ریاستی ڈھانچے کی مکمل تبدیلی

ملک کی معیشت کی بنیاد عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والی امداد پر منحصر ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan January 13, 2024
[email protected]

کیا ملک کے شدید مالی بحران کا حل سیاسی جماعتوں کے منشور میں نظر آرہا ہے؟ ملک کی معیشت کی بنیاد عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والی امداد پر منحصر ہے۔

گزشتہ دو برسوں کے دوران آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے بجلی،گیس اور پٹرولیم پر دی جانے والی سبسڈی ختم کر دی گئی ہے۔

تیل اور پٹرول کی قیمتوں کو عالمی منڈی کی قیمتوں سے منسلک کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی روپے کی قوت خرید کم ہوگئی ہے اور ملک ابھی تک زرمبادلہ کے بحران سے نکل نہیں پایا۔ متوسط طبقے کے لیے بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے۔

خیبرپختون خوا اور بلوچستان کی حکومتیں اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منسلک وفاقی اور صوبائی یونیورسٹیوں میں انتظامیہ کے پاس اساتذہ کی تنخواہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کے لیے فنڈز موجود نہیں ہیں۔

عالمی بینک کے ڈائریکٹر Mr. Najy Benhassine نے پاکستان بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ "Persistently low quality of basic services for human development"۔ ان کا بیانیہ ہے کہ ہیومن ڈیولپمنٹ کو بہتر بنانے کے لیے کم درجہ کی خدمات کی بنا پر ترقی کا عمل منفی سمت کی طرف پرواز کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس منفی صورتحال کا ایک اظہار آبادی کے 40 فیصد حصے کی عمریں 5 سال سے کم ہونا ہے اور 7 فیصد بچے اپنی پانچویں سالگرہ منانے کے لیے دنیا میں موجود نہیں ہوتے۔

عالمی بینک کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اوسطاً ایک پاکستانی صرف آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔اب بھی 20 ملین پاکستانی ناخواندہ ہیں۔ زچہ اور نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

جنوبی ایشیا میں پاکستان میں اوسطاً عمر سب سے کم ہے اور 10ہزار افراد کے لیے اسپتالوں میں صرف 6 بستر دستیاب ہیں اور اس وقت بھی 13 ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر ہے۔

انسانی ترقی کے اعشاریہ Human Development Index (HDI) میں 192 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 161 نمبر ہے جب کہ بھارت 132ویں نمبر پر، بنگلہ دیش کا نمبر 129واں ہے۔ ایچ ڈی آئی پر سری لنکا کی پوزیشن سب سے بہتر ہے، اس کا نمبر 73واں ہے۔ United Nations World Economic Situation and Prospects for 2024 میں پاکستانی معیشت کی ایک انتہائی خراب شکل پیش کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کوکئی اقسام کے چیلنج کا سامنا ہے جن میں افراطِ زر میں اضافہ، کرنسی کی زبوں حالی اور بڑے پیمانہ پر بیرون قرضوں کے چیلنج شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ مئی 2025 تک گروتھ ریٹ 2.4 فیصد تک پہنچ جائے گا۔

اس رپورٹ میں اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ملک میں کھانے کی اشیاء کی کم دستیابی یا عدم دستیابی سے بحران ہوسکتا ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ماہرین بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں ۔ پاکستان کو اپنے ٹیکس کے نظام میں تبدیلی کرنی چاہیے۔بڑے جاگیرداروں، زمینداروں، صنعتکاروں، تاجروں، سول اور فوجی بیوروکریٹس کے اعلیٰ افسران وغیرہ پر براہِ راست ٹیکس لگنے چاہئیں اور غریبوں پر براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ ہلکا ہونا چاہیے۔

ماہرین فوری طور پر آبادی میں کمی کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان ترقیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آبادی کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، حتیٰ کہ اسلامی ممالک بنگلہ دیش، ایران، ملائیشیا اور انڈونیشیا نے آبادی کو کم کرکے ترقی کا راستہ اپنایا ہے۔

بنگلہ دیش اور ایران نے آبادی کو کم کر کے معاشی دباؤ کو کم کیا ہے۔ ان رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برآمدات ختم ہونے اور درآمدات میں مسلسل اضافہ سے زرمبادلہ کا بحران سنگین ہوچکا ہے جس کی بناء پر ادویات سے لے کر درآمد کی جانے والی دیگر تمام اشیاء مہنگی ہوچکی ہیں۔

ایک طرف معیشت کی صورتحال اتنی خراب ہے اور دوسری طرف دو صوبے بدامنی کی بدترین صورتحال کا شکار ہیں۔ 8جنوری کو باجوڑ میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کو تحفظ فراہم کرنے والے 7 پولیس والے جاںبحق ہوئے۔

دہشت گردی کی وارداتیں صرف خیبر پختون خوا اور بلوچستان تک محدود نہ رہیں بلکہ پنجاب کا شہر میانوالی اور اطراف کے علاقے بھی اس دہشت گردی کی لپیٹ میں آگئے۔ ملک کی معیشت کی صورتحال صرف چند برسوں میں خراب نہیں ہوئی بلکہ یہ 50برسوں کا قصہ بن گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی معیشت کا انحصار غیر ملکی قرضوں پر رہا۔ مختلف نوعیت کے بین الاقوامی بحرانوں کی بناء پر پاکستان کی جیولوجیکل حیثیت بڑھ گئی۔

50ء کی دہائی میں کوریا کی جنگ کی بناء پر ملک میں ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ حاصل ہوا۔ جنرل ایوب خان کی فوجی حکومت سرد جنگ میں امریکا کی اتحادی بن گئی جس کی بناء پر کولمبو پلان، امیر ممالک کے کنسورشیم اور عالمی بینک سے امداد ملنے کا سلسلہ شروع ہوا مگر بھارت کی طرح اس غیر ملکی امداد سے زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے پر توجہ نہیں دی گئی ۔ سستی بجلی، گیس اور قرضوں کے باوجود ملک میں صنعتی ڈھانچہ وسعت نا پاسکا۔

ذوالفقارعلی بھٹو دور میں روس کی مدد سے اسٹیل مل کی تیاری شروع ہوئی۔ بینک اور دیگر صنعتیں قومیائی گئیں مگر یہ بینک اور صنعتیں بیوروکریسی کی بدعنوانیوں کی نذر ہوگئیں۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت امریکا کے تیار کردہ افغان پروجیکٹ کا حصہ بنی۔ اربوں ڈالر ملک میں آئے، اس وقت کے چند جنرلوں اور مدارس چلانے والوں کی قسمت بدل گئی مگر ملک کی ترقی کے لیے ادارہ جاتی اقدامات نہ ہوئے۔

افغان جنگ کے تباہ کن اثرات سے ملک آج بھی گزر رہا ہے۔ ملک کا انحصار آج بھی ایک ریلوے لائن اور ایک بجلی کی لائن پر ہے۔ بہت سی وجوہات کی بناء پر سی پیک کا منصوبہ گیم چینجر ثابت نہیں ہو پا رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ معیشت میں بنیادی تبدیلیوں، پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات اور ایک ایسی معیشت جس میں امیروں سے ٹیکس کی وصولی کا نظام ہو اور ریاستی انفرا اسٹرکچر میں 50 فیصد کمی اور بڑی گاڑیوں کی درآمد پر پابندی سمیت درآمدات کی فہرست کو مختصر کرکے دفاعی اخراجات سمیت تمام غیر پیداواری اخراجات میں 50 فیصد کمی، بلوچستان میں عام معافی کے اعلان، لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل اور بلوچستان کے عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بنیادی اقدامات سے یہ بحران کم ہوسکتا ہے، یہ انتخابات کا سال ہے۔

پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا منشور آچکا ہے۔ مسلم لیگ ن کا منشور متوقع ہے۔ جمعیت علماء اسلام نے منشورکے بارے میں خاموشی اختیارکی ہوئی ہے۔ پاکستان استحکام پارٹی کے منشور میں کئی وعدے کیے گئے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما عدالتوں میں مصروف ہیں مگر کیا سیاسی جماعتوں نے معیشت کے بحران اور سیاسی بحران کے حل کے لیے اپنے منشور میں ادارہ جاتی پالیسیوں کا ذکر کیا ہے؟ تو اس سوال کا جواب خاموشی ہے مگر چند ہزار نوکریوں کے وعدے، غریبوں کو مفت بجلی کے کنکشن دینے کے اعلانات یا نوجوانوں کو قرضے وغیرہ دینے کے وعدے اس سنگین بحران کے حل کے لیے کافی نہیں ہیں۔

عالمی بینک کے افسر اعلیٰ کی یہ بات درست ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں میں وسیع اتفاقِ رائے ضروری ہے۔ یہ اتفاق رائے ریاستی ڈھانچے کی مکمل تبدیلی کے لیے ہونا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں