مصورانہ خطاطی کا دبستان اسلم کمال
ادب اور فنونِ لطیفہ کی بڑی شخصیت اسلم کمال جو خود میں فن کی ایک نئی دنیا آباد رکھتے تھے
فنونِ لطیفہ دراصل تخیل کو متشکل کرنے کا نازک عمل ہے اور زبان، لفظ، اشارے، حرکات و سکنات اور رنگ فرد کے اندرکے احساس کو بیدار کرنے اور اُسے باہر لانے کا ایک کارگر فعل ہے۔
خیال کو اظہارکا پیکر عطا کرنے کے لیے کبھی آنکھوں سے کام لیا جاتا ہے، توکبھی ہونٹوں سے،کبھی اشاروں، کنایوں میں بات کی جاتی ہے، تو کبھی غزلوں میں، اسی کے ساتھ کبھی لکیروں سے کام لیا جاتا ہے تو کبھی نقوش اور رنگوں میں لپٹی کہانی بیان کرنے والا مصور اور خطاط کہلاتا ہے، اگر مصور اپنے فن میں کامل ہو، تو بات کو کچھ اس رخ سے بیان کرتا ہے کہ ہمہ تن گوش قاری تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لیے تڑپ اٹھتا ہے اور بے ساختہ اپنے لبوں سے بقول غالب کے یوں صدا دینے لگتا ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
جب بھی ایسے کامل مصوروں اور خطاطوں کا ذکر ہوگا تو اُن میں اسلم کمال کا تذکرہ بھی ضرورکیا جائے گا۔ اسلم کمال کا شمار عالمی شہرت یافتہ مصوروخطاط، افسانہ نگار، شاعر، سفر نامہ نگارکے طور پر ہوتا ہے، جو 23 جنوری 1939 کو ضلع سیالکوٹ کے موضع کور پور میں میاں محمد شفیع کے ہاں پیدا ہوئے۔
انھوں نے ابتدائی تعلیم اقبال میموریل ہائی اسکول گوٹھ پور مراد پور سے حاصل کی، اس اسکول کی خاص بات یہ تھی کہ یہ تعلیمی ادارہ شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کی یاد میں قائم ہوا۔ بعدازاں ایف اے گورنمنٹ کالج کوہاٹ اور پھر بی اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی۔ اسلم کمال ایک خاموش طبع اور دھیمے مزاج کے انسان تھے۔
انھوں نے اپنی ساری زندگی مصورانہ خطاطی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کے تخلیق کردہ فن پاروں میں مقدس الفاظ میں موجزن پیغام متاثرکن ہے۔ اسلم کمال محبت کرنے اور دردِ دل کرنے والے انسان بھی تھے، لیکن وہ دنیا بھر میں ایک مصور اور خطاط کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، ان کی طرزِ تحریر کو بے حد پسند کیا جاتا تھا۔
اردو ادب و ثقافت کو ایک نیا خوب صورت انداز دیا اور اس خطاطی اور اپنی منفرد مصوری سے کتابوں کے ہزاروں دیدہ زیب سرورق بنائے، جو پاکستان کا ہی نہیں عالمی ریکارڈ بھی ہوسکتا ہے، ان کے خطاطی کے مخصوص اندازکو '' خطِ کمال'' کہا جاتا ہے۔
وہ غالب، اقبال اور فیض کے کلام سے بے حد متاثر تھے اسی وجہ سے انھوں نے غالب، اقبال اور فیض کی شاعری کو اپنے تجزیاتی، فکری ، روحانی مصوری اور خطاطی کی بدولت اُن کی شاعری اور تصویروں کو اپنے کمالِ فن سے دلکشی عطا کی۔
ان کے کام کی انفرادیت، جامعیت، شناخت اور سالمیت ہی ان کا اصل آرٹ تھا جو موجودہ عہد کے مصوروں اور خطاطوں میں اپنی منفرد پہچان رکھتا تھا۔ ان کے تخلیقی فن پاروں پر مبنی تصانیف میں' اسلامی خطاطی ایک تعارف ، قلم مو قلم ، ادیبوں اور شاعروں کے کیر ی کیچر، نقوشِ کمال اور '' کسبِ کمال'' شامل ہیں۔
ادب اور فنونِ لطیفہ کی بڑی شخصیت اسلم کمال جو خود میں فن کی ایک نئی دنیا آباد رکھتے تھے، انھوں نے کئی دہائیوں تک اپنے فن سے ادب و ثقافت کی دنیا کو روشن کیا۔ اسلم کمال کے نام کو دو بار پاکستان کی طرف سے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لیے بھیجا گیا۔
پہلی بار ان کا نام اُس وقت بھیجا گیا جب انھوں نے اکادمی ادبیات اسلام آباد کے لیے پاکستان کی ادبی تاریخ پرکام کیا، جب کہ دوسری بار ان کا نام اردو سائنس بورڈ وزارت قومی ثقافتی ورثہ نے گراں قدر کام کرنے پر بجھوایا۔ ان کے 500 سے زائد پاکستانی ادیبوں کے کیرکیچر آج بھی اکادمی ادبیات پاکستان میں ادبی کہکشاں کے عنوان سے دیواروں پر سجے دکھائی دیتے ہیں۔
اس منفرد کام کرنے پر حکومت پاکستان نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے بڑے اعزاز سے بھی نوازا۔ ان کے اقبال کی شاعری کو مصور کرنے والے فن پاروں پر مشتمل آرٹ گیلریاں ایوانِ اقبال لاہور اور پنجاب یونیورسٹی اور دنیا بھر کے بہت سے تعلیمی اداروں میں قائم کی گئیں، جس پر انھیں متعدد تعلیمی اداروں سے کئی بار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیے گئے۔
اسلم کمال ایک ایسے فن کار تھے جو حقیقی طور پر کائنات کو تخیل کی آنکھ سے دیکھتے، مفکر کے ذہن سے سوچتے اور مصور کے قلم سے سمجھتے تھے۔
ان سے جُڑی اپنی چند یادیں تازہ کرتے ہوئے جلیل عالی بتاتے ہیں کہ '' اسلم کمال سے میری پہلی ملاقات میرے اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو 1965 ء کے بزرگ کلاس فیلو بشیر منظر کے ایبک روڈ پر واقع مینار آرٹ پریس پر ہوئی۔
ان دنوں وہ اپنی تخلیقی خطاطی اور مصوری کے ساتھ ساتھ روزگار کے لیے اس پریس کو شادی کارڈ ڈیزائن کرکے دیا کرتے تھے، شعر بھی کہتے تھے، یہ پریس ادیبوں کا تکیہ تھا، سہ پہرکے بعد حفیظ تائب اور دیگر احباب یہاں جمع ہوجاتے، چائے کے ساتھ گپ شپ اور شعروشاعری بھی جاری رہتی، مزاجوں کے اشتراک کی بنا پر اسلم کمال سے تعارف جلد ہی گہرے مراسم میں تبدیل ہوگیا، ہماری دوستی تب سے اب تک کسی طرح کی کبھی کمی نہیں آئی، اقبال اور فیض ہمارا مشترک عشق تھا۔
میرے تین شعری مجموعوں کے سرورق ان کی شفقت اور محبت کی یادگار نشانیاں ہیں۔ ہمارے درمیان گہری فکری و نظریاتی ہم آہنگی دوستی سے بھی کہیں آگے کی چیز تھی، حسنِ اتفاق دیکھیے کہ میری ملازمت کے آغاز میں بھی ان کی محبت کا بڑا ہاتھ تھا، سرسید کالج میں میری الوداعی تقریب کی صدارت انھوں نے فرمائی، ان کی رحلت میرے لیے ذاتی نقصان کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر اس سے ہماری تخلیقی و تہذیبی زندگی کو بڑا دھچکا لگا ہے۔
مصورانہ خطاطی میں تو وہ اپنی ذات میں مکمل دبستان تھے۔''اسلم کمال نے اپنے کام میں ہماری فکری تہذیبی روایت کی آفاقی روحانی جہات کو منعکس کر کے ادب و ثقافت کو ہمیشہ کے لیے چار چاند لگا دیے۔ ان کی اختراعی صورتِ حروف کو ہر لحاظ سے '' خطِ کمال کے نام سے یاد رکھا جائے گا، اسلم کمال مصوری اور خطاطی کے علاوہ نہایت عمدہ سفر نامہ نگار اور منفرد کالم نگار، افسانہ نویس بھی تھے۔
ان کا پہلا سفر نامہ '' اسلم کمال اوسلو میں'' کے نام سے چھپا، جب کہ دوسرا سفر نامہ '' گمشدہ '' جو لندن میں بیتے ہوئے خوبصورت اور یادگار لمحات کی روداد پر مبنی ہیں۔ اسلم کمال ادب و ثقافت کے ہر فن میں باکمال تھے، ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات بڑے بھائی اعتبار ساجد کے شعری مجموعے '' امتزاج'' کی تقریب میں الحمرا ہال ادبی بیٹھک میں ہوئی، جس کے بعد لاہور کی بہت سی تقریبات میں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جا ری رہا، وہ بہت عمدہ گفتگو کے ساتھ ساتھ بہت اچھے اشعار بھی کہتے تھے۔
نئے سال کا آغاز ہوتے ہی 2 جنوری کی صبح اب باکمال ادب و ثقافت کے آفتاب کی روشنی سے محروم ہو گئے، ہماری جمالیاتی زندگی میں ان کی عدم موجودگی کا خلا تا دیر تک محسوس کیا جاتا رہے گا، مصورانہ خطاطی کے دبستان اسلم کمال کے بنائے ہوئے فن پارے ادبی رسائل وکتب کی صورت میں ہمیشہ ان کے ہونے کی یاد دلاتے رہیں گے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آخر میں ان کے بچھڑ جانے کے غم میں افسردہ دل کے ساتھ سعد اللہ شاہ کا ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔
افسردہ ہم کو کر گیا آغاز سال بھی
یعنی کہ دیکھنا پڑا فن کا وصال بھی
فن کار ایسے ملتے نہیں خال خال بھی
رخصت ہوئے ہیں لیجیے اسلم کمال بھی
خیال کو اظہارکا پیکر عطا کرنے کے لیے کبھی آنکھوں سے کام لیا جاتا ہے، توکبھی ہونٹوں سے،کبھی اشاروں، کنایوں میں بات کی جاتی ہے، تو کبھی غزلوں میں، اسی کے ساتھ کبھی لکیروں سے کام لیا جاتا ہے تو کبھی نقوش اور رنگوں میں لپٹی کہانی بیان کرنے والا مصور اور خطاط کہلاتا ہے، اگر مصور اپنے فن میں کامل ہو، تو بات کو کچھ اس رخ سے بیان کرتا ہے کہ ہمہ تن گوش قاری تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے لیے تڑپ اٹھتا ہے اور بے ساختہ اپنے لبوں سے بقول غالب کے یوں صدا دینے لگتا ہے:
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
جب بھی ایسے کامل مصوروں اور خطاطوں کا ذکر ہوگا تو اُن میں اسلم کمال کا تذکرہ بھی ضرورکیا جائے گا۔ اسلم کمال کا شمار عالمی شہرت یافتہ مصوروخطاط، افسانہ نگار، شاعر، سفر نامہ نگارکے طور پر ہوتا ہے، جو 23 جنوری 1939 کو ضلع سیالکوٹ کے موضع کور پور میں میاں محمد شفیع کے ہاں پیدا ہوئے۔
انھوں نے ابتدائی تعلیم اقبال میموریل ہائی اسکول گوٹھ پور مراد پور سے حاصل کی، اس اسکول کی خاص بات یہ تھی کہ یہ تعلیمی ادارہ شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کی یاد میں قائم ہوا۔ بعدازاں ایف اے گورنمنٹ کالج کوہاٹ اور پھر بی اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی۔ اسلم کمال ایک خاموش طبع اور دھیمے مزاج کے انسان تھے۔
انھوں نے اپنی ساری زندگی مصورانہ خطاطی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ ان کے تخلیق کردہ فن پاروں میں مقدس الفاظ میں موجزن پیغام متاثرکن ہے۔ اسلم کمال محبت کرنے اور دردِ دل کرنے والے انسان بھی تھے، لیکن وہ دنیا بھر میں ایک مصور اور خطاط کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، ان کی طرزِ تحریر کو بے حد پسند کیا جاتا تھا۔
اردو ادب و ثقافت کو ایک نیا خوب صورت انداز دیا اور اس خطاطی اور اپنی منفرد مصوری سے کتابوں کے ہزاروں دیدہ زیب سرورق بنائے، جو پاکستان کا ہی نہیں عالمی ریکارڈ بھی ہوسکتا ہے، ان کے خطاطی کے مخصوص اندازکو '' خطِ کمال'' کہا جاتا ہے۔
وہ غالب، اقبال اور فیض کے کلام سے بے حد متاثر تھے اسی وجہ سے انھوں نے غالب، اقبال اور فیض کی شاعری کو اپنے تجزیاتی، فکری ، روحانی مصوری اور خطاطی کی بدولت اُن کی شاعری اور تصویروں کو اپنے کمالِ فن سے دلکشی عطا کی۔
ان کے کام کی انفرادیت، جامعیت، شناخت اور سالمیت ہی ان کا اصل آرٹ تھا جو موجودہ عہد کے مصوروں اور خطاطوں میں اپنی منفرد پہچان رکھتا تھا۔ ان کے تخلیقی فن پاروں پر مبنی تصانیف میں' اسلامی خطاطی ایک تعارف ، قلم مو قلم ، ادیبوں اور شاعروں کے کیر ی کیچر، نقوشِ کمال اور '' کسبِ کمال'' شامل ہیں۔
ادب اور فنونِ لطیفہ کی بڑی شخصیت اسلم کمال جو خود میں فن کی ایک نئی دنیا آباد رکھتے تھے، انھوں نے کئی دہائیوں تک اپنے فن سے ادب و ثقافت کی دنیا کو روشن کیا۔ اسلم کمال کے نام کو دو بار پاکستان کی طرف سے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے لیے بھیجا گیا۔
پہلی بار ان کا نام اُس وقت بھیجا گیا جب انھوں نے اکادمی ادبیات اسلام آباد کے لیے پاکستان کی ادبی تاریخ پرکام کیا، جب کہ دوسری بار ان کا نام اردو سائنس بورڈ وزارت قومی ثقافتی ورثہ نے گراں قدر کام کرنے پر بجھوایا۔ ان کے 500 سے زائد پاکستانی ادیبوں کے کیرکیچر آج بھی اکادمی ادبیات پاکستان میں ادبی کہکشاں کے عنوان سے دیواروں پر سجے دکھائی دیتے ہیں۔
اس منفرد کام کرنے پر حکومت پاکستان نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس کے بڑے اعزاز سے بھی نوازا۔ ان کے اقبال کی شاعری کو مصور کرنے والے فن پاروں پر مشتمل آرٹ گیلریاں ایوانِ اقبال لاہور اور پنجاب یونیورسٹی اور دنیا بھر کے بہت سے تعلیمی اداروں میں قائم کی گئیں، جس پر انھیں متعدد تعلیمی اداروں سے کئی بار لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیے گئے۔
اسلم کمال ایک ایسے فن کار تھے جو حقیقی طور پر کائنات کو تخیل کی آنکھ سے دیکھتے، مفکر کے ذہن سے سوچتے اور مصور کے قلم سے سمجھتے تھے۔
ان سے جُڑی اپنی چند یادیں تازہ کرتے ہوئے جلیل عالی بتاتے ہیں کہ '' اسلم کمال سے میری پہلی ملاقات میرے اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے اردو 1965 ء کے بزرگ کلاس فیلو بشیر منظر کے ایبک روڈ پر واقع مینار آرٹ پریس پر ہوئی۔
ان دنوں وہ اپنی تخلیقی خطاطی اور مصوری کے ساتھ ساتھ روزگار کے لیے اس پریس کو شادی کارڈ ڈیزائن کرکے دیا کرتے تھے، شعر بھی کہتے تھے، یہ پریس ادیبوں کا تکیہ تھا، سہ پہرکے بعد حفیظ تائب اور دیگر احباب یہاں جمع ہوجاتے، چائے کے ساتھ گپ شپ اور شعروشاعری بھی جاری رہتی، مزاجوں کے اشتراک کی بنا پر اسلم کمال سے تعارف جلد ہی گہرے مراسم میں تبدیل ہوگیا، ہماری دوستی تب سے اب تک کسی طرح کی کبھی کمی نہیں آئی، اقبال اور فیض ہمارا مشترک عشق تھا۔
میرے تین شعری مجموعوں کے سرورق ان کی شفقت اور محبت کی یادگار نشانیاں ہیں۔ ہمارے درمیان گہری فکری و نظریاتی ہم آہنگی دوستی سے بھی کہیں آگے کی چیز تھی، حسنِ اتفاق دیکھیے کہ میری ملازمت کے آغاز میں بھی ان کی محبت کا بڑا ہاتھ تھا، سرسید کالج میں میری الوداعی تقریب کی صدارت انھوں نے فرمائی، ان کی رحلت میرے لیے ذاتی نقصان کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر اس سے ہماری تخلیقی و تہذیبی زندگی کو بڑا دھچکا لگا ہے۔
مصورانہ خطاطی میں تو وہ اپنی ذات میں مکمل دبستان تھے۔''اسلم کمال نے اپنے کام میں ہماری فکری تہذیبی روایت کی آفاقی روحانی جہات کو منعکس کر کے ادب و ثقافت کو ہمیشہ کے لیے چار چاند لگا دیے۔ ان کی اختراعی صورتِ حروف کو ہر لحاظ سے '' خطِ کمال کے نام سے یاد رکھا جائے گا، اسلم کمال مصوری اور خطاطی کے علاوہ نہایت عمدہ سفر نامہ نگار اور منفرد کالم نگار، افسانہ نویس بھی تھے۔
ان کا پہلا سفر نامہ '' اسلم کمال اوسلو میں'' کے نام سے چھپا، جب کہ دوسرا سفر نامہ '' گمشدہ '' جو لندن میں بیتے ہوئے خوبصورت اور یادگار لمحات کی روداد پر مبنی ہیں۔ اسلم کمال ادب و ثقافت کے ہر فن میں باکمال تھے، ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات بڑے بھائی اعتبار ساجد کے شعری مجموعے '' امتزاج'' کی تقریب میں الحمرا ہال ادبی بیٹھک میں ہوئی، جس کے بعد لاہور کی بہت سی تقریبات میں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ جا ری رہا، وہ بہت عمدہ گفتگو کے ساتھ ساتھ بہت اچھے اشعار بھی کہتے تھے۔
نئے سال کا آغاز ہوتے ہی 2 جنوری کی صبح اب باکمال ادب و ثقافت کے آفتاب کی روشنی سے محروم ہو گئے، ہماری جمالیاتی زندگی میں ان کی عدم موجودگی کا خلا تا دیر تک محسوس کیا جاتا رہے گا، مصورانہ خطاطی کے دبستان اسلم کمال کے بنائے ہوئے فن پارے ادبی رسائل وکتب کی صورت میں ہمیشہ ان کے ہونے کی یاد دلاتے رہیں گے، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آخر میں ان کے بچھڑ جانے کے غم میں افسردہ دل کے ساتھ سعد اللہ شاہ کا ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں۔
افسردہ ہم کو کر گیا آغاز سال بھی
یعنی کہ دیکھنا پڑا فن کا وصال بھی
فن کار ایسے ملتے نہیں خال خال بھی
رخصت ہوئے ہیں لیجیے اسلم کمال بھی