ارتکاز
ایک خلفشار سے پاک ماحول یکسوئی کی حاصلات میں معاون بن سکتا ہے
ارتکاز سے مراد مرکوز توجہ یا سوچ ہے، جو انتشار کے برعکس ہے۔ نفسیات کی رو سے یہ ذہنی توجہ اور خیالات کی مرکزیت کا نام ہے۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں، جہاں خلفشار بہت زیادہ ہے، مرکوز ذہن کو پروان چڑھانا اور اسے برقرار رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔
ہم ایک وقت میں مختلف کام کرتے ہیں۔ گھر، آفس اور اس کے علاوہ دیگر ذمے داریاں جو دھیان کی متقاضی ہوتی ہیں۔
ہم ایک دن میں مختلف جگہ اور اوقات میں داخل ہوتے ہیں، اگر ہم جس جگہ داخل ہوں اور پہلی صورتحال سے رابطہ منقطع کر لیں تو ہم اپنے کام پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں، بعض افراد گھر کے مسائل کو آفس یا آفس کے مسائل کو گھر لے جاتے ہیں۔
صنعتی و الیکٹرانک میڈیا کے دور کے بعد ہماری زندگیاں بہت تبدیل ہوچکی ہیں۔ جس سے دھیان اور سوجھ بوجھ کی صلاحیت براہ راست متاثر ہوئی ہیں، جب کہ یکسوئی، جدید دور میں ایک طالب علم، پیشہ ور افراد، گھر و دیگر کاموں کے لیے بہت ضروری ہے۔
ایک پورے دن میں سوشل میڈیا کے ذریعے جب ذہن ہر طرح کی معلومات سے زیادہ بھر جاتا ہے تو ذہن منتشر ہونے کے ساتھ دھندلاہٹ اور کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے روزمرہ کی کارکردگی اور فیصلے کی قوت براہ راست متاثر ہوتی ہے۔
خاص طور پر یہ صورتحال طلباء کے لیے مشکلات کا باعث بنتی ہے، جب وہ وقت پر کام نہیں کرتے اور کام کا بوجھ ذہن کو منتشر کردیتا ہے۔
ایک طالب علم امتحان یا امتحان میں ناکامی جیسی سوچ کو اپنے حواس پر طاری کر لیتا ہے تو اس کا دھیان متاثر ہوجاتا ہے۔ طلباِ کے لیے وقت کی منصوبہ بندی، جسمانی مشقیں اور ایک واضع نقطہ نظر اشد ضروری ہے۔ انھیں کامیابی کے لیے یکسوئی، مستقل مزاجی اور مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ارتکاز، پیداواری صلاحیت، مؤثر مسئلہ حل کرنے اور مجموعی علمی کارکردگی کو فروغ دیتا ہے۔ چاہے زندگی کے پیچیدہ معاملات سے نمٹنا ہو، امتحانات کا مطالعہ کرنا ہو یا ذہنی تخلیقی عمل ہو، توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت افراد کو اپنی ذہنی توانائی کو موثر طریقے سے استعمال کرنے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے۔
دھیان، ذہنی تناؤ میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ بہتر فیصلہ سازی اور مستقل مزاجی کی وجہ سے معیار زندگی بہتر ہوتا ہے۔ کاموں کو چھوٹے، قابل انتظام حصوں میں تقسیم کرنے سے، ان پر آسانی سے توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔
ایک خلفشار سے پاک ماحول یکسوئی کی حاصلات میں معاون بن سکتا ہے۔ اپنے گرد و نواح سے ممکنہ خلفشار کو ختم کرنے کے بعد بہتر نتائج ملتے ہیں۔ غیر ضروری اطلاعات کو بند کرنا اشد ضروری ہے، ایک پرسکون جگہ تلاش کریں، اور توجہ مرکوز ذہنیت کو فروغ دینے کے لیے اپنے کام کی جگہ کو منظم کریں۔
کئی عوامل ایسے ہیں جو دماغ کی توجہ کو متاثر کرسکتے ہیں، جس میں بیرونی خلفشار، تکراری سوچ، جذباتی مسائل و سماجی عوامل، آجاتے ہیں، جو ارتکاز میں خلل ڈال سکتے ہیں، جب کہ اندرونی عوامل، جیسے کشمکش، گومگو کی کیفیت، کمتری و محرومی کا احساس اور دیگر پریشانیاں، توجہ ہٹا سکتی ہیں۔ تناؤ اور اضطراب توجہ کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، جب کہ ایک پرسکون اور مثبت ذہنیت ارتکاز کی حمایت کرتی ہے۔
ہمارے سماج کا المیہ خوش گمانی میں رہنا ہے، جو ذہنی نشہ ہے۔ ہم یا تو فرار کے طریقے اختیار کرتے ہیں یا اپنے ذہن پر مسائل کا بوجھ لاد کر پھرتے ہیں۔
ذہن خالی یا پرسکون ہوگا تو حل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ مسائل کو حاوی کرنے کی یہ ایڈکشن ہماری سماجی زندگی میں موجود ہے، جہاں بیماریوں سے غیبت تک کئی ایسے موضوعات ملتے ہیں جو ہماری بے اطمینانی کو ظاہرکرتے ہیں۔ مسائل اور پریشانیاں ناگزیر ہیں بلکہ یہ ہماری زندگی کے حقائق ہیں جن سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہماری سماجی نفسیات یہ ہے کہ ہم ماضی میں رہنے والی قوم ہیں۔ ماضی کی یاد عدم یکسوئی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ زیادہ تر معمر لوگ ماضی میں جب کہ نوجوان مستقبل میں رہتے ہیں، لٰہذا ہم حال سے غائب ہوجاتے ہیں۔ جب ہم حال میں جیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم یکسوئی کے عالم میں ہیں۔ ذہن سازی میں ماحول اور فطرت کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
ایک قدرتی ماحول نہ فقط تعمیری سوچ تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ رویوں میں بھی اعتدال پیدا کردیتا ہے۔
ہمیں تنہائی، خاموشی کے بجائے شوروغل، ہلہ گلہ اور انتشار زیادہ پسند ہے۔ بھیڑ میں رہنے والی قوم دنیا جہاں کا علم رکھتی ہے سوائے خود آگہی کے۔ ذہن سازی میں تنہائی کا اہم کردار ہے۔ یہ خود کلامی کو جنم دیتی ہے۔ خودکلامی سے ذات کے کئی پوشیدہ زاویے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی کامیاب اقوام نے اپنے وقت کو توازن سے تقسیم کیا ہے۔ وہ وقت کے ضیاع کے بجائے اسے اپنی موافقت میں استعمال کرتی ہیں۔
ہماری اپنے دماغ کو حاضر اور توجہ مرکوز رکھنے کی تربیت دینے کے لیے ذہن سازی کی مشق ضروری ہے جسے مائنڈ فل نیس کہا جاتا ہے۔ ذہن سازی بنیادی انسانی صلاحیت ہے جو پوری طرح سے موجودگی کو ظاہرکرتی ہے۔
ہم اس بات سے آگاہ رہتے ہیں کہ ہم کہاں ہیں اور ہم کیا کررہے ہیں، اور ہمارے ارد گرد جوکچھ ہو رہا ہے اس سے واقفیت حاصل ہو۔ اگرچہ ذہن سازی ایک ایسی صلاحیت ہے، جو ہم سب کے پاس قدرتی طور پر ہے، لیکن جب ہم روزانہ کی بنیاد پر مشق کے ذریعے اسے حاصل کرسکتے ہیں۔
ذہن سازی اور مراقبے کو اپنے معمولات میں شامل کریں۔ یہ مشقیں حال میں موجود رہنے، دماغ کو پرسکون کرنے اور مجموعی توجہ کو بہتر بنانے کی آپ کی صلاحیت کو بڑھا سکتی ہیں۔
مراقبہ غوروفکر کی کیفیت ہے۔ جب ہم مراقبے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں مراقبے کا خاص پوسچر آجاتا ہے۔ مراقبہ چلتے پھرتے بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثال ایک باغ آپ کو توانائی کے ساتھ سوچ کے کئی زاویے عطا کرتا ہے۔
درخت، پرندے، پھول اور پودے نیچر میڈیٹیشن کا حصہ ہیں۔ ایک باغ ہم میں تشکرکا احساس بھر دیتا ہے کہ ہمارے پاس کس قدر نعمتیں ہیں۔ یہ غوروفکر ہی مراقبہ ہے۔ پانی، دھیان کی کیفیت بخشتا ہے۔
