زرعی پیداوار میں اضافہ اور گوشت کی بات

گوشت کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ملک میں بھی گوشت کی سپلائی کو مدنظر رکھنا چاہیے

پاکستان زرعی اجناس کی پیداوار میں خودکفالت سے بڑھ کر اہم زرعی پیداوار اور خاص طور پر نقد آور فصلوں کی برآمدات میں عالمی فہرست میں اپنا نمایاں مقام بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ البتہ چند مسائل اس راہ میں حائل ہیں جن کے بارے میں تقریباً ہر حکومت کو آگاہ ہوتی ہے لیکن اس کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتی ہے۔

سردست اس بات کو لے لیتے ہیں کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ غریب کسانوں، ہاریوں کو گورنمنٹ ریٹ پر کھاد دستیاب نہیں ہو رہی ہے، گزشتہ سال جنوری اور اس سے قبل دسمبر 2023 میں بھی یہ مسئلہ بڑی شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آیا تھا۔

زرعی پیداوار میں خود کفالت انتہائی آسان ترین ہے لیکن پہلی اور آخری شرط بس یہی ہے کہ پہلے کسانوں کو سستے ریٹ پر کھاد کی فراہمی کا بندوبست کیجیے۔

ان کی پیداوار کو ان وچولوں (یعنی کمیشن ایجنٹوں) سے نجات دلائیے۔ ان کی فصل کی اچھی رقم ان کو دلوایئے تاکہ یہ خوش حال ہوں۔ حکومت کا یہی نعرہ ہے ناں کہ ''کسان خوشحال تو پاکستان خوشحال'' اگر کسان خوش حال ہوگا تو پاکستان کی جی ڈی پی بڑھ کر رہے گی۔ کسان خوشحال ہوگا پھر کہیں جاکر ان کی طرف سے مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوگا۔

اس کے ساتھ ہی صنعتی پیداوار کی طلب بڑھے گی۔ پھر کارخانوں کی رسد بھی بڑھے گی۔ اس طرح روزگار کے مواقع بھی بڑھیں گے۔ زراعت، صنعت اور معیشت کے دیگر شعبے جب روز افزوں ترقی کریں گے پھر کہیں جا کر پاکستان کی معیشت ہزار ارب ڈالر سے بھی اوپر چلی جائے گی۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی معیشت 2047 تک دنیا کی نمایاں معیشتوں میں شامل ہو جائے گی۔

یعنی اب بھی ہم مزید 23 سال انتظار کریں، لیکن اگر یہی صورت حال رہی، غریب کسانوں کی زمینوں کے مقدر میں کھاد کے لیے ترسنا، پانی کے لیے رونا، ناقص جعلی اور مہنگی ادویات کے ساتھ اوڑھنا بچھونا، پیداوار کو کم ازکم دام پر مجبوراً بیچنا، مہنگی سے مہنگی بجلی کا بل ادا کرنا، اگر اسی طرح دن گزرتے رہے تو مہینے اور پھر سال بھی گزر جائیں گے۔


آخر 77سال بھی تو گزر گئے اب مزید 23 سال کے گزرنے کا انتظار ہے، لیکن اگر حالات اسی طرح کے رہے تو بھلا 2047 میں بھی کیسے دنیا کی اہم معیشت بن پائے گی۔ آبادی کے لحاظ سے ہم دنیا کے پانچویں نمبر پر جا رہے ہیں ۔

1965 میں ہماری معیشت دنیا کی قابل ذکر معیشتوں میں سمجھی جا رہی تھی اور دنیا دیکھ رہی تھی کہ مشرقی پاکستان کی زرخیزی، وہاں کا حسن، وہاں کے ندی تالاب، دریا، جزیرے، چھوٹے بڑے پہاڑ، چائے کے باغات، پٹ سن (سنہری ریشے) سے لدے پھندے کھیت، وہاں کے عوام کی دن رات کی محنت، سادہ زندگی، یہ سب کچھ مل کر جلد ہی مشرقی حصے کو خوشحال بنا سکتی تھی اور پھر بالآخر دونوں حصے مل کر محنت کرکے مشقت کرکے اپنی فصلوں میں بہار پیدا کر کے اپنے کارخانوں میں بھرپور پیداوار کر کے جلد ہی 10 سال بعد یا 20 سال بعد دنیا کی 10 ویں یا بارہویں بڑی معیشت بن جاتے جس کی برآمدات 1970 گزرنے کے 15 سے 20 برس بعد ہی 100 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر جاتی لیکن کچھ انھوں نے بھی بے صبری کا مظاہرہ کیا اور سب سے زیادہ ہم نے ان کی بے قدری کا مظاہرہ کیا ہے کہ جلد ہی ہمارے رویے ہمارے سلوک ہمارے انداز کے وہ شاکی ہونے لگے اور نتیجتاً ملک دولخت ہوکر رہ گیا۔

بہرحال موجودہ حکومت نے زراعت کو ترجیح دی ہے۔ زراعت پر بھرپور توجہ مرکوز کی ہے اس سلسلے میں نگران وزیر تجارت نے کہا ہے کہ پاکستان اب زراعت پر توجہ مرکوز کر رہا ہے اور اس کے لیے لاکھوں ایکڑ رقبہ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے مختص کیا جا رہا ہے۔ گوشت کی برآمدات بڑھانے کے لیے حکومت سلاٹر ہاؤس قائم کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ گوشت کی پیداوار بڑھانے کے ساتھ ملک میں بھی گوشت کی سپلائی کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ اب غریب کے ساتھ بہت سے کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی گوشت کی خریداری انتہائی کم ہوکر رہ گئی ہے۔ پہلے دور میں ہر گھر میں ہفتے میں 5 روز گوشت کی الگ سے ہانڈی تیار ہوتی تھی اور کئی اقسام کی بھی تیار ہوتی تھیں۔

ان میں قورمہ، سبزی گوشت، آلو گوشت، پالک گوشت، آلو قیمہ، کوفتے، نرگسی کوفتے اب زیادہ نام نہیں لکھ رہا ورنہ منہ میں پانی آجائے گا۔ لیکن آج کل تو بقول قسائی گاہک دکان پر آتے ہیں قیمت سنتے ہیں تو کئی پلٹ جاتے ہیں اور کمزور اور ہلکی سی آواز میں کہتے ہیں کہ ایک پاؤ گوشت، یا ایک پاؤ قیمہ دیجیے گا۔

لہٰذا حکومت ایکسپورٹ کے ساتھ ملک میں گوشت کی قیمت میں کمی لانے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں گائے، بکروں کی پیداوار زیادہ سے زیادہ بڑھانے کی فکر کی جائے، کیونکہ پیداوار وافر مقدار میں ہوگی، گوشت کی پیداوار میں جتنا زیادہ اضافہ ہوگا گوشت کی رسد جب وافر مقدار میں ہوگی تو اس کی ایکسپورٹ بھی زیادہ ہو پائے گی اور اس کے ساتھ ملک بھر میں گوشت کی قیمت میں بھی نمایاں کمی ممکن ہے، کیونکہ اب ریٹ اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ اب اس محاورے کی جگہ کہ '' یہ منہ اور مسور کی دال'' کے بجائے یہ کہا جائے گا کہ '' یہ منہ اور گوشت کی بات۔۔۔''
Load Next Story