بُک شیلف
ادبی کتابوں کا دلچسپ مجموعہ
روش روشن
مصنف: صوفی شوکت رضا، قیمت:1200 روپے، صفحات:320
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
صوفی شوکت رضا سرکار متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ، انھوں نے تصوف، طب اور شاعری کے میدان میں بڑی خوبصورت تحریروں سے ادب کی خدمت کی ہے۔ تصوف ان کا خاص شعبہ ہے ۔ وہ زندگی کے ہر پہلو کو اسی پیمانے پر جانچتے اور پرکھتے ہیں ۔
ان کی تحریریں انسانی زندگی کے پوشیدہ پرت کھولتی ہیں ۔ معروف ادیب و ناشر عبدالمتین ملک کہتے ہیں '' روش کا لفظ ڈھنگ، طریقہ اور انداز کے معنی میں آتا ہے اور روشن کا لفظ چمکتا ہوا ، نورانی اور کشادہ کے معنی میں آتا ہے ۔
سو یہ ساری شاعری ایک نورانی انداز بیاں میں کی گئی ہے ۔ اس کے ایک ایک فقرہ میں قرآن و حدیث کی روح اور اسلام کی تاریخ مضمر ہے ۔ روش روشن میں ہر وہ علم و عمل ہے جس کی وابستگی انسان کے روزمرہ مسائل اور معاملات سے دوچار رہتی ہے ۔
اس کلام میں انسان کے بارے میں نصیحت و وصیت اور اس کی سرکشی کے تمام خدو خال کا بیان کیا گیا ہے ۔ یہ کلام اخلاقی تعلیمات کا سرچشمہ ہے ۔ آخر میں دعائیہ کلام اتنی عاجزی ، درد مندی اور فریاد سے ہے کہ پڑھتے پڑھتے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دعا کی قبولیت ہو گئی ہے ۔'' زیر تبصرہ کتاب میں موضوعات کے انتخاب میں حسن ترتیب کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو توحید سے شروع ہو کر دعا پر ختم ہوتا ہے ۔
بہت نازک موضوعات کو شاعرانہ رنگ میں بیان کیا گیا ہے ہے جو بہت ہی مشکل کام ہے مگر صوفی شوکت رضا تصوف اور روحانیت میں گہری دلچسپی رکھنے کی وجہ سے اسے بڑی خوبصورت آسان انداز سے بیان کرتے ہیں ۔ جیسے ' احوال قیامت' میں کہتے ہیں
جس دم ہو گا رونما محشر
یک دم ہو گا عیاں محشر
قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے
کل آدم ہو گا بیاں منظر
یہی وہ روز آخرت ہو گا
کہ مقدم ہو گا انتہا قدر
جزا سزا کا فیصلہ ہو گا
پھر عالم ہو گا بے زباں اسقدر
اسی انداز میں تمام موضوعات بیان کئے گئے ہیں ۔ یوں یہ کتاب شاعرانہ انداز میں فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرد کی رہنمائی بھی کرتی ہے کہ اسے کس انداز سے زندگی گزارنی چاہیے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گیا ہے ۔
خزینہ دانش
مصنف: نسیم طاہر ، قیمت:1000روپے، صفحات:256
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور(03004140207)
عقل و دانش اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جسے چاہے دیدے ، مگر آج کے جدید دور میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ کتابی علم کے حصول سے عقل و دانش حاصل ہوتی ہے ، حکیم لقمان جن کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے وہ غلام تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی حکمت عطا کی تھی کہ بڑے علم و فن کے ماہر ان کے سامنے دست بستہ رہتے تھے ، یہ ضرور ہے کہ اکتسابی علم سے فنون میں مہارت حاصل ہوتی ہے ۔
معروف دانشور ، ادیب اشفاق احمد اپنے مرشد حضرت فضل شاہؒ نور والے کے سامنے دست بستہ رہتے تھے ان کی فکر میں جب بھی الجھاؤ پیدا ہوتا تو وہ اپنے مرشد کے پاس تشریف لے جاتے جو ان کی فکری گتھیوں کو سلجھاتے ، حالانکہ سلطان الحقیقت حضرت فضل شاہؒ نور والے اکتسابی علم سے بہرہ ور نہ تھے ، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں حکمت کے خزانے عطا کیے تھے ۔
خزینہ دانش بھی حکمت کے جواہر پاروں سے مزین ایک گلدستہ ہے جس کی خوشبو جسم و جان کو معطر کرتی ہے ۔ مصنف اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں '' عرصہ قبل مجھے ایک کتاب ملی جو ادب ، اخلاق ، تہذیب اور سماجی بہبود کے موضوعات پر مبنی تھی ۔ پھٹی پرانی اور شکستہ کتاب کے ابتدائی صفحات ندارد ، اس لیے مصنف کا نام نہ مل سکا ۔
یہ کتاب ایک خزانہ ہے ۔ اس میں برصغیر کی سماجی اور اخلاقی پرتوں کو تہہ در تہہ کھول کر رکھا گیا ہے ۔ انسانی خوبیوں اور کمزوریوں کو فرمودات ، حکایات اور کہانیوں کی صورت بیان کیا گیا ہے۔ مگر زبان بڑی مشکل تھی اس لیے میں اس کتاب کے کچھ حصوں میں پوشیدہ حکمت و دانش کو جدید تقاضوں میں ڈھال کر دوبارہ لکھا ، بالعموم اس کتاب کی فکری بالیدگی کو ملحوظ خاطر رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ جو اضافے ہیں وہ میری طرف سے ہیں ۔
کچھ واقعات، قصے کہانیاں اور کہے ان کہے تجربات جن سے میں اور میرے دوست گزرے وہ بھی سپرد تحریر ہیں ۔ حریت فکر ، تعلق باللہ کی تانگاں، شخصیات ، روزن تاریخ ، ایجادات ، عجائبات ، سیاحت اور دو واقعات کی ڈرامائی تشکیل بھی میری طرف سے ہیں ۔'' زیر تبصرہ کتاب میں حکمت کے ایسے راز بیان کئے گئے ہیں کہ قاری کی عقل دنگ رہ جاتی ہے جیسے 'نیک نامی' کے عنوان سے ایک حکایت ہے '' ایک بادشاہ کو کسی بزرگ کے اخلاق حسنہ کی خبر ہوئی ۔ وہ ان کے پاس حاضر ہوئے ۔
بزرگ نے بادشاہ کو ہزاروں برس نیک نامی سے جینے کی دعا دی ۔ بادشاہ نے جانا کہ بزرگ نے مبالغے سے کام لیا ہے۔ بولا '' دعا میں ایسا کلام مبالغہ شایان شان نہیں ۔'' بزرگ نے جواب دیا :''حیات بقائے بدن تک محدود نہیں ، بقائے نیک نامی ہزاروں برس بھی قائم و دائم رہ سکتی ہے۔'' پھر کہا :'' دیکھتے نہیں ہو ، شیر شاہ سوری نے صرف چار برس حکومت کی لیکن اتنے مختصر عرصے میں کیے گئے کاموں کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات میں زندہ ہے ۔'' مجلد کتاب کو دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ علم و معرفت کے راز جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے اس لیے ضرور پڑھنی چاہیے ۔
میرے وقتوں کا امرتسر اور لاہور
مصنف : منیر احمد منیر، قیمت : 1500روپے، صفحات: 464
ناشر:آتش فشاں، 78 ستلج بلاک ، علامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور(03334332920)
لاہور اور امرتسر برصغیر کے تاریخی شہر ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ تہذیب و ثقافت کے مرکز ہیں تو غلط نہ ہو گا ۔ دونوں شہروں کی خوبی ہے کہ یہاں جو بھی آیا پھر اس کا من انھی شہروں میں لگ گیا ، درجنوں مشہور شخصیات ہیں جنھوں نے ان شہروں سے محبت کو ایسے بیان کیا ہے جیسے وہ اپنی کسی محبوبہ کا ذکر کر رہے ہوں ۔
منیر احمد منیر ایسے تاریخی مشاہدات کو بیان کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں ۔ واقعات کی تحقیق تو یوں کرتے ہیں کہ جیسے یہ ان کے لیے کوئی من چاہا شوق ہے اور وہ اپنے اس شوق کے ہاتھوں یوں مجبور ہیں کہ اسے کئے بغیر رہ نہیں سکتے ہیں اور پھر بال کی کھال اتار کر رکھ دیتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب بھی لاہور اور امرتسر کے حوالے سے تاریخی انکشافات کا ایک پٹارا ہے ۔
ایک واقعہ کی حقیقت جان کر قاری حیران ہو رہا ہوتا ہے تو آگے کوئی اور واقعہ اسے مزید حیران کر دیتا ہے ، اس پر مصنف کی تحریر کی چاشنی ، قاری اس میں لت پت ہو جاتا ہے ۔ جیسے مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان سے پہلے گنگا رام ہسپتال میں مسلمان مریض کا داخلہ ممنوع تھا ۔ سرگنگا رام کے قائم کردہ دیگر ادارے بھی ہندوانہ تعصب سے اٹا اٹ تھے۔ بھگت سنگھ انقلابی قطعاً نہ تھا ۔ وہ اسلام دشمن شیوا جی اور گورو گوبند سنگھ سے متاثر تھا ۔
بھارت بڑی چالاکی سے بھگت سنگھ کو پاکستان کا بھی ہیرو قرار دلوا رہا ہے ۔ علامہ مشرقی زبردست کنجوس تھے اور جلسہ عام میں مسلم لیگ کو ننگی گالیاں دیتے تھے ۔ امرتسر کی ممتاز باؤلے والی کے حسن نے ہندوستان اور انگلستان بھر میں ہلچل مچا دی ۔ صوفی کلچا ، پریم ناتھ کا بن مکھن ، ساگر ہوٹل کی آئس کریم اور ہیرامنڈی کے رس گلے لاہور بھر میں مشہور تھے ۔
الغرض زیر تبصرہ کتاب میں لاہور اور امرتسر کے سو سالہ سیاسی ، ثقافتی ، فلمی اور حسن و جمال کے اتار چڑھاؤ کے آنکھوں دیکھے دلچسپ اور تاریخی حقائق بیان کئے گئے ہیں ۔ ڈاکٹر احمد حسن کے طویل انٹرویو کے علاوہ محمد حنیف آف بے نظیر سموسہ ، آصف حسین ایڈووکیٹ ، انور خلیل شیخ ، کرنل سید امجد حسین، گرافک آرٹسٹ عبدالسلیم اور پروفیسر محمد جمیل خاں کے انٹرویو بھی شامل ہیں ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ بہت سے ڈھکے چھپے حقائق سے آگاہی حاصل ہو ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
پابلونرودا کی شاعری
مترجم: بشیر احمد شاد، قیمت:600 روپے، صفحات:80
ناشر: بک ہوم، 46 مزنگ روڈ،لاہور (03014208780)
شاعری خیالات کے اظہار کا خوبصورت انداز ہے ۔ بالخصوص اشاریوں کنایوں میں شاعر وہ کچھ کہہ جاتا ہے جو کسی اور طرح سے شاید ممکن نہ ہو، اور شعر کی خوبصورتی دل کو چھو لیتی ہے۔ کس کو پتہ تھا کہ چھوٹے سے شہر پارال میں ایک معمولی ریلوے کارکن کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ آنے والے وقت میں اپنی شاعری سے چار دانگ عالم مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دے گا ۔
پابلو نرودا کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ان کی شاعری متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے بلکہ ایک ہی زبان میں بھی کئی مرتبہ ترجمہ ہوئی ہے ۔
بشیر احمد شاد کہتے ہیں کہ ایمرسن کی طرح پابلو نرودا نے بینائی سے محروم چیزوں کو آنکھیں عطا کی ہیں اور قوت گویائی سے محروم چیزوں کو زبان ، گویا اس کی شاعری میں نابینا دیکھ سکتے ہیں اور گونگے بول سکتے ہیں ۔ جس طرح لائنکیاس ہمیں کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا عکس ایک آئینے میں دکھاتا ہے ۔
اسی طرح نرودا بھی ایسی شاعری پر یقین رکھتے ہیں جس میں خاموشی کے طلسم کو جنگل اور اس میں بکھری چیزیں توڑ رہی ہوتی ہیں ۔ پتھر اور سمندر ایک ہی وقت میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ محض فطرت کا شاعر ہی نہیں ہے اس سے بھی ماورا بہت کچھ ہے۔
ہسپانوی امریکن شاعری میں کائنات کے اسرار و رموز پرنگاہ رکھنے کا نرودا کا اپنا ایک ڈھنگ ہے جو اسے اپنے ہم عصروں میں ممتاز اور نمایاں کرتا ہے ۔ وہ نہ صرف عوام کا شاعر ہے بلکہ خلاؤں اور فضاؤں کا بھی ۔
تمھارا چمکتا ہوا شفاف سینہ
جس پر باد صبا نے ملمع کاری کی ہے
ایسے ہے جیسے تکونی چٹان
لامحدود چمکیلے پتھر سے بنی
یہ دھرتی جس نے ابھی سانس بھی نہیں لیا
تنہا تنہا گرد اور غربت سے کوسوں دور
نرودا کی شاعری کے بے شمار روپ ہیں ، اس کی شاعری کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا ایک مشکل کام ہے ۔ اس کا فن اس کی زندگی کی طرح مختلف مراحل سے گزرا اور بالآخر اسے ادب کے افق پر درخشندہ ستارے کی طرح رہتی دنیا تک روشن کر گیا۔
شاہد پرویز جامی کہتے ہیں '' زیر نظر کتاب چلی کے ترقی پسند نوبل انعام یافتہ شاعر پابلونرودا کی نظموں پر مشتمل ہے ۔کسی بھی بڑے شاعر کے کلام کا ترجمہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔اس سے قبل بہت سے لکھاریوں نے نرودا کی نظموں کے تراجم کیے ہیں جن میں پروفیسر عبدالقیوم صاحب کا انتخاب '' میرے منہ سے بولو'' قابل ستائش ہے۔
میرے خیال میں بشیر شاد کی یہ کاوش بائیں بازو کے انقلابی شاعر سے محبت کا خوبصورت اظہار ہے۔'' مترجم شاعری کی دو کتابوں ' دھوپ اور سائے' اور ' چپ دی واج' کے مصنف ہیں ۔ انھوں نے پورے دل و جان کے ساتھ ادب کی خدمت کی ہے ۔ مجلد کتاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گئی ہے ۔
توحید کی آواز
مصنف : مولانا عثمان منیب،حافظ محمد اقبال ، صفحات: 328
ناشر: دارالسلام انٹر نیشنل، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لوئر مال، لاہور
برائے رابطہ : 042-37324034
انسان کی تخلیق فطرت توحید پر ہوئی ہے اس لیے اسے سمجھنا ہر انسان کے لیے نہایت ضروری اور آسان ہے لیکن افسوس کہ توحید کی دعوت جس قدر عام فہم اور عقل و شعور رکھنے والوں کو اپیل کرتی ہے کچھ لوگوں نے آج اسے اتنا ہی مشکل بنا دیا ہے ۔
جس توحید کے تصور کو نمایاں کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتھک محنت کی اور قرآن مجید کی سینکڑوں آیات اور امثال کے ذریعے اس کے درست مفہوم کو سمجھانے کی کوشش کی وہ تصور آج فلاسفہ کی موشگافیوں کی نذر ہو چکا ہے یعنی توحید کی صاف ستھری دعوت کو چھوڑ کر ہم ا نہی پہیلیوں میں سرگرداں ہو گئے ہیں۔
جن سے نکالنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے ۔ توحید کے حقیقی تصور کو اجاگر کرنے کے لیے دارالسلام نے ایک جامع کتاب '' توحید کی آواز '' ترتیب دی ہے جو درج ذیل خصوصیات کی حامل ہے:
اس کی زبان سادہ اور عام فہم ہے ۔ علمی مباحث کو عوام الناس کے لیے آسان انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ ذات باری تعالی کے حوالے سے مذاہب عالم کے تصورات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان میں پائے جانے والے توحید کے تصور کی حقیقت آشکارا کی گئی ہے ۔
توحید کی اقسام بیان کر کے ان میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی وضاحت کی گئی ہے ۔ شرک اور اس کے مظاہر کا مدلل رد کیا گیا ہے نیز دور حاضر کے حساس مسئلے یعنی مسئلہ تکفیر کی مکمل وضاحت کرتے ہوئے اس کے اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی گئی ہے ، یوں ان اہم اور مفید مباحث پر مشتمل یہ کتاب علماء طلباء اور عوام کے لیے توشہ علم اور رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے ۔
کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نزول قرآن کے وقت ذات باری تعالی کے بارے میں اس وقت کے مذاہب اور اقوام میں کیا تصور پایا جاتا تھا مثلاََ چینی تہذیب میں ذات باری تعالیٰ کا کیا تصور تھا ۔ اسی طرح ہندوستانی ، شمنی ، ایرانی ، مجوسی ، یہودی، عیسائی ، یونانی ، مشرکین مکہ اور اہل عرب کے ہاں ذات باری تعالیٰ کے بارے میں کیا تصور پایا جاتا تھا ۔
یہ تمام تصورات بیان کرنے کے بعد بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید نے توحید کا کیا تصور اور سبق دیا ہے ۔ کتاب میں معرفت باری تعالیٰ کے عقلی اور نقلی دلائل بیان کیے گئے ہیں جو دل کو چھوتے اور عقل کو جھنجھوڑتے ہیں ۔ توحید کے لغوی و اصطلاحی معنی ، توحید کی حقیقت واہمیت توحید کی فضیلت ، توحید کی اقسام ، صفات باری تعالیٰ کے بارے میں ائمہ اسلاف کے اقوال کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔
کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ توحید باری تعالی ہی تمام عبادات کی بنیاد ہے توحید اور مسئلہ تکفیر پر بھی بحث کی گئی ہے ، صحیح عقیدہ توحید کے حصول کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے ۔ قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں شرعی اور غیر شرعی وسیلہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ مسلمانوں پر مختلف تہذیبوں کے اثرات کو زیر بحث لاتے ہوئے فلسفہ وحدت الوجود ، وحدت الشہود اور حلول کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔
تقدیر ایک اہم ترین اور حساس مسئلہ ہے اس کی بھول بھلیوں میں بڑے بڑے دانشور اور اہل علم الجھ کر رہ گئے اور صراط مسقتیم سے بھٹک گئے ہیں لہذا تقدیر کے مسئلہ کی حقیقت اور ماہیت کو بھی سمجھنا ضروری ہے ، اس ضمن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیا ہر چیز تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور کیا دعا سے تقدیر بدل سکتی ہے ؟ ان تمام سوالات کے جوابات تفصیل سے دیے گئے ہیں جنھیں پڑھ کر انسان کیلئے مسئلہ تقدیر کو سمجھنا نہایت آسان ہو جاتا ہے ۔
جادو کی بعض اقسام ، قرآنی تعویذ ، غیر قرآنی تعویذ ، علم نجوم کی شرعی حیثیت ، بدفالی اور بدشگونی کی حقیقت جیسے اہم موضوعات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔ یوں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ توحید کے موضوع پر پیش نظر کتاب ایک منفرد کاوش ہے ۔
اس کتاب کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ اس میں علمی باریکیوں کی بجائے عام فہم اسلوب اختیار کیا گیا ہے ۔ یوں یہ کتاب اہل علم کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کیلئے بھی بے حد مفید ہے ۔
مصنف: صوفی شوکت رضا، قیمت:1200 روپے، صفحات:320
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور، کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور (03004140207)
صوفی شوکت رضا سرکار متعدد کتابوں کے مصنف ہیں ، انھوں نے تصوف، طب اور شاعری کے میدان میں بڑی خوبصورت تحریروں سے ادب کی خدمت کی ہے۔ تصوف ان کا خاص شعبہ ہے ۔ وہ زندگی کے ہر پہلو کو اسی پیمانے پر جانچتے اور پرکھتے ہیں ۔
ان کی تحریریں انسانی زندگی کے پوشیدہ پرت کھولتی ہیں ۔ معروف ادیب و ناشر عبدالمتین ملک کہتے ہیں '' روش کا لفظ ڈھنگ، طریقہ اور انداز کے معنی میں آتا ہے اور روشن کا لفظ چمکتا ہوا ، نورانی اور کشادہ کے معنی میں آتا ہے ۔
سو یہ ساری شاعری ایک نورانی انداز بیاں میں کی گئی ہے ۔ اس کے ایک ایک فقرہ میں قرآن و حدیث کی روح اور اسلام کی تاریخ مضمر ہے ۔ روش روشن میں ہر وہ علم و عمل ہے جس کی وابستگی انسان کے روزمرہ مسائل اور معاملات سے دوچار رہتی ہے ۔
اس کلام میں انسان کے بارے میں نصیحت و وصیت اور اس کی سرکشی کے تمام خدو خال کا بیان کیا گیا ہے ۔ یہ کلام اخلاقی تعلیمات کا سرچشمہ ہے ۔ آخر میں دعائیہ کلام اتنی عاجزی ، درد مندی اور فریاد سے ہے کہ پڑھتے پڑھتے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دعا کی قبولیت ہو گئی ہے ۔'' زیر تبصرہ کتاب میں موضوعات کے انتخاب میں حسن ترتیب کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو توحید سے شروع ہو کر دعا پر ختم ہوتا ہے ۔
بہت نازک موضوعات کو شاعرانہ رنگ میں بیان کیا گیا ہے ہے جو بہت ہی مشکل کام ہے مگر صوفی شوکت رضا تصوف اور روحانیت میں گہری دلچسپی رکھنے کی وجہ سے اسے بڑی خوبصورت آسان انداز سے بیان کرتے ہیں ۔ جیسے ' احوال قیامت' میں کہتے ہیں
جس دم ہو گا رونما محشر
یک دم ہو گا عیاں محشر
قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے
کل آدم ہو گا بیاں منظر
یہی وہ روز آخرت ہو گا
کہ مقدم ہو گا انتہا قدر
جزا سزا کا فیصلہ ہو گا
پھر عالم ہو گا بے زباں اسقدر
اسی انداز میں تمام موضوعات بیان کئے گئے ہیں ۔ یوں یہ کتاب شاعرانہ انداز میں فکر کی دعوت دیتے ہوئے فرد کی رہنمائی بھی کرتی ہے کہ اسے کس انداز سے زندگی گزارنی چاہیے۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گیا ہے ۔
خزینہ دانش
مصنف: نسیم طاہر ، قیمت:1000روپے، صفحات:256
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور(03004140207)
عقل و دانش اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جسے چاہے دیدے ، مگر آج کے جدید دور میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ کتابی علم کے حصول سے عقل و دانش حاصل ہوتی ہے ، حکیم لقمان جن کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے وہ غلام تھے مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی حکمت عطا کی تھی کہ بڑے علم و فن کے ماہر ان کے سامنے دست بستہ رہتے تھے ، یہ ضرور ہے کہ اکتسابی علم سے فنون میں مہارت حاصل ہوتی ہے ۔
معروف دانشور ، ادیب اشفاق احمد اپنے مرشد حضرت فضل شاہؒ نور والے کے سامنے دست بستہ رہتے تھے ان کی فکر میں جب بھی الجھاؤ پیدا ہوتا تو وہ اپنے مرشد کے پاس تشریف لے جاتے جو ان کی فکری گتھیوں کو سلجھاتے ، حالانکہ سلطان الحقیقت حضرت فضل شاہؒ نور والے اکتسابی علم سے بہرہ ور نہ تھے ، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں حکمت کے خزانے عطا کیے تھے ۔
خزینہ دانش بھی حکمت کے جواہر پاروں سے مزین ایک گلدستہ ہے جس کی خوشبو جسم و جان کو معطر کرتی ہے ۔ مصنف اس کتاب کے بارے میں کہتے ہیں '' عرصہ قبل مجھے ایک کتاب ملی جو ادب ، اخلاق ، تہذیب اور سماجی بہبود کے موضوعات پر مبنی تھی ۔ پھٹی پرانی اور شکستہ کتاب کے ابتدائی صفحات ندارد ، اس لیے مصنف کا نام نہ مل سکا ۔
یہ کتاب ایک خزانہ ہے ۔ اس میں برصغیر کی سماجی اور اخلاقی پرتوں کو تہہ در تہہ کھول کر رکھا گیا ہے ۔ انسانی خوبیوں اور کمزوریوں کو فرمودات ، حکایات اور کہانیوں کی صورت بیان کیا گیا ہے۔ مگر زبان بڑی مشکل تھی اس لیے میں اس کتاب کے کچھ حصوں میں پوشیدہ حکمت و دانش کو جدید تقاضوں میں ڈھال کر دوبارہ لکھا ، بالعموم اس کتاب کی فکری بالیدگی کو ملحوظ خاطر رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ جو اضافے ہیں وہ میری طرف سے ہیں ۔
کچھ واقعات، قصے کہانیاں اور کہے ان کہے تجربات جن سے میں اور میرے دوست گزرے وہ بھی سپرد تحریر ہیں ۔ حریت فکر ، تعلق باللہ کی تانگاں، شخصیات ، روزن تاریخ ، ایجادات ، عجائبات ، سیاحت اور دو واقعات کی ڈرامائی تشکیل بھی میری طرف سے ہیں ۔'' زیر تبصرہ کتاب میں حکمت کے ایسے راز بیان کئے گئے ہیں کہ قاری کی عقل دنگ رہ جاتی ہے جیسے 'نیک نامی' کے عنوان سے ایک حکایت ہے '' ایک بادشاہ کو کسی بزرگ کے اخلاق حسنہ کی خبر ہوئی ۔ وہ ان کے پاس حاضر ہوئے ۔
بزرگ نے بادشاہ کو ہزاروں برس نیک نامی سے جینے کی دعا دی ۔ بادشاہ نے جانا کہ بزرگ نے مبالغے سے کام لیا ہے۔ بولا '' دعا میں ایسا کلام مبالغہ شایان شان نہیں ۔'' بزرگ نے جواب دیا :''حیات بقائے بدن تک محدود نہیں ، بقائے نیک نامی ہزاروں برس بھی قائم و دائم رہ سکتی ہے۔'' پھر کہا :'' دیکھتے نہیں ہو ، شیر شاہ سوری نے صرف چار برس حکومت کی لیکن اتنے مختصر عرصے میں کیے گئے کاموں کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات