اگر اسرائیل قانوناً نسل کش ثابت ہو گیا تو
بین الاقوامی عدالتِ انصاف چاہے تو فوری طور پر غزہ میں جنگ روکنے کا عبوری حکم جاری کر سکتی ہے
سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر غزہ کی انسانی جیل توڑ کے حماس نے جو شب خون مارا، اس کے بعد سے اب تک اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر جس طرح تادمِ تحریر لگ بھگ چوبیس ہزار انسانوں کو علی اعلان نیم انسان قرار دیتے ہوئے امریکی ہتھیاروں سے قتل کر چکا ہے، اس کے خلاف سب سے پہلی آواز کسی عرب ملک نے نہیں بلکہ جنوبی افریقہ نے اٹھائی تھی۔
صدر سرل راما فوسا نے گلے میں کفایہ لپیٹ کے اور ہاتھ میں فلسطینی پرچم تھام کے کہا کہ ہم فلسطینوں کی جد و جہد میں سو فیصد ان کے ساتھ ہیں۔ جنوبی افریقہ نے غزہ کے خلاف جارحیت کے خاتمے تک اسرائیل سے سفارتی تعلقات معطل کرنے کا اعلان کیا اور دارالحکومت پریٹوریا میں قائم اسرائیلی سفارت خانہ بھی بند کر دیا۔
انتیس دسمبر کو جنوبی افریقہ پہلا ملک بن گیا جس نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف ( آئی سی جے ) کا دروازہ کھٹکھٹایا اور غزہ میں نسل کشی کے خلاف بیاسی صفحات پر مشتمل فردِ جرم دائر کر دی۔اس درخواست کو اسلامی کانفرنس ( او آئی سی ) ، ترکی ، اردن ، ملایشیا ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، مالدیپ ، نمیبیا اور بولیویا سمیت کرہِ جنوب کے متعدد ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
لگ بھگ آٹھ سو مغربی قانون دانوں ، اساتذہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے تحریری طور پر اس پٹیشن کی حمایت کی ہے اور اس تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔برطانوی حزبِ اقتدار کنزرویٹو پارٹی اور حزبِ اختلاف لیبر پارٹی میں لاکھ نظریاتی اختلافات سہی مگر اسرائیل کی حمایت پر دونوں جماعتوں کی قیادت یک جان دو قالب ہے۔
البتہ لیبر پارٹی کے سابق سربراہ جیرمی کوربن نے جنوبی افریقہ کی پٹیشن کی کھل کے حمایت کی ۔اور تو اور اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک رکن ہداش پارٹی کے اوفر کسیف نے بھی جنوبی افریقہ کی پٹیشن کی حمایت کی۔
اس کی قیمت کے طور پر انھیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کرنے کے لیے نوے ارکانِ پارلیمان کے دستخطوں کی ضرورت ہے اور پچاسی دستحظ پورے ہو چکے ہیں۔جب کہ چھ سو سے زائد اسرائیلی اساتذہ، سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی جنوبی افریقہ کی درخواست کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیل کو نسل کشی کا ذمے دار ٹھہرانے کی اس درخواست کی سماعت جمعرات کو شروع ہوئی۔یہ درخواست انیس سو اڑتالیس کے نسل کشی کنونشن کے تحت دائر کی گئی ہے۔اس کنونشن پر امریکا ، اسرائیل اور جنوبی افریقہ سمیت ایک سو چھپن ممالک دستخط کر چکے ہیں۔
اس کنونشن کا اطلاق انیس سو اکیاون سے ہوا۔اور اس کا بنیادی محرک ہٹلر کے ہاتھوں یہودی نسل کشی جیسے واقعات کا اعادہ روکنا تھا۔مگر آج ہٹلر کی نسل کشی سے بچ جانے والے یہودیوں کے وارث انھی حرکتوں کے سبب کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے ہیں جن حرکتوں کو وہ نازیوں سے معنون کرتے آئے ہیں۔
جینوسائڈ کنونشن کے مطابق نسل کشی وہ عمل ہے جس کے تحت کسی بھی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو جان بوجھ کے جزوی یا کلی طور پر فوری یا بتدریج تباہ کرنے کی کوشش کرنا۔سات اکتوبر کے بعد سے غزہ کی آبادی کو جس طرح ہر بنیادی ضرورت سے محروم کرنے کے لیے ناکہ بندی کی گئی اور جس طرح عام اور غیر مسلح شہریوں کے خلاف بلا امتیاز زمینی ، فضائی اور بحری کارروائیاں کی گئی ہیں، وہ حقِ دفاع کو روندتی ہوئی جارحیت اور پھر نسل کشی کی حدود میں داخل ہو چکی ہیں۔
سماعت سے ایک روز پہلے ہی اسرائیلی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر کا یہ بیان سامنے آیا کہ میرے دل میں غزہ کے رہائشیوں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں۔ غزہ کو جلا دینا چاہیے۔اس سے قبل اسرائیلی وزیرِ ثقافت غزہ پر ایٹم بم گرانے کی تجویز دے چکے ہیں۔
خود وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہم غزہ کی شکل بدل کے رکھ دیں گے۔چنانچہ اس وقت نوے فیصد غزہ ملبے کا ڈھیر ہے۔ نوے فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ایک خیمے میں اوسطاً پندرہ لوگ رہ رہے ہیں۔جن کے لیے نہ خوراک ہے ، نہ پانی ، نہ دوا اور نہ پناہ۔
اگرچہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے خود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیار کی محتاج ہے۔مگر اقوامِ متحدہ کے ارکان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت قائم اس عدالت کے فیصلوں کا احترام کریں اور اس پر عمل کریں۔
ان فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں ہو سکتی۔اگر کوئی فریق فیصلہ ماننے سے انکار کر بھی دے تو اس پر اخلاقی دھبہ ضرور لگ جاتا ہے۔مگر اسرائیل کا دامن تو اقوامِ متحدہ کی بیسیوں قرار دادوں کو امریکا کی مدد سے ہوا میں اڑانے کے داغوں سے پہلے ہی بھرا پڑا ہے۔ایک دھبہ اور سہی۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف ویسے تو پندرہ ججوں پر مشتمل ہوتی ہے مگر جن دو ممالک کا تنازعہ سماعت کے لیے پیش ہوتا ہے، وہ اپنے طور پر ایک ایک ایڈہاک جج نامزد کر سکتے ہیں۔
یوں سترہ جج مقدمے کی سماعت کرتے ہیں۔اسرائیل نے ایڈہاک جج کے طور پر سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس اور ہالوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والے جسٹس اہرون براک کا نام پیش کیا ہے۔جسٹس براک جب سپریم کورٹ کے سربراہ تھے تو انھوں نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو ایک انتظامی اقدام قرار دیتے ہوئے جائز قرار دیا تھا۔جب کہ جنوبی افریقہ نے ایک سابق نائب چیف جسٹس دککانگ موسینگی کا نام پیش کیا ہے۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف چاہے تو فوری طور پر غزہ میں جنگ روکنے کا عبوری حکم جاری کر سکتی ہے۔جب کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے جرائم ثابت کرنے میں عدالت کو کئی برس لگ سکتے ہیں۔جیسے گیمبیا نے برما میں روہنگیا نسل کشی روکنے کے لیے حکومتِ برما کے خلاف جو درخواست دائر کر رکھی ہے وہ چار برس سے زیرِ سماعت ہے۔
جنوبی افریقہ نے دوست ممالک کو پیغام دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی عدالت میں کوئی ذیلی درخواست دائر نہ کریں اور نہ ہی مقدمے میں فریق بننے کی درخواست دیں۔صرف جنوبی افریقہ کی جانب سے نسل کشی کی پٹیشن کی سیاسی ، سفارتی و اخلاقی حمایت کریں۔
کیونکہ جتنے زیادہ ممالک عدالت میں فریق بننے کی کوشش کریں گے، سماعت اتنی ہی طوالت پکڑتی جائے گی اور اس کا فائدہ اسرائیل اور اس کے دوستوں کو پہنچے گا، جن کی پوری کوشش ہو گی کہ ایک ایک قانونی بال کی کئی کئی بار کھال اتاریں اور یہ مقدمہ لمبا کھنچتا چلا جائے۔
جب تک امریکا کا ویٹو موجود ہے ، ہونا ہوانا کچھ نہیں البتہ یہ بھی ایک اہمِ سنگِ میل ہے کہ اسرائیل کو پہلی بار کسی بین الاقوامی ادارے میں نسل کشی جیسے سنگین الزام کا سامنا ہے اور اگر یہ الزام ثابت ہو جاتا ہے تو پھر اسرائیل کو تو زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔البتہ اس سے سفارتی تعلقات برقرار رکھنے والے کئی ممالک کے ضمیر پر شاید بوجھ کا وزن تھوڑا اور بڑھ جائے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
صدر سرل راما فوسا نے گلے میں کفایہ لپیٹ کے اور ہاتھ میں فلسطینی پرچم تھام کے کہا کہ ہم فلسطینوں کی جد و جہد میں سو فیصد ان کے ساتھ ہیں۔ جنوبی افریقہ نے غزہ کے خلاف جارحیت کے خاتمے تک اسرائیل سے سفارتی تعلقات معطل کرنے کا اعلان کیا اور دارالحکومت پریٹوریا میں قائم اسرائیلی سفارت خانہ بھی بند کر دیا۔
انتیس دسمبر کو جنوبی افریقہ پہلا ملک بن گیا جس نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف ( آئی سی جے ) کا دروازہ کھٹکھٹایا اور غزہ میں نسل کشی کے خلاف بیاسی صفحات پر مشتمل فردِ جرم دائر کر دی۔اس درخواست کو اسلامی کانفرنس ( او آئی سی ) ، ترکی ، اردن ، ملایشیا ، پاکستان ، بنگلہ دیش ، مالدیپ ، نمیبیا اور بولیویا سمیت کرہِ جنوب کے متعدد ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
لگ بھگ آٹھ سو مغربی قانون دانوں ، اساتذہ اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے تحریری طور پر اس پٹیشن کی حمایت کی ہے اور اس تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔برطانوی حزبِ اقتدار کنزرویٹو پارٹی اور حزبِ اختلاف لیبر پارٹی میں لاکھ نظریاتی اختلافات سہی مگر اسرائیل کی حمایت پر دونوں جماعتوں کی قیادت یک جان دو قالب ہے۔
البتہ لیبر پارٹی کے سابق سربراہ جیرمی کوربن نے جنوبی افریقہ کی پٹیشن کی کھل کے حمایت کی ۔اور تو اور اسرائیلی پارلیمنٹ کے ایک رکن ہداش پارٹی کے اوفر کسیف نے بھی جنوبی افریقہ کی پٹیشن کی حمایت کی۔
اس کی قیمت کے طور پر انھیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کرنے کے لیے نوے ارکانِ پارلیمان کے دستخطوں کی ضرورت ہے اور پچاسی دستحظ پورے ہو چکے ہیں۔جب کہ چھ سو سے زائد اسرائیلی اساتذہ، سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں نے بھی جنوبی افریقہ کی درخواست کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اسرائیل کو نسل کشی کا ذمے دار ٹھہرانے کی اس درخواست کی سماعت جمعرات کو شروع ہوئی۔یہ درخواست انیس سو اڑتالیس کے نسل کشی کنونشن کے تحت دائر کی گئی ہے۔اس کنونشن پر امریکا ، اسرائیل اور جنوبی افریقہ سمیت ایک سو چھپن ممالک دستخط کر چکے ہیں۔
اس کنونشن کا اطلاق انیس سو اکیاون سے ہوا۔اور اس کا بنیادی محرک ہٹلر کے ہاتھوں یہودی نسل کشی جیسے واقعات کا اعادہ روکنا تھا۔مگر آج ہٹلر کی نسل کشی سے بچ جانے والے یہودیوں کے وارث انھی حرکتوں کے سبب کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے ہیں جن حرکتوں کو وہ نازیوں سے معنون کرتے آئے ہیں۔
جینوسائڈ کنونشن کے مطابق نسل کشی وہ عمل ہے جس کے تحت کسی بھی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو جان بوجھ کے جزوی یا کلی طور پر فوری یا بتدریج تباہ کرنے کی کوشش کرنا۔سات اکتوبر کے بعد سے غزہ کی آبادی کو جس طرح ہر بنیادی ضرورت سے محروم کرنے کے لیے ناکہ بندی کی گئی اور جس طرح عام اور غیر مسلح شہریوں کے خلاف بلا امتیاز زمینی ، فضائی اور بحری کارروائیاں کی گئی ہیں، وہ حقِ دفاع کو روندتی ہوئی جارحیت اور پھر نسل کشی کی حدود میں داخل ہو چکی ہیں۔
سماعت سے ایک روز پہلے ہی اسرائیلی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر کا یہ بیان سامنے آیا کہ میرے دل میں غزہ کے رہائشیوں کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں۔ غزہ کو جلا دینا چاہیے۔اس سے قبل اسرائیلی وزیرِ ثقافت غزہ پر ایٹم بم گرانے کی تجویز دے چکے ہیں۔
خود وزیرِ اعظم نیتن یاہو کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہم غزہ کی شکل بدل کے رکھ دیں گے۔چنانچہ اس وقت نوے فیصد غزہ ملبے کا ڈھیر ہے۔ نوے فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ایک خیمے میں اوسطاً پندرہ لوگ رہ رہے ہیں۔جن کے لیے نہ خوراک ہے ، نہ پانی ، نہ دوا اور نہ پناہ۔
اگرچہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کے لیے خود اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اختیار کی محتاج ہے۔مگر اقوامِ متحدہ کے ارکان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے تحت قائم اس عدالت کے فیصلوں کا احترام کریں اور اس پر عمل کریں۔
ان فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں ہو سکتی۔اگر کوئی فریق فیصلہ ماننے سے انکار کر بھی دے تو اس پر اخلاقی دھبہ ضرور لگ جاتا ہے۔مگر اسرائیل کا دامن تو اقوامِ متحدہ کی بیسیوں قرار دادوں کو امریکا کی مدد سے ہوا میں اڑانے کے داغوں سے پہلے ہی بھرا پڑا ہے۔ایک دھبہ اور سہی۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف ویسے تو پندرہ ججوں پر مشتمل ہوتی ہے مگر جن دو ممالک کا تنازعہ سماعت کے لیے پیش ہوتا ہے، وہ اپنے طور پر ایک ایک ایڈہاک جج نامزد کر سکتے ہیں۔
یوں سترہ جج مقدمے کی سماعت کرتے ہیں۔اسرائیل نے ایڈہاک جج کے طور پر سپریم کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس اور ہالوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والے جسٹس اہرون براک کا نام پیش کیا ہے۔جسٹس براک جب سپریم کورٹ کے سربراہ تھے تو انھوں نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو ایک انتظامی اقدام قرار دیتے ہوئے جائز قرار دیا تھا۔جب کہ جنوبی افریقہ نے ایک سابق نائب چیف جسٹس دککانگ موسینگی کا نام پیش کیا ہے۔
بین الاقوامی عدالتِ انصاف چاہے تو فوری طور پر غزہ میں جنگ روکنے کا عبوری حکم جاری کر سکتی ہے۔جب کہ اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے جرائم ثابت کرنے میں عدالت کو کئی برس لگ سکتے ہیں۔جیسے گیمبیا نے برما میں روہنگیا نسل کشی روکنے کے لیے حکومتِ برما کے خلاف جو درخواست دائر کر رکھی ہے وہ چار برس سے زیرِ سماعت ہے۔
جنوبی افریقہ نے دوست ممالک کو پیغام دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی عدالت میں کوئی ذیلی درخواست دائر نہ کریں اور نہ ہی مقدمے میں فریق بننے کی درخواست دیں۔صرف جنوبی افریقہ کی جانب سے نسل کشی کی پٹیشن کی سیاسی ، سفارتی و اخلاقی حمایت کریں۔
کیونکہ جتنے زیادہ ممالک عدالت میں فریق بننے کی کوشش کریں گے، سماعت اتنی ہی طوالت پکڑتی جائے گی اور اس کا فائدہ اسرائیل اور اس کے دوستوں کو پہنچے گا، جن کی پوری کوشش ہو گی کہ ایک ایک قانونی بال کی کئی کئی بار کھال اتاریں اور یہ مقدمہ لمبا کھنچتا چلا جائے۔
جب تک امریکا کا ویٹو موجود ہے ، ہونا ہوانا کچھ نہیں البتہ یہ بھی ایک اہمِ سنگِ میل ہے کہ اسرائیل کو پہلی بار کسی بین الاقوامی ادارے میں نسل کشی جیسے سنگین الزام کا سامنا ہے اور اگر یہ الزام ثابت ہو جاتا ہے تو پھر اسرائیل کو تو زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔البتہ اس سے سفارتی تعلقات برقرار رکھنے والے کئی ممالک کے ضمیر پر شاید بوجھ کا وزن تھوڑا اور بڑھ جائے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)