مطالعہ یا کوئی بھی تعمیری مشغلہ یکسوئی بڑھاتا ہے۔ انسان کو اپنی ذات کے لیے وقت چاہیے، جس میں وہ اپنے لیے ایک ایسی جگہ تشکیل دے سکے، جو اس کی اپنی ہو، جہاں وہ خاموش رہ کر ارتکاز حاصل کرنے کے ساتھ اپنی کھوئی ہوئی توانائی دوبارہ بحال کرسکے۔
ہم ایک وقت میں مختلف کام کرتے ہیں۔ گھر، آفس اور اس کے علاوہ دیگر ذمے داریاں جو دھیان کی متقاضی ہوتی ہیں۔
ہم ایک دن میں مختلف جگہ اور اوقات میں داخل ہوتے ہیں، اگر ہم جس جگہ داخل ہوں اور پہلی صورتحال سے رابطہ منقطع کر لیں تو ہم اپنے کام پر توجہ مرکوز کرسکتے ہیں، بعض افراد گھر کے مسائل کو آفس یا آفس کے مسائل کو گھر لے جاتے ہیں۔
صنعتی و الیکٹرانک میڈیا کے دور کے بعد ہماری زندگیاں بہت تبدیل ہوچکی ہیں۔ جس سے دھیان اور سوجھ بوجھ کی صلاحیت براہ راست متاثر ہوئی ہیں، جب کہ یکسوئی، جدید دور میں ایک طالب علم، پیشہ ور افراد، گھر و دیگر کاموں کے لیے بہت ضروری ہے۔
ایک پورے دن میں سوشل میڈیا کے ذریعے جب ذہن ہر طرح کی معلومات سے زیادہ بھر جاتا ہے تو ذہن منتشر ہونے کے ساتھ دھندلاہٹ اور کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے روزمرہ کی کارکردگی اور فیصلے کی قوت براہ راست متاثر ہوتی ہے۔
خاص طور پر یہ صورتحال طلباء کے لیے مشکلات کا باعث بنتی ہے، جب وہ وقت پر کام نہیں کرتے اور کام کا بوجھ ذہن کو منتشر کردیتا ہے۔
ایک طالب علم امتحان یا امتحان میں ناکامی جیسی سوچ کو اپنے حواس پر طاری کر لیتا ہے تو اس کا دھیان متاثر ہوجاتا ہے۔ طلباِ کے لیے وقت کی منصوبہ بندی، جسمانی مشقیں اور ایک واضع نقطہ نظر اشد ضروری ہے۔ انھیں کامیابی کے لیے یکسوئی، مستقل مزاجی اور مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ارتکاز، پیداواری صلاحیت، مؤثر مسئلہ حل کرنے اور مجموعی علمی کارکردگی کو فروغ دیتا ہے۔ چاہے زندگی کے پیچیدہ معاملات سے نمٹنا ہو، امتحانات کا مطالعہ کرنا ہو یا ذہنی تخلیقی عمل ہو، توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت افراد کو اپنی ذہنی توانائی کو موثر طریقے سے استعمال کرنے اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے۔
دھیان، ذہنی تناؤ میں کمی کا باعث بنتا ہے۔ بہتر فیصلہ سازی اور مستقل مزاجی کی وجہ سے معیار زندگی بہتر ہوتا ہے۔ کاموں کو چھوٹے، قابل انتظام حصوں میں تقسیم کرنے سے، ان پر آسانی سے توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔
ایک خلفشار سے پاک ماحول یکسوئی کی حاصلات میں معاون بن سکتا ہے۔ اپنے گرد و نواح سے ممکنہ خلفشار کو ختم کرنے کے بعد بہتر نتائج ملتے ہیں۔ غیر ضروری اطلاعات کو بند کرنا اشد ضروری ہے، ایک پرسکون جگہ تلاش کریں، اور توجہ مرکوز ذہنیت کو فروغ دینے کے لیے اپنے کام کی جگہ کو منظم کریں۔
کئی عوامل ایسے ہیں جو دماغ کی توجہ کو متاثر کرسکتے ہیں، جس میں بیرونی خلفشار، تکراری سوچ، جذباتی مسائل و سماجی عوامل، آجاتے ہیں، جو ارتکاز میں خلل ڈال سکتے ہیں، جب کہ اندرونی عوامل، جیسے کشمکش، گومگو کی کیفیت، کمتری و محرومی کا احساس اور دیگر پریشانیاں، توجہ ہٹا سکتی ہیں۔ تناؤ اور اضطراب توجہ کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، جب کہ ایک پرسکون اور مثبت ذہنیت ارتکاز کی حمایت کرتی ہے۔
ہمارے سماج کا المیہ خوش گمانی میں رہنا ہے، جو ذہنی نشہ ہے۔ ہم یا تو فرار کے طریقے اختیار کرتے ہیں یا اپنے ذہن پر مسائل کا بوجھ لاد کر پھرتے ہیں۔
ذہن خالی یا پرسکون ہوگا تو حل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ مسائل کو حاوی کرنے کی یہ ایڈکشن ہماری سماجی زندگی میں موجود ہے، جہاں بیماریوں سے غیبت تک کئی ایسے موضوعات ملتے ہیں جو ہماری بے اطمینانی کو ظاہرکرتے ہیں۔ مسائل اور پریشانیاں ناگزیر ہیں بلکہ یہ ہماری زندگی کے حقائق ہیں جن سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ہماری سماجی نفسیات یہ ہے کہ ہم ماضی میں رہنے والی قوم ہیں۔ ماضی کی یاد عدم یکسوئی کی ایک بڑی وجہ ہے۔ زیادہ تر معمر لوگ ماضی میں جب کہ نوجوان مستقبل میں رہتے ہیں، لٰہذا ہم حال سے غائب ہوجاتے ہیں۔ جب ہم حال میں جیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم یکسوئی کے عالم میں ہیں۔ ذہن سازی میں ماحول اور فطرت کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔
ایک قدرتی ماحول نہ فقط تعمیری سوچ تشکیل دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ رویوں میں بھی اعتدال پیدا کردیتا ہے۔
ہمیں تنہائی، خاموشی کے بجائے شوروغل، ہلہ گلہ اور انتشار زیادہ پسند ہے۔ بھیڑ میں رہنے والی قوم دنیا جہاں کا علم رکھتی ہے سوائے خود آگہی کے۔ ذہن سازی میں تنہائی کا اہم کردار ہے۔ یہ خود کلامی کو جنم دیتی ہے۔ خودکلامی سے ذات کے کئی پوشیدہ زاویے ظاہر ہوجاتے ہیں۔ دنیا کی کامیاب اقوام نے اپنے وقت کو توازن سے تقسیم کیا ہے۔ وہ وقت کے ضیاع کے بجائے اسے اپنی موافقت میں استعمال کرتی ہیں۔
ہماری اپنے دماغ کو حاضر اور توجہ مرکوز رکھنے کی تربیت دینے کے لیے ذہن سازی کی مشق ضروری ہے جسے مائنڈ فل نیس کہا جاتا ہے۔ ذہن سازی بنیادی انسانی صلاحیت ہے جو پوری طرح سے موجودگی کو ظاہرکرتی ہے۔
ہم اس بات سے آگاہ رہتے ہیں کہ ہم کہاں ہیں اور ہم کیا کررہے ہیں، اور ہمارے ارد گرد جوکچھ ہو رہا ہے اس سے واقفیت حاصل ہو۔ اگرچہ ذہن سازی ایک ایسی صلاحیت ہے، جو ہم سب کے پاس قدرتی طور پر ہے، لیکن جب ہم روزانہ کی بنیاد پر مشق کے ذریعے اسے حاصل کرسکتے ہیں۔
ذہن سازی اور مراقبے کو اپنے معمولات میں شامل کریں۔ یہ مشقیں حال میں موجود رہنے، دماغ کو پرسکون کرنے اور مجموعی توجہ کو بہتر بنانے کی آپ کی صلاحیت کو بڑھا سکتی ہیں۔
مراقبہ غوروفکر کی کیفیت ہے۔ جب ہم مراقبے کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں مراقبے کا خاص پوسچر آجاتا ہے۔ مراقبہ چلتے پھرتے بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثال ایک باغ آپ کو توانائی کے ساتھ سوچ کے کئی زاویے عطا کرتا ہے۔
درخت، پرندے، پھول اور پودے نیچر میڈیٹیشن کا حصہ ہیں۔ ایک باغ ہم میں تشکرکا احساس بھر دیتا ہے کہ ہمارے پاس کس قدر نعمتیں ہیں۔ یہ غوروفکر ہی مراقبہ ہے۔ پانی، دھیان کی کیفیت بخشتا ہے۔
مطالعہ یا کوئی بھی تعمیری مشغلہ یکسوئی بڑھاتا ہے۔ انسان کو اپنی ذات کے لیے وقت چاہیے، جس میں وہ اپنے لیے ایک ایسی جگہ تشکیل دے سکے، جو اس کی اپنی ہو، جہاں وہ خاموش رہ کر ارتکاز حاصل کرنے کے ساتھ اپنی کھوئی ہوئی توانائی دوبارہ بحال کرسکے۔