صدیق راعی صاحب
میرے ہر مشکل وقت میں یہ جہاں بھی ہوتے یہ میرے پاس پہنچ جاتے‘ میں جب بھی کنفیوز ہوتا یہ میرا ہاتھ تھام لیتے
میری صدیق راعی صاحب سے پہلی ملاقات 1994ء میں ہوئی' یہ روحانیت میں دلچسپی رکھتے تھے' ان کے بڑے بھائی قدرت اللہ شہاب کے ارادت مند تھے' صدیق صاحب بھائی کے ساتھ شہاب صاحب سے ملے اور ان کے مرید بن گئے' شہاب صاحب نے انھیں درجنوں وظائف کرائے' یہ آہستہ آہستہ سلوک کی منزلیں طے کرنے لگے' صدر ایوب خان نے پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس 1963 کے ذریعے ملک کے تمام بڑے اخبارات اور جرائد قومیا لیے' حکومت نے ان اخبارات کے انتظامات چلانے کے لیے پریس ٹرسٹ آف پاکستان بنا دیا' یہ ٹرسٹ شہاب صاحب کا آئیڈیا تھا چنانچہ یہ طویل عرصے تک اس ٹرسٹ کے والی وارث رہے۔
یہ صدیق راعی صاحب کو بھی ٹرسٹ میں لے آئے' قدرت اللہ شہاب کا انتقال ہوا تو راعی صاحب مرجھا گئے' ان کی زندگی کے اب تین معمول تھے' وظائف' دفتر اور شہاب صاحب کی لحد پر بیٹھنا۔ یہ ہفتے میں ایک دن ممتاز مفتی صاحب کے پاس بھی آتے تھے' میں ان دنوں مفتی صاحب کا تازہ تازہ بالکا بنا تھا' مفتی صاحب میرے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے' صدیق صاحب آ کر چپ چاپ صوفے پر بیٹھ جاتے تھے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے رہتے تھے' مفتی صاحب ان کے وجود سے لاتعلق زائرین کے ساتھ گپ شپ لگاتے رہتے تھے۔ ''مرشد اجازت ہے'' کمرے میں اچانک یہ آواز گونجتی تھی' مفتی صاحب چونک کر صدیق صاحب کی طرف دیکھتے تھے۔
ہاں میں گردن ہلاتے تھے اور صدیق صاحب اٹھ کر چلے جاتے تھے' میں اکثر یہ منظر دیکھتا تھا' میں نے شہاب صاحب کی کتاب ''شہاب نامہ'' میں بھی صدیق راعی کا ذکر پڑھا تھا لیکن میں ان کی شخصیت سے زیادہ متاثر نہیں تھا' یہ متاثر کن بھی نہیں تھے' عام سی شکل و صورت' عام سی گفتگو اور عام سے کپڑے اور بس۔ یہ مفتی صاحب کے پاس بھی کوئی بقراطی نہیں جھاڑتے تھے' خاموش بیٹھے رہتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے ہاں البتہ مفتی صاحب بعض اوقات انھیں کام کہہ دیتے تھے اور یہ سر ہلا کر انھیں یقین دہانی کرا دیتے تھے۔
مفتی صاحب کے کام عجیب و غریب ہوتے تھے 'مثلاً وہ کہتے تھے ''یار صدیق بابے سے پوچھ میرا سر درد کب ٹھیک ہو گا'' یا پھر ''اوئے صدیق بابے سے کہہ اچھی (عکسی مفتی) پھر شادی کرنا چاہتا ہے' میں کیا کروں'' یا پھر ''صدیق ان سے پوچھ کر بتا' یہ ملک رہنے کے قابل کب ہو گا'' وغیرہ وغیرہ۔ صدیق صاحب ہاں میں گردن ہلا کر چلے جاتے تھے' اگلے ہفتے واپس آتے تھے اور مفتی صاحب کو عجیب سا جواب دے کر واپس چلے جاتے تھے' یہ جواب عموماً اس قسم کے ہوتے تھے ''آپ چھوٹی دار چینی کا قہوہ پئیں' آپ کا سر درد ٹھیک ہو جائے گا یا پھر ہومیو پیتھک کی فلاں دوا استعمال کریں۔
آپ صحت یاب ہو جائیں گے یا پھر لڑکے کے بوڑھے ہونے کا انتظار کریں یا پھر اس ملک کے لوگ جب تک پانچ دس لاکھ جانوں کی قربانی نہیں دیں گے' یہ ملک رہنے کے قابل نہیں ہو گا وغیرہ وغیرہ' میں ان سوالوں اور عجیب و غریب جوابوں پر حیران ہوتا تھا لیکن ادب کی وجہ سے خاموش رہتا تھا مگر ایک دن میں نے مفتی صاحب سے ان سوالوں اور جوابوں کے بارے میں پوچھ لیا' مفتی صاحب نے انکشاف کیا ''صدیق راعی واحد شخص ہیں جن سے شہاب صاحب کا رابطہ قائم ہے' ہم ان کے ذریعے شہاب صاحب کو پیغام بھجواتے ہیں اور وہ ان کے ذریعے جواب دے دیتے ہیں'' میں نے پوچھا '' لیکن جناب اس کی کیا گارنٹی ہے۔
یہ جواب صدیق صاحب کی ذہنی اختراع نہیں ہوتے'' مفتی صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ''یہ جواب سو فیصد درست ہوتے ہیں کیونکہ میں جب بھی شک کرتا ہوں شہاب صاحب کوئی نہ کوئی ایسی نشانی بھجوا دیتے ہیں جس سے صرف میں واقف ہوتا ہوں مثلاً انھوں نے ایک بار یہ کہلاوا دیا' مفتی جی' واہ کینٹ والی لڑکی سے بچ جائیں' یہ آپ کا بڑھاپا خراب کر دے گی اور میں شرمندہ ہو گیا کیونکہ اس سے بڑی نشانی کیا ہو سکتی تھی''۔
یہ صدیق راعی صاحب سے میری ابتدائی ملاقاتیں تھیں' میں ان دنوں ایک مسئلے کا شکار تھا' پیدائشی طور پر میری چھٹی حس تیز ہے' یہ مجھے اکثر اپنے کنٹرول میں لے لیتی تھی' میں خود کو شیزو فرینیا اور ہائپو کانڈریا کا مریض سمجھنے لگا تھا' میں نے مفتی صاحب سے ذکر کیا' مفتی صاحب نے صدیق صاحب کو طلب کر لیا اور ان سے پوچھا ''کاکے کے ساتھ کیا ہوتا ہے'' صدیق صاحب نے آنکھیں بند کیں' کچھ پڑھا' آنکھیں کھولیں اور فرمایا '' یہ قدرتی کشف ہے' ہم جس صلاحیت کے لیے بیس بیس سال وظائف کرتے ہیں' اللہ تعالیٰ نے یہ انھیں مفت عنایت کر رکھی ہے'' مفتی صاحب نے فرمایا ''بابے سے پوچھ' یہ اس صلاحیت کو کنٹرول کیسے کرے'' صدیق صاحب نے ہاں میں گردن ہلائی اور وہاں سے رخصت ہو گئے' وہ تین دن بعد واپس آئے۔ میں بھی مفتی صاحب کے گھر پہنچ گیا' صدیق صاحب نے جواب دیا ''بابا جی فرما رہے ہیں۔
یہ درست وظائف کر رہے ہیں' بس ان میں درود شریف کا اضافہ کر لیں' یہ صلاحیت پانچ سال بعد ان کے کنٹرول میں آ جائے گی'' میری اس پیغام کے بعد صدیق راعی صاحب سے دوستی ہو گئی' میں اکثر ان کے دفتر چلا جاتا تھا' یہ سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں رہتے تھے' میں ان کے گھر بھی پہنچ جاتا تھا' اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا مگر یہ اس کے باوجود مطمئن تھے' ان کے بڑے بھائی ملتان میں رہتے تھے' وہ ملتان سے اخبار نکالتے تھے' بھائی کے انتقال کے بعد وہ اخبار بیٹوں کو منتقل ہو گیا' بیٹے نالائق تھے (آج بھی نالائق ہیں) مگر صدیق صاحب نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیا' یہ پی آئی ڈی میں فون کر کے انھیں اشتہارات کا کوٹہ دلاتے تھے' یہ مجھ سے بھی ان کے لیے سفارش کرایا کرتے تھے۔
آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے' صدیق صاحب جب پچھلے سال آج کی تاریخ انتقال فرما گئے تو ان بھتیجوں نے ان کے مال اسباب اور جائیداد پر قبضہ کر لیا اور ہماری بے سہارا آنٹی روٹی روٹی کو محتاج ہو گئی' یہ بھتیجے بیوہ چچی کو گھر سے بھی بے دخل کرنا چاہتے ہیں' یہ بہر حال بعد کا قصہ ہے' ہم سر دست واپس 1995ء میں جائیں گے' ممتاز مفتی صاحب 27 اکتوبر 1995ء کو انتقال کر گئے تو میں صدیق صاحب کے زیادہ قریب ہو گیا' یہ بھی بہت محبت کرتے تھے' میرے ہر مشکل وقت میں یہ جہاں بھی ہوتے یہ میرے پاس پہنچ جاتے' میں جب بھی کنفیوز ہوتا یہ میرا ہاتھ تھام لیتے' میری بیوی ان کی منہ بولی بیٹی تھی' یہ میرے ساتھ ناراض ہوتے تو بھی اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے آ جاتے تھے اور ان کا پہلا فقرہ یہ ہوتا تھا ''بیٹی والے بھی کتنے مجبور ہوتے ہیں۔
انھیں نالائق داماد بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں'' یہ عجیب و غریب انسان تھے' پوری زندگی عسرت میں گزری مگر کبھی شکوہ نہیں کیا' اللہ نے اولاد کی نعمت نہیں دی مگر کبھی دوسری شادی کے بارے میں سوچا اور نہ ہی اولاد کے لیے دعا کی' میں کہتا تھا تو فرماتے تھے ''اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا تو مجھے اصرار کی کیا ضرورت ہے'' میں نے عرض کیا ''اولاد والدین کی نشانی ہوتی ہے'' جواب میں کہتے تھے ''کیا تم لوگ میری اولاد نہیں ہو' کیا تم میری نشانی نہیں ہو'' میں خاموش ہو جاتا تھا' مجھ سے ان کے دو تقاضے ہوتے تھے' ایک یہ مجھ سے شہاب صاحب کی ہر برسی پر کالم لکھواتے تھے۔
میں پوچھتا تھا ''میں ہی کیوں'' تو یہ جواب دیتے تھے 'آپ کے لکھنے سے میرا بابا خوش ہو جاتا ہے' دو' ان کا کہنا تھا ''میری بیٹی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے' یہ تکلیف میں ہو گی تو تم بھی سکھی نہیں رہ سکو گے''۔ میں نے ان سے ایک بار خوش رہنے کا فارمولا پوچھا' فرمایا ''انسان دولت جمع کرنے سے دکھی ہوتا ہے اور خرچ کرنے سے خوش' تم خرچ کرتے رہا کرو' خوش رہو گے'' میں نے ایک بار عرض کیا ''کامیابی کیا ہے؟'' فرمایا ''جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولؐ کامیابی سمجھتا ہے'' میں نے پوچھا ''اور اللہ اور اس کا رسولؐ کسے کامیابی سمجھتا ہے'' فرمایا ''دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کا قرب'' میں نے عرض کیا ''زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ کیا ہے'' فرمایا' '' جو مل گیا اس پر شکر کرو' جو نہیں ملا اس پر صبر کرو اور زندگی کے ہر معاملے میں آہستہ چلو' تیزی شیطانی ہوتی ہے' یہ انسان کو ہمیشہ گمراہ کرتی ہے'' میں نے ایک دن پوچھا ''اللہ کا سب سے بڑے امتحان کیا ہوتا ہے'' فرمایا ''بیماری' انسان تمام بیرونی طاقتوں سے لڑ سکتا ہے لیکن یہ اندرونی جراثیموں کا مقابلہ نہیں کر سکتا' بیماری سے ہمیشہ پناہ مانگو''۔
صدیق راعی صاحب پچھلے سال یکم جون کو جھنگ میں انتقال فرما گئے آج ان کی پہلی برسی ہے' آپ احباب سے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔
نوٹ: اعزاز علی سید ملک کے معروف رپورٹر ہیں، میں نے 22 مئی 2014ء کو ''زرداری صاحب سے مشورہ کر یں'' کے عنوان سے کالم لکھا' اعزاز صاحب کو اس کے مندرجات پر اعتراض ہے' ان کا کہنا ہے' انھیں جنرل ظہیر الاسلام سے متعلق خبر حامد میر کے ذریعے خواجہ آصف نے نہیں دی تھی' یہ خبر انھوں نے تین مختلف ذرائع سے حاصل کی تھی اور ان ذرائع میں خواجہ آصف شامل نہیں تھے' میں یہ وضاحت اعزاز علی سید کے مطالبے پر جاری کر رہا ہوں۔
یہ صدیق راعی صاحب کو بھی ٹرسٹ میں لے آئے' قدرت اللہ شہاب کا انتقال ہوا تو راعی صاحب مرجھا گئے' ان کی زندگی کے اب تین معمول تھے' وظائف' دفتر اور شہاب صاحب کی لحد پر بیٹھنا۔ یہ ہفتے میں ایک دن ممتاز مفتی صاحب کے پاس بھی آتے تھے' میں ان دنوں مفتی صاحب کا تازہ تازہ بالکا بنا تھا' مفتی صاحب میرے ساتھ بہت شفقت فرماتے تھے' صدیق صاحب آ کر چپ چاپ صوفے پر بیٹھ جاتے تھے اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتے رہتے تھے' مفتی صاحب ان کے وجود سے لاتعلق زائرین کے ساتھ گپ شپ لگاتے رہتے تھے۔ ''مرشد اجازت ہے'' کمرے میں اچانک یہ آواز گونجتی تھی' مفتی صاحب چونک کر صدیق صاحب کی طرف دیکھتے تھے۔
ہاں میں گردن ہلاتے تھے اور صدیق صاحب اٹھ کر چلے جاتے تھے' میں اکثر یہ منظر دیکھتا تھا' میں نے شہاب صاحب کی کتاب ''شہاب نامہ'' میں بھی صدیق راعی کا ذکر پڑھا تھا لیکن میں ان کی شخصیت سے زیادہ متاثر نہیں تھا' یہ متاثر کن بھی نہیں تھے' عام سی شکل و صورت' عام سی گفتگو اور عام سے کپڑے اور بس۔ یہ مفتی صاحب کے پاس بھی کوئی بقراطی نہیں جھاڑتے تھے' خاموش بیٹھے رہتے تھے اور واپس چلے جاتے تھے ہاں البتہ مفتی صاحب بعض اوقات انھیں کام کہہ دیتے تھے اور یہ سر ہلا کر انھیں یقین دہانی کرا دیتے تھے۔
مفتی صاحب کے کام عجیب و غریب ہوتے تھے 'مثلاً وہ کہتے تھے ''یار صدیق بابے سے پوچھ میرا سر درد کب ٹھیک ہو گا'' یا پھر ''اوئے صدیق بابے سے کہہ اچھی (عکسی مفتی) پھر شادی کرنا چاہتا ہے' میں کیا کروں'' یا پھر ''صدیق ان سے پوچھ کر بتا' یہ ملک رہنے کے قابل کب ہو گا'' وغیرہ وغیرہ۔ صدیق صاحب ہاں میں گردن ہلا کر چلے جاتے تھے' اگلے ہفتے واپس آتے تھے اور مفتی صاحب کو عجیب سا جواب دے کر واپس چلے جاتے تھے' یہ جواب عموماً اس قسم کے ہوتے تھے ''آپ چھوٹی دار چینی کا قہوہ پئیں' آپ کا سر درد ٹھیک ہو جائے گا یا پھر ہومیو پیتھک کی فلاں دوا استعمال کریں۔
آپ صحت یاب ہو جائیں گے یا پھر لڑکے کے بوڑھے ہونے کا انتظار کریں یا پھر اس ملک کے لوگ جب تک پانچ دس لاکھ جانوں کی قربانی نہیں دیں گے' یہ ملک رہنے کے قابل نہیں ہو گا وغیرہ وغیرہ' میں ان سوالوں اور عجیب و غریب جوابوں پر حیران ہوتا تھا لیکن ادب کی وجہ سے خاموش رہتا تھا مگر ایک دن میں نے مفتی صاحب سے ان سوالوں اور جوابوں کے بارے میں پوچھ لیا' مفتی صاحب نے انکشاف کیا ''صدیق راعی واحد شخص ہیں جن سے شہاب صاحب کا رابطہ قائم ہے' ہم ان کے ذریعے شہاب صاحب کو پیغام بھجواتے ہیں اور وہ ان کے ذریعے جواب دے دیتے ہیں'' میں نے پوچھا '' لیکن جناب اس کی کیا گارنٹی ہے۔
