ہائیکورٹ سے انھیں ریلیف مل رہا ہے، اس لیے انھیں وہاں کوئی شکایت نہیں ہے البتہ جہاں بانی پی ٹی آئی کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔

ان ججز کے فیصلوں پر پی ٹی آئی اور اس کے وکلا خوش نہیں ہیں اور ان پر تنقید کی جا رہی ہے جب کہ لندن میں بانی پی ٹی آئی کو سزا سنانے والے ہمایوں دلاور کے خلاف مظاہرے کرائے گئے تھے اور انھیں دھمکیاں دی گئی تھیں اور ایک خاتون جج کو دھمکی دینے کا کیس اب بھی بانی پی ٹی آئی پر چل رہا ہے، اس لیے اپنے ناپسندیدہ ججز کو دباؤ میں لانے کے لیے ان کی یہ حکمت عملی ہے ۔

پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم نے امریکا اور جنرل باجوہ پر اپنی حکومت ختم کرانے کا الزام لگایا تھا مگر سپریم کورٹ پر تنقید سے گریز کیا تھا کیونکہ وہاں اس وقت پی ٹی آئی کو سہولتیں دینے والے موجود تھے۔

یہ بات سب کو پتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندرون ملک اور بیرون ملک موجود ٹرولرز اور وی لاگرز نے پاک آرمی کو نشانہ بنا رکھا ہے اور سوشل میڈیا پر مذموم مہم جاری ہے، جس کی انتہا 9 مئی کو کی گئی اور ملکی تاریخ میں پہلی بار فوجی تنصیبات پر دن دیہاڑے حملے کیے گئے اور ایک سیاسی پارٹی کے شر پسندوں نے فوج میں بغاوت کرانے کی کوشش کی مگر فوج نے اپنا نقصان برداشت کر لیا مگر شرپسندوں کو جواب نہیں دیا جو پی ٹی آئی کی قیادت چاہتی تھی کہ جانی نقصان ان کا ہو اور انھیں مظلوم بننے کا موقعہ ملے مگر فوج نے ایسا نہیں ہونے دیا۔

پی ٹی آئی حکومت نے صدارتی ریفرنس کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سازش کی مگر وہ اس میں بھی ناکام رہی تھی۔ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کے سخت خلاف ہے تو اس کی پابندی کو وہ کیوں اہمیت دے گی؟ 9 مئی کے سانحے میں ملوث ملزموں کو پی ٹی آئی الیکشن لڑانا چاہتی ہے ۔

پی ٹی آئی کے وکلا قابل اعتراض تقاریر کر رہے ہیں اور نگراں حکومت ان کے آگے بے بس ہے۔ ایسے جن لوگوں کو پکڑا جاتاہے انھیں فوری ضمانت مل جاتی ہے، ایسی صورت حال میں الیکشن کمیشن کی پابندی سے کچھ بھی نہیں ہوگا، یہ پابندی ناکافی ہے، جب تک ریلیف کے چور دروازے بند نہیں ہوتے، کسی پابندی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں