8 فروری کون بنے گا نیلسن منڈیلا پہلا حصہ
ہم اس وقت شدید سیاسی محاذ آرائی اور تقسیم کے ماحول میں انتخابی عمل سے گزر رہے ہیں
2024 کو پوری دنیا میں انتخابات کا سال قرار دیا جارہا ہے۔ دنیا میں کہاں کہاں اس سال انتخابات ہونے والے ہیں، اس موضوع پر آیندہ کالموں میں گفتگو ہوگی۔
اس وقت پاکستان کے عوام اور اس کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والے ملکوں کی توجہ 8 فروری کو ہونے والے قومی اور صوبائی انتخابات پر مرکوز ہے۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق 2024 کے قومی انتخابات کی اہمیت متحدہ پاکستان میں بالغ رائے حق دہی کی بنیاد پر ہونے والے 1970 کے پہلے عام انتخابات سے کسی بھی طورکم نہیں ہے۔
1970 میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول کرنے سے انکارکیا گیا، اقتدار پارلیمنٹ کے سپرد کرنے کے بجائے اس وقت کے آمر مطلق نے ان سیاسی جماعتوں سے اقتدار میں ساجھے داری کی سودے بازی شروع کردی جس سے سیاسی بحران اتنا شدید ہوا کہ پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔
دکھ کی بات ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی غیر جمہوری طاقتوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول کرنے سے بار بار انکارکیا اور اس کے منتخب کردہ وزرائے اعظم کو مسلسل دباؤ میں رکھا جس کا نتیجہ ہے کہ ملک سیاسی بحرانوں کے گرداب سے آج تک نہیں نکل سکا ہے۔
8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات اس بات کو ثابت کردیں گے کہ کیا پاکستان میں عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو ریاست کے تمام ادارے اور محکمے تسلیم کریں گے یا نہیں ؟ کیا ریاست اور حکومت کے تمام ادارے آئین اور قانون کی حکمرانی کو قبول کرتے ہوئے اپنے دائرہ کار میں رہیں گے یا ماضی کی طرح حدود سے تجاوزکی اپنی روش جاری رکھیں گے؟
ہمارے ملک کے معاشی اور سیاسی عدم استحکام اور نہ ختم ہونے والے بحرانوں کی بنیادی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہم نے آئین اور پارلیمنٹ کو ثانوی اہمیت دی اور اس کی تابعداری کو اپنی توہین تصورکیا۔ دنیا کی بات چھوڑیں صرف اپنے خطے کی مثال سامنے رکھیں۔
ہندوستان جسے ہم اپنا حریف سمجھتے ہیں وہ آج دنیا کی 5ویں سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے اور شاید رواں سال وہ چوتھا درجہ بھی حاصل کر لے گا۔ دوسری مثال بنگلہ دیش کی ہے، اس سے بھی ہمارے تعلقات مثالی نہیں ہیں لیکن وہ آج ہم سے زندگی کے ہر شعبے میں کہیں آگے نکل چکا ہے۔ کیا ان دونوں ملکوں میں کرپشن پاکستان سے کم ہے؟ کیا ان ملکوں میں نوکر شاہی اور سرخ فیتے کی لعنت نہیں ہے؟
ان دونوں منفی عوامل کے باوجود ہندوستان اور بنگلہ دیش ہم سے اتنا زیادہ آگے کیسے نکل گئے اور ان کی پائیدار ترقی کی وجہ کیا ہے؟ ان دونوں سوالوں کا صرف ایک جواب یہ ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی ان دونوں ملکوں نے چونکہ جمہوری عمل کے تسلسل کو برقرار رکھا ، پارلیمنٹ کی بالادستی کا احترام کیا گیا لہٰذا معاشی ترقی کو بار بار روکنے والے خطرناک سیاسی بحران پیدا نہیں ہو سکے۔ ہم نے ا س سادہ سی حقیقت کو ہمیشہ نظر اندازکیے رکھا اور ملک نادہندہ ہونے سے بال بال بچا ہے۔
ہم اس وقت شدید سیاسی محاذ آرائی اور تقسیم کے ماحول میں انتخابی عمل سے گزر رہے ہیں ۔ یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ صورتحال ہے لیکن امید کی جانی چاہیے کہ یہ مرحلہ بھی طے ہوجائے گا۔ اصل مشکل 8 فروری کے بعد پیدا ہونے والی ہے۔
انتخابات کے نتائج کے حوالے سے سیاسی اختلافات بھی سامنے آئیں گے، بعض کی جانب سے نتائج کو مسترد بھی کیا جاسکتا ہے۔ اب یہ حکومت بنانے والی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے استحکام اور سیاسی رواداری کے قیام کے لیے کتنی دانش اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
مجھے نہ جانے کیوں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ ان انتخابات کے بعد پاکستان کو بھی ایک نیلسن منڈیلا جیسے روادار ، مدبر اور بہادر رہنما کی ضرورت ہوگی جو تقسیم، نفرت، عدم رواداری اور محاذ آرائی کو ختم کرنے کی دلیرانہ پہل کاری کرسکے۔
نیلسن منڈیلا کی سیاسی جدوجہد اور غیر معمولی مدبرانہ خوبیوں کو بار بار یاد کرنا بہت ضروری ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے ووٹروں، سیاسی رہنماؤں اور طاقتور حلقوں کو نیلسن منڈیلا کی مثال پیش نظر رکھنی چاہیے۔
اپنے رہنماؤں اور آنے والے حکمرانوں کے لیے آئیے کچھ ذکر نیلسن منڈیلا کا ہوجائے۔ منڈیلا ایک ایسی سرزمین پر پیدا ہوا جہاں اکثریت کالوں کی تھی لیکن حکمرانی گوروں کی تھی جو اقلیت میں تھے۔ وہ اور اس سے پہلے لاتعداد نسلیں پیدا آزاد ہوئیں اور پھر ولندیزیوں کی غلام ہوئیں۔ وہ ان بچوں میں تھا جو صرف افریقیوں کے لیے مخصوص اسپتال میں پیدا ہوسکتے تھے۔
جہاں سے ان کے ماں باپ انھیں گھر لے جانے کے لیے صرف افریقیوں کے لیے مخصوص بسوں میں سفر کرسکتے تھے۔ جہاں زندگی اگر ان پر بہت مہربان ہو تو وہ صرف کالوں کے اسکول میں پڑھ سکتے تھے اور بڑے ہوکر صرف ایسی ملازمتیں کرنے کے اہل تھے جو افریقیوں کے لیے مخصوص تھیں۔
وہ صرف سیاہ فام لوگوں کے لیے مخصوص علاقوں میں رہ سکتے تھے اور مخصوص ریل میں سفر کرسکتے تھے، مخصوص دکانوں میں خریداری کرسکتے تھے۔
مخصوص سینما گھروں میں فلم دیکھ سکتے تھے اور جہاں کوئی بھی سفید فام سپاہی دن یا رات کے کسی بھی حصے میں سڑک پر، بازار یا کسی بھی تفریح گاہ میں ان سے اجازت نامہ طلب کرسکتا تھا اور اگر وہ کاغذ کے اس ٹکڑے کو غلطی سے گھر بھول گئے ہوں یا بدبختی سے وہ اجازت نامہ ان سے کھوگیا ہو توگرفتاری اور جیل میں وقت گزاری ان کا مقدر ہوتی تھی۔
وہ ایسی قوم کا فرد تھا جس کے لیے ان دروازوں سے گزرنا بھی جرم تھا جن پر '' صرف سفید فام گزر سکتے ہیں'' کی تختی لگی ہوتی، اس کے لوگوں کے لیے سفید فاموں کی بسوں میں سفر کرنا، ان کے لیے مخصوص کیے جانے والے نلکوں سے پانی پینا، ان کے لیے مخصوص ساحل پر چہل قدمی کرنا جرم تھا۔
وہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا تھا جس کا کوئی بھی فرد اپنے شہر یا ملک کی سڑکوں پر رات کے گیارہ بجے کے بعد نظر آئے تو یہ جرم تھا۔ اس کی نسل کے لیے بیروزگار رہنا جرم تھا اور روزگارکی تلاش میں سفید فام علاقوں میں قدم رکھنا اس سے بھی بڑا جرم۔
غرض زندگی کی پہلی سانس سے آخری سانس تک زندگی ایک جرم تھی۔ اس صورتحال کا آغاز 7 اپریل 1652 سے ہوا تھا جب ڈاکٹر جان وان رائے بیک نے اپنے ولندیزی ساتھیوں کے ساتھ اس کی سرزمین پر قدم رکھا۔
یہ وہ شخص تھا جس کا پیشہ مسیحائی تھا اور جس نے عہد کیا تھا کہ وہ انسانوں کو درد سے رہائی دے گا اور ان کے ہر زخم پر مرہم رکھے گا، اس شخص نے اور اس کے ساتھیوں نے اس سرزمین پر نفرت، تعصب اور حقارت کے وہ بیج بوئے جس کی فصلیں 342 برس تک انسانی خون سے سینچی جاتی رہیں اور جس کی بنیادوں میں نسل انسانی کا شرف اور وقار کھاد کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔
اس شخص کی جنم بھومی پر ذلت و زاری کی یہ طویل رات لگ بھگ ساڑھے تین سو برس محیط رہی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان ساڑھے تین سو برسوں میں سفید فام آقاؤں نے یہاں کی سیاہ فام اکثریت کے ساتھ کون سا ظلم روا نہیں رکھا ہوگا۔
ایک طرف ملک کے زرعی اور معدنی ذخائر، جنگلات اور جانوروں سے حاصل ہونے والی بیش بہا دولت تھی جس سے آقاؤں کے محلات تعمیر ہوئے اور الف لیلوی آسائشوں سے آراستہ ہوئے اور دوسری طرف مقامی باشندے تھے جن کا مقدر ذلت اور صرف بیگار تھی۔ بھوک اور بدترین سزائیں تھیں۔ وہ اپنے آقاؤں کے سامنے جوتے پہننے کی جسارت نہیں کرسکتے تھے اور جھکے ہوئے سر اٹھا کر ان کی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ (جاری ہے)
اس وقت پاکستان کے عوام اور اس کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والے ملکوں کی توجہ 8 فروری کو ہونے والے قومی اور صوبائی انتخابات پر مرکوز ہے۔ میرے نقطہ نظر کے مطابق 2024 کے قومی انتخابات کی اہمیت متحدہ پاکستان میں بالغ رائے حق دہی کی بنیاد پر ہونے والے 1970 کے پہلے عام انتخابات سے کسی بھی طورکم نہیں ہے۔
1970 میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول کرنے سے انکارکیا گیا، اقتدار پارلیمنٹ کے سپرد کرنے کے بجائے اس وقت کے آمر مطلق نے ان سیاسی جماعتوں سے اقتدار میں ساجھے داری کی سودے بازی شروع کردی جس سے سیاسی بحران اتنا شدید ہوا کہ پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔
دکھ کی بات ہے کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی غیر جمہوری طاقتوں نے پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول کرنے سے بار بار انکارکیا اور اس کے منتخب کردہ وزرائے اعظم کو مسلسل دباؤ میں رکھا جس کا نتیجہ ہے کہ ملک سیاسی بحرانوں کے گرداب سے آج تک نہیں نکل سکا ہے۔
8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات اس بات کو ثابت کردیں گے کہ کیا پاکستان میں عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو ریاست کے تمام ادارے اور محکمے تسلیم کریں گے یا نہیں ؟ کیا ریاست اور حکومت کے تمام ادارے آئین اور قانون کی حکمرانی کو قبول کرتے ہوئے اپنے دائرہ کار میں رہیں گے یا ماضی کی طرح حدود سے تجاوزکی اپنی روش جاری رکھیں گے؟
ہمارے ملک کے معاشی اور سیاسی عدم استحکام اور نہ ختم ہونے والے بحرانوں کی بنیادی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ ہم نے آئین اور پارلیمنٹ کو ثانوی اہمیت دی اور اس کی تابعداری کو اپنی توہین تصورکیا۔ دنیا کی بات چھوڑیں صرف اپنے خطے کی مثال سامنے رکھیں۔
ہندوستان جسے ہم اپنا حریف سمجھتے ہیں وہ آج دنیا کی 5ویں سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے اور شاید رواں سال وہ چوتھا درجہ بھی حاصل کر لے گا۔ دوسری مثال بنگلہ دیش کی ہے، اس سے بھی ہمارے تعلقات مثالی نہیں ہیں لیکن وہ آج ہم سے زندگی کے ہر شعبے میں کہیں آگے نکل چکا ہے۔ کیا ان دونوں ملکوں میں کرپشن پاکستان سے کم ہے؟ کیا ان ملکوں میں نوکر شاہی اور سرخ فیتے کی لعنت نہیں ہے؟
ان دونوں منفی عوامل کے باوجود ہندوستان اور بنگلہ دیش ہم سے اتنا زیادہ آگے کیسے نکل گئے اور ان کی پائیدار ترقی کی وجہ کیا ہے؟ ان دونوں سوالوں کا صرف ایک جواب یہ ہے کہ مشکل ترین حالات میں بھی ان دونوں ملکوں نے چونکہ جمہوری عمل کے تسلسل کو برقرار رکھا ، پارلیمنٹ کی بالادستی کا احترام کیا گیا لہٰذا معاشی ترقی کو بار بار روکنے والے خطرناک سیاسی بحران پیدا نہیں ہو سکے۔ ہم نے ا س سادہ سی حقیقت کو ہمیشہ نظر اندازکیے رکھا اور ملک نادہندہ ہونے سے بال بال بچا ہے۔
ہم اس وقت شدید سیاسی محاذ آرائی اور تقسیم کے ماحول میں انتخابی عمل سے گزر رہے ہیں ۔ یہ ایک مشکل اور تکلیف دہ صورتحال ہے لیکن امید کی جانی چاہیے کہ یہ مرحلہ بھی طے ہوجائے گا۔ اصل مشکل 8 فروری کے بعد پیدا ہونے والی ہے۔
انتخابات کے نتائج کے حوالے سے سیاسی اختلافات بھی سامنے آئیں گے، بعض کی جانب سے نتائج کو مسترد بھی کیا جاسکتا ہے۔ اب یہ حکومت بنانے والی جماعتوں پر منحصر ہے کہ وہ آئین اور پارلیمنٹ کی بالا دستی کے استحکام اور سیاسی رواداری کے قیام کے لیے کتنی دانش اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
مجھے نہ جانے کیوں بار بار یہ خیال آتا ہے کہ ان انتخابات کے بعد پاکستان کو بھی ایک نیلسن منڈیلا جیسے روادار ، مدبر اور بہادر رہنما کی ضرورت ہوگی جو تقسیم، نفرت، عدم رواداری اور محاذ آرائی کو ختم کرنے کی دلیرانہ پہل کاری کرسکے۔
نیلسن منڈیلا کی سیاسی جدوجہد اور غیر معمولی مدبرانہ خوبیوں کو بار بار یاد کرنا بہت ضروری ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے ووٹروں، سیاسی رہنماؤں اور طاقتور حلقوں کو نیلسن منڈیلا کی مثال پیش نظر رکھنی چاہیے۔
اپنے رہنماؤں اور آنے والے حکمرانوں کے لیے آئیے کچھ ذکر نیلسن منڈیلا کا ہوجائے۔ منڈیلا ایک ایسی سرزمین پر پیدا ہوا جہاں اکثریت کالوں کی تھی لیکن حکمرانی گوروں کی تھی جو اقلیت میں تھے۔ وہ اور اس سے پہلے لاتعداد نسلیں پیدا آزاد ہوئیں اور پھر ولندیزیوں کی غلام ہوئیں۔ وہ ان بچوں میں تھا جو صرف افریقیوں کے لیے مخصوص اسپتال میں پیدا ہوسکتے تھے۔
جہاں سے ان کے ماں باپ انھیں گھر لے جانے کے لیے صرف افریقیوں کے لیے مخصوص بسوں میں سفر کرسکتے تھے۔ جہاں زندگی اگر ان پر بہت مہربان ہو تو وہ صرف کالوں کے اسکول میں پڑھ سکتے تھے اور بڑے ہوکر صرف ایسی ملازمتیں کرنے کے اہل تھے جو افریقیوں کے لیے مخصوص تھیں۔
وہ صرف سیاہ فام لوگوں کے لیے مخصوص علاقوں میں رہ سکتے تھے اور مخصوص ریل میں سفر کرسکتے تھے، مخصوص دکانوں میں خریداری کرسکتے تھے۔
مخصوص سینما گھروں میں فلم دیکھ سکتے تھے اور جہاں کوئی بھی سفید فام سپاہی دن یا رات کے کسی بھی حصے میں سڑک پر، بازار یا کسی بھی تفریح گاہ میں ان سے اجازت نامہ طلب کرسکتا تھا اور اگر وہ کاغذ کے اس ٹکڑے کو غلطی سے گھر بھول گئے ہوں یا بدبختی سے وہ اجازت نامہ ان سے کھوگیا ہو توگرفتاری اور جیل میں وقت گزاری ان کا مقدر ہوتی تھی۔
وہ ایسی قوم کا فرد تھا جس کے لیے ان دروازوں سے گزرنا بھی جرم تھا جن پر '' صرف سفید فام گزر سکتے ہیں'' کی تختی لگی ہوتی، اس کے لوگوں کے لیے سفید فاموں کی بسوں میں سفر کرنا، ان کے لیے مخصوص کیے جانے والے نلکوں سے پانی پینا، ان کے لیے مخصوص ساحل پر چہل قدمی کرنا جرم تھا۔
وہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا تھا جس کا کوئی بھی فرد اپنے شہر یا ملک کی سڑکوں پر رات کے گیارہ بجے کے بعد نظر آئے تو یہ جرم تھا۔ اس کی نسل کے لیے بیروزگار رہنا جرم تھا اور روزگارکی تلاش میں سفید فام علاقوں میں قدم رکھنا اس سے بھی بڑا جرم۔
غرض زندگی کی پہلی سانس سے آخری سانس تک زندگی ایک جرم تھی۔ اس صورتحال کا آغاز 7 اپریل 1652 سے ہوا تھا جب ڈاکٹر جان وان رائے بیک نے اپنے ولندیزی ساتھیوں کے ساتھ اس کی سرزمین پر قدم رکھا۔
یہ وہ شخص تھا جس کا پیشہ مسیحائی تھا اور جس نے عہد کیا تھا کہ وہ انسانوں کو درد سے رہائی دے گا اور ان کے ہر زخم پر مرہم رکھے گا، اس شخص نے اور اس کے ساتھیوں نے اس سرزمین پر نفرت، تعصب اور حقارت کے وہ بیج بوئے جس کی فصلیں 342 برس تک انسانی خون سے سینچی جاتی رہیں اور جس کی بنیادوں میں نسل انسانی کا شرف اور وقار کھاد کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔
اس شخص کی جنم بھومی پر ذلت و زاری کی یہ طویل رات لگ بھگ ساڑھے تین سو برس محیط رہی۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان ساڑھے تین سو برسوں میں سفید فام آقاؤں نے یہاں کی سیاہ فام اکثریت کے ساتھ کون سا ظلم روا نہیں رکھا ہوگا۔
ایک طرف ملک کے زرعی اور معدنی ذخائر، جنگلات اور جانوروں سے حاصل ہونے والی بیش بہا دولت تھی جس سے آقاؤں کے محلات تعمیر ہوئے اور الف لیلوی آسائشوں سے آراستہ ہوئے اور دوسری طرف مقامی باشندے تھے جن کا مقدر ذلت اور صرف بیگار تھی۔ بھوک اور بدترین سزائیں تھیں۔ وہ اپنے آقاؤں کے سامنے جوتے پہننے کی جسارت نہیں کرسکتے تھے اور جھکے ہوئے سر اٹھا کر ان کی آنکھوں میں نہیں دیکھ سکتے تھے۔ (جاری ہے)