یہ جواب صدیق صاحب کی ذہنی اختراع نہیں ہوتے'' مفتی صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ''یہ جواب سو فیصد درست ہوتے ہیں کیونکہ میں جب بھی شک کرتا ہوں شہاب صاحب کوئی نہ کوئی ایسی نشانی بھجوا دیتے ہیں جس سے صرف میں واقف ہوتا ہوں مثلاً انھوں نے ایک بار یہ کہلاوا دیا' مفتی جی' واہ کینٹ والی لڑکی سے بچ جائیں' یہ آپ کا بڑھاپا خراب کر دے گی اور میں شرمندہ ہو گیا کیونکہ اس سے بڑی نشانی کیا ہو سکتی تھی''۔
یہ صدیق راعی صاحب سے میری ابتدائی ملاقاتیں تھیں' میں ان دنوں ایک مسئلے کا شکار تھا' پیدائشی طور پر میری چھٹی حس تیز ہے' یہ مجھے اکثر اپنے کنٹرول میں لے لیتی تھی' میں خود کو شیزو فرینیا اور ہائپو کانڈریا کا مریض سمجھنے لگا تھا' میں نے مفتی صاحب سے ذکر کیا' مفتی صاحب نے صدیق صاحب کو طلب کر لیا اور ان سے پوچھا ''کاکے کے ساتھ کیا ہوتا ہے'' صدیق صاحب نے آنکھیں بند کیں' کچھ پڑھا' آنکھیں کھولیں اور فرمایا '' یہ قدرتی کشف ہے' ہم جس صلاحیت کے لیے بیس بیس سال وظائف کرتے ہیں' اللہ تعالیٰ نے یہ انھیں مفت عنایت کر رکھی ہے'' مفتی صاحب نے فرمایا ''بابے سے پوچھ' یہ اس صلاحیت کو کنٹرول کیسے کرے'' صدیق صاحب نے ہاں میں گردن ہلائی اور وہاں سے رخصت ہو گئے' وہ تین دن بعد واپس آئے۔ میں بھی مفتی صاحب کے گھر پہنچ گیا' صدیق صاحب نے جواب دیا ''بابا جی فرما رہے ہیں۔
یہ درست وظائف کر رہے ہیں' بس ان میں درود شریف کا اضافہ کر لیں' یہ صلاحیت پانچ سال بعد ان کے کنٹرول میں آ جائے گی'' میری اس پیغام کے بعد صدیق راعی صاحب سے دوستی ہو گئی' میں اکثر ان کے دفتر چلا جاتا تھا' یہ سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں رہتے تھے' میں ان کے گھر بھی پہنچ جاتا تھا' اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کی نعمت سے محروم رکھا تھا مگر یہ اس کے باوجود مطمئن تھے' ان کے بڑے بھائی ملتان میں رہتے تھے' وہ ملتان سے اخبار نکالتے تھے' بھائی کے انتقال کے بعد وہ اخبار بیٹوں کو منتقل ہو گیا' بیٹے نالائق تھے (آج بھی نالائق ہیں) مگر صدیق صاحب نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیا' یہ پی آئی ڈی میں فون کر کے انھیں اشتہارات کا کوٹہ دلاتے تھے' یہ مجھ سے بھی ان کے لیے سفارش کرایا کرتے تھے۔
آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے' صدیق صاحب جب پچھلے سال آج کی تاریخ انتقال فرما گئے تو ان بھتیجوں نے ان کے مال اسباب اور جائیداد پر قبضہ کر لیا اور ہماری بے سہارا آنٹی روٹی روٹی کو محتاج ہو گئی' یہ بھتیجے بیوہ چچی کو گھر سے بھی بے دخل کرنا چاہتے ہیں' یہ بہر حال بعد کا قصہ ہے' ہم سر دست واپس 1995ء میں جائیں گے' ممتاز مفتی صاحب 27 اکتوبر 1995ء کو انتقال کر گئے تو میں صدیق صاحب کے زیادہ قریب ہو گیا' یہ بھی بہت محبت کرتے تھے' میرے ہر مشکل وقت میں یہ جہاں بھی ہوتے یہ میرے پاس پہنچ جاتے' میں جب بھی کنفیوز ہوتا یہ میرا ہاتھ تھام لیتے' میری بیوی ان کی منہ بولی بیٹی تھی' یہ میرے ساتھ ناراض ہوتے تو بھی اپنی بیٹی سے ملاقات کے لیے آ جاتے تھے اور ان کا پہلا فقرہ یہ ہوتا تھا ''بیٹی والے بھی کتنے مجبور ہوتے ہیں۔
انھیں نالائق داماد بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں'' یہ عجیب و غریب انسان تھے' پوری زندگی عسرت میں گزری مگر کبھی شکوہ نہیں کیا' اللہ نے اولاد کی نعمت نہیں دی مگر کبھی دوسری شادی کے بارے میں سوچا اور نہ ہی اولاد کے لیے دعا کی' میں کہتا تھا تو فرماتے تھے ''اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا تو مجھے اصرار کی کیا ضرورت ہے'' میں نے عرض کیا ''اولاد والدین کی نشانی ہوتی ہے'' جواب میں کہتے تھے ''کیا تم لوگ میری اولاد نہیں ہو' کیا تم میری نشانی نہیں ہو'' میں خاموش ہو جاتا تھا' مجھ سے ان کے دو تقاضے ہوتے تھے' ایک یہ مجھ سے شہاب صاحب کی ہر برسی پر کالم لکھواتے تھے۔
میں پوچھتا تھا ''میں ہی کیوں'' تو یہ جواب دیتے تھے 'آپ کے لکھنے سے میرا بابا خوش ہو جاتا ہے' دو' ان کا کہنا تھا ''میری بیٹی کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے' یہ تکلیف میں ہو گی تو تم بھی سکھی نہیں رہ سکو گے''۔ میں نے ان سے ایک بار خوش رہنے کا فارمولا پوچھا' فرمایا ''انسان دولت جمع کرنے سے دکھی ہوتا ہے اور خرچ کرنے سے خوش' تم خرچ کرتے رہا کرو' خوش رہو گے'' میں نے ایک بار عرض کیا ''کامیابی کیا ہے؟'' فرمایا ''جسے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولؐ کامیابی سمجھتا ہے'' میں نے پوچھا ''اور اللہ اور اس کا رسولؐ کسے کامیابی سمجھتا ہے'' فرمایا ''دنیا اور آخرت دونوں میں اللہ کا قرب'' میں نے عرض کیا ''زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ کیا ہے'' فرمایا' '' جو مل گیا اس پر شکر کرو' جو نہیں ملا اس پر صبر کرو اور زندگی کے ہر معاملے میں آہستہ چلو' تیزی شیطانی ہوتی ہے' یہ انسان کو ہمیشہ گمراہ کرتی ہے'' میں نے ایک دن پوچھا ''اللہ کا سب سے بڑے امتحان کیا ہوتا ہے'' فرمایا ''بیماری' انسان تمام بیرونی طاقتوں سے لڑ سکتا ہے لیکن یہ اندرونی جراثیموں کا مقابلہ نہیں کر سکتا' بیماری سے ہمیشہ پناہ مانگو''۔
صدیق راعی صاحب پچھلے سال یکم جون کو جھنگ میں انتقال فرما گئے آج ان کی پہلی برسی ہے' آپ احباب سے دعا کی درخواست کرتا ہوں۔
نوٹ: اعزاز علی سید ملک کے معروف رپورٹر ہیں، میں نے 22 مئی 2014ء کو ''زرداری صاحب سے مشورہ کر یں'' کے عنوان سے کالم لکھا' اعزاز صاحب کو اس کے مندرجات پر اعتراض ہے' ان کا کہنا ہے' انھیں جنرل ظہیر الاسلام سے متعلق خبر حامد میر کے ذریعے خواجہ آصف نے نہیں دی تھی' یہ خبر انھوں نے تین مختلف ذرائع سے حاصل کی تھی اور ان ذرائع میں خواجہ آصف شامل نہیں تھے' میں یہ وضاحت اعزاز علی سید کے مطالبے پر جاری کر رہا ہوں۔