بھارت میں چند دن… آخری حصہ

اسی نے میرے کئی بزرگوں کے نام لیے، ان میں سے اب صرف دو زندہ ہیں


سرور منیر راؤ January 14, 2024
[email protected]

ننگانہ کلا نور سے چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، کلانور کو ننگانہ سے پختہ سڑک ملاتی ہے۔ننگانہ ہی وہ گاؤں ہے جہاں میرے آباؤ اجداد نے صدیوں قیام کیا لیکن میرے والدین اور بزرگوںنے اپنا سبھی کچھ چھوڑ کر پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا۔

قیام پاکستان سے پہلے میرے دادا جان (مرحوم) تحصیلدار تھے اور قیام پاکستان کے وقت میرے والد محترم محمد منیر خان (مرحوم) بھی انڈین سول سروس میں تھے۔(قیام پاکستان کے بعد وہ ڈپٹی کمشنر کی پوسٹ سے ریٹائرڈ ہوئے) ان کی تعیناتی بھوانی میں تھی۔

میری والدہ محترمہ نے مجھے بتایا کہ آزادی کا اعلان ہوتے ہی مسلمان ہونے کی وجہ سے بھوانی میں ہمارے سرکاری گھر کو نذر آتش کر دیا گیا، وہ بمشکل جان بچا کر بھاگے۔ ہجرت کے دوران میرے والدین ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، پاکستان آنے کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال بعد دونوں ایک دوسرے کو ملے۔

میرے والدین اور بزرگوں نے نئے وطن ، نئے ماحول اور نئے لوگوں میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی اور الحمد اﷲ ، اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پاکستان میں انھیں بھارت سے زیادہ بہتر مقام اور مرتبہ حاصل ہوا۔ میں انھی خیالوں میں گم تھا کہ ننگانہ آگیا۔

ہم گاڑی سے اتر کر سامنے آنے والے گھر کی جانب بڑھے۔ دو بوڑھے چارپائی پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ ہم ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ وہ ہمیں حیرانی سے دیکھ رہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں، ہمارے بزرگ اسی گاؤں میں رہا کرتے تھے۔

1947میں وہ پاکستان چلے گئے جب میں نے اپنے والد محترم اور چچا کا نام لیا تو ان کے جھریاں پڑے ہوئے چہرے پر تناؤ آ گیا اور آنکھوں میں ایک چمک سی آئی، ان میں سے ایک چارپائی سے کھڑا ہوا اور کہنے لگا ''تم منیر کے بیٹے ہو ،وہ تو بڑا تکڑا (طاقت ور اور توانا) جوان تھا۔ بچپن میںہم گینڈِی (گیند) ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ وہ کیسا ہے''؟ میں نے جب بتایا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں تو وہ چپ سا ہو گیا۔ اس شخص کا نام دیوکرن تھا۔

اسی نے میرے کئی بزرگوں کے نام لیے، ان میں سے اب صرف دو زندہ ہیں۔ انھوں نے چائے اور بسکٹ سے ہماری تواضع کی۔ اس دوران گاؤں کے بہت سے لوگ اور بچے ہمارے گرد جمع ہو گئے۔ دیو کرن نے ان سب کو بتایا کہ یہ ہمارے مُکھیوںکے بیٹے ہیں(یعنی اس گاؤں کے سرداروں کے) وہ لوگوں کو ہمارے خاندان اور آباؤ اجداد کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ہم نے پوچھا کہ کیا گاؤں میں ہمارے بزرگوں کی کوئی نشانی ،کوئی مکان موجود ہے۔

اس نے کہا کہ ہاں تحصیلداروں کی دونوں حویلیاں اب بھی ہیں اور ان میں پاکستان سے ہجرت کرکے آنے والے لوگ رہ رہے ہیں۔

میں نے پوچھا گاؤں کا قبر ستان کہاں ہے۔ اس نے قریب ہی کیکروں کے ایک جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ''یہ مسلمانوں کا قبرستان تھا''۔ ہم نے جب نظر دوڑائی تو کسی قبر کا کوئی نشان موجود نہ تھا۔ مٹی کی کچی بھر بھری دیوار اور قبریں سبھی کیکروں کی جڑوں میں شامل ہو چکی تھیں۔ ہم نے رک کر یہاں فاتحہ پڑھی۔ اس عرصے میں ایک اور بزرک لاٹھی کے سہارے آن پہنچا۔ وہ بھی ہمارے بزرگوں سے پوری طرح واقف تھا ،اس کا نام مان سنگھ شنگر تھا۔

کہنے لگا کہ ہم تو اب بھی سب کر یاد کرتے ہیں۔ تم لوگ ہمیں چھوڑ گئے۔ میں نے کہا کہ بابا جی، ہم لوگ اور ہمارے بزرگ اب یہاں سے زیادہ اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ جب میں نے بتایا کہ پاکستان بننے کے بعد اس علاقے سے ہجرت کر کے جانے والوں میں سے کتنے جرنیل اور وزیر بنے ہیں تو وہ حیران ہو گیا۔

قیام پاکستان سے پہلے اس علاقے کے مسلمانوں میں سے کوئی بھی کرنل تک کے عہدے تک نہ پہنچ سکا تھا اور نہ ہی بیورو کریسی میں کسی کو ممتاز حیثیت حاصل تھی یہ سب کچھ ہندوؤں کے لیے مختص تھا۔

ہم نے گاؤں کا ایک چکر لگایا بزرگوں کی بنائی ہوئی حویلی دیکھی، ہماری بڑی حویلی کے صدر دروازے پر جہاں کبھی دادا جان کا نام کنندہ تھا، وہاں اب نئے مالک ''چاولہ'' کا نام نقش تھا۔ یہ وہی حویلی تھی جہاں کبھی میرے دادا اور والد صاحب کابچپن گزرا تھا۔ اور ان کی دلہنوں کی ڈولیاں انھی آنگنوں میں اتری تھیں۔ ان آثاروں کو دیکھ کر مجھے دنیا کی بے ثباتی اور ہجرت کے مفہوم کی تفسیر نظر آئی۔ دنیا میں صرف ایک ہی ذات لا فانی ہے اور وہ خداوند تعالیٰ کی ذات اقدس ہے باقی سب فانی ہیں۔

دس ہزار سے زائد آبادی کے اس گاؤں میں اب ایک بھی مسلمان نہیں، گاؤں کی مسجد کو گوردوارہ اور مندر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔سبھی لوگ جوتے پہن کر اندر دندناتے پھر رہے تھے۔ مسجد کی محراب کو بند کر کے وہاں بت اور گرونانک کی تصاویر آویزاں تھیں۔ مسجد کی ایک دیوار پر سفید سنگ مر مر کی تختی لگی تھی۔

جس پر کنندہ تھا کہ''اس گاؤں سے پہلی جنگ عظیم میں 187افراد نے شرکت کی، ان میں سے سات نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے''۔گاؤں میں تقریباً دو گھنٹے قیام کے بعد دل چاہا کہ فوراً یہاں سے واپس چلا جائے۔ پورے گاؤں میں ہمارا کوئی نہ تھا، نہ اپنے لوگ، نہ اپنی زمین، نہ اپنا دین،نہ اپنا ماحول، مجھے سب لوگ اجنبی اور پرائے لگ رہے تھے۔

واقعی کسی نے سچ کہا ہے کہ ملک، شہر اور دیہات سے محبت اس کی عمارتوں اور ترقی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے مکینوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں