ڈپریشن ایک سفاک قاتل

جو لوگ ذہنی و جذباتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں وہ ان مصائب و آلام کے گھنے جنگلوں سے بے خوف و خطر نکل جاتے ہیں ۔


تحریم قاضی January 14, 2024
فوٹو : فائل

دورِ حاضر کا انسان پریشان ہے۔ جہاں انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر کے چاند تک پر قدم رکھ لئے ہیں وہاں وہ اپنی بشری کمزوریوں اور حالات سے جدوجہدمیں تاحال مصروف عمل ہے۔

بیرونی دنیا میں ہونے والے حادثات اور درپیش حالات انسان کی اندورنی دنیا میں ہلچل پیدا کرتے ہیں۔ انسان کو اس سب مشکلات و مصائب سے نبردآزما ہونے کے لئے ایک مضبوط قوت ارادی اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔اکثر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ زندگی امتحان ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ زندگی ایک مسلسل عمل ہے جس میں قدم قدم پر نئے پہلو اور آزمائشوں کا سامنا ہوگا۔ اور اس سب سے صبر و برداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گزرنا ہی ہنر ہے۔

جو لوگ ذہنی و جذباتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں وہ ان مصائب و آلام کے گھنے جنگلوں سے بے خوف و خطر نکل جاتے ہیں ۔ ایسا بھی نہیںہوتا کہ ان کے راستے میں رکاوٹیںنہیں آتیں انھیں ناہموار راستوں پہ چوٹیں نہیں لگتیں، وہ گرتے نہیں! یہ سب ہوتا ہے مگر وہ چوٹوں پہ مرہم رکھنا جانتے ہیں، گر کر اٹھنے کا ہنر جانتے ہیں۔حالات کا سامنا کرنا ہی کسی شخص کو باہمت اور کامیاب بناتا ہے۔ اس سب میں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ انسان کو انسان کی ضرورت ہے۔

انسانی معاشرہ باہمی ربط کی بنا پر چلتا ہے۔ اور ہر انسان میں قدرتی طور پر اتنی قوت مدافعت نہیں ہوتی کہ وہ خود ہی ہر مشکل کا حل کر سکے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں ماہرین کی انٹری ہوتی ہے۔ ذہنی صحت کو اکثر معاشروں میں قابلِ اعتناء نہیں جانا جاتا،اور یہی مسائل کو جنم دیتا ہے۔انسانی ذہن کو بھی جسم کی طرح بیماریوںکا سامنا ہوتا ہے۔

اور بدقسمتی ہے ہمارے معاشرے میں ذہنی بیماریوں کا سامنا کرنے والوںکو مریض سمجھنے کے بجائے پاگل سمجھ کر انہیں تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ تو ہم سب نے سن رکھا ہے کہ ایک صحت مند دماغ صحت مند جسم میں پایا جاتا ہے پر اس بات پر اکثر لوگ توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتے کہ ایک صحت منددماغ ایک صحت مند جسم کاضامن ہے۔ جب کوئی ذہنی طور پر بیمار ہوگا وہ اپنی جسمانی وروحانی صحت کا خیال کیونکر رکھ سکے گا۔

ذہنی مسائل تو بے شمار ہیں لیکن ایک اتنہائی پیچیدہ اور خطرناک ذہنی مرض جیسے عموماً معمولی سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے وہ ہے ''ڈپریشن''۔ ڈپریشن کو عام زبان میں ذہنی دباؤ کہا جاتا ہے، جس کی شدت کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔یہ ایسی ذہنی حالت کا نام ہے جو کسی بھی بات کو لے کر شدت اختیار کر لیتی ہے ۔بنیادی طور پر ڈپریشن میں ایک طویل مدت کے لئے مزاج متاثر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں خوشی کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور ہر قسم کی دلچسپیوں سے دل اچاٹ ہوجاتا ہے۔

اب یہاں اکثر لوگ اسے موڈ سونگز سے تعبیر کرتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ کیونکہ موڈ سونگز کا دورانیہ طویل نہیں ہوتا اور وہ وقتی کیفیت ہوتی ہے جبکہ ڈپریشن ایک مستقل مسئلہ ہے اور جو کوئی بھی اس کا شکار ہوتا ہے وہ مسلسل سفر کرتا ہے اس کی روزمرہ زندگی اس سے متاثر ہونے لگتی ہے، جیسے تعلقات، خاندان، دوستوں اور ارد گرد لوگوںکے ساتھ برتاؤمیں واضح تبدیلی۔یہ صرف ذاتی دائرے تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ سکول،کالج،آفس اور سماجی مقامات پر بھی رویوں کو بدل دیتا ہے۔

ڈپریشن کے حوالے سے یہ مفروضہ بھی غلط ہے کہ یہ صرف بڑی عمر کے لوگوں کو ہی ہوسکتا ہے ، ایسا بلکل نہیں۔ ڈپریشن کسی بھی عمر کے لوگوں کو ہوسکتا ہے جو زندگی میں کسی طرح کے ناروا سلوک کا شکار ہوئے ہوں، یا جن سے کچھ چھن گیا ہو، یا نامسائد حالات کا شکار ہوں۔ اور تحقیق اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ ڈپریشن عورتوں کو مردوںکی نسبت زیادہ متاثر کرتا ہے۔ اس کی علامات کی بات کی جائے تو ایک شخص ڈپریشن میں زندگی کو ایک بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ اسے کسی چیز میں امید اور خوشی کی جھلک دکھائی نہیں دیتی ۔ وہ ہر وقت دکھی اور مغموم رہنے لگتا ہے یہاں تک کے اس میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔

اس کا دھیان بٹا رہتا ہے اور نتیجتاً وہ کسی کا م پر توجہ مرکوز نہیںکر پاتا۔ وہ خود ترسی اور احساس ندامت کا شکار ہو کر اپنی ذات کی نفی کرنے لگتا ہے۔اپنے مستقبل کے حوالے سے خدشات اسے نا امیدی کی جانب دھکیلتے ہیں۔نیند متاثر ہونے لگتی ہے۔ بے معنی سوچیں اور بے خوابی اس کے ذہن پر طاری رہتی ہیں۔ہر وقت تھکاوٹ اور سستی چھائی رہنا شامل ہیں۔

ڈپریشن کی اقسام

ڈپریشن کو عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کی کوئی قسم نہیںہوتی، لیکن یہ ایک کثیر جہتی ہے۔ڈپریشن کی کئی اقسام ہیں جن میں سے درج ذیل یہ ہیں:

میجر ڈپریشن

یہ اس کی سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم ہے جوکے ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ اس کے اثرات تمام شعبہ زندگی کو متاثر کرتے ہیں، جیسا کہ نیند، کام، پڑھائی، کھانا پینا، رہن سہن وغیرہ۔ ایسے لوگ ہر وقت غم زدہ، مایوس، ناامید اور اکتائے رہتے ہیں۔

یہ ناصرف جذباتی بلکہ جسمانی تکلیف کا بھی باعث بنتی ہے اور جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی ایک مخصوص عرصہ کے لئے اس کا شکار ہو لیکن بعض افراد تادم مرگ اس کے شکنجے سے جان نہیں چھڑا پاتے اور خواتین، مردوں کی نسبت اس کا دوگنا شکار ہوسکتی ہیں۔

مستقل ڈپریشن ڈس آرڈر

ڈپریشن کی اس قسم کو ڈسٹیمیا بھی کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں مزاج میں افسردگی چھا جاتی ہے جس کی مدت دو برس یا اس سے زیادہ عرصے تک رہتی ہے۔ یہ دائمی اور مسلسل جاری رہنے والا ڈپریشن ہے۔ dysthymia کے شکار لوگوں کو انتہائی خوشی کے موقعوں پر بھی خوش رہنے میں پریشانی ہوتی ہے اور انہیں اکثر اداس یا مسلسل شکایت کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ دیگر علامات میں ناامیدی کا احساس، کم ہمتی اور کمزور ارتکاز شامل ہیں۔ یہ میجر ڈپریشن کے ساتھ مل کر بھی ہوسکتا ہے، لیکن اس کی علامات اتنی شدید نہیںہوتیں۔

بائی پولر موڈ ڈس آرڈر

یہ ڈپریشن کی مندرجہ بالا دونوں اقسام کی نسبت کم لاحق ہونے والا عارضہ ہے۔ جس کی پہچان موڈ میں ہونے والی انتہائی حیران کن تبدیلیوں سے ہوتی ہے۔ بائی پولر موڈ ڈس آرڈر کی ایک ذیلی قسم مینیا ہے۔ مینیا میں ڈپریشن کی کم یا زیادہ سطح پر جسم میں توانائی متاثر ہوتی ہے۔ یا طبیعت میں ایک دم تیزی آجاتی ہے یا انتہائی سستی چھا جاتی ہے۔

فیصلہ کرنے کی قوت ختم ہوجاتی ہے۔ سب اس کی پہچان ہیں کہ کوئی فرد بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہوچکا ہے۔ یہ زیادہ تر بلوغت یا اوائل جوانی میں لاحق ہوتا ہے جس کے موروثی ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی تین قسم کے ڈپریشن انسان کی زندگی کے حالات کی وجہ سے ہو سکتے ہیں۔

نفسیاتی ڈپریشن

یہ میجر ڈپریشن کے ساتھ لاحق ہونے والا عارضہ ہے جس میں انسان حقیقی دنیا سے دور ہو جاتا ہے اور اسے ہیولے، خود ساختہ وجود دکھائی دینے لگتے ہیں۔ نفسیاتی ڈپریشن کاشکار افراد عموماً بائی پولر موڈ ڈس آرڈر کا بھی شکار ہوتے ہیں۔

پوسٹ پارٹم ڈپریشن

خواتین میں دس سے پندرہ فیصد کو بچے کی پیدائش کے بعد اس خوفناک قسم کے ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑتاہے جس میں انھیں موڈ سونگز اور رونے کا جی چاہتا ہے۔ یہ کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ خود بھی نہیں جان پاتی ہیںکہ ان کا رونے کا دل کیوں چاہ رہا ہے اور موڈ میںایک دم سے اتار چڑھاؤ کیوں ہو رہا ہے۔ یہ کیفیت طویل عرصے پر محیط ہوتی ہے اور یہ ماں بچے دونوں کے باہمی تعلق کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔اس میں عدم برداشت، بے خوابی، شدید غصے اور بچے کی دیکھ بھال میں ،مشکلات جیسے مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔

موسمی افیکٹیو ڈس آرڈر

یہ ڈپریشن کی وہ قسم ہے جو اس وقت لاحق ہوتی ہے جب سورج کی روشنی سے رابطہ کم ہو جاتا ہے۔ یہ عموماً نوجوانی میں لاحق ہوتی ہے۔یہ گرمیوں اور سردیوں کے اندر زیادہ حملہ آور ہوتی ہے۔اس کی علامات اور شدت مختلف ہوسکتی ہیں۔

عمومی طور پر یہ چڑچرے پن اور غیر معمولی ہونے کے احساسات پر مبنی ہوتی ہیں۔کچھ کے لئے یہ ڈپریشن میجر اور روزمرہ زندگی کو متاثر کرتی ہے۔اس کا علاج لائٹ تھراپی اور روایتی تھراپی کے ساتھ چند ادویات سے کیا جاسکتا ہے۔ سورج کی روشنی میں بیٹھنے سے بھی اس میں افاقہ ہوتا ہے۔

ڈپریشن سے بچاؤ کی چند ٹپس

٭...خوشگوار یت کا احساس دلانے والی سرگرمیاں اپنائیں۔

٭... اپنے خاندان اور دوستوں سے جڑے رہیں۔

٭... ورزش ضرور کریں چاہے کم وقت کی ہی کیوں نہ ہو۔

٭... اپنے کھانے پینے اور سونے کی عادات میں باقاعدگی لے کر آئیں۔

٭... سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔

٭... اپنے احساسات اور جذبات کسی قابل بھروسہ فرد کے ساتھ شئیر کریں۔

٭...اگر آپ خود کو تنہا اور مددگار ڈھونڈنے میں ناکام پاتے ہیں تو کسی ماہر امراض نفسیات کی مدد لینے سے بلکل نہ گھبرائیں۔

٭...کوئی بھی ذہنی کیفیت اگر دو ہفتے سے زیادہ آپ کو متاثر کر رہی ہے تو ڈاکٹر کی مدد لیں۔

عموماً لوگ یہ بات سمجھنے میں غلطی کرتے ہیںکہ ڈپریشن ایک بیماری نہیں بلکہ پاگل پن ہے یا کوئی روحانی مسئلہ ہے۔ بہت سے مسائل کی طرح یہ بھی ایک مرض ہے۔اور یہ کہنا کے کسی بھی متمدن گھرانے کے کسی فرد کو ڈپریشن نہیںہوسکتا بلکل کمزور دلیل ہوگی۔

دنیا بھر میں کامیاب لوگ اور اہم شخصیات ڈپریشن سے کسی نا کسی سطح پر نبردآزما ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔جیسے شوگر بلڈ پریشر بلا تفریق جنس، مذہب، معاشی و معاشرتی حیثیت کسی بھی فرد کو لاحق ہوسکتے ہیں ڈپریشن کی مثال بھی بلکل ایسی ہی ہے۔

لوگوں کے گھروں میں مریض اسی ذہنی الجھنوں کا شکار ہو کر نا صرف خود بلکہ دوسروں کے لئے بھی ایک اذیت ناک زندگی کا باعث بنتے ہیں لیکن صرف آگاہی کی کمی اور ذہنی صحت کو ترجیح نہ دینے جیسی وجوہات اس کا محرک بنتی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ذہنی مسائل سے آگاہی کا شعور اجاگر کیا جائے اور علاج میں تاخیر نہ کی جائے۔ایک صحت مند سوچ اور ذہن کا مالک شخص ہی معاشرے میںمثبت کردار اداکرسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں