بنگلہ دیش الیکشن جمہوری سانچے میں آمرانہ خوانچہ
1971 کی جنگ میں جماعت اسلامی کی پاکستان نوازی اور پاکستانی افواج کا بھرپور ساتھ دینے کا’’ گناہ‘‘ دھل کے نہیں دے رہا
بنگلہ دیش کے حالیہ الیکشن کے نتائج کے مطابق حسینہ واجد کے مسلسل چوتھی بار وزیراعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
اس الیکشن کی خوبی یہ تھی کہ کہنے کی حد تک ملٹی پارٹی الیکشن تھے لیکن عملاً وہی پارٹیاں حصہ لے رہی تھیں جنھیں عوامی لیگ کا اشارہ ابرو میسر تھا۔ عوامی لیگ چاہتی تو 299 نشستوں پر بھی الیکشن جیت سکتی تھی لیکن مسلسل پندرہ سال حکومت کرنے کے بعد یہی سیکھا کہ ایوان میں اپوزیشن کی موجودگی سے پارلیمنٹ میں کچھ رونق لگی رہتی ہے۔
اسی لیے عوامی لیگ نے ان نشستوں پر امیدوار ہی کھڑے نہ کیے اور یوں 227 نشستوں پر ہی اکتفا کیا۔ جمہوریت کے لیے یقیناً ایک اچھا شگون ہو گا کہ تمام نشستوں پر براجمان ہونے کے بجائے ازخود یہ نشستوں اپوزیشن کے لیے خالی چھوڑ دیں۔ اس بڑے پن اور دیالو پن کے لیے ہمارے ہاں ایک سکہ بند مصرعہ حسب حال ہے۔
پیدا کہاں ایسے پراگندہ طبع لوگ
حسینہ واجد نے پچھلے پندرہ سال کے اقتدار کے دوران اپنی سب سے بڑی حریف جماعت بنگلہ دیش نیشنل پارٹی یعنی بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء کو کئی سالوں سے نظر بند کر رکھا ہے حالانکہ وہ دو دفعہ وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ الیکشن کے دوران بی این پی کے پچیس ہزار سے زائد ورکرز پابند سلاسل ہیں۔ کچھ ہیومن رائٹس گروپس کے مطابق حسینہ واجد اتنی بھی بے رحم نہیں۔ گرفتار مخالفین کی تعداد محض پندرہ ہزار ہے۔
سیاسی عمل میں اس جبر کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے شدید ہنگامے اور ہڑتالیں بھی ہوئیں مگر عوامی لیگ کے کانوں پر جوں کو رینگنا نصیب نہ ہوا۔ تنگ آمد بی این پی اور اتحادی جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور پورا زور لگایا کہ ٹرن آؤٹ کم سے کم ہو۔
عوامی لیگ نے بھی ہمیشہ پکی گولیاں ہی کھیلیں۔ جواباً انھوں نے راشن کارڈ سمیت ہر وہ حربہ آزمایا جس کی وجہ سے نہ چاہتے بھی بہت سے ووٹرز کو ووٹ ڈالنا پڑے۔ جماعت اسلامی تو حسینہ واجد کے دوہرے عذاب کا شکار ہوئی۔
1971 کی جنگ میں جماعت اسلامی کی پاکستان نوازی اور پاکستانی افواج کا بھرپور ساتھ دینے کا'' گناہ'' دھل کے نہیں دے رہا۔ جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کو تختہ دار پر کھینچا گیا۔
بارہ پندرہ سال قبل بنگلہ دیش میں صاف ستھری گورننس اور جمہوریت کا شور و غوغا اٹھا۔ خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد کی دشمنی میں ملکی معیشت ہلکان اور عوام بے جان ہونے لگے تو ملک میں فوج کی پس پردہ اعانت سے ایک نامی گرامی اور بنگلہ دیش کے پوسٹر بوائے ڈاکٹر یونس کو سیاسی اکھاڑے میں اتارنے کا تجربہ کیا گیا۔
ہمارے ہاں اس تجربے کو بنگلہ دیش ماڈل کا نام دیا گیا۔حسب معمول یار لوگوں نے دور پار کی سب کوڑیاں جمع کر کے میڈیا میں عوام کو یقین دلانا شروع کیا کہ پاکستان جس سیاسی دلدل میں پھنس گیا ہے، اس کا واحد حل بنگلہ دیش ماڈل کو کاپی کرنا ہے۔
حسینہ واجد کو اس چال کی بروقت سمجھ آگئی اور انھوں نے ڈاکٹر یونس کے ساتھ وہی حسن سلوک کیا جو سب سے بڑی حریف جماعت بی این پی اور اپنی مخالف خالدہ ضیا کے ساتھ کیا۔
ڈاکٹر یونس دنیا بھر میں مائیکرو فائینس کے حوالے سے ایک نہایت کامیاب مثال کے طور پر مشہور تھے۔ بنگلہ دیش میں گرامین بینک قائم کر کے انھوں نے چھوٹے چھوٹے قرضوں کے ذریعے بنگلہ دیش میں غربت کے خاتمے کے لیے بہت کام کیا اور دنیا بھر میں نام کمایا۔ چھوٹے قرضوں کے سلسلے میں گرامین ان بینک نے خاص طور پر خواتین کو ترجیح دی، اس اعتبار سے بنگلہ دیش اور دنیا بھر میں یہ ماڈل مثالی ثابت ہوا کہ خواتین کو معاشی طور پر سہارا دینے سے غربت میں تیزی سے کمی لائی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر یونس خدمات پر انھیں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ گرامین بینک اور ڈاکٹر یونس کی خدمات پر انھیں دنیا بھر میں تحسین کی نظر سے دیکھا گیا۔
بنگلہ دیش میں بھی انھیں تحسین اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا لیکن جب ڈاکٹر یونس نے خارزار سیاست میں قدم رکھنے اور عوامی لیگ کے مقابل کھڑے ہو کر حسینہ واجد کو للکارنے کا فیصلہ کیا تو تو سب یہ کیا کرایا دھرے کا دھرا رہ گیا۔ ڈاکٹر یونس کو گرامین بینک سے بزور علیحدہ کر دیا گیا۔ اور اس کے بعد الزامات اور مقدمات کے یلغار شروع ہو گئی جس کا وہ آج تک سامنا کر رہے ہیں۔
حسینہ واجد نے بطور وزیراعظم صرف اپنے سیاسی مخالفین پر ہی زندگی تنگ نہیں کی، ان کا طرز حکومت آمرانہ اور اپنے ہر قسم کے مخالفین کے لیے انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ رہا۔ ان کے پچھلے دور حکومت میں ہر گزرتے سال بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا۔ تمام تر عالمی اور مقامی تنقید کے باوجود حسینہ واجد نے اپنا انداز سیاست نہ بدلا۔ کیوںکہ معاشی ترقی ان کی سائیڈ پر تھی۔
علاقائی اور عالمی سیاست حسینہ واجد اور عوامی لیگ کی بھارت کے ساتھ ہمیشہ سیاسی رفاقت بہت مضبوط رہی۔ بنگلہ دیش کے انتخابات اور طرز سیاست میں جنوبی ایشیا کی روایتی سیاست کی جھلک نمایاں ہے۔بنگلہ دیش کی سیاست دو خاندانوں کی سیاسی رقابت کے ہاتھوں یرغمال ہے۔
پاکستان میں بھی سیاست چند بڑے خاندانوں کے ہاتھ میں یرغمال ہے۔ کچھ یہی حال سری لنکا کا بھی ہے جس نے سری لنکا کو کنگال کیا اور ڈیفالٹ تک پہنچایا۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار ہے لیکن وہاں بھی سیاسی جماعتوں پر موروثیت ہی قائم و دائم ہے۔
جمہوریت کے ضمن میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ لوگوں کے لیے ہے لیکن جمہوریت پچھلے 20 /30 سالوں میں ان ممالک میں بھی پسپا نظر آتی ہے جنھوں نے دنیا کو جمہوریت کا سبق سکھایا. امریکا اور یورپ کے بیشتر ممالک میں عوام میں معاشی بے چینی اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔
اسی سبب کئی ممالک میں انتہائی دائیں بازو اور کچھ ممالک میں انتہائی بائیں بازو جماعتوں نے زور پکڑا ہے۔اکثر ممالک میں مہم جو گروہوں نے سیاسی قبیلہ بندیوں کے زور پر جمہوریت کا سانچہ کچھ اس انداز میں اپنے قبضے میں کر لیا ہے کہ اپنے تسلط کو عوامی رائے پر تھوکنے کے لیے جمہوری نظام اب یرغمال ہے۔
بنگلہ دیش الیکشن اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ جمہوری سانچے میں آمرانہ خوانچہ اب بہت سے ممالک جمہوریت کا اگلا لبادہ ہے۔ یقین نہ آئے تو تھائی لینڈ، ترکی، بنگلہ دیش اور مصر پر نظر ڈال لیں۔ اپنے ہاں الیکشن کا تماشا بھی دیکھ لیں، عوامی رائے کے اظہار سے پہلے ہی سب کچھ طے ہوتا نظر آرہا ہے۔