اہل خانہ سے حسن سلوک کی فضیلت

جو شخص اہل خانہ کے لیے بہتر ہوگا وہ اوروں کے لیے بھی بہتر ہوگا اور اس کے نتیجے میں اس کی دنیا و عقبیٰ دونوں بہتر ہوگی

جو شخص اہل خانہ کے لیے بہتر ہوگا وہ اوروں کے لیے بھی بہتر ہوگا اور اس کے نتیجے میں اس کی دنیا و عقبیٰ دونوں بہتر ہوگی۔ فوٹو: فائل

ام المومنین سیّدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں، رحمت عالم ﷺ کا ارشاد ہے، مفہوم: ''تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے اہل کے لیے تم میں سب سے زیادہ بہتر ہوں۔''

(رواہ الترمذی، مشکوٰۃ المصابیح)

انسان کا خمیر انس سے ہے اور انسیت اس کی فطرت میں شامل ہے، اس لیے ہر انسان کو اپنی اجتماعی زندگی کے علاوہ نجی زندگی میں بھی ایک ایسے مونس کی تلاش ہوتی ہے جس کے سامنے وہ اپنی داستانِ زندگی بیان کرسکے اور کرۂ ارض پر کسی بھی انسان کے لیے نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی مونس نہیں۔

اﷲ رب العزت نے مرد کے لیے سب سے بڑا مونس اس کی بیوی کو بنایا۔ ارشادِ باری کا مفہوم: ''اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو۔''

ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کی تخلیق اور اس کے بعد جنت میں بی بی حوا کا وجود، اس بات کا ایک بڑا ثبوت ہے۔

بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو: جب یہ حقیقت ہے تو ایمان، اخلاق اور عقل کا تقاضا ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے۔

اس کے بغیر انسان سکون و اطمینان حاصل کر بھی نہیں سکتا، کیوں کہ اس سے انسان خود بھی سکون پائے گا اور گھر کا ماحول بھی پُرسکون رہے گا اور گھریلو زندگی اگر پُرسکون ہے تو اس کا اثر بیرونی زندگی پر لازمی ہے، اور گھریلو زندگی خوش گوار ہوگی بیوی کے ساتھ حسن سلوک، ادائے حقوق اور خوش اخلاقی سے۔ اس لیے قرآن نے حکم دیا، مفہوم:

''اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو۔'' (النسائ)

گویا حق تعالیٰ شوہروں کو بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرماتے ہیں۔ اس حقیقت کو حضور ِاکرم ﷺ نے بیان فرما کر اپنا عمل بھی امت کے سامنے پیش کیا، ارشاد فرمایا، مفہوم: ''تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بھی بہتر ہو۔'' اہل خانہ سے آدمی کا جتنا واسطہ پڑتا ہے عموماً اتنا دوسروں سے نہیں پڑتا، پھر گھر والوں سے بسا اوقات خلافِ مزاج باتیں بھی پیش آتی ہیں، اب ایسے موقع پر (بہ شرط یہ کہ خلافِ مزاج بات خلافِ شرع نہ ہو) چشم پوشی اور خوش اخلاقی سے کام لیا، تو یہ اس کے بہترین ہونے کی دلیل ہے۔

جن کا سلوک باہر تو اچھا ہو مگر اہل خانہ کے ساتھ بُرا ہو، تو یہ ان کے بداخلاق ہونے کی دلیل ہے۔ حضور ﷺ نے بنیادی بات بیان فرما دی کہ تم میں بہترین فرد وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم مرد ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم والدین کے لیے اچھی اولاد، بھائی بہن کے اچھے بھائی، بیوی کے بہتر شوہر اور گھر والوں کے لیے اچھے فرد ثابت ہوں، یہی حال عورتوں کا بھی ہوکہ وہ اپنے ماں باپ کے لیے اچھی اولاد، بھائی کے لیے اچھی بہن، شوہر کے لیے اچھی بیوی اور گھر والوں کے لیے نیک عورت ثابت ہوں، اگر واقعی معاملہ ایسا ہے تو یہ ان کے اچھے اور نیک ہونے کی علامت ہے۔


آپ ﷺ اپنے اہل بیتؓ اور اپنی تمام ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ حسن سلوک فرماتے، کبھی کسی کو ناراضی یا شکایت کا موقع نہ دیتے، بل کہ ہمیشہ ان کی دل جوئی کا خیال رکھتے تھے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر بیوی یہ سمجھتی کہ حضور اکرم ﷺ کو دیگر ازواجِ سے زیادہ مجھ سے محبت ہے۔

آپ ﷺ اپنی ازواجِ مطہراتؓ کی ضروریات کا پورا اہتمام فرماتے، جب سفر پر روانہ ہوتے تو ان کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے، جس کا نام نکل آتا اسے ساتھ لے جاتے، یہ بھی ازواج کی تالیف قلب کے لیے تھا۔ سیرتِ رسول اﷲ ﷺ میں ازواجِ مطہراتؓ کی دل داری کے متعلق کئی واقعات ملتے ہیں ۔

حضور ﷺ کا حضرت عائشہؓ سے کتنا محبت بھرا تعلق تھا کہ آپؐ ان کو کبھی پیار سے حمیرا فرماتے، یہ حضرت عائشہؓ کا لقب ہے، کبھی یاعائش! فرماتے، یہ سب بیوی کو پکارنے کے پیارے انداز تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ بھی سنت ہے کہ بیوی کو پیار بھرے نام سے پکارا جائے۔ آج اس سنت کو گھروں میں زندہ کرنے کی ضرورت ہے، اس پر عمل کرنے سے آپس میں محبت پیدا ہو کر نفرت دور ہوگی۔

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں پانی پیتی، یا ہڈی چوستی، پھر میں آپ ﷺ کو دیتی تو آپ ﷺ اسی مقام سے نوش فرماتے اور ہڈی سے گوشت نکال کر کھاتے جہاں سے میں پیتی یا کھاتی۔ (مسلم، شمائل کبری)

اگر خاوند اپنی بیوی کو اس طرح پیار دے ، اس کے ساتھ اس قسم کا حسن سلوک اور دل جوئی کا معاملہ کرے تو بیوی ضرور محبت کا جواب محبت ہی سے دے گی، ا س لیے کہ عورت کی فطرت میں ہے کہ اس کے ساتھ محبت اور نرمی کا معاملہ کیا جائے تو وہ جان تک قربان کرسکتی ہے، لیکن اگر حقارت اور سختی کا معاملہ کیا جائے تو وہ اپنی جان تک گنوا دیتی ہے۔

جب حضور اکرم ﷺ اس قدر محبت کا معاملہ فرماتے تو جواباً سیدہ عائشہ ؓ بھی اسی قدر محبت کا معاملہ کرتیں، خود فرماتی ہیں کہ جب حضور اکرم ﷺ عشاء کے بعد میری باری میں گھر تشریف لاتے تو میں کبھی فرطِ محبت میں یہ اشعار پڑھتی، مفہوم:

''ایک سورج تو ہمارا ہے، اور ایک سورج آسمان کا ہے، میرا سورج آسمان کے سورج سے بہتر ہے، کیوں کہ آسمان کا سورج تو فجر کے بعد طلوع ہوتا ہے، اور میرا سورج عشاء کے بعد طلوع ہوتا ہے، اور اس کی روشنی عشاء کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔''

حضور اکرم ﷺ کی پوری زندگی ساری امت اور اس کے ہر فرد کے لیے نمونہ ہے، آپ ﷺ امت کو بتانا چاہتے تھے کہ اہل خانہ کے ساتھ اس طرح حسن سلوک کرنا چاہیے۔

آپ ﷺ نے خود بھی ایسا کیا اور امت کو بھی اس طرف متوجہ فرمایا کہ اہل خانہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا حقیقت میں اچھا ہے، ہماری کوئی تعریف کردے، اچھا کہہ دے، خصوصاً کہنے والا کوئی بڑا ہو تو پھولے نہیں سماتے، پھر کیا خیال ہے اس شخص کے بارے میں جسے حضور ِاکرم ﷺ بہتر قرار دیں، اس سے زیادہ اچھا کون ہو سکتا ہے ؟ یہی کیا کم فضیلت کی سند ہے؟

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کی روایت ہے ، حضور ِاکرم ﷺ فرماتے ہیں، مفہوم: ''قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو لایا جائے گا ، جس کے پاس بہ ظاہر ایسی کوئی نیکی نہ ہوگی جس سے وہ جنت کی امید کر سکے، مگر حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ فرشتو! اس بندے کو جنت میں داخل کر دو، اس لیے کہ یہ اپنے اہل و عیال پر بڑا مہربان تھا۔

ان کے ساتھ اس کا سلوک بڑا اچھا تھا۔'' (کتاب البر ازشمائل کبریٰ) اس سے ثابت ہوا کہ جو شخص اہل خانہ کے لیے بہتر ہوگا وہ اوروں کے لیے بھی بہتر ہوگا اور اس کے نتیجے میں اس کی دنیا و عقبیٰ دونوں بہتر ہوگی۔

اﷲ پاک ہمیں ان صفات سے آراستہ ہونے کے ساتھ معاشرے اور گھرکا اچھا فرد بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
Load Next Story