جبری مشقت لمحہ فکریہ
پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے، چنانچہ یہاں پر زراعت کے شعبے میں بھی جبری مشقت نظر آتی ہے۔
BERLIN:
اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آج دنیا بھر میں 2 کروڑ 10 لاکھ سے زائد مزدور ایسے ہیں جو جبری ملازمت کا شکار ہیں، جب کہ ایسے مزدوروں کے ذریعے حاصل ہونے والی سالانہ آمدنی 150 ارب ڈالرز کے قریب ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیر قانونی طور پر منافع کمانے کیلیے جبری ملازمت کا شکار ہونے والے ان مزدوروں میں سے نصف سے زائد کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے جب کہ 18 فیصد افریقہ اور لاطینی امریکا میں 10 فیصد بستے ہیں۔ جبری ملازمت کا دائرہ کار جسم فروشی کی صنعت، گھریلو ملازمت، زراعت اور تعمیرات و دیگر شعبہ جات میں پھیلا ہوا ہے، آئی ایل او نے اس امر پر بھی گہری تشویش کا بھی اظہار کیا ہے کہ جبری ملازمت میں جرائم پیشہ گروہ منظم انداز میں برسرپیکار ہیں جو نہ صرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ اس کو روکنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی نظر آتا ہے۔
پاکستان میں بھی جبری ملازمت کوئی نئی بات نہیں ہے، ہمارے معاشرے میں جبری مشقت کی کہانیاں آئے دن میڈیا کے ذریعے سامنے آتی رہتی ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 10 سے 20 لاکھ افراد اس ظلم و ستم کا شکار اور انسانی حقوق کی فراہمی کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ پہلی جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد اس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے 1919 میں تشکیل پانے والے آئی ایل او نے اس ضمن میں متعدد قوانین منظور کیے، جن پر دنیا کے بیشتر ممالک عمل پیرا بھی ہیں، مگر سرمایہ کارانہ ذہنیت ہر جگہ موجود ہے جو منافع خوری کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
آئین پاکستان مزدوروں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے والے بنیادی حقوق کے تحت مزدور ان کے حصول تو درکنار اس کی خلاف ورزیوں کا شکار نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں ریاست بھی کسی حد تک ذمے دار ہے جو متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کرانے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 11 کی شق 2 کے تحت کسی بھی طرح کی جبری مشقت قانونی طور پر ممنوع ہے۔ آئی ایل او کنونشن 29 (جبری مشقت کنونشن 1930) کو پاکستان میں 23 دسمبر 1957 میں لاگو کیا گیا تھا، جب کہ آئی ایل او کنونشن 105 کو 15 فروری 1960 سے پاکستان میں نافذالعمل تصور کیا گیا۔
کم سے کم اجرت سے متعلق آئی ایل او کنونشن 138 کا نفاذ 1973 میں ہوا، جس میں مزدور کی کم از کم عمر 14 برس مقرر کی گئی۔ حکومت پاکستان نے جولائی 2006 میں اس کی توثیق کی لیکن آج بھی جگہ جگہ 14 برس سے کم عمر بچے جبری مشقت کا عملی نمونہ ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ مجبور و بے کس اور لاچار خواتین اور معصوم بچے بھی جبری مشقت کا شکار ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے۔
علاوہ ازیں غیر قانونی طور پر پناہ گزیں افراد بھی اس مصیبت کا شکار بن جاتے ہیں۔ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اس کا کھلے عام مشاہدہ کرتے بھی ہیں۔ صنعتی اور تجارتی اداروں میں جبری مشقت جاری ہے، دفاتر میں بھی جبری مشقت کی مثالیں ملتی ہیں۔ مالی بدحالی یا بعض مصلحتوں کا شکارہونیوالے جبری ملازمتوں پر مجبور ہوتے ہیں۔ تعلیم کا فقدان، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت، معاشی و سماجی مسائل جبری مشقت کی جانب لے جاتے ہیں۔ کارکن جبری مشقت کے دوران اپنے بنیادی حقوق سے نہ صرف محروم ہوجاتے ہیں بلکہ ان کی شخصیت، کردار اور سماجی حیثیت بھی متاثر ہوتی ہے، مزید برآں معاشرے میں بگاڑ کا امکان اور خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اداروں میں ٹھیکہ داری نظام نے بھی جبری مشقت کو تقویت دی ہے۔ کارکنان بعض اوقات غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے، چنانچہ یہاں پر زراعت کے شعبے میں بھی جبری مشقت نظر آتی ہے۔ ٹھیکہ داری کا نظام اس شعبے کو بھی گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں روز و شب کام کرایا جاتا اور معقول معاوضہ ملنا تو درکنار، دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی۔ قرض کے بوجھ تلے دباکر جبری مشقت لینا کوئی انوکھی بات نہیں رہی، آئے دن عدالتی احکامات کے تحت نجی جیلوں میں مقید رکھے جانے والے جبری مشقت کا شکار افراد کی رہائی عمل میں لائی جاتی ہے، مگر فیکٹریوں اور کارخانوں میں جبری کام کرنے والوں کی کوئی نہیں سنتا۔
حالیہ برسوں کے دوران آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں سفید پوش بھی بھوک اور افلاس کا شکار ہوئے اور قرضوں کے بوجھ تلے دبنے کے بعد جبری مشقت پر مجبور ہوئے۔ صنعتی و تجارتی اداروں اور زراعت کے علاوہ قالین بافی، ماہی گیری، چوڑیاں بنانے والی صنعت، گھریلو ملازمائیں، اینٹیں بنانے کے کام اور نہروں کے کھدائی کے کاموں کے علاوہ عمارتوں کی تعمیرات میں بھی جبری مشقت کے کھلے شواہد معاشرے کے لیے کسی المیہ سے کم نہیں۔ ملک میں نج کاری کے عمل سے بھی جبری مشقت کو ترغیب و تقویت ملی ہے۔ آئی او سی کے کنونشنز کے مطابق زراعت سے وابستہ کارکنان بھی اسی قدر مراعات اور حقوق کے حقدار ہیں جس قدر صنعتی اور تجارتی اداروں کے مزدور۔
پاکستان میں اس حوالے سے ہر دور میں قوانین مرتب ہوتے رہے ہیں لیکن وہ ہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق بدقسمتی سے کوئی بھی حکومت ملک میں جبری مشقت کے خاتمے میں خاطر خواہ کردار ادا نہ کرسکی۔ 2000 میں عوامی حکومت نے قومی اسمبلی سے فنانس بل منظور کروایا جس کے تحت فیکٹریز ایکٹ مجریہ 1934 ویسٹ پاکستان انڈسڑیل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ، اسٹینڈنگ آرڈر آرڈیننس 1968، ورکرز ویلفیئر فنڈ آرڈیننس 1971 اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ ایکٹ 1976 کے قوانین میں تبدیلی سے نہ صرف مزدوروں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے بلکہ جبری مشقت کے حوالے سے اسے انٹرنیشنل قوانین سے بھی متصادم تصور کیا گیا۔
اس ضمن میں فیکٹریز ایکٹ 1934 میں ترمیم کرکے صنعتی اداروں میں انسپیکشن پر پابندی کے فیصلے کا خاتمہ ضروری ہے۔ خواتین ورکرز کو کام کی جگہ پر رات 10 تک روکے رکھنا بھی جبری مشقت کے زمرے میں آتا ہے، اس حوالے سے متعلقہ قانون پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اوور ٹائم کے اوقات میں اضافہ بھی درست نہیں تو اوور ٹائم کا معاوضہ قانون کے مطابق ادا نہ کرنا بھی جبری مشقت ہی کی ایک قسم ہے۔ لازمی ملازمت کو ملنے والا قانونی تحفظ بھی انسانی حقوق کے قوانین کے برخلاف نظر آتا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے اسد اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ جبری مشقت غیرانسانی فعل اور بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے، تجارتی و صنعتی اداروں اور فیکٹریوں میں اس حوالے سے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ قوانین کی موجودگی میں جبری مشقت کا برقرار رہنا افسوسناک عمل ہے۔ ہاریوں اور کسانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور جبری مشقت کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی جاری ہے۔
جس میں اخلاقی اور قانونی معاونت و امداد بھی شامل ہے، علاوہ ازیں کمیشن نے جبری مشقت کے تدارک کے لیے اسپیشل ٹاکس فورس بھی قائم کر رکھی ہے جس کا مقصد اس ناپسندیدہ عمل کی سرکوبی اور حوصلہ شکنی کرنا ہے، لیکن اس ضمن میں عوامی شعور و آگاہی بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کیلیے ریاست اور میڈیا سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، خاص طور میڈیا ماحول کا نگراں ہونے کے ناتے جبری مشقت کے باعث مستقبل میں سامنے آنیوالے خطرات سے آگاہ کرے۔
اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ادارہ محنت (آئی ایل او) کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آج دنیا بھر میں 2 کروڑ 10 لاکھ سے زائد مزدور ایسے ہیں جو جبری ملازمت کا شکار ہیں، جب کہ ایسے مزدوروں کے ذریعے حاصل ہونے والی سالانہ آمدنی 150 ارب ڈالرز کے قریب ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیر قانونی طور پر منافع کمانے کیلیے جبری ملازمت کا شکار ہونے والے ان مزدوروں میں سے نصف سے زائد کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے جب کہ 18 فیصد افریقہ اور لاطینی امریکا میں 10 فیصد بستے ہیں۔ جبری ملازمت کا دائرہ کار جسم فروشی کی صنعت، گھریلو ملازمت، زراعت اور تعمیرات و دیگر شعبہ جات میں پھیلا ہوا ہے، آئی ایل او نے اس امر پر بھی گہری تشویش کا بھی اظہار کیا ہے کہ جبری ملازمت میں جرائم پیشہ گروہ منظم انداز میں برسرپیکار ہیں جو نہ صرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ اس کو روکنا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی نظر آتا ہے۔
پاکستان میں بھی جبری ملازمت کوئی نئی بات نہیں ہے، ہمارے معاشرے میں جبری مشقت کی کہانیاں آئے دن میڈیا کے ذریعے سامنے آتی رہتی ہیں۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 10 سے 20 لاکھ افراد اس ظلم و ستم کا شکار اور انسانی حقوق کی فراہمی کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ پہلی جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد اس کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے 1919 میں تشکیل پانے والے آئی ایل او نے اس ضمن میں متعدد قوانین منظور کیے، جن پر دنیا کے بیشتر ممالک عمل پیرا بھی ہیں، مگر سرمایہ کارانہ ذہنیت ہر جگہ موجود ہے جو منافع خوری کے لیے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔
آئین پاکستان مزدوروں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے والے بنیادی حقوق کے تحت مزدور ان کے حصول تو درکنار اس کی خلاف ورزیوں کا شکار نظر آتا ہے۔ اس ضمن میں ریاست بھی کسی حد تک ذمے دار ہے جو متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کرانے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 11 کی شق 2 کے تحت کسی بھی طرح کی جبری مشقت قانونی طور پر ممنوع ہے۔ آئی ایل او کنونشن 29 (جبری مشقت کنونشن 1930) کو پاکستان میں 23 دسمبر 1957 میں لاگو کیا گیا تھا، جب کہ آئی ایل او کنونشن 105 کو 15 فروری 1960 سے پاکستان میں نافذالعمل تصور کیا گیا۔
کم سے کم اجرت سے متعلق آئی ایل او کنونشن 138 کا نفاذ 1973 میں ہوا، جس میں مزدور کی کم از کم عمر 14 برس مقرر کی گئی۔ حکومت پاکستان نے جولائی 2006 میں اس کی توثیق کی لیکن آج بھی جگہ جگہ 14 برس سے کم عمر بچے جبری مشقت کا عملی نمونہ ہیں۔ مردوں کے ساتھ ساتھ مجبور و بے کس اور لاچار خواتین اور معصوم بچے بھی جبری مشقت کا شکار ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں ہے۔
علاوہ ازیں غیر قانونی طور پر پناہ گزیں افراد بھی اس مصیبت کا شکار بن جاتے ہیں۔ ہم اپنی روز مرہ کی زندگی میں اس کا کھلے عام مشاہدہ کرتے بھی ہیں۔ صنعتی اور تجارتی اداروں میں جبری مشقت جاری ہے، دفاتر میں بھی جبری مشقت کی مثالیں ملتی ہیں۔ مالی بدحالی یا بعض مصلحتوں کا شکارہونیوالے جبری ملازمتوں پر مجبور ہوتے ہیں۔ تعلیم کا فقدان، تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، غربت، معاشی و سماجی مسائل جبری مشقت کی جانب لے جاتے ہیں۔ کارکن جبری مشقت کے دوران اپنے بنیادی حقوق سے نہ صرف محروم ہوجاتے ہیں بلکہ ان کی شخصیت، کردار اور سماجی حیثیت بھی متاثر ہوتی ہے، مزید برآں معاشرے میں بگاڑ کا امکان اور خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ اداروں میں ٹھیکہ داری نظام نے بھی جبری مشقت کو تقویت دی ہے۔ کارکنان بعض اوقات غلاموں کی سی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے، چنانچہ یہاں پر زراعت کے شعبے میں بھی جبری مشقت نظر آتی ہے۔ ٹھیکہ داری کا نظام اس شعبے کو بھی گھن کی طرح کھا رہا ہے۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں روز و شب کام کرایا جاتا اور معقول معاوضہ ملنا تو درکنار، دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی۔ قرض کے بوجھ تلے دباکر جبری مشقت لینا کوئی انوکھی بات نہیں رہی، آئے دن عدالتی احکامات کے تحت نجی جیلوں میں مقید رکھے جانے والے جبری مشقت کا شکار افراد کی رہائی عمل میں لائی جاتی ہے، مگر فیکٹریوں اور کارخانوں میں جبری کام کرنے والوں کی کوئی نہیں سنتا۔
حالیہ برسوں کے دوران آنے والے سیلابوں کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں سفید پوش بھی بھوک اور افلاس کا شکار ہوئے اور قرضوں کے بوجھ تلے دبنے کے بعد جبری مشقت پر مجبور ہوئے۔ صنعتی و تجارتی اداروں اور زراعت کے علاوہ قالین بافی، ماہی گیری، چوڑیاں بنانے والی صنعت، گھریلو ملازمائیں، اینٹیں بنانے کے کام اور نہروں کے کھدائی کے کاموں کے علاوہ عمارتوں کی تعمیرات میں بھی جبری مشقت کے کھلے شواہد معاشرے کے لیے کسی المیہ سے کم نہیں۔ ملک میں نج کاری کے عمل سے بھی جبری مشقت کو ترغیب و تقویت ملی ہے۔ آئی او سی کے کنونشنز کے مطابق زراعت سے وابستہ کارکنان بھی اسی قدر مراعات اور حقوق کے حقدار ہیں جس قدر صنعتی اور تجارتی اداروں کے مزدور۔
پاکستان میں اس حوالے سے ہر دور میں قوانین مرتب ہوتے رہے ہیں لیکن وہ ہی ڈھاک کے تین پات کے مصداق بدقسمتی سے کوئی بھی حکومت ملک میں جبری مشقت کے خاتمے میں خاطر خواہ کردار ادا نہ کرسکی۔ 2000 میں عوامی حکومت نے قومی اسمبلی سے فنانس بل منظور کروایا جس کے تحت فیکٹریز ایکٹ مجریہ 1934 ویسٹ پاکستان انڈسڑیل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ، اسٹینڈنگ آرڈر آرڈیننس 1968، ورکرز ویلفیئر فنڈ آرڈیننس 1971 اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ ایکٹ 1976 کے قوانین میں تبدیلی سے نہ صرف مزدوروں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے بلکہ جبری مشقت کے حوالے سے اسے انٹرنیشنل قوانین سے بھی متصادم تصور کیا گیا۔
اس ضمن میں فیکٹریز ایکٹ 1934 میں ترمیم کرکے صنعتی اداروں میں انسپیکشن پر پابندی کے فیصلے کا خاتمہ ضروری ہے۔ خواتین ورکرز کو کام کی جگہ پر رات 10 تک روکے رکھنا بھی جبری مشقت کے زمرے میں آتا ہے، اس حوالے سے متعلقہ قانون پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اوور ٹائم کے اوقات میں اضافہ بھی درست نہیں تو اوور ٹائم کا معاوضہ قانون کے مطابق ادا نہ کرنا بھی جبری مشقت ہی کی ایک قسم ہے۔ لازمی ملازمت کو ملنے والا قانونی تحفظ بھی انسانی حقوق کے قوانین کے برخلاف نظر آتا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے اسد اقبال بٹ کا کہنا ہے کہ جبری مشقت غیرانسانی فعل اور بنیادی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے، تجارتی و صنعتی اداروں اور فیکٹریوں میں اس حوالے سے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ قوانین کی موجودگی میں جبری مشقت کا برقرار رہنا افسوسناک عمل ہے۔ ہاریوں اور کسانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور جبری مشقت کے خلاف ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کی جاری ہے۔
جس میں اخلاقی اور قانونی معاونت و امداد بھی شامل ہے، علاوہ ازیں کمیشن نے جبری مشقت کے تدارک کے لیے اسپیشل ٹاکس فورس بھی قائم کر رکھی ہے جس کا مقصد اس ناپسندیدہ عمل کی سرکوبی اور حوصلہ شکنی کرنا ہے، لیکن اس ضمن میں عوامی شعور و آگاہی بیدار کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کیلیے ریاست اور میڈیا سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، خاص طور میڈیا ماحول کا نگراں ہونے کے ناتے جبری مشقت کے باعث مستقبل میں سامنے آنیوالے خطرات سے آگاہ کرے۔