انصاف میں حائل بنیادی رکاوٹیں
جب تک وہ خود قانون کی پاسداری نہیں کرے گی ان دھندوں میں ملوث عناصر کا خاتمہ نہیں کرے گی
ARBIL:
سٹی کورٹ کراچی میں قائم سرکاری مال خانے کی خستہ حالی اور بدعنوانیوں کی کہانیاں اور تصاویر کافی عرصے سے قومی اخبارات میں چھپ رہی ہیں۔ کراچی کے چار ضلعوں میں جرائم اور مقدمات میں ملوث اور برآمد ہونے والی قیمتی اشیا مثلاً زیورات، ٹی وی، کمپیوٹر، الیکٹرک کا سامان اور آلات، منشیات اور اسلحہ وغیرہ مقدمات کی سماعت کے دوران کیس پراپرٹی کے طور پر اس سرکاری مال خانے میں جمع کرائے جاتے ہیں جس کا انتظام محکمہ پولیس کے اختیار میں آتا ہے لیکن محکمہ کی عدم توجہی، نااہلی اور بدعنوانی کے باعث اس کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
یہاں متعلقہ سامان رکھنے کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ عمارت خستہ حال اور چھتیں گررہی ہیں، جمع شدہ اشیا کے دھوپ، بارش اور موسمی حالات سے بچاؤ اور حفاظت کا کوئی خاطر خواہ نظام نہیں ہے۔ آتشزدگی بھی ہوچکی ہے۔ اشیا کا ریکارڈ کمپیوٹرائز نہیں ہے، سب کام روایتی اور شخصی طریقہ پر کیے جانے کی وجہ سے کرپشن کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے کروڑوں روپے کی قیمتی اشیا تباہ و برباد اور خوردبرد کا شکار ہورہی ہے۔ مقدمات کے سالہا سال زیر سماعت رہنے، مال خانے میں ان اشیا کو صحیح طورپر نہ رکھنے اور موسمی اثرات مرتب ہونے کی وجہ سے ان اشیا کی کیمیائی ہیئت، رنگت اور گزرتے وقت کے ساتھ دوران سماعت گواہان کو ان اشیا کی شناخت میں مشکلات پیش آتی ہے، جس کا پورا فائدہ مجرموں کو پہنچتاہے، وہ باآسانی بری ہوجاتے ہیں اور بدنامی عدالتوں اور سرکاری وکلا کے حصے میں آتی ہے۔
ایسی شکایات بھی عام ہیں کہ ملزمان سے برآمد ہونے والے قیمتی اسلحے و دیگر کیس پراپرٹی جو مال خانے میں جمع کرایا جاتا ہے، تبدیل کردیا جاتا ہے، قیمتی اسلحے کو ناکارہ اسلحے سے تبدیل کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے روزنامہ ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مال خانے کی تحقیقات کے سلسلے میں قائم کی گئی انسداد بدعنوانی کمیٹی نے مال خانے میں ہونے والی خوردبرد کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ مال خانے کے دو انچارج تراب علی مری اور عبدالعزیز کے درمیان لین دین کے معاملے پر جھگڑا ہوا تو عزیز نے معاملہ دبانے کی نیت سے اپنے ساتھی کی مدد سے مال خانے میں موجود کیس پراپرٹی دستی بم سے دھماکا کرکے تراب علی کو ہلاک کرنے کی کوشش کی، جس سے وہ شدید زخمی ہوگیا۔
اس کی شکایت پر عزیز کے خلاف اقدام قتل اور 13 لاکھ کی چوری کا مقدمہ درج ہوا لیکن دونوں انچارجز کے درمیان رقم کی تقسیم پر مک مکا اور صلح ہوگئی۔ نہ ہی ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی نہ ہی 13 لاکھ کی چوری کا معاملہ اور خوردبرد پر تفتیشی افسر نے تحقیقات مکمل کی۔ اس قسم کی حرکات سرکاری وکلا کی تمام محنت پر پانی پھیر کر عدالتوں کو بھی بے دست و پا کردیتی ہیں۔ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے سرکاری وکیل نے نمائندہ ایکسپریس کو بتایاکہ مال خانے سے خورد برد کی گئی رقم کے مقدمے میں ملوث تمام ملزمان بری کرکے مقدمات ختم ہوگئے تو کیس پراپرٹی کی رقم کا معاملہ کبھی حل نہ ہوگا، اس کے لیے حکام کو چاہیے کہ دونوں انچارجز کو معطل کرکے چھان بین کرائیں۔
دو سال قبل بھی محکمہ پولیس کے ڈی ایس پی کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر مال خانہ کے سب انسپکٹر تفکر علی کو 65 مقدمات کی کیس پراپرٹی میں خوردبرد اور کرپشن کے الزام میں معطل اور اس کے خلاف مقدمہ درج کرکے مال خانے کے تمام عملے کو تبدیل کردیاگیا تھا۔ لیکن ملزموں کو کیفر کردار تک نہ پہنچانے اور ریکارڈ کو کمپیوٹرائز نہ کرنے کی وجہ سے کرپٹ عناصر کے حوصلے اور کارروائیاں پڑھتے جارہے ہیں، ملزمان باآسانی بری اور شہریوں کی املاک (کیس پراپرٹی) ضایع و برباد ہورہی ہیں۔ ججز اور سرکاری وکلا کی محنت رائیگاں جارہی ہیں، عدالتوں، وکلا اور خود محکمہ پولیس پر لاحاصل اور بے نتیجہ کاموں کا بوجھ پڑرہا ہے۔
سٹی کورٹ کے اطراف میں مقدمات میں ضمانتوں کے لیے جعلی دستاویزات جمع کروانے کا کاروبار بھی منظم طریقہ سے جاری ہے۔ ایسے دھندوں میں ملوث افراد کے خلاف پچاسیوں مقدمات درج ہونے کے باوجود اس کاروبار کا قلع قمع نہیں ہوسکا۔ جعلی دستاویزات تیار کروانے والے گروہوں کے ایجنٹ عدالتوں کے اطراف میں پھیلے ہوئے ہیں جو قیدی ضمانت جمع کرانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں ان سے بھاری رقوم وصول کرکے ضمانتیں جمع کرا دی جاتی ہیں اور عادی اور خطرناک مجرم ایسی جعلی ضمانتیں جمع کروانے کے بعد فرار ہوجاتے ہیں، جنھیں عدالتیں اور پولیس ڈھونڈتی رہ جاتی ہے۔
اس مافیا کے پاس ایک ایک املاک کی کئی کئی دستاویزات ہوتی ہیں، جن کی متعلقہ اداروں کے کرپٹ عناصر سے مل کر تصدیق بھی کرا دی جاتی ہے، ان کے پاس متعلقہ اداروں کی جعلی مہریں، دستاویزات اور دستخطوں کے ماہر بھی موجود ہوتے ہیں۔ ایک مقدمے میں ملزم کے مفرور ہونے پر جب عدالت نے اس کے ضمانتی کو طلب کیا تو پتہ چلا کہ وہ جعلی ضمانتیں کرانے اور دستاویزات تیار کرانے کے جرم میں پہلے ہی جیل میں قید ہے جس پر ملزم کے خلاف ایک اور مقدمہ قائم کردیا گیا۔ ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ عدالت کے جعلی احکامات بناکر دھوکا یا ملی بھگت کے ساتھ مجرموں کو جیل سے رہا کروالیا گیا۔ جعلی دستاویزات تیار کرنے والے عناصر کو پولیس کے بدعنوان عناصر کی سرپرستی حاصل ہے، سخت سیکیورٹی کے باوجود بھی ایسے عناصر سٹی کورٹ میں آزادانہ نقل و حرکت اور دھندے کرتے نظر آتے ہیں۔
سٹی کورٹ کے مرکزی اسٹامپ آفس میں بھی بدعنوانیاں عروج پر ہیں۔ سیکڑوں غیر قانونی اسٹامپ وینڈر اس کاروبار میں مصروف ہیں۔ اسٹامپ پیپرز اکثر و بیشتر نایاب ہوجاتے ہیں اور بلیک میں فروخت کیے جاتے ہیں۔ پچھلی تاریخوں کے اسٹامپ پیپرز ہر مالیت، ہر تاریخ اور ہر تعداد میں کھلے عام دستیاب ہوتے ہیں۔ اسٹامپ پیپر میں خریدار کا نام، پتہ اور وہ کس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا کوئی تفصیل درج نہیں ہوتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق سٹی کورٹ، ملیر کورٹ، سندھ ہائی کورٹ اور کراچی کے مختلف حکومتی اور تجارتی اداروں کے قریب دو ہزار سے زائد افراد اسٹامپ پیپرز کی غیر قانونی فروخت کا کاروبار کررہے ہیں، اس قسم کے اسٹامپ پیپرز عام طور پر غیر قانونی کاموں مثلاً جعلی وصیت نامہ، ہبہ نامہ، فروخت نامہ، کرایہ نامہ، کاروباری لین دین، رقم کے معاہدات اور شادی نامہ وغیرہ کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جن پر جعلی دستاویزات تیار اور دستخط ثبت کرکے حق داروں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کردیا جاتا ہے یا جھوٹے دعوے اور مقدمات کے ذریعے ان کے حقوق غصب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جن سے جھوٹے مقدمات کی بھرمار ہوتی ہے۔
ایسی جعلی دستاویزات کو پچھلی تاریخوں میں تصدیق کرنے والے اوتھ کمشنر، نوٹری پبلک اور جسٹس آف پیس بھی مل جاتے ہیں، قاضی و پیشہ ور گواہ بھی موجود ہوتے ہیں جن کے پاس متعلقہ لائسنس نہیں ہوتے یا منسوخ ہوچکے ہوتے ہیں ایسے افراد مہریں، دستخط اور ایڈریس بھی دو نمبر استعمال کرتے ہیں۔ آج کل کورٹ میرج کی وبا میں اس کا بے تحاشا استعمال ہورہا ہے، ان عناصر کی وجہ سے لوگوں کی املاک، مستقبل اور عزت و آبرو خاک میں مل رہی ہیں۔ یتیم، غریب، بیوہ اور معصوم لوگوں کے حقوق غصب ہورہے ہیں، مجرم آزاد ہورہے ہیں، جرم اور پاپ پل رہے ہیں، ان دو تین اداروں اور عناصر کی کارروائیوں کو ختم کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہونا چاہیے۔
جب تک وہ خود قانون کی پاسداری نہیں کرے گی ان دھندوں میں ملوث عناصر کا خاتمہ نہیں کرے گی، مجرم آزاد، عدالتیں بے دست و پا اور حقدار اپنے حقوق سے محروم ہوتے رہیں گے۔ اس سلسلے میں وکلا تنظیموں اور خود وکلا پر بھی یہ بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ عدالتوں سے دلالی اور ٹاؤٹ ازم کے خاتمے، جعلی وکلا کی نشاندہی اور اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث وکلا کو اپنی صفوں سے باہر نکال کر اپنے پیشے کی حرمت اور عوام کا اعتماد بحال کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