تیزی سے بدلتے مناظر
برطانیہ میں جنرل کرامویل 1750 کے زمانے میں شب خون مارا تھا
بہت تیزی سے مناظر بدل رہے ہیں خصوصاً اس ہفتے تو عدالتوں کے بہت سارے فیصلے آئے۔ جسٹس مظاہر علی نقوی نے بلآخر استعفیٰ دے دیا،ابھی یہ خبر عوام تک پہنچی ہی تھی کہ جسٹس اعجازالحسن نے بھی اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔
توکیا ایسا سمجھا جائے کہ یہ دونوں جج صاحبان اپنے اپنے حساب سے بھی بری الذمہ ہو گئے۔ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کا بلا بحال کیا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کر دیا۔ بڑے نام ہیں جن کے نام لے کر اخبارات میں لکھا نہیں جاتا، القادرکیس ہے۔
تا عمر نااہلی کے طوق ٹوٹ گئے، جو جنرل ضیاء الحق نے صادق اور امین کی قدغن لگائی تھی، اٹھارہویں ترمیم بھی آئین سے نہیں نکال سکی، جس کو بنیاد بنا کر نوازشریف اور جہانگیر ترین کی تاعمر نااہلی ہوئی تھی، وہ ٹوٹ گئے۔
جنرل مشرف کی بحالی فیصلہ آیا۔ جنرل صاحب تو پہلے ہی دنیا سے چلے گئے، مگر سزا ان کے نصیب میں تھی۔ یہ واحد فیصلہ ہے پاکستان کی تاریخ کا، جوآرٹیکل چھ کے تحت ہوا۔ یہ وہ آرٹیکل ہے جس سے آئین خود اپنی حفاظت کرتا ہے۔ آئین کتنا بھی بھرپور ہو مگر آئین کی حفاظت عدالت کرتی ہے اور عدالت کچھ نہیں کرسکتی جب تک عوام بیدار نہ ہو۔
عدالت نئے سرے سے تاریخ رقم کرنے جا رہی ہے۔ ان غلطیوں کو جو خود سپریم کورٹ سے سر زرد ہوئی ہیں اورآئین کوکمزورکیا ہے، وہ فیصلے خود مٹاتی نظر آرہی ہے، یوں لگتا ہے پچھتر سال کے بعد ایک نیا موڑ ہے۔
پچاس سال پہلے ہم نے جو آئین بنایا اور سب سے تسلیم کیا تھا، اس کو جنرل ضیاء الحق نے توڑا ، وہ الگ مگر جو اس میں بگاڑ پیدا کیا اورآٹھویں ترمیم کی شکل میں اسمبلی نے آئین یہ کہہ کر قبول کیا کم ازکم دستور تو ہو۔
جمہوریت پروان چڑھے اور اس کے بعد جب بھی آئین ٹوٹا، اسے عدالت نے نظریہ ضرورت کے تحت درست سمجھا، پھر پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی توثیق کی جس کو ہم سترھویں ترمیم کی حیثیت میں جانتے ہیں۔
جنرل مشرف نے دو مرتبہ آئین توڑا جو بارہ اکتوبر کو توڑا، اس کوکورٹ نے اور آگے جاکے پارلیمان نے آئین کا حصہ بنایا مگر جو دوسری بار تین نومبرکو آئین توڑا، اس کی نہ پارلیمان نے توثیق کی اور نہ عدالت نے، یہ واردات Naked تھی اور آرٹیکل چھ کے زمرے میں آتی تھی۔ اس بار آرٹیکل چھ کی اٹھارھویں ترمیم نے بھی وسیع ترتیب کی اور ان صاحبان کو بھی ڈالا جو آرٹیکل چھ کے خلاف کام کرنے والے تھے۔
اب تو یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں جو مہینوں عمران خان اور علامہ طاہرالقادری بیٹھ گئے تھے، ان کے پیچھے بھی غیرجمہوری قوتیں تھیں ۔
سپریم کورٹ آئین کی تشریح ، قانون کی تشریح کے زمرے میں آئین کو بگاڑا گیا ، جسٹس مظاہر نقوی کی فون کال ریکارڈ پرآگئی،کئی کالز سامنے آئیں، ان فون کالز کی تردید ہوئی نہ فرانزک کرائی گئی۔
ایک گینگ تھا، جو اس قوم اور ریاست کے وسائل پر مسلط ہوچکا تھا اور اس گینگ کا آخری وار نو مئی کا واقعہ۔ جسے پاکستان کی تاریخ میں پہلے ناکام شب خون کے نام سے جانا پہچانا جائے گا۔
برطانیہ میں جنرل کرامویل 1750 کے زمانے میں شب خون مارا تھا۔ برطانیہ کی وہ پارلیمان بھی ہمارے 1950 والی پارلیمان کی طرح تھی، جو خود اپنی عمر بڑھانا جانتی تھی۔
خیر جنرل کرامویل 1759 میں انتقال کرگئے، بادشاہ بھی بحال ہوا اور پارلیمان بھی بحال ہوئی اور مرنے کے بعد جنرل کرامویل پر کورٹ کی طرف سے آئین توڑنے کی جرم میں موت کی سزا صادر ہوئی اور یہ بھی حکم ہوا کہ اس کی لاش قبر سے نکال کر سات دن کے لیے درخت پر لندن کے کسی مشہور چوک پر لٹکائی جائے تاکہ آنے والے لوگ اس سے سبق حاصل کرسکیں اور اس پر عمل بھی کیا گیا۔
بلآخر آئین کا آرٹیکل چھ وہ مقام حاصل کر چکا ہے جو اس کا حق تھا ، پاکستان کے عوام جس نے یہ آئین بنایا، کیونکہ آئین ساز اسمبلی کو منتخب کرنے والے یہ ووٹر تھے، جس کے لیے جنرل ضیاء الحق کہا کرتے تھے کہ آئین کاغذکا ٹکڑا ہے جسے وہ پھاڑ کے ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتے ہیں۔
وہ کاغذ کا ٹکڑا نہ تھا بلکہ وہ سماجی معاہدہ تھا کیونکہ ہر آئین سماجی معاہدہ ہوتا ہے اور یہ آئین کسی ایک وفاقی اکائی کا معاہدہ نہ تھا۔ یہ آئین تو چار وفاقی اکائیوں کا بنایا ہوا سماجی معاہدہ تھا یہ تو اور بھی حساس معاہدہ تھا اور اس کی پامالی تو ہم بھگت بھی چکے ہیں، سانحہ مشرقی پاکستان کی شکل میں۔
آئین کے کسی بھی آرٹیکل کی تشریح کرنا بہت سیدھا اور سادہ کام ہے اگر آپ کی نیت صاف ہو جس کو برطانیہ کی عدالت نے کچھ اس طرح رقم کیا تھا۔
let the justice be done, though heavens may fall ترجمہ انصاف کا تقاضہ پورا کیجیے، چاہے آسمان گر پڑے لیکن ہماری عدالتوں کے اوپر ایک داغ ابھی تک لگا ہے جس کے لیے اس کورٹ کے اندر ریفرنس بھی پڑا ہے جس پر اس مرتبہ عدالت کچھ سنجیدہ بھی نظر آتی ہے، وہ ہے بھٹو کیس۔ یہ اتنا آسان کیس نہیں ہے۔
اس وقت بھی ہماری عدالت اس طرح آمروں کے ہاتھوں کھیلتی رہی ہے جس طرح 2017 میں کھیل رہی تھی یہاں تک کہ یہ کام جسٹس عمر عطا بندیال تک جاری رہا۔
بھٹو کے کیس میں بہت سے پہلو ہیں، ایک سنگین ناانصافی کا باب لکھا گیا جو قوم کے لاشعور میں چلا گیا جس نے وفاق کوکمزورکیا۔
یقینا پاکستان اپنے راستے آگے کی طرف بنا رہا ہے قانون کی حکمرانی، آئین کی حکمرانی، یہ سب اس زمانے میں ہورہے ہیں جس کا سہرا عدالتوں کو جاتا ہے اور ساتھ موجودہ فوجی قیادت کو بھی جاتا ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ وہ بھی آئین کے تابع ہے۔
توکیا ایسا سمجھا جائے کہ یہ دونوں جج صاحبان اپنے اپنے حساب سے بھی بری الذمہ ہو گئے۔ پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کا بلا بحال کیا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کر دیا۔ بڑے نام ہیں جن کے نام لے کر اخبارات میں لکھا نہیں جاتا، القادرکیس ہے۔
تا عمر نااہلی کے طوق ٹوٹ گئے، جو جنرل ضیاء الحق نے صادق اور امین کی قدغن لگائی تھی، اٹھارہویں ترمیم بھی آئین سے نہیں نکال سکی، جس کو بنیاد بنا کر نوازشریف اور جہانگیر ترین کی تاعمر نااہلی ہوئی تھی، وہ ٹوٹ گئے۔
جنرل مشرف کی بحالی فیصلہ آیا۔ جنرل صاحب تو پہلے ہی دنیا سے چلے گئے، مگر سزا ان کے نصیب میں تھی۔ یہ واحد فیصلہ ہے پاکستان کی تاریخ کا، جوآرٹیکل چھ کے تحت ہوا۔ یہ وہ آرٹیکل ہے جس سے آئین خود اپنی حفاظت کرتا ہے۔ آئین کتنا بھی بھرپور ہو مگر آئین کی حفاظت عدالت کرتی ہے اور عدالت کچھ نہیں کرسکتی جب تک عوام بیدار نہ ہو۔
عدالت نئے سرے سے تاریخ رقم کرنے جا رہی ہے۔ ان غلطیوں کو جو خود سپریم کورٹ سے سر زرد ہوئی ہیں اورآئین کوکمزورکیا ہے، وہ فیصلے خود مٹاتی نظر آرہی ہے، یوں لگتا ہے پچھتر سال کے بعد ایک نیا موڑ ہے۔
پچاس سال پہلے ہم نے جو آئین بنایا اور سب سے تسلیم کیا تھا، اس کو جنرل ضیاء الحق نے توڑا ، وہ الگ مگر جو اس میں بگاڑ پیدا کیا اورآٹھویں ترمیم کی شکل میں اسمبلی نے آئین یہ کہہ کر قبول کیا کم ازکم دستور تو ہو۔
جمہوریت پروان چڑھے اور اس کے بعد جب بھی آئین ٹوٹا، اسے عدالت نے نظریہ ضرورت کے تحت درست سمجھا، پھر پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی توثیق کی جس کو ہم سترھویں ترمیم کی حیثیت میں جانتے ہیں۔
جنرل مشرف نے دو مرتبہ آئین توڑا جو بارہ اکتوبر کو توڑا، اس کوکورٹ نے اور آگے جاکے پارلیمان نے آئین کا حصہ بنایا مگر جو دوسری بار تین نومبرکو آئین توڑا، اس کی نہ پارلیمان نے توثیق کی اور نہ عدالت نے، یہ واردات Naked تھی اور آرٹیکل چھ کے زمرے میں آتی تھی۔ اس بار آرٹیکل چھ کی اٹھارھویں ترمیم نے بھی وسیع ترتیب کی اور ان صاحبان کو بھی ڈالا جو آرٹیکل چھ کے خلاف کام کرنے والے تھے۔
اب تو یہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں جو مہینوں عمران خان اور علامہ طاہرالقادری بیٹھ گئے تھے، ان کے پیچھے بھی غیرجمہوری قوتیں تھیں ۔
سپریم کورٹ آئین کی تشریح ، قانون کی تشریح کے زمرے میں آئین کو بگاڑا گیا ، جسٹس مظاہر نقوی کی فون کال ریکارڈ پرآگئی،کئی کالز سامنے آئیں، ان فون کالز کی تردید ہوئی نہ فرانزک کرائی گئی۔
ایک گینگ تھا، جو اس قوم اور ریاست کے وسائل پر مسلط ہوچکا تھا اور اس گینگ کا آخری وار نو مئی کا واقعہ۔ جسے پاکستان کی تاریخ میں پہلے ناکام شب خون کے نام سے جانا پہچانا جائے گا۔
برطانیہ میں جنرل کرامویل 1750 کے زمانے میں شب خون مارا تھا۔ برطانیہ کی وہ پارلیمان بھی ہمارے 1950 والی پارلیمان کی طرح تھی، جو خود اپنی عمر بڑھانا جانتی تھی۔
خیر جنرل کرامویل 1759 میں انتقال کرگئے، بادشاہ بھی بحال ہوا اور پارلیمان بھی بحال ہوئی اور مرنے کے بعد جنرل کرامویل پر کورٹ کی طرف سے آئین توڑنے کی جرم میں موت کی سزا صادر ہوئی اور یہ بھی حکم ہوا کہ اس کی لاش قبر سے نکال کر سات دن کے لیے درخت پر لندن کے کسی مشہور چوک پر لٹکائی جائے تاکہ آنے والے لوگ اس سے سبق حاصل کرسکیں اور اس پر عمل بھی کیا گیا۔
بلآخر آئین کا آرٹیکل چھ وہ مقام حاصل کر چکا ہے جو اس کا حق تھا ، پاکستان کے عوام جس نے یہ آئین بنایا، کیونکہ آئین ساز اسمبلی کو منتخب کرنے والے یہ ووٹر تھے، جس کے لیے جنرل ضیاء الحق کہا کرتے تھے کہ آئین کاغذکا ٹکڑا ہے جسے وہ پھاڑ کے ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتے ہیں۔
وہ کاغذ کا ٹکڑا نہ تھا بلکہ وہ سماجی معاہدہ تھا کیونکہ ہر آئین سماجی معاہدہ ہوتا ہے اور یہ آئین کسی ایک وفاقی اکائی کا معاہدہ نہ تھا۔ یہ آئین تو چار وفاقی اکائیوں کا بنایا ہوا سماجی معاہدہ تھا یہ تو اور بھی حساس معاہدہ تھا اور اس کی پامالی تو ہم بھگت بھی چکے ہیں، سانحہ مشرقی پاکستان کی شکل میں۔
آئین کے کسی بھی آرٹیکل کی تشریح کرنا بہت سیدھا اور سادہ کام ہے اگر آپ کی نیت صاف ہو جس کو برطانیہ کی عدالت نے کچھ اس طرح رقم کیا تھا۔
let the justice be done, though heavens may fall ترجمہ انصاف کا تقاضہ پورا کیجیے، چاہے آسمان گر پڑے لیکن ہماری عدالتوں کے اوپر ایک داغ ابھی تک لگا ہے جس کے لیے اس کورٹ کے اندر ریفرنس بھی پڑا ہے جس پر اس مرتبہ عدالت کچھ سنجیدہ بھی نظر آتی ہے، وہ ہے بھٹو کیس۔ یہ اتنا آسان کیس نہیں ہے۔
اس وقت بھی ہماری عدالت اس طرح آمروں کے ہاتھوں کھیلتی رہی ہے جس طرح 2017 میں کھیل رہی تھی یہاں تک کہ یہ کام جسٹس عمر عطا بندیال تک جاری رہا۔
بھٹو کے کیس میں بہت سے پہلو ہیں، ایک سنگین ناانصافی کا باب لکھا گیا جو قوم کے لاشعور میں چلا گیا جس نے وفاق کوکمزورکیا۔
یقینا پاکستان اپنے راستے آگے کی طرف بنا رہا ہے قانون کی حکمرانی، آئین کی حکمرانی، یہ سب اس زمانے میں ہورہے ہیں جس کا سہرا عدالتوں کو جاتا ہے اور ساتھ موجودہ فوجی قیادت کو بھی جاتا ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ وہ بھی آئین کے تابع ہے۔