پاکستان ایک نظر میں دھرنوں کا گرم موسم۔ ۔ ۔

پاکستان تحریک انصاف جس طرح دھرنوں کے چھکے مار رہی ہے اس سے حریف جماعتوں کے لئے ایک غیر معمولی ماحول پیدا ہو چکا ہے.


علی رضا شاف May 31, 2014
پاکستان تحریک انصاف جس طرح دھرنوں کے چھکے مار رہی ہے اس سے حریف جماعتوں کے لئے ایک غیر معمولی ماحول پیدا ہو چکا ہے. فوٹو اے ایف پی

ملک بھر میں موسم میں تبدیلی کیسا تھ سیاسی مو سم بھی گرم ہو نا شروع ہو گیا ہے اور سیا سی موسم میں یہ تبدیلی حکومت کے لئے سرد مہری کی حیثیت رکھتی ہے۔ روز اول سے ہی پاکستان کا طرہ امتیاز سیاسی موسم میں تبدیلی ہے۔ اور جمہوری لوگ اس تبدیلی کو جمہوریت کا حسن سمجھتے ہیں شاید یہ مصنوعی حسن ہی ہمارا طرئہ امتیاز ہوجسے دوام بخشنے کی خاطر آ ج کل ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان میدان میں نکلے ہو ئے ہیں جن کے جھنڈے تلے ایم کیو ایم، مسلم لیگ ق اور دیگر سیاسی جماعتوں کی شرکت متوقع ہے۔ پیپلز پارٹی کو بھی شرکت کی دعوت دی جا ئے گی مگر وہ اس کا حصہ نہیں بنے گی ،اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے انہیں دھرنوں کے بعد مذاکرات اور معاہدے کروانے میں مہارت حاصل ہے ۔ اب گرینڈ دھرنوں کے بعد حکومت سے مذاکرات کے لئےتو پیپلز پارٹی کو علیحدہ ہی رہنا ہو گا۔ جبکہ تحریک انصاف کا بھی ڈاکٹر طاہر القادر ی کا ساتھ دینے کا کچھ خاص ارادہ نظر نہیں آتا۔

گزشتہ برس عوامی تحریک کے بلٹ پروف دھرنے میں شرکت نہ کرکے عمران خان نے سیاسی پختگی کا اظہار کیا تھا۔ کیونکہ اگر اس وقت عمران خان دھرنے میں شامل ہو جاتے تو بعد میں کے پی کے میں بننے والی حکومت بھی خطرے میں پڑ جاتی ۔ مگرجب ڈی چوک کے دھرنے کے بعد عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی تو پھر اس وقت عوام نے وہی رائے قائم کرلی جو پہلے تمام سیاسی پارٹیوں کے متعلق رکھتے تھے ۔
صورتحال اب بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں پاکستان تحریک انصاف جمہوری طریقے سے نظام میں تبدلی چا ہتے ہیں اور ساتھ یہ بھی عندیہ دیتے ہیں کہ حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں گے جب کہ عوا می تحریک مکمل نظام الٹنے کی بات کرتی ہے۔ جس طرح دونوں جماعتوں کے نظریات اور وژن نہیں ملتے اسی طرح دونوں اکھٹے مل کر تحریک نہیں چلا سکتے ۔لہذا ڈاکٹر طاہر القادری کو عمران خان کو اپنے دھر نے میں شامل کرنے کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے۔

ویسے بھی آپ کینیڈا میں بیٹھ کر امریکہ کا نظام ٹھیک نہیں کر سکتے ،بنگلا دیش میں بیٹھ کر انڈیا کا نظام نہیں بدلا جاسکتا۔ نظام بدلنے اور غریبوں ،مزدوروں کے حق کی بات اس وقت ہی حقیقت لگتی ہے جب ان کے درمیان رہ کر ان کی زندگی میں شامل ہو کر جدوجہد کی جا ئے ۔دور بیٹھ کر نظام بدلنے کی باتیں بالکل مصنوعی لگتی ہیں اور ویسے بھی عوام اب مصنوعی لوگوں کو پہچان سکتے ہیں کیونکہ آج تک عوام نے جتنے بھی عوامی نما ئندے منتخب کیے وہ مصنوعی ہی تھے ۔موجودہ حکومت بھی تو مصنوعی الیکشن کی بدولت عمل میں آئی ،کیونکہ سوائے مسلم لیگ ن کے اس وقت تمام سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کا یہ مو قف ہے کہ 11مئی کو جمہوری الیکشن غیر جمہوری طریقے سے ہو ئے جس کی بدولت تحریک انصاف کا مینڈیٹ چوری ہو گیا ۔ ۔۔اب تو مینڈیٹ چوری ہونا اور کسی غریب کی بھینس چوری ہو جانا دونوں معمول کی بات بن چکے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف جس طرح دھرنوں کے چھکے مار رہی ہے اس سے حریف جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ(ن) کے لئے ایک غیر معمولی ماحول پیدا ہو چکا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت بن چکی ہے۔ حالیہ دنوں میں فیصل آباد میں ہو نے والے جلسے میں جس طرح عوام نے شرکت کی اس سے تو یہی محسوس ہو تا ہے کہ تحریک انصاف کے پاس اسٹریٹ پاور آ چکی ہے اور وہ ایک حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کر نے کی اہلیت رکھتی ہے جبکہ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) نے نہایت غیر سیاسی ذمہ داری کا مقابلہ کرتے ہو ئے تحریک انصاف کے جلسے کے مقابلے میں کنسرٹ کا بھی انعقاد کرچکی ہے جس میں مختلف مشہورگلوگاروں کو دعوت دی گئی تھی۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہو تا ہے کہ کیا(ن)لیگ سیاسی طور پر اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا مقابلہ کرنے کے لئے اسے کسی گلوکار وں سہارا لینا پڑے گا ؟ یا پھر(ن) لیگ کوئی نئی سیاسی روایت ڈالنا چا ہتی ہے ؟ یہاں پر اگر مقابلہ کرنا ہی تھا تو تحریک انصاف کے مقابلے میں اپنا سیاسی جلسہ بھی تو رکھا جاسکتا تھا۔مسلم لیگ(ن)اب بو کھلا ہٹ کا شکار نظر آ تی ہے اور یہ دباؤ مزید بڑھے گا کیو نکہ ایک طرف طالبان سے مذاکرات ڈیڈلاک کا شکار ہو گئے ہیں اور دوسری طرف دھرنے جاری ہیں ۔

اب عمران خان نے بھی اگلا جلسہ سیالکوٹ میں کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ تحریک انصاف اب سیالکوٹ کو فتح کرنا چاہتی ہے۔ویسے تو سیا لکوٹ خواجہ آ صف کا حلقہ ہے لہذا یہ بھی فیصل آباد کی طرح ایک چیلنج کی حثییت رکھتا ہے ، جیسا کہ فیصل آباد رانا ثنا ء اللہ اور عا بد شیر علی کا حلقہ تھاجس میں میڈیا ررپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کامیاب رہی۔ تاہم ایک خبر کے مطابق تحریک انصاف سیالکوٹ کے بعد بہا ولپور اور پھر کراچی کے بعد ایک بہت بڑا لانگ مارچ کرنے والی ہے جو حکومت کے لئے ایک فائنل مارچ بھی ہو سکتا ہے ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں