حکمت رومی

مولانا رومؒ کی مثنوی میں ایک خاص مضمون صورت اور معنی کا باہمی رابطہ ہے

خلیفہ عبدالحکیم اپنی کتاب ''حکمت ِ رومی'' میں لکھتے ہیں کہ عشق مولانا رومؒ کی مثنوی کا اہم ترین موضوع ہے جو اس کے ہر دیگر مضمون پر چھایا ہوا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ''عشق محبت کی شدت کا نام ہے۔ محبت انسان کو انسان کے ساتھ بھی ہوتی ہے اور جمالِ فطرت کے ساتھ بھی۔ اسی طرح بندے کو خدا کا عشق بھی ہو سکتا ہے۔ جذب و کشش کی کیفیتیں مختلف ہیں مگر انسان کے لیے محبت یا عشق کے علاوہ اور کوئی لفظ نہیں۔''

خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں ''مولانا روم'' کے نظریہ حیات کا لب لباب یہ ہے کہ روحوں کا اصل ماخذ اور مقام ذات الٰہی ہے۔ ہر روح بے تاب ہے اور واصل الی الاصل ہونا چاہتی ہے۔ ہر روح اپنی اصل کی جانب کشش محسوس کرتی ہے۔ اسی کشش کا نام عشق ہے۔

تمام حیات و کائنات اسی جذب و کشش کا مظہر ہے، جو کچھ ظہور میں آیا اور جو کچھ ظہور میں آتا ہے، اس کا محرک یہی عشق ہے۔

ظلمت عدم سے وجود کا ظہور اسی کی بدولت ہے۔''صوفیاء کے نزدیک روحِ انسانی کو خدائے لم یزل سے مناسبت ازلی ہے، اگرچہ اس مناسبت کی حقیقت ایک راز ہے جو نہ پوری طرح قابلِ فہم ہے اور نہ پوری طرح قابلِ بیان۔ مولانا اس راز کی گرہ کشائی کی زیادہ کوشش نہیں کرتے اور زیادہ تر اسی پر اکتفا کرتے اور اسی سے آغاز کرتے ہیں کہ میری روح کی نَے جو نالہ انگیز ہے وہ اپنی اصل سے جدا ہونے کی وجہ سے مصروفِ فُغاں ہے۔

اس کا وہی حال ہے جو فراق زدہ عاشق کا ہوتا ہے۔ زندگی کا تمام کاروبار بالواسطہ یا بلاواسطہ سعی حصولِ وصال ہے، لہٰذا کائنات میں جو کچھ ہے وہ عشق کا مظہر ہے۔''

خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں ''مولانا رومؒ کی مثنوی کا آغاز عشق، درد، فراق اور شوقِ وصال سے ہوتا ہے لیکن آگے بڑھ کر عقل اور عشق کے باہمی ربط کے متعلق انھوں نے بڑی عارفانہ اور حکیمانہ باتیں بیان کی ہیں کہ عشق ہی تمام امراض کا علاج ہے، وہ طبیبِ جسمانی بھی ہے اور طبیبِ روحانی بھی۔ تمام اخلاقی بیماریوں کا علاج بھی اسی اکسیر سے ہوتا ہے۔

جدید نفسیات نے انسان کے تحت الشعور میں بہت غوطے کھائے ہیں، لیکن اس کی تمام تحقیق کا لب لباب یہی ہے کہ اکثر جسمانی امراض اور روحانی بیماریاں محبت کی کمی یا اس کے اختلال و اضمحلال سے پیدا ہوتی ہیں۔ جہاں محبت کے صحیح عوامل کارفرما ہوں، وہاں انسان اندر اور باہر سے تندرست ہو جاتا ہے۔''

مولانا رومؒ کی مثنوی میں ایک خاص مضمون صورت اور معنی کا باہمی رابطہ ہے۔ ان کی مثنوی، مثنوی معنوی کہلاتی ہے۔


اسی سے اس کے خاص موضوع کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں کہ مولانا نے مثنوی میں کئی جگہ دہرایا ہے کہ عالم میں ہر چیز کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ ارتقائے روحانی ظاہر سے باطن کی طرف آنے کا نام ہے۔

وہ لکھتے ہیں ''لیکن جس طرح ہر ظاہر کا ایک باطن ہوتا ہے اسی طرح ہر باطن کا ایک ظاہر بھی ہوتا ہے، اس لیے عالم خلق میں صورت سے گریز نہیں۔ عبادت ایک معنوی چیز ہے لیکن ضروری ہے کہ افعال و اعمالِ ظاہری میں بھی اس کا اظہار ہو۔

مولانا رومؒ نے اس کو کئی مثالوں سے واضح کیا ہے۔ ۔ فطرت جہاں مغز پیدا کرتی ہے، وہاں اس کے اوپر چھلکے کا غلاف ضرور چڑھا دیتی ہے۔ اگرچہ غذائیت زیادہ تر مغز میں ہے لیکن چھلکے کے بغیر مغز کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔

مولانا کا صورت و معنی کا فلسفہ تمام تر ماہیتِ روح پر مبنی ہے۔ ان کے نزدیک روح کی حقیقت نورِ شعور ہے۔ ''جس طرح ہر صورت کسی معنی کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اسی طرح ہر شے کا وجود اور اس کی طلب کسی مقصد کے ماتحت ہے۔

جس چیز کے متعلق بھی پوچھو کہ اس کو چیز کیوں مطلوب ہے تو وہ اس کی کوئی غرض یا مقصد بتائے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی چیز فی نفسہ مقصود نہیں ہوتی تمام مطلوبات اقدار اور مقاصد سے وابستہ ہیں۔''

خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں ''مولانا رومؒ نے دین کی بڑی خدمت کی ۔ جبر و قدر کی جو بحثیں مثنوی میں ملتی ہیں ان سے زیادہ دل کش انداز میں کسی حکیم نے آج تک اس مسئلے کو پیش نہیں کیا۔ مولانا کے نزدیک مصدرِ ہستی خدا کی ذات اور اس کی مشیت ہی ہے۔ وہی ہر آئین کا بنانے والا اور چلانے والا ہے۔ وہی ہر تقدیر کا مقدر کرنے والاہے لیکن اختیار انسان کی تقدیر کا ایک جزو لاینفک ہے۔

''حقیقت یہ ہے کہ تقدیر کا صحیح مفہوم مجاہد کی قوتوں اور کوششوں میں اضافہ کردیتا ہے۔ جس میں ذوقِ عمل ہے وہ بے دھڑک عمل کرتا ہے، نہ حوادث سے ڈرتا اور گھبراتا ہے اور نہ موت سے ڈرتا ہے۔ وہ اپنا کام کرکے نتیجہ خدا پر چھوڑتا ہے۔

مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ تقدیر کا لکھا بدل نہیں سکتا، لیکن تقدیر اصل میں الٰہی قوانین کا نام ہے جن میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ انسانوں کی جو فطرت بنائی گئی ہے، اسی کا نام تقدیر ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ زندگی کو ان قوانین کے مطابق ڈھالنا انسان کی فطرت اور اس کی تقدیر ہے۔ تقدیر کے قلم نے فقط یہی لکھا ہے کہ ہر کام کی تاثیر اور جزا اس کام کے مطابق ہوگی۔''

خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں ''مولانا فرماتے ہیں کہ حواسِ ظاہری کے علاوہ انسان کے اندر حواسِ باطنی بھی ہیں، جن سے ہستی کے ان پہلوؤں کا انکشاف ہوتا ہے جو حواسِ ظاہری کے ادراک میں نہیں آ سکتے۔''
Load Next Story