موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا مقابلہ کیا جائے
موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے قول وفعل میں تضاد ختم کرکے عملی اقدامات کی طرف پیش رفت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے
گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی کانفرنس نے موسمیاتی تبدیلی کو دنیا بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں صحت کے لیے بڑا خطرہ قرار دے دیا، دنیا کے ایک ارب بچے موسمیاتی بحران کے باعث ہائی رسک پر ہیں، پاکستان کی معیشت کو موسمیاتی تبدیلی سے سالانہ ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کا نقصان ہورہا ہے۔
درجہ حرارت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی سے سیلاب، وبائی امراض اور دیگر بیماریاں بڑھ رہی ہیں، ملیریا، ڈنگی، ٹائیفائیڈ، انفکیشن سے پیدا ہونے والی بیماریاں، ڈی ہائیڈریشن، خوراک کی کمی سمیت دیگر مسائل تیزی سے جنم لے رہے ہیں۔
پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی دو روزہ گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی کانفرنس کا آغاز اسلام آباد میں ہوگیا ہے، عالمی کانفرنس میں دنیا کے 70سے زائد ممالک سے شعبہ صحت کے ماہرین، وزرائے صحت، مندوبین اور وفد شریک ہیں۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مضر اور منفی اثرات کے مقابلے کے لیے متحرک ممالک میں صف اول میں کردار ادا کررہا ہے، تاہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جہاں پوری دنیا کو مختلف نوعیت کے چیلنج درپیش ہیں، وہاں اس کی کوکھ میں بچوں کے حوالے سے بھی ایک خاموش بحران پلتا دکھائی دے رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بچے جن مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، ان کے بنیادی اسباب میں ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور غذائی قلت جیسے عناصر شامل ہیں۔ تشویش کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ردعمل میں بچوں کی ضروریات کو نظر انداز کرنا بھی ہے۔
اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کلائمیٹ فنڈنگ کا محض 2.4% بچوں پر مرکوز سرگرمیوں کے لیے وقف ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے وابستہ بچوں کے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے مسائل کے مقابلے میں بہت کم شرح ہے۔
سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان نے غذائی قلت بھی پیدا کی ہے، جس سے پاکستان میں شدید غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس بحران کا ایک اہم پہلو پانی کی کمی کے گرد گھومتا ہے۔
پاکستان بھی دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے، جو پینے کے صاف پانی کی ناکافی سہولت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ مزید برآں موسمیاتی تبدیلی حیرت انگیز طور پر تعلیم کے بنیادی حق سے بھی بچوں کی محرومی کا سبب بن رہی ہے۔ آب و ہوا سے متعلق قدرتی آفات دنیا بھر میں 40 ملین بچوں کی تعلیم میں خلل ڈالتی ہیں جو کسی بھی قوم کا بڑا مجموعی نقصان ہے۔
پاکستان میں 2022 کا تباہ کن سیلاب پوری دنیا کے لیے ماحولیاتی تباہی کے خطرناک اثرات سے نمٹنے کے امکانات کا کیس اسٹڈی بن کر سامنے آیا ہے۔ اس بھیانک موسمیاتی بگاڑ سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں شعبہ صحت میں سنگین بحران پیدا ہوگیا۔
صحت کے 1400 سے زائد مراکز تباہ ہوئے تھے۔ عارضی کیمپس میں رہنے والے پناہ گزین پینے کے صاف پانی سے محروم رہے، وبائی امراض نے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا۔ سیلاب گزر گیا مگر اپنے پیچھے تباہی کی داستان چھوڑ گیا اور اس کے ٹھہرا ہوا پانی مچھروں کی افزائش گاہ بن گیا جو ابھی تک ملیریا اور ڈنگی کا باعث بن رہا ہے۔
پاکستان میں شدید غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ خواتین اور بچیاں موسمیاتی آفت سے مردوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے 2022 کے سیلاب میں ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ حاملہ خواتین طبی سہولیات و ادویات اور لاکھوں بچیاں بنیادی اشیاء سے محروم رہیں۔ حاملہ خواتین کو ڈاکٹر، دائیاں اور ادویات تک دستیاب نہیں تھیں۔
یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ کلائمیٹ چینج محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی نا انصافی کا اظہار ہے جو بھوک و افلاس، بیماریوں اور معاشرتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ یہ حالات متقاضی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کسی بھی عزم اور کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے صنفی نقطہ نظر سے بھی جائزہ لیا جائے اور خواتین کی برابر شرکت اور نمائندگی یقینی بنائی جائے۔
درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے تھکاوٹ، خشک سالی کی وجہ سے غذائیت کی کمی، وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ڈنگی بخار، ملیریا، کونگو وائرس،ٹائیفائیڈ، ہیضہ اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بڑھنا لوگوں کے کام کرنے اور روزی کمانے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جیسے زرعی پیداوار میں کمی، ساحلی کٹاؤ اور سمندری پانی کی دراندازی میں اضافے جس کی وجہ سے زیر آب آنے والی بستیوں کے رہائشی نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں۔
پاکستان کی فوسل فیول انڈسٹریز کی بے حسی کا شکار لاکھوں کان کنوں میں سے ایک ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح یہ صنعت بھی حفاظتی اقدامات اور انتظامات سے محروم ہے، جس کے باعث ورکرز سانس کی بیماریوں، گھنٹوں جھک کر کام کرنے کے باعث ہڈیوں کے چٹخنے اور دیگر طبی مسائل کا شکار ہیں، لیکن یہ خطرناک صورتحال صرف اس صنعت تک محدود نہیں بلکہ دیگر شعبوں میں بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔
اس مسئلے کا زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ معاشرے فیول انڈسٹریز کے تباہ کن اثرات کا زیادہ شکار ہیں جن کا اس صنعت کے پھیلاؤ یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی '' ماحولیاتی نا انصافی'' ہے اور اسی لیے یہاں سے جنم لینے والی ماحولیاتی تبدیلی سے صحت پر مرتب ہونے منفی اثرات کا جائزہ لینا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
امیر ممالک قابل تجدید توانائی کی جانب پیش رفت کے بجائے فوسل فیولز کے مزید پروجیکٹس شروع کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال ثبوت ہے کہ کس طرح یہ امیر ممالک فوسل فیول انڈسٹریز کو تحفظ دے کر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
جنھیں ماحولیاتی تباہی اور غریب ممالک کی آہ و بکا سے کوئی سروکار نہیں۔ ماحولیاتی بگاڑ کے ذمے دار یہی کلائمیٹ کرمنلز ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے تباہ کن اثرات کو دنیا سے پوشیدہ رکھنے کے پروپیگنڈے پر بھی اربوں ڈالر جھونک رہے ہیں۔ یہ ملک ایک طرف کلائمیٹ کانفرنسز کے انعقاد کو اسپانسر کر رہے ہیں تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کا عفریت دنیا بھر میں قوموں اور معیشتوں کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی آفات کے نشانے پر ہیں۔ یہ خطرے کی بات ہے کہ پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں جب کہ ہمالیہ اور ہندوکش پہاڑی سلسلے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں لگ بھگ تین ہزارگلیشیئر جھیلیں بن گئی ہیں۔ یعنی یہ نہریں گلیشیئرز کے پگھلنے کے باعث بنی ہیں۔ ان تین ہزار میں سے تین درجن کے قریب ایسی نہریں ہیں جو کسی بھی وقت سیلاب کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
سخت موسم ہمارے ذریعہ معاش اور انسانی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کی بنیادی آمدنی زراعت پر انحصارکرتی ہے، حالانکہ اب دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا جا رہا ہے اور زراعت کو بھی جدید طریقوں کے ذریعے کم وقت میں مؤثر کام لے کر، بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان ابھی تک اپنے گھسے پٹے پرانے طریقوں میں پھنسا ہوا ہے۔ جاگیردار اپنے علاقوں کو ماڈرن کرنا نہیں چاہتے کام ہاتھوں کے ذریعے لیا جاتا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری فصلیں ضایع ہو جاتی ہیں۔
پاکستان اپنی آب و ہوا کے حوالے سے حساس زمین رکھتا ہے، ہم جانتے ہیں فصلوں کا بہت زیادہ انحصار صاف پانی پر ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں زراعت اب بھی 42 فیصد آبادی کے لیے روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے اور تقریباً 90 فیصد زراعت کا انحصار گلیشیئر سے چلنے والے دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں سے ہونے والی آبپاشی نظام پر ہے۔
دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں نے گلیشیئر پگھلنے کی رفتار کو تیز کردیا ہے، جس کی وجہ سے گلیشیر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) اور نیچے کی طرف آنے والے سیلاب کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اب یہ بات توجہ طلب ہے کہ گلیشیر کا تیزی سے پگھلنا، زیادہ درجہ حرارت، بدلتے موسم اور بارش کی بے ترتیبی یہ سارے عوامل دریائے سندھ کے بہاؤ کو تبدیل کر رہے ہیں اور اس سے زراعت سے متعلقہ سرگرمیاں، خوراک کی پیداوار اور ذریعہ معاش پر تیزی سے اثر پڑ رہا ہے۔ ہم تیسری دنیا کے باشندے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی ویسے ہی کمر توڑ رکھی ہے اور ظاہر ہے، ان حالات کا لوگوں کی صحت پر بہت زیادہ برا اثر پڑ رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے قول و فعل میں تضاد ختم کر کے عملی اقدامات کی طرف پیش رفت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمیں اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اجتماعی اقدامات اور ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا بھی وقت آگیا ہے۔ دنیا کے لیے فیصلہ کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
درجہ حرارت میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی سے سیلاب، وبائی امراض اور دیگر بیماریاں بڑھ رہی ہیں، ملیریا، ڈنگی، ٹائیفائیڈ، انفکیشن سے پیدا ہونے والی بیماریاں، ڈی ہائیڈریشن، خوراک کی کمی سمیت دیگر مسائل تیزی سے جنم لے رہے ہیں۔
پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی دو روزہ گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی کانفرنس کا آغاز اسلام آباد میں ہوگیا ہے، عالمی کانفرنس میں دنیا کے 70سے زائد ممالک سے شعبہ صحت کے ماہرین، وزرائے صحت، مندوبین اور وفد شریک ہیں۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مضر اور منفی اثرات کے مقابلے کے لیے متحرک ممالک میں صف اول میں کردار ادا کررہا ہے، تاہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جہاں پوری دنیا کو مختلف نوعیت کے چیلنج درپیش ہیں، وہاں اس کی کوکھ میں بچوں کے حوالے سے بھی ایک خاموش بحران پلتا دکھائی دے رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بچے جن مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، ان کے بنیادی اسباب میں ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور غذائی قلت جیسے عناصر شامل ہیں۔ تشویش کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ردعمل میں بچوں کی ضروریات کو نظر انداز کرنا بھی ہے۔
اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کلائمیٹ فنڈنگ کا محض 2.4% بچوں پر مرکوز سرگرمیوں کے لیے وقف ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے وابستہ بچوں کے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے مسائل کے مقابلے میں بہت کم شرح ہے۔
سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان نے غذائی قلت بھی پیدا کی ہے، جس سے پاکستان میں شدید غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس بحران کا ایک اہم پہلو پانی کی کمی کے گرد گھومتا ہے۔
پاکستان بھی دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے، جو پینے کے صاف پانی کی ناکافی سہولت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ مزید برآں موسمیاتی تبدیلی حیرت انگیز طور پر تعلیم کے بنیادی حق سے بھی بچوں کی محرومی کا سبب بن رہی ہے۔ آب و ہوا سے متعلق قدرتی آفات دنیا بھر میں 40 ملین بچوں کی تعلیم میں خلل ڈالتی ہیں جو کسی بھی قوم کا بڑا مجموعی نقصان ہے۔
پاکستان میں 2022 کا تباہ کن سیلاب پوری دنیا کے لیے ماحولیاتی تباہی کے خطرناک اثرات سے نمٹنے کے امکانات کا کیس اسٹڈی بن کر سامنے آیا ہے۔ اس بھیانک موسمیاتی بگاڑ سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں شعبہ صحت میں سنگین بحران پیدا ہوگیا۔
صحت کے 1400 سے زائد مراکز تباہ ہوئے تھے۔ عارضی کیمپس میں رہنے والے پناہ گزین پینے کے صاف پانی سے محروم رہے، وبائی امراض نے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا۔ سیلاب گزر گیا مگر اپنے پیچھے تباہی کی داستان چھوڑ گیا اور اس کے ٹھہرا ہوا پانی مچھروں کی افزائش گاہ بن گیا جو ابھی تک ملیریا اور ڈنگی کا باعث بن رہا ہے۔
پاکستان میں شدید غذائی کمی کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ خواتین اور بچیاں موسمیاتی آفت سے مردوں کی نسبت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے 2022 کے سیلاب میں ساڑھے چھ لاکھ سے زیادہ حاملہ خواتین طبی سہولیات و ادویات اور لاکھوں بچیاں بنیادی اشیاء سے محروم رہیں۔ حاملہ خواتین کو ڈاکٹر، دائیاں اور ادویات تک دستیاب نہیں تھیں۔
یہ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ کلائمیٹ چینج محض ایک ماحولیاتی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی نا انصافی کا اظہار ہے جو بھوک و افلاس، بیماریوں اور معاشرتی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ یہ حالات متقاضی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کسی بھی عزم اور کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے صنفی نقطہ نظر سے بھی جائزہ لیا جائے اور خواتین کی برابر شرکت اور نمائندگی یقینی بنائی جائے۔
درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے تھکاوٹ، خشک سالی کی وجہ سے غذائیت کی کمی، وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ڈنگی بخار، ملیریا، کونگو وائرس،ٹائیفائیڈ، ہیضہ اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا بڑھنا لوگوں کے کام کرنے اور روزی کمانے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں جیسے زرعی پیداوار میں کمی، ساحلی کٹاؤ اور سمندری پانی کی دراندازی میں اضافے جس کی وجہ سے زیر آب آنے والی بستیوں کے رہائشی نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں۔
پاکستان کی فوسل فیول انڈسٹریز کی بے حسی کا شکار لاکھوں کان کنوں میں سے ایک ہے۔ دیگر شعبوں کی طرح یہ صنعت بھی حفاظتی اقدامات اور انتظامات سے محروم ہے، جس کے باعث ورکرز سانس کی بیماریوں، گھنٹوں جھک کر کام کرنے کے باعث ہڈیوں کے چٹخنے اور دیگر طبی مسائل کا شکار ہیں، لیکن یہ خطرناک صورتحال صرف اس صنعت تک محدود نہیں بلکہ دیگر شعبوں میں بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں۔
اس مسئلے کا زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وہ معاشرے فیول انڈسٹریز کے تباہ کن اثرات کا زیادہ شکار ہیں جن کا اس صنعت کے پھیلاؤ یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی '' ماحولیاتی نا انصافی'' ہے اور اسی لیے یہاں سے جنم لینے والی ماحولیاتی تبدیلی سے صحت پر مرتب ہونے منفی اثرات کا جائزہ لینا زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
امیر ممالک قابل تجدید توانائی کی جانب پیش رفت کے بجائے فوسل فیولز کے مزید پروجیکٹس شروع کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال ثبوت ہے کہ کس طرح یہ امیر ممالک فوسل فیول انڈسٹریز کو تحفظ دے کر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
جنھیں ماحولیاتی تباہی اور غریب ممالک کی آہ و بکا سے کوئی سروکار نہیں۔ ماحولیاتی بگاڑ کے ذمے دار یہی کلائمیٹ کرمنلز ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے تباہ کن اثرات کو دنیا سے پوشیدہ رکھنے کے پروپیگنڈے پر بھی اربوں ڈالر جھونک رہے ہیں۔ یہ ملک ایک طرف کلائمیٹ کانفرنسز کے انعقاد کو اسپانسر کر رہے ہیں تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کا عفریت دنیا بھر میں قوموں اور معیشتوں کی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
پاکستان کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن ہم موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آنے والی آفات کے نشانے پر ہیں۔ یہ خطرے کی بات ہے کہ پاکستان میں سات ہزار سے زیادہ گلیشیئرز موجود ہیں جب کہ ہمالیہ اور ہندوکش پہاڑی سلسلے میں گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے علاقوں میں لگ بھگ تین ہزارگلیشیئر جھیلیں بن گئی ہیں۔ یعنی یہ نہریں گلیشیئرز کے پگھلنے کے باعث بنی ہیں۔ ان تین ہزار میں سے تین درجن کے قریب ایسی نہریں ہیں جو کسی بھی وقت سیلاب کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
سخت موسم ہمارے ذریعہ معاش اور انسانی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ ہم سنتے آئے ہیں کہ پاکستان کی بنیادی آمدنی زراعت پر انحصارکرتی ہے، حالانکہ اب دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کو اپنایا جا رہا ہے اور زراعت کو بھی جدید طریقوں کے ذریعے کم وقت میں مؤثر کام لے کر، بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان ابھی تک اپنے گھسے پٹے پرانے طریقوں میں پھنسا ہوا ہے۔ جاگیردار اپنے علاقوں کو ماڈرن کرنا نہیں چاہتے کام ہاتھوں کے ذریعے لیا جاتا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری فصلیں ضایع ہو جاتی ہیں۔
پاکستان اپنی آب و ہوا کے حوالے سے حساس زمین رکھتا ہے، ہم جانتے ہیں فصلوں کا بہت زیادہ انحصار صاف پانی پر ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں زراعت اب بھی 42 فیصد آبادی کے لیے روزگار کا ایک اہم ذریعہ ہے اور تقریباً 90 فیصد زراعت کا انحصار گلیشیئر سے چلنے والے دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں سے ہونے والی آبپاشی نظام پر ہے۔
دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں نے گلیشیئر پگھلنے کی رفتار کو تیز کردیا ہے، جس کی وجہ سے گلیشیر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (GLOF) اور نیچے کی طرف آنے والے سیلاب کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اب یہ بات توجہ طلب ہے کہ گلیشیر کا تیزی سے پگھلنا، زیادہ درجہ حرارت، بدلتے موسم اور بارش کی بے ترتیبی یہ سارے عوامل دریائے سندھ کے بہاؤ کو تبدیل کر رہے ہیں اور اس سے زراعت سے متعلقہ سرگرمیاں، خوراک کی پیداوار اور ذریعہ معاش پر تیزی سے اثر پڑ رہا ہے۔ ہم تیسری دنیا کے باشندے ہیں مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی ویسے ہی کمر توڑ رکھی ہے اور ظاہر ہے، ان حالات کا لوگوں کی صحت پر بہت زیادہ برا اثر پڑ رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے قول و فعل میں تضاد ختم کر کے عملی اقدامات کی طرف پیش رفت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمیں اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اجتماعی اقدامات اور ہر فرد کو انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کا بھی وقت آگیا ہے۔ دنیا کے لیے فیصلہ کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