معاشی محاذ پر درپیش چیلنجز
رواں برس کے پہلے 6 ماہ بہت اہم ہیں، پاکستان کو اگلے 6 ماہ میں 3 بہت اہم کام کرنے ہیں
میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے 70 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دیدی گئی ہے۔
اعلامیے میں آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آؤٹ لک اب بھی چیلنجنگ ہے اور درست پالیسیوں کے نفاذ کی ضرورت ہے، پاکستان نے بجلی اور گیس کے نرخوں کے حوالے سے چیلنجنگ اقدامات کیے ہیں، نادار طبقے کو مہنگائی متاثر کیا ہے، اسٹیٹ بینک مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرے۔
حالیہ تین چار برس پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے معاشی لحاظ سے بہت مشکل ثابت ہوئے ہیں، پاکستان ڈیفالٹ سے بہت مشکل تب ہی بچ سکا، جب آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ پر پہنچ پایا، دوسری طرف پاکستانیوں نے تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کا سامنا کیا۔
ورلڈ بینک کے مطابق تقریباً 40 فیصد یعنی 12 کروڑ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ پاکستان کی معیشت اس وقت اپنے ڈویلپمنٹ پارٹنرز پر بہت زیادہ انحصار کررہی ہے اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کے بعد جو بھی نئی حکومت آئے وہ فوری طور پر آ کر وسط مدتی معاشی پالیسیوں کا اعلان کرے تاکہ اگلے 3 سے 5 سال میں پاکستان کی معاشی سمت کا تعین ہوسکے۔
اسی تناظر میں رواں برس کے پہلے 6 ماہ بہت اہم ہیں، پاکستان کو اگلے 6 ماہ میں 3 بہت اہم کام کرنے ہیں۔ پہلا انتخابات کے نتیجے میں حکومت کی تشکیل، دوسرا اس نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ درمیانی مدت کے نئے معاہدے میں جانا ہے اور تیسرا اس نئی حکومت کو ایک ایسا بجٹ بنانا ہے جو نہ صرف عوامی امنگوں پر پورا اترے بلکہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ بھی ٹھیک کرے۔
ہمارے اقتصادی منتظمین کو 2024 میں عالمی قرضوں اور خسارے کو کم کرنے کے لیے انتظامات اور اقدامات کرنے ہوں گے۔
پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کی مالیاتی پالیسی نتائج نہیں دے سکی ہے، غیرترقیاتی اخراجات میں مسلسل اضافہ اور ہدف سے زیادہ سبسڈیز، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کو ہونے والے نقصانات اور خاص طور پر توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کی وجہ سے مسائل بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔
ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں لکھا ہے کہ '' پاکستان کا موجودہ معاشی ماڈل کام نہیں کر رہا ہے جس کے باعث پاکستان اپنے ہم عصروں سے پیچھے رہ گیا ہے، غربت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔''
درحقیقت پاکستان کی اشرافیہ کی وسائل پر گرفت توڑنے کی ضرورت ہے، پاکستان کو واپس 5 سے 7 فیصد ایسی معاشی ترقی کی شرح پر لانے کی ضرورت ہے جہاں بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ نہ ہو۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس ( پائیڈ) کی نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عام تاثر کے برعکس پاکستان میں سرکاری افسران کی تنخواہیں اگر مراعات سمیت شمار کی جائیں تو نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر سے بھی زیادہ ہیں بلکہ گریڈ 21 کے پاکستانی افسر پر کل خرچ ہونے والی رقم اقوام متحدہ کے افسران پر خرچ ہونے والی رقم سے بھی زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کو عام طور پر ایک بہت فیاضانہ تنخواہ والا ادارہ گردانا جاتا ہے۔ پائیڈ نے یہ تحقیق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے اشتراک سے کی ہے۔
پائیڈ کی تحقیق کے مطابق گریڈ 20 کے پاکستانی افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ تو صرف ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن اس گریڈ کی سرکاری مراعات اور فوائد کا حجم کئی لاکھ تک پہنچ جاتا ہے ۔ بڑی گاڑی،پٹرول،ڈرائیور، مینٹس ، گھر، بجلی، گیس اور فون کے اخراجات اور طبی سہولیات کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ اس گریڈکی بنیادی تنخواہ سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔جیسے جیسے گریڈ اوپر جائے گا، مراعات، سہولتیں اور پینشن میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
پاکستان کے موجودہ معاشی بحران میں وسیع پالیسی اصلاحات کو ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے بجٹ کو دیکھنا ہو گا، اس وقت جو حالات ہیں اس میں بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے، نئی آنے والی حکومت کو فوراً توانائی کے شعبے میں خسارے سمیت گردشی قرضوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔
اسی طرح پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل اور دیگر سرکاری اداروں کے خسارے کو کنٹرول کرنے کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی، اگر ان کو بیچنا ہے تب بھی فیصلہ کرنا ہو گا، ان کو پرائیویٹ مینجمنٹ سے چلانا ہے یا ان کے بورڈز میں تبدیلیاں کر کے ان کو بہتر کرنا ہے تب بھی کوئی فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ اب ان میں خسارہ سالانہ یا ماہانہ کے بجائے دنوں میں بڑھ رہا ہے۔
ٹیکس وصولیوں کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر، رئیل اسٹیٹ اور زراعت کے شعبوں سے اس طرح ٹیکس وصولیاں نہیں ہو پا رہیں جس طرح ہونی چاہیے، اسی لیے آئی ایم ایف بھی بار بار یہ کہہ چکا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آنے والی حکومت کو یہ مشکل فیصلے لینا ہوں گے۔
اس وقت مقامی سرمایہ کاروں نے اپنی سرمایہ کاری روکی ہوئی ہے کیونکہ کوئی بھی سیکٹر کسی قسم کی پالیسیوں کا اعلان نہیں کر رہا، یہی وجہ ہے کہ یہ سرمایہ کار آنیوالے بجٹ کو بہت غور سے دیکھ رہے ہوں گے۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کار یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آنے والی حکومت کی پالیسیوں پر ڈونرز اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز کتنا اعتماد کریں گے اور اس طرح وہ اپنی سرمایہ کاری کے متعلق فیصلہ سازی کریں گے۔
پاکستان کو معاشی محاذ پر جن اہم ترین چیلنجز کا سامنا ہے ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کو سخت حالات میں مکمل کرنا، مہنگائی اور شرح سود کی تاریخی بلند ترین سطح، اندورنی قرضوں پر سود کی مد میں ادائیگیوں میں ہوشربا اضافہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا شدید بحران، جاری اکاؤنٹ خسارے کو سنبھالنے میں معیشت کی سست روی، غیر ملکی ذمے داریوں کی بھاری ادائیگی، تیزی سے کم ہوتے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ اور بیروزگاری، پیداوار میں جمود، بجلی اور گیس کے شعبوں میں بھاری گردشی قرضہ، نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کو ٹیکس دہندگان کے پیسے سے مسلسل فنڈنگ جیسے مسائل شامل ہیں، لیکن سب سے اہم، بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ کو کیسے سنبھالا جائے جو جاری اخراجات میں ہوشربا اضافے کی وجہ ہیں اور رواں مالی سال کے لیے مقرر کردہ محصول (ٹیکس اور غیر ٹیکس) کے اہداف کو کیسے پورا کیا جائے۔ ہر بجٹ میں خرچے کم اور آمدن زیادہ دکھائی جاتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی اصل مشکل قرضوں کا جال ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں پاکستان میں طویل عرصے سے زیر التوا دوسرے سبز انقلاب کے لیے ایک قومی منصوبہ تیار کریں۔ انھیں پیداواری صلاحیت اور معیار میں اضافہ کرنا چاہیے، لاگت کو کم کرنا چاہیے اور مقامی ضروریات کو پورا کرنے اور ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ ایبل سرپلس پیدا کرنے کے قابل زرعی صنعتوں کو قائم کرنا چاہیے۔
ہمارا زور ترقی، پیداواری صلاحیت اور تنوع اور ویلیو ایڈیشن کے ذریعے برآمدات کو بڑھانے پر ہونا چاہیے۔ آئی ٹی سیکٹر کو انتہائی نظر انداز کیا جاتا ہے اور ٹیلی کام سیکٹر میں بھاری ٹیکسز ترقی کے مخالف ثابت ہو رہے ہیں۔
پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پرکھڑا ہے جہاں ایک طرف سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم پاکستان کی طرف بڑھا جا سکتا ہے تو وہیں دوسری طرف آج کے پاکستان سے بھی بری حالت ہماری منتظر ہے، فیصلہ اس اشرافیہ کو کرنا ہے جس کا ملکی وسائل پر قبضہ ہے، کیا یہ اشرافیہ اپنے وجود سے ماورا ہو کر عوام کو فیصلہ کرنے دے گی یا ماضی ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے گا؟
پاکستان کو 70برس پرانی سوچ اور فکر سے نکل کر نئے دور کے تقاضوں کے مطابق معاشی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی ' خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی' آئین اور قانون میں موجود وہ چور دروازے بند کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے اشرافیہ کرپشن اور کیک بیکس کا مال کھا کر با آسانی فرار ہو جاتی ہے۔
سرکاری مشینری کے ڈھانچے میں غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ افسر شاہی آئینی اور قانونی طور پر پبلک سرونٹس کہلاتی ہے لیکن عملاً اسے لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں جب کہ ان کے اوپر کوئی قانونی چیک نہیں رکھا گیا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں طاقتور طبقہ ہمیشہ قانون کی گرفت سے محفوظ رہتا ہے۔ اعلیٰ عہدیداروں کو حاصل مالی صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ کسی کو سرکاری زمین' متروکہ املاک کی زمین اور اوقاف کی زمین الاٹ نہیں کی جانی چاہیے ۔
اعلامیے میں آئی ایم ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آؤٹ لک اب بھی چیلنجنگ ہے اور درست پالیسیوں کے نفاذ کی ضرورت ہے، پاکستان نے بجلی اور گیس کے نرخوں کے حوالے سے چیلنجنگ اقدامات کیے ہیں، نادار طبقے کو مہنگائی متاثر کیا ہے، اسٹیٹ بینک مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرے۔
حالیہ تین چار برس پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے معاشی لحاظ سے بہت مشکل ثابت ہوئے ہیں، پاکستان ڈیفالٹ سے بہت مشکل تب ہی بچ سکا، جب آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ پر پہنچ پایا، دوسری طرف پاکستانیوں نے تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کا سامنا کیا۔
ورلڈ بینک کے مطابق تقریباً 40 فیصد یعنی 12 کروڑ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ پاکستان کی معیشت اس وقت اپنے ڈویلپمنٹ پارٹنرز پر بہت زیادہ انحصار کررہی ہے اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز یہ چاہتے ہیں کہ الیکشن کے بعد جو بھی نئی حکومت آئے وہ فوری طور پر آ کر وسط مدتی معاشی پالیسیوں کا اعلان کرے تاکہ اگلے 3 سے 5 سال میں پاکستان کی معاشی سمت کا تعین ہوسکے۔
اسی تناظر میں رواں برس کے پہلے 6 ماہ بہت اہم ہیں، پاکستان کو اگلے 6 ماہ میں 3 بہت اہم کام کرنے ہیں۔ پہلا انتخابات کے نتیجے میں حکومت کی تشکیل، دوسرا اس نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ درمیانی مدت کے نئے معاہدے میں جانا ہے اور تیسرا اس نئی حکومت کو ایک ایسا بجٹ بنانا ہے جو نہ صرف عوامی امنگوں پر پورا اترے بلکہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ بھی ٹھیک کرے۔
ہمارے اقتصادی منتظمین کو 2024 میں عالمی قرضوں اور خسارے کو کم کرنے کے لیے انتظامات اور اقدامات کرنے ہوں گے۔
پچھلی کئی دہائیوں سے پاکستان کی مالیاتی پالیسی نتائج نہیں دے سکی ہے، غیرترقیاتی اخراجات میں مسلسل اضافہ اور ہدف سے زیادہ سبسڈیز، پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کو ہونے والے نقصانات اور خاص طور پر توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کی وجہ سے مسائل بہت زیادہ ہوچکے ہیں۔
ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں لکھا ہے کہ '' پاکستان کا موجودہ معاشی ماڈل کام نہیں کر رہا ہے جس کے باعث پاکستان اپنے ہم عصروں سے پیچھے رہ گیا ہے، غربت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔''
درحقیقت پاکستان کی اشرافیہ کی وسائل پر گرفت توڑنے کی ضرورت ہے، پاکستان کو واپس 5 سے 7 فیصد ایسی معاشی ترقی کی شرح پر لانے کی ضرورت ہے جہاں بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ نہ ہو۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس ( پائیڈ) کی نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عام تاثر کے برعکس پاکستان میں سرکاری افسران کی تنخواہیں اگر مراعات سمیت شمار کی جائیں تو نہ صرف پرائیویٹ سیکٹر سے بھی زیادہ ہیں بلکہ گریڈ 21 کے پاکستانی افسر پر کل خرچ ہونے والی رقم اقوام متحدہ کے افسران پر خرچ ہونے والی رقم سے بھی زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ کو عام طور پر ایک بہت فیاضانہ تنخواہ والا ادارہ گردانا جاتا ہے۔ پائیڈ نے یہ تحقیق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے اشتراک سے کی ہے۔
پائیڈ کی تحقیق کے مطابق گریڈ 20 کے پاکستانی افسر کی اوسط بنیادی تنخواہ تو صرف ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن اس گریڈ کی سرکاری مراعات اور فوائد کا حجم کئی لاکھ تک پہنچ جاتا ہے ۔ بڑی گاڑی،پٹرول،ڈرائیور، مینٹس ، گھر، بجلی، گیس اور فون کے اخراجات اور طبی سہولیات کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ اس گریڈکی بنیادی تنخواہ سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔جیسے جیسے گریڈ اوپر جائے گا، مراعات، سہولتیں اور پینشن میں اضافہ ہوتا جائے گا۔
پاکستان کے موجودہ معاشی بحران میں وسیع پالیسی اصلاحات کو ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے بجٹ کو دیکھنا ہو گا، اس وقت جو حالات ہیں اس میں بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے، نئی آنے والی حکومت کو فوراً توانائی کے شعبے میں خسارے سمیت گردشی قرضوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔
اسی طرح پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل مل اور دیگر سرکاری اداروں کے خسارے کو کنٹرول کرنے کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی، اگر ان کو بیچنا ہے تب بھی فیصلہ کرنا ہو گا، ان کو پرائیویٹ مینجمنٹ سے چلانا ہے یا ان کے بورڈز میں تبدیلیاں کر کے ان کو بہتر کرنا ہے تب بھی کوئی فیصلہ کرنا ہوگا کیونکہ اب ان میں خسارہ سالانہ یا ماہانہ کے بجائے دنوں میں بڑھ رہا ہے۔
ٹیکس وصولیوں کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی، ہول سیل اور ریٹیل سیکٹر، رئیل اسٹیٹ اور زراعت کے شعبوں سے اس طرح ٹیکس وصولیاں نہیں ہو پا رہیں جس طرح ہونی چاہیے، اسی لیے آئی ایم ایف بھی بار بار یہ کہہ چکا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کے ساتھ آنے والی حکومت کو یہ مشکل فیصلے لینا ہوں گے۔
اس وقت مقامی سرمایہ کاروں نے اپنی سرمایہ کاری روکی ہوئی ہے کیونکہ کوئی بھی سیکٹر کسی قسم کی پالیسیوں کا اعلان نہیں کر رہا، یہی وجہ ہے کہ یہ سرمایہ کار آنیوالے بجٹ کو بہت غور سے دیکھ رہے ہوں گے۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کار یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ آنے والی حکومت کی پالیسیوں پر ڈونرز اور ڈویلپمنٹ پارٹنرز کتنا اعتماد کریں گے اور اس طرح وہ اپنی سرمایہ کاری کے متعلق فیصلہ سازی کریں گے۔
پاکستان کو معاشی محاذ پر جن اہم ترین چیلنجز کا سامنا ہے ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کو سخت حالات میں مکمل کرنا، مہنگائی اور شرح سود کی تاریخی بلند ترین سطح، اندورنی قرضوں پر سود کی مد میں ادائیگیوں میں ہوشربا اضافہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا شدید بحران، جاری اکاؤنٹ خسارے کو سنبھالنے میں معیشت کی سست روی، غیر ملکی ذمے داریوں کی بھاری ادائیگی، تیزی سے کم ہوتے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ اور بیروزگاری، پیداوار میں جمود، بجلی اور گیس کے شعبوں میں بھاری گردشی قرضہ، نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کو ٹیکس دہندگان کے پیسے سے مسلسل فنڈنگ جیسے مسائل شامل ہیں، لیکن سب سے اہم، بڑھتے ہوئے قرضوں کے بوجھ کو کیسے سنبھالا جائے جو جاری اخراجات میں ہوشربا اضافے کی وجہ ہیں اور رواں مالی سال کے لیے مقرر کردہ محصول (ٹیکس اور غیر ٹیکس) کے اہداف کو کیسے پورا کیا جائے۔ ہر بجٹ میں خرچے کم اور آمدن زیادہ دکھائی جاتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کی اصل مشکل قرضوں کا جال ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی وفاقی اور صوبائی حکومتیں پاکستان میں طویل عرصے سے زیر التوا دوسرے سبز انقلاب کے لیے ایک قومی منصوبہ تیار کریں۔ انھیں پیداواری صلاحیت اور معیار میں اضافہ کرنا چاہیے، لاگت کو کم کرنا چاہیے اور مقامی ضروریات کو پورا کرنے اور ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ ایبل سرپلس پیدا کرنے کے قابل زرعی صنعتوں کو قائم کرنا چاہیے۔
ہمارا زور ترقی، پیداواری صلاحیت اور تنوع اور ویلیو ایڈیشن کے ذریعے برآمدات کو بڑھانے پر ہونا چاہیے۔ آئی ٹی سیکٹر کو انتہائی نظر انداز کیا جاتا ہے اور ٹیلی کام سیکٹر میں بھاری ٹیکسز ترقی کے مخالف ثابت ہو رہے ہیں۔
پاکستان اس وقت ایک ایسے دوراہے پرکھڑا ہے جہاں ایک طرف سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم پاکستان کی طرف بڑھا جا سکتا ہے تو وہیں دوسری طرف آج کے پاکستان سے بھی بری حالت ہماری منتظر ہے، فیصلہ اس اشرافیہ کو کرنا ہے جس کا ملکی وسائل پر قبضہ ہے، کیا یہ اشرافیہ اپنے وجود سے ماورا ہو کر عوام کو فیصلہ کرنے دے گی یا ماضی ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرائے گا؟
پاکستان کو 70برس پرانی سوچ اور فکر سے نکل کر نئے دور کے تقاضوں کے مطابق معاشی پالیسیاں تشکیل دینا ہوں گی ' خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی' آئین اور قانون میں موجود وہ چور دروازے بند کرنا ہوں گے جن کی وجہ سے اشرافیہ کرپشن اور کیک بیکس کا مال کھا کر با آسانی فرار ہو جاتی ہے۔
سرکاری مشینری کے ڈھانچے میں غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ افسر شاہی آئینی اور قانونی طور پر پبلک سرونٹس کہلاتی ہے لیکن عملاً اسے لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں جب کہ ان کے اوپر کوئی قانونی چیک نہیں رکھا گیا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں طاقتور طبقہ ہمیشہ قانون کی گرفت سے محفوظ رہتا ہے۔ اعلیٰ عہدیداروں کو حاصل مالی صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ کسی کو سرکاری زمین' متروکہ املاک کی زمین اور اوقاف کی زمین الاٹ نہیں کی جانی چاہیے ۔