جامعہ کراچی آئی سی سی بی ایس کے ڈائریکٹر کو سبکدوش کرنے کی سفارش
ڈاکٹرنادرہ پنجوانی میموریل ٹرسٹ کی چیئرپرسن نادرہ پنجوانی اور عزیز لطیف جمال کا ڈاکٹرعطاء الرحمٰن کو خط
جامعہ کراچی میں بین الاقوامی شہرت کے حامل واحد ادارے "انٹرنیشنل سینٹرآف کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز"(آئی سی سی بی ایس)میں ڈونرزکی غیرضروری اورغیرآئینی مداخلت کے سبب صورتحال دگرگوں ہوگئی ہے۔
یہ ادارہ سائنسی دنیا میں ریسرچ کے حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے تاہم اب بعض فیکلٹی اراکین بھی ڈونرزکی مداخلت میں ان کے ہمقدم ہوکر انسٹی ٹیوٹ کی منیجمنٹ کے خلاف محاذآرائی میں شامل ہوگئے ہیں جس سے ادارے کو بہتر نظم ونسق کے ساتھ چلانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
سائنسی ریسرچ کے کم از کم پانچ تحقیقی اداروں اورایک ڈیجیٹل لائبریری پر مشتمل آئی سی سی بی ایس کے ڈونرڈاکٹرنادرہ پنجوانی میموریل ٹرسٹ کی چیئرپرسن نادرہ پنجوانی اوراورحسین ابراہیم جمال فاؤنڈیشن کے چیئرمین عزیز لطیف جمال نے اپنی مداخلت سے بھرپورایک خط ادارے کے پیٹرن انچیف ڈاکٹرعطاء الرحمٰن کے حوالے کیا ہے جس میں آئی سی سی بی ایس کی موجودہ قائم مقام سربراہ ڈاکٹر فرزانہ شاہین کوادارے میں بدانتظامی اورناقص انتظامی معاملات کاذمے دارے قرار دیتے ہوئے عہدے سے برطرف کرنے اوران جگہ کسی دوسرے سینیئرفیکلٹی رکن کومقررکرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ادارے کے بعض اساتذہ نے ڈائریکٹرسے بعض اختلافات کے بعداپنی سروس حدود سے تجاوزکرتے ہوئے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کوبراہ راست خطوط یا ای میل لکھ کر آئی سی سی بی ایس میں مداخلت کی دعوت دی ہے۔
بتایا جارہا ہے کہ ان سے 200ملین روپے سے زائد کے سائنسی پروجیکٹس کی تفصیلات طلب کی گئی تھیں جس کے بعد یہ صورتحال پیدا ہوئی۔
واضح رہے کہ تمام ترصورتحال آئی سی سی بی ایس کے سابق ڈائریکٹرپروفیسرڈاکٹراقبال چوہدری کے عہدے کی چارسالہ مدت ستمبر میں ختم ہونے کے بعد شروع ہوئی کیونکہ ڈونرزسمیت کئی فیکلٹی اراکین بھی 20برس سے ڈائریکٹرکی اسامی پر موجودریٹائرڈپروفیسرڈاکٹراقبال چوہدری کوہی اس اسامی پر دیکھناچاہتے تھے۔
تاہم کچھ ملازمین اس معاملے پر عدالت چلے گئے اورمعاملہ قانونی دائرہ کارمیں آنے کے بعد"بی اوجی"کے منعقدہ ایک اجلاس میں ادارے کی حاضر سروس اور سینیئر ترین پروفیسر ڈاکٹرفرزانہ شاہین کوتین ماہ کے لیے قائم مقام ڈائریکٹرمقررکردیا گیا، جسے کچھ فیکلٹی اراکین نے قبول نہیں کیا۔
بتایاجارہا ہے کہ اسی اجلاس میں جب کچھ اراکین نے محسوس کیاکہ اب ڈاکٹراقبال چوہدری کی مدت ملازمت میں مزیدتوسیع قانونی طور پر ممکن نہیں رہی توانھوں نے ڈاکٹرچوہدری کوادارے کا ایڈوائزمقررکرنے کی تجویز پیش کردی تاہم چونکہ ایڈوائزرکی اسامی کی کوئی قانونی گنجائش ایکٹ میں موجود نہیں تھی لہذایہ خواہش پوری نہیں ہوسکی ۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نئی تقرریوں پرعائد پابندی کے سبب وائس چانسلرکی جانب سے ڈاکٹر فرزانہ شاہین کواس عہدے پر کام کرنے کے لیے تاحکم ثانی توسیع دے دی گئی۔
اس اثناء میں کچھ اہم واقعات رونما ہوئے، قائم مقام ڈائریکٹرنے اس ادارے میں موجود یونیسکوچیئرکی تعمیر کے فنڈزروک دیے اورکنٹریکٹر کوادائیگیاں جاری نہیں کی گئیں کیونکہ انکشاف ہواکہ دراصل اس مد میں کوئی فنڈمختص ہی نہیں تھا اوردیگرمدوں سے یونیسکوچیئرکی تعمیر بغیرکسی منظوری کے کی جارہی تھی۔
دوسری جانب یہ معلوم ہواکہ سابق ڈائریکٹرکے انتہائی قریب سمجھے جانے والے دوفیکلٹی اراکین سے جب موجودہ انتظامیہ نے کینسرکے مرض کی تشخیص کے حوالے سے جاری ریسرچ پروجیکٹ کی تفصیلات مانگی جس کی مالیت 200ملین روپے سے زائد بتائی جاتی ہے توانھوں نے یہ تفصیلات اپنے ادارے کوفراہم کرنے کے بجائے ایک شکایت نامہ ایچ ای سی کوبذریعہ ای میل ارسال کردیاجس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ موجودہ ڈائریکٹرکے دور میں یہ ادارہ بربادی کی جانب جارہاہے لہذااس میں فوری مداخلت کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ جب یہ ای میلز آشکارہوئی تودونوں فیکلٹی اراکین سے پوچھ گچھ شروع ہوئی اورفیصلہ کیا گیا کہ دونوں سے اس معاملے پر باز پرس کی جائے اور انھیں شوکازکیاجائے تاہم یہ صورتحال سامنے آتے ہی ادارے کے دونوں ڈونرعزیز لطیف جمال اورنادرہ پنجوانی میدان میں آگئے۔
ایک غیر رسمی اجلاس خود ہی بلالیا اوراس میں قائم ڈائریکٹرزکوبھی بلایا گیا اورمبینہ طور پر انھیں شدید دباؤمیں لیاگیا ، انھیں بتانے کی کوشش کی کہ وہ اس منصب پر ڈاکٹراقبال چوہدری کی وجہ سے ہی فائز ہیں انھوں نے ہی آپ کواس منصب پر بٹھانے کی تجویز دی تھی لہذاآپ ان کی legacyکوچیلنج نہ کریں ان کی مشاورت سے چلیں اورجیساوہ کہتے ہیں ویساکریں کسی فیکلٹی کوشوکاز جاری کرنے کی ضرورت نہیں ان سے معذرت کروادیں گے بس یہی کافی ہے۔
تاہم اس کے بعد جب قائم مقام ڈائریکٹرکی جانب سے دونوں فیکلٹی اراکین کوشوکاز جاری کیے گئے توایک نے شوکازبظاہروصول ہی نہیں کیا۔ ادھر"ایکسپریس"نے اس صورتحال پر جب آئی سی سی بی ایس کی قائم مقام سربراہ ڈاکٹر فرزانہ شاہین سے رابطہ کیا اوران سے اس تمام صورتحال پر دریافت کیا توانتہائی استفسارکے بعد انھوں نے بعض معاملات کی تصدیق کی اوردونوں مذکورہ ڈونرکی جانب سے بلائے گئے اس غیررسمی اجلاس اوراس میں ان پر ڈالے جانے والے دباؤاورادارے میں بعض فیکلٹی کی جانب سے کھڑی کی جانے والی مشکلات کاذکراورتصدیق بھی کی۔
انہوں نے بتایاکہ یہ پہلی بارہے کہ ادارے اوریونیورسٹی کے پروٹوکول توڑکرایچ ای سی کومداخلت کی دعوت دی جاتی ہے جس پر شوکاز جاری کیا گیا۔
"ایکسپریس"کے اس سوال پر کہ ایک خط کے ذریعے ادارے کے ڈونرزپر آپ پر عدم اعتماد کیاہے اورآپ کی کارکردگی پر کڑی تنقید بھی کی ہے ان کا کہنا تھا کہ اگر کارکردگی ہی دیکھنی ہے تو گزشتہ 20 برسوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہمارے ایم فل/پی ایچ ڈی کے طلبہ نے گزشتہ 3 ماہ میں 41 ریسرچ تھیسز جمع کرائے ہیں 35 کا وائیوا ہوا ہے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ تدریسی و غیر تدریسی عملے اور طلبی کے لیے جلد ایک کیفے ٹیریا تعمیر کیا جائے تاکہ ہمارے ریسرچ اسکالر اپنا قیمتی وقت بچا سکیں۔
انھوں نے انکشاف کیا کہ جب میں نے ہاسٹل کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے طلبہ آیسی صورتحال میں ہاسٹل میں رہ رہے ہیں ناگفتہ با ہے ہم نے کوشش کی ہے کہ انھیں رہنے کے لیے معیاری رہائش دیں۔
ادھرمعلوم ہواہے کہ دونوں ڈونرزنے ڈاکٹرفرزانہ شاہین کی بحیثیت ڈائریکٹرآئی سی سی بی ایس عہدے کی مدت میں توسیع کوادارے کے لیے نقصان دہ قراردیا ہے
اوراپنے خط میں موقف اختیارکیا ہے کہ ڈاکٹرفرزانہ شاہین کی یہ مدت تنازعات اورناقص انتظامی معاملات سے پر ہے جہاں ذاتی عناد اورادنی معاملات ادارے میں گشت کرتے نظرآتے ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ اب فیکلٹی کے مابین سنگین اختلافات ابھررہے ہیں اوریہ تمام صورتحال ذرائع ابلاغ تک بھی جارہی ہے اوریہ اندرونی اختلافات ادارے کی ساکھ کومجروح کررہے ہیں لہٰذایہ ادارے کے بہترمفاد میں ہے کہ اگلی سینئرترین فیکلٹی ممبرکو یہ موقع فراہم کیاجائے کہ وہ دیگرفیکلٹی کے ساتھ معاملات کوافہام وتفہیم کرے تاکہ ادارہ دوبارہ اپنے راستے پر آسکے۔
اسی خط میں سابق ڈائریکٹرڈاکٹراقبال چوہدری کوادارے کے ایڈوائز کے طورپر تقررکرنے کی یاددہانی بھی کرائی گئی ہے۔
اس سلسلے میں جب "ایکسپریس"نے آئی سی سی بی ایس کے ایگزیکیٹو بورڈ کی رکن اور شکایتی خط تحریر کرنے والی نادرہ پنجوانی سے رابطہ کیاتو اور ان سے اس خط کے بارے میں دریافت کیا جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا داخلی معاملہ ہے لہذا اس پر بات نہیں ہوسکتی۔ تاہم جب ان سے استفسار کیا گیا کہ آئی سی سی بی ایس ایک سرکاری ادارہ ہے جو جامعہ کراچی کے ماتحت اور ایچ ای سی کے فنڈز سے چلتا ہے جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک ہے لیکن اس کے باوجود وہ سمجھتی ہیں کہ یہ داخلی معاملہ ہے اس پر بات نہ کی جائے۔
مزیدبرآں جب ایگزیکیٹو بورڈ کے ایک رکن اور مشترکہ خط تحریر کرنے والے عزیزجمال سے رابطہ کیاگیاتو وہ بات چیت سے گریزاں رہے فون ریسیوو کیا اور نہ ہی میسج کا جواب دیا۔