دنیا بھر سے امریکہ کہاں غلطی تسلیم کرتا ہے

ویسے کہ آخر امریکہ کسی سے معافی کیوں مانگے؟ وہ تو سپر پاور ہےاور کامیابیوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں غلطیوں کا نہیں

ویسے اگر امریکہ نے جنگ سے توبہ کرنی ہوتی تو اُس کے لیے عالمی جنگ اول اور دوم کی تباہ کاریاں کافی تھیں: فائل فوٹو

جس کسی نے بھی کہا بالکل درست کہا ہے کہ ''عقل بادام کھانے سے نہیں ناکامی کے تجربے سے آتی ہے'' ۔ مجھے اس بات کی سچائی پر ایک بار پھر یقین ہوگیا۔ اس بار وجہ کوئی ذاتی زندگی کا تجربہ و حادثہ نہیں بلکہ امریکی صدر بارک اوبامہ ، جی آپ نے بالکل ٹھیک پڑھا امریکی صدر بارک اوبامہ کا وہ پالیسی بیان ہے جو انہوں نے افغانستان کے حالیہ دورے سے واپسی پر وائٹ ہاوس میں دیا تھا۔

ویسے ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ یہ پالیس بیان امریکیوں کے لیے بڑی سچائی بن سکتاہے، جس کی بنیاد پر وہ آئندہ کے لیے درست لائحہ عمل بھی ترتیب دے سکتے ہیں۔ مگر قدرت بھی اپنی غلطیوں کی اصلاح کے لیے مہلت ہر کسی کو تھوڑی دیتی ہے۔ ویسے پاکستان، بھارت، افغانستان اور ایران سمیت خطے میں دیگر ممالک کے لیے اِس بیان میں سیکھنے اور سمجھنے بلکہ اپنی سمت درست کرنے کے لیے بہت کچھ ہے اور اُن کے لیے بھی جو افغان جنگ پر بڑی گہری نظر رکھتے تھے اور امریکہ کی فتح و کامیابی کے خواہشمند تھے۔ہم سب ہی جانتے ہیں کہ امریکہ نے 2014 میں اپنی فوجیں افغانستان سے نکالنی ہیں پر امریکی صدر نے مکمل فوجی انخلا کی نئی تاریخ دیتے ہوئے 2 سال مزید رہنے کا عندیہ دیدیا ہے۔انہوں نے پالیسی بیان میں کہا کہ جنگ کا خاتمہ جنگ شروع کرنے سے زیادہ مشکل کام ہوتا ہے۔اور افغانستان کبھی موزوں ملک نہیں بن سکتا ہے اور یہ امریکہ کی ذمہ داری بھی نہیں ہے۔اِس بیان کے بعد آپ کا خیال ہوگا کہ امریکہ نے جنگ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی ہے۔۔۔۔ یا پھر اوبامہ نے دنیا کو جنگ کی تباہ کاری سے آگاہ کرکے خود کو ایک بار پھر امن کے عالمی ایوارڈ کا حقدار ٹھہرالیا ہے ۔۔۔ اور 2016 کے بعد افغانستان مکمل خود مختاری کے سفرکا آغاز کرےگا۔۔۔۔ ویسے میرا خیال ہے کہ اگر امریکہ نے جنگ سے توبہ کرنی ہوتی تو اُس کے لیے عالمی جنگ اول اور دوم کی تباہ کاریاں کافی تھیں۔ چلو اُنہیں بھی چھوڑو ۔۔۔ اُس کے لیے ویتنام اور ایرانی انقلاب کے دوران مفادات کی شکست بھی بڑی وجہ ہوسکتی تھی۔مگر بات پھر وہی کہ عبرت انہیں ملتی ہے جو خود کو اُس کا حقدار ثابت کریں۔ اوبامہ نے 13 برس سے لڑی جانے والی افغان جنگ جس میں 2 ہزار سے زائد فوجی ہلاک اور تقریباً 21 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ اِس جنگ پر امریکی عوام کی ٹیکسوں کی کمائی 10 ملین ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے خرچ ہورہی ہے۔اور یہ تو محض میدان جنگ کے اخراجات ہیں۔ اس جنگ کو درست ثابت کرنے کے لیے میڈیا مینجمنٹ، بین الاقوامی سیمینارز، کتابوں، رسالوں اور کالموں کی اشاعت پر جو کچھ خرچ ہوا اُس کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ ۔


میں اِس بیان کے بعد سوچ رہا ہوں کہ اوبامہ نے اُس موقع پر واپسی کا راستہ اختیار کیوں نہیں کیا کہ جب دنیابھر کہ تجزیہ کاروں نے جب امریکی حکام کو آگاہ کیا تھا کہ دہشگردی کے عالمی جنگ درست مگر افغانستان گہری کھائی اور اندھا کنواں ہے۔ یہ کسی کے قابو میں نہ آنے والی قوم ہے۔ یہ بات انہیں کیوں سمجھ میں نہ آئی، اُس وقت ان کی مت کیوں ماری گئی۔ چلو اگر مان لیں کہ امریکی افغان جنگ دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کا حصہ تھی تو پھر یہ اعتراف شکست اور بھی وسیع ہوجاتا ہے کیونکہ عراق کی تباہی، افغانستان پر قبضہ، مصر میں تختہ اُلٹنے میں معاونت، شام کی خانہ جنگی اور دیگر ممالک کی صورتحال کے بعد دہشتگردی کی آگ تو تقریباً پوری دنیا میں ہی پھیل گئی ہے۔ دھماکے، قتل و غارت گری سے کوئی خطہ ارض محفوظ نہیں ۔ دراصل افغانستان اور عراق کی جنگ دہشتگردی یا خطرناک اسلحہ کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ امریکی اور یورپی اسلحہ کی فروخت بڑھانے کے لیےاور نئی منڈیوں کی تشکیل کے لیے تھی تاکہ وہاں تیار ہونے والے اسلحہ کی کھپت میں تسلسل رہے اور دڈیمانڈ اور سپلائی میں کوئی تعطل نہ آئے۔ اس تناظر میں امریکہ کامیاب رہا ہے۔ مگر یہ آگ جو امریکہ نے لگائی ہے وہ صرف بیانوں سے نہیں بجھائی جاسکتی ، یہ خوش گمانی ہے اور اگر امریکہ واقعی دنیا کو پُرامن دیکھنا چاہتا ہے اور اپنی لگائی آگ سے دنیا بھر کے انسانوں کو بچانا چاہتا ہے تو اُسے دوسروں کی بات اور دلیل کو سُننا ہوگا، حق تلفی اور محرومی کا سبب بنے والے اُصولوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے متاثرین سے معافی مانگنا ہوگی۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ آکر امریکہ یہ سب کیوں کرے؟ وہ تو سپر پاور ہےاور کامیابیوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں غلطیوں کا نہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ امریکہ یہ اعتراف شکست ہی سیاسی ہو ۔۔۔ میری رائے تو آپ کے سامنے آگئی ہے تو آپ کیا کہتے ہیں جناب اِس معاملے پر؟

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story