فلسطین ۔۔۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے
اٹھو! وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
غزہ اور مغربی کنارہ سمیت مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی بربریت کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ہزاروں فلسطینی بچے، بوڑھے، خواتین اور جوان شہید کردیے گئے ہیں جب کہ دیگر ہزاروں مظلوم فلسطینی اسرائیل کی فضائی و زمینی گولہ باری کے نتیجے میں زخمی ہوچکے ہیں۔
ہزاروں معصوم فلسطینی اپنی ہی سرزمین میں عرصہ دراز سے اسرائیلی جیلوں میں مقید ہیں جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
لاکھوں مکانات، سیکڑوں اسکول، اسپتال مساجد و گرجا گھر اور دیگر عمارتیں زمین بوس ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں نہتے اور پر امن فلسطینی بے گھر و بے بس ہوکر کھلے آسمان تلے موسمی صعوبتیں جھیلنے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب امریکا برطانیہ، فرانس، جرمنی و مغربی ممالک کے حکم راں 7 اکتوبر کو ہونے والی حماس کی کارروائی کو بنیاد بنا کر فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کی سرپرستی میں مصروف ہیں۔ اس صورت حال میں مسلم حکومتوں کا یہ فرض ہے کہ ان جنگ باز لیڈروں کو اپنے بھرپور کمیونیکیشن اسکلز اور سیاسی و اقتصادی وزن کے ساتھ یہ باور کروایا جائے کہ حماس کا ردعمل عین فطری تھا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ حماس فلسطینی علاقے غزہ کی ایک منتخب جمہوری حقیقت ہے۔ یہ باور کروانا بھی ضروری ہے کہ غزہ کی پٹی پر حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بہانے اسرائیل آئے دن غزہ کی پٹی پر دراندازی کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں نہتے و پرامن فلسطینی زندگی کی بازی ہار بیٹھتے ہیں جب کہ زندہ رہ جانے والوں کی زندگی سترہ سالہ اسرائیلی محاصرے میں اجیرن ہوگئی ہے۔
اس معاملے کے مختلف پہلوؤں کا ذکر اگلی سطور میں کرنے سے قبل یہ ضروری ہوگا کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ ان تمام قربانیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال میں فلسطینی کاز کے لیے دنیا بھر میں سامنے آنے والے عظیم عوامی ردعمل کے مثبت پہلوؤں کو کس طرح نہ صرف فلسطین کی آزاد ریاست کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سے کشمیر سمیت دیگر خطوں میں بسنے والے عوام کے انسانی، قومی اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کو بھی نتیجہ خیز بنایا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں مسلم انٹیلیجنشیا مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرسکتی ہے تاہم اس مسلم انٹیلیجینشیا کو مزید کوئی وقت ضائع کئے بغیر منظم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پوری دنیا خصوصاً مغربی ممالک کے عوام جس انسانیت دوستی اور جذبے کے ساتھ اسرائیلی افواج کی جانب سے ہونے والے قتل عام کے خلاف مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں حالیہ ادوار میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
برطانیہ، امریکا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، لاطینی امریکا، جاپان، فلپائن، تھائی لینڈ اور یورپی یونین جیسے ممالک میں عوام کی کثیر تعداد نے آزاد احتجاج اور مظاہروں میں جس طرح شرکت کی وہ عوامی سطح پر اسرائیل کی تاریخی شکست ہے۔ مسلم انٹیلیجنشیا کو چاہیے کہ وہ ان ممالک کی عوام کے جذبات کو شعور میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش کرے، جس کے لیے باقاعدہ ایک لائحہ عمل اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کے لیے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت و خوںریزی کے ڈوکومنٹڈ ویڈیو ثبوت (ڈوکومنٹریز) بناکر اسے دنیا بھر میں پھیلانے کی فوری ضرورت ہے۔
اگر الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس ہدف کو حاصل کرلیا جائے تو یہ ایک عظیم ذہنی و فکری انقلاب کا پیش خیمہ ہوگا جو بالآخر کرۂ ارض پر طبقاتی لعنتوں اور جنگی جنونیوں کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کو مہمیز دے گا۔ شاید مسلم ممالک کی حکومتیں بہ وجوہ یہ منصوبہ تشکیل دینے اور اس پر عمل درآمد کرنے پر مشکل محسوس کریں مگر جنوبی افریقہ کی حکومت نے باضابطہ طور پر مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف عالمی عدالت انصاف (INTERNATIONAL COURTOF JUSTICE) سے رجوع کرلیا ہے جو وقت کی عین ضرورت ہے۔
اس ضمن میں بین الریاستی تنظیموں مثلاً اوآئی سی، عرب لیگ، معتمر عالم اسلامی و مسلم ورلڈ لیگ کے علاوہ پاکستان، ترکی، قطر، کویت، الجزائر، انڈونیشیا، ملیشیا، بنگلادیش، ایران و بعض دیگر مسلم ممالک میں قائم سول سوسائٹی و غیرسرکاری تنظیمیں اور مذہبی سیاسی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں جب کہ انفرادی طور پر بھی بین الاقوامی شخصیات اس کاز میں معاون ثابت ہوں گی۔
اس مقصد کے لیے مغربی و دیگر غیرمسلم ممالک میں جن تنظیموں نے فلسطین سے یکجہتی کے لیے مظاہروں کا اہتمام کیا، ان سے فوری روابط قائم کرنے اور ان کو عالمی امن و محکوم انسانیت کی بحالی کے لیے مستقل بنیادوں پر منظم و متحرک رکھنے کے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مظلوم مسلمانوں کے حق میں بلند ہونے والی غیرمسلم آوازیں نہ صرف زیادہ وزن رکھتی ہیں بلکہ اپنے حکم رانوں کو بھی حقیقتاً انسانیت دوست اقدامات اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہے۔
مسجداقصیٰ و فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں یہ تاریخی حقیقت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ایک صہیونی اور استعماری منصوبے کے تحت ارض مقدس پر برطانوی تسلط کے دور میں دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر آباد کیا گیا جس کا باقاعدہ آغاز پہلی جنگ عظیم کے اواخر میں بالفور ڈکلیئریشن کے ذریعے کیا گیا۔
یہ وہ دور تھا جب جنگ عظیم اول میں جرمنی کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ میں شامل متعدد عرب ممالک میں جغرافیائی قومیت کے نام پر برطانیہ کی مدد سے علیحدہ قومی ریاستیں قائم ہوئیں۔
جنگ عظیم دوم کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں مولانا محمد علی جوہر کی زیر قیادت تحریک خلافت درحقیقت خلافت کے ادارے کو کسی نہ کسی شکل میں برقرار رکھ کر مسلمانوں کی مرکزیت کو باقی رکھنا مطمع نظر تھا، لیکن خلافت عثمانیہ میں شامل علاقوں کے اپنے اپنے قومی وطن کی تشکیل سے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا کہ ترکی (ترکیہ) اپنی ریاست کو جمہوری خطوط پر استوار کرتا۔ درحقیقت مولانا محمد علی جوہر کی دوررس نگاہیں فلسطین میں بربادی کے آثار دیکھ رہی تھیں جو آج اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔
مسلم مبلغین کی جانب سے اکثر کہا جاتا ہے کہ اسلام دنیا کا سب سے تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی پالیسی ساز شخصیات و ادارے جن میں تھنک ٹینک اور میڈیا شامل ہے، اسلاموفوبیا پر مشتمل پروپیگنڈا کے ذریعے فروغ اسلام کو روکنے کی سعی کر رہے ہیں۔ مبلغین تبلیغ اسلام کے لیے جہاں ایک طرف قرآن و سنت کا درس دیتے ہیں وہیں اسلاف کے جذبہ ایمانی اور کارناموں کا بھی ذکر ہوتا ہے۔
اسلاف کے کارناموں بالخصوص صبر و استقلال اور حق پرستی کا عملی نمونہ آج غزہ میں پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس جذبہ ایمانی کو جیتے جاگتے نمونے کے طور پر غیرمسلموں کو پیش کرکے انہیں اسلام کی طرف راغب کرنے کا کام بھی اسی صورت حال کے تناظر میں بہترین انداز میں لیا جا سکتا ہے جو بلاشبہ اسلام کی عظیم خدمت اور شہدائے فلسطین کی قربانیوں کا ثمر ہوگا۔
اس ضمن یہ مثال انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ گذشتہ دنوں آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں تین غیرمسلم خواتین نے غزہ کے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا جو کہ ابتدا ہے۔ مبلغین اسلام کو یہ حقیقت بھی دنیا کے سامنے پوری شدت کے ساتھ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے امتی ہونے کے دعوے دار ہیں مگر ان کا طرز عمل فرعون والا ہے۔
فرعون معصوم بچوں کو زندہ درگور کروا دیتا تھا۔ اسرائیل کے صہیونی بھی آج فلسطینی بچوں کے قتل عام بلکہ نسل کشی میں مصروف ہیں۔ توقع ہے کہ مسلم انٹیلیجنشیا مذکورہ مندرجات پر غور کرکے عملی اقدامات کرے گی اور اس صورت حال کو انسانیت کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اسرائیل اور امریکا کے فطری اتحاد کے تناظر میں میں یہ مماثلت بھی پائی جاتی ہے کہ شمالی امریکا کی آبادی ان تارکین وطن پر مشتمل ہے جو سولہویں صدی عیسوی میں یورپی ممالک کے حالات سے برگشتہ ہوکر بہتر مستقبل کی تلاش میں نکلے اور بروز طاقت شمالی امریکا کی پر امن مقامی آبادی کو زیر نگیں کر کے خود شمالی امریکا کے مالک بن بیٹھے۔ فلسطین میں بھی یہی تاریخ دہرائی گئی اور دنیا بھر سے لائے گئے یہودیوں نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کی مدد سے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ جمالیا اور مقامی آبادی کو دوسرے درجہ کا شہری بننے پر مجبور کردیا۔
تاہم شمالی امریکا کے برعکس فلسطین میں مقامی آبادی کی جانب سے قابضین کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو امریکا اور اسرائیل کی تمام تر عسکری و اقتصادی قوت کے باوجود آج بھی جاری ہے۔ فلسطینی عوام کی اس جرأت مندی جیسی کوئی دوسری مثال آج کے دور میں نہیں ملتی۔ ارض فلسطین پر یہودیوں کے دعوے کی کوئی اصل نہیں۔
یہ سرزمین فلسطینیوں کی ہے جو اپنے آباؤاجداد کے زمانے سے یہاں آباد ہیں اور نیشن اسٹیٹس کے جدید دور کے آنے تک فلسطینی قوم کی ہی بنیادیں یہاں قائم رہی ہیں جن کو قدیم تاریخ کے دعوے پر رد نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطین کل بھی فلسطینیوں کا تھا آج بھی فلسطینیوں کا ہے اور آئندہ بھی فلسطینیوں کا ہی رہے گا۔
ہزاروں معصوم فلسطینی اپنی ہی سرزمین میں عرصہ دراز سے اسرائیلی جیلوں میں مقید ہیں جن میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
لاکھوں مکانات، سیکڑوں اسکول، اسپتال مساجد و گرجا گھر اور دیگر عمارتیں زمین بوس ہو گئی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں نہتے اور پر امن فلسطینی بے گھر و بے بس ہوکر کھلے آسمان تلے موسمی صعوبتیں جھیلنے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب امریکا برطانیہ، فرانس، جرمنی و مغربی ممالک کے حکم راں 7 اکتوبر کو ہونے والی حماس کی کارروائی کو بنیاد بنا کر فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کی سرپرستی میں مصروف ہیں۔ اس صورت حال میں مسلم حکومتوں کا یہ فرض ہے کہ ان جنگ باز لیڈروں کو اپنے بھرپور کمیونیکیشن اسکلز اور سیاسی و اقتصادی وزن کے ساتھ یہ باور کروایا جائے کہ حماس کا ردعمل عین فطری تھا۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ حماس فلسطینی علاقے غزہ کی ایک منتخب جمہوری حقیقت ہے۔ یہ باور کروانا بھی ضروری ہے کہ غزہ کی پٹی پر حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بہانے اسرائیل آئے دن غزہ کی پٹی پر دراندازی کرتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں سیکڑوں نہتے و پرامن فلسطینی زندگی کی بازی ہار بیٹھتے ہیں جب کہ زندہ رہ جانے والوں کی زندگی سترہ سالہ اسرائیلی محاصرے میں اجیرن ہوگئی ہے۔
اس معاملے کے مختلف پہلوؤں کا ذکر اگلی سطور میں کرنے سے قبل یہ ضروری ہوگا کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ ان تمام قربانیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال میں فلسطینی کاز کے لیے دنیا بھر میں سامنے آنے والے عظیم عوامی ردعمل کے مثبت پہلوؤں کو کس طرح نہ صرف فلسطین کی آزاد ریاست کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سے کشمیر سمیت دیگر خطوں میں بسنے والے عوام کے انسانی، قومی اور سیاسی حقوق کی جدوجہد کو بھی نتیجہ خیز بنایا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں مسلم انٹیلیجنشیا مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرسکتی ہے تاہم اس مسلم انٹیلیجینشیا کو مزید کوئی وقت ضائع کئے بغیر منظم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پوری دنیا خصوصاً مغربی ممالک کے عوام جس انسانیت دوستی اور جذبے کے ساتھ اسرائیلی افواج کی جانب سے ہونے والے قتل عام کے خلاف مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں حالیہ ادوار میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
برطانیہ، امریکا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، آسٹریلیا، لاطینی امریکا، جاپان، فلپائن، تھائی لینڈ اور یورپی یونین جیسے ممالک میں عوام کی کثیر تعداد نے آزاد احتجاج اور مظاہروں میں جس طرح شرکت کی وہ عوامی سطح پر اسرائیل کی تاریخی شکست ہے۔ مسلم انٹیلیجنشیا کو چاہیے کہ وہ ان ممالک کی عوام کے جذبات کو شعور میں تبدیل کرنے کی منظم کوشش کرے، جس کے لیے باقاعدہ ایک لائحہ عمل اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
اس مقصد کے لیے فلسطین پر اسرائیلی جارحیت و خوںریزی کے ڈوکومنٹڈ ویڈیو ثبوت (ڈوکومنٹریز) بناکر اسے دنیا بھر میں پھیلانے کی فوری ضرورت ہے۔
اگر الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس ہدف کو حاصل کرلیا جائے تو یہ ایک عظیم ذہنی و فکری انقلاب کا پیش خیمہ ہوگا جو بالآخر کرۂ ارض پر طبقاتی لعنتوں اور جنگی جنونیوں کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کو مہمیز دے گا۔ شاید مسلم ممالک کی حکومتیں بہ وجوہ یہ منصوبہ تشکیل دینے اور اس پر عمل درآمد کرنے پر مشکل محسوس کریں مگر جنوبی افریقہ کی حکومت نے باضابطہ طور پر مقبوضہ فلسطین میں اسرائیلی جنگی جرائم کے خلاف عالمی عدالت انصاف (INTERNATIONAL COURTOF JUSTICE) سے رجوع کرلیا ہے جو وقت کی عین ضرورت ہے۔
اس ضمن میں بین الریاستی تنظیموں مثلاً اوآئی سی، عرب لیگ، معتمر عالم اسلامی و مسلم ورلڈ لیگ کے علاوہ پاکستان، ترکی، قطر، کویت، الجزائر، انڈونیشیا، ملیشیا، بنگلادیش، ایران و بعض دیگر مسلم ممالک میں قائم سول سوسائٹی و غیرسرکاری تنظیمیں اور مذہبی سیاسی تنظیمیں بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں جب کہ انفرادی طور پر بھی بین الاقوامی شخصیات اس کاز میں معاون ثابت ہوں گی۔
اس مقصد کے لیے مغربی و دیگر غیرمسلم ممالک میں جن تنظیموں نے فلسطین سے یکجہتی کے لیے مظاہروں کا اہتمام کیا، ان سے فوری روابط قائم کرنے اور ان کو عالمی امن و محکوم انسانیت کی بحالی کے لیے مستقل بنیادوں پر منظم و متحرک رکھنے کے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مظلوم مسلمانوں کے حق میں بلند ہونے والی غیرمسلم آوازیں نہ صرف زیادہ وزن رکھتی ہیں بلکہ اپنے حکم رانوں کو بھی حقیقتاً انسانیت دوست اقدامات اٹھانے پر مجبور کر سکتی ہے۔
مسجداقصیٰ و فلسطین کی آزادی کی جدوجہد میں یہ تاریخی حقیقت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ایک صہیونی اور استعماری منصوبے کے تحت ارض مقدس پر برطانوی تسلط کے دور میں دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر آباد کیا گیا جس کا باقاعدہ آغاز پہلی جنگ عظیم کے اواخر میں بالفور ڈکلیئریشن کے ذریعے کیا گیا۔
یہ وہ دور تھا جب جنگ عظیم اول میں جرمنی کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ میں شامل متعدد عرب ممالک میں جغرافیائی قومیت کے نام پر برطانیہ کی مدد سے علیحدہ قومی ریاستیں قائم ہوئیں۔
جنگ عظیم دوم کے بعد اس میں مزید اضافہ ہوا۔ برصغیر جنوبی ایشیا میں مولانا محمد علی جوہر کی زیر قیادت تحریک خلافت درحقیقت خلافت کے ادارے کو کسی نہ کسی شکل میں برقرار رکھ کر مسلمانوں کی مرکزیت کو باقی رکھنا مطمع نظر تھا، لیکن خلافت عثمانیہ میں شامل علاقوں کے اپنے اپنے قومی وطن کی تشکیل سے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا کہ ترکی (ترکیہ) اپنی ریاست کو جمہوری خطوط پر استوار کرتا۔ درحقیقت مولانا محمد علی جوہر کی دوررس نگاہیں فلسطین میں بربادی کے آثار دیکھ رہی تھیں جو آج اپنی پوری شدت کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔
مسلم مبلغین کی جانب سے اکثر کہا جاتا ہے کہ اسلام دنیا کا سب سے تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مغربی پالیسی ساز شخصیات و ادارے جن میں تھنک ٹینک اور میڈیا شامل ہے، اسلاموفوبیا پر مشتمل پروپیگنڈا کے ذریعے فروغ اسلام کو روکنے کی سعی کر رہے ہیں۔ مبلغین تبلیغ اسلام کے لیے جہاں ایک طرف قرآن و سنت کا درس دیتے ہیں وہیں اسلاف کے جذبہ ایمانی اور کارناموں کا بھی ذکر ہوتا ہے۔
اسلاف کے کارناموں بالخصوص صبر و استقلال اور حق پرستی کا عملی نمونہ آج غزہ میں پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ اس جذبہ ایمانی کو جیتے جاگتے نمونے کے طور پر غیرمسلموں کو پیش کرکے انہیں اسلام کی طرف راغب کرنے کا کام بھی اسی صورت حال کے تناظر میں بہترین انداز میں لیا جا سکتا ہے جو بلاشبہ اسلام کی عظیم خدمت اور شہدائے فلسطین کی قربانیوں کا ثمر ہوگا۔
اس ضمن یہ مثال انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ گذشتہ دنوں آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں تین غیرمسلم خواتین نے غزہ کے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا جو کہ ابتدا ہے۔ مبلغین اسلام کو یہ حقیقت بھی دنیا کے سامنے پوری شدت کے ساتھ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے امتی ہونے کے دعوے دار ہیں مگر ان کا طرز عمل فرعون والا ہے۔
فرعون معصوم بچوں کو زندہ درگور کروا دیتا تھا۔ اسرائیل کے صہیونی بھی آج فلسطینی بچوں کے قتل عام بلکہ نسل کشی میں مصروف ہیں۔ توقع ہے کہ مسلم انٹیلیجنشیا مذکورہ مندرجات پر غور کرکے عملی اقدامات کرے گی اور اس صورت حال کو انسانیت کی بہتری کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اسرائیل اور امریکا کے فطری اتحاد کے تناظر میں میں یہ مماثلت بھی پائی جاتی ہے کہ شمالی امریکا کی آبادی ان تارکین وطن پر مشتمل ہے جو سولہویں صدی عیسوی میں یورپی ممالک کے حالات سے برگشتہ ہوکر بہتر مستقبل کی تلاش میں نکلے اور بروز طاقت شمالی امریکا کی پر امن مقامی آبادی کو زیر نگیں کر کے خود شمالی امریکا کے مالک بن بیٹھے۔ فلسطین میں بھی یہی تاریخ دہرائی گئی اور دنیا بھر سے لائے گئے یہودیوں نے امریکا، برطانیہ اور فرانس کی مدد سے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ جمالیا اور مقامی آبادی کو دوسرے درجہ کا شہری بننے پر مجبور کردیا۔
تاہم شمالی امریکا کے برعکس فلسطین میں مقامی آبادی کی جانب سے قابضین کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جو امریکا اور اسرائیل کی تمام تر عسکری و اقتصادی قوت کے باوجود آج بھی جاری ہے۔ فلسطینی عوام کی اس جرأت مندی جیسی کوئی دوسری مثال آج کے دور میں نہیں ملتی۔ ارض فلسطین پر یہودیوں کے دعوے کی کوئی اصل نہیں۔
یہ سرزمین فلسطینیوں کی ہے جو اپنے آباؤاجداد کے زمانے سے یہاں آباد ہیں اور نیشن اسٹیٹس کے جدید دور کے آنے تک فلسطینی قوم کی ہی بنیادیں یہاں قائم رہی ہیں جن کو قدیم تاریخ کے دعوے پر رد نہیں کیا جاسکتا۔ فلسطین کل بھی فلسطینیوں کا تھا آج بھی فلسطینیوں کا ہے اور آئندہ بھی فلسطینیوں کا ہی رہے گا۔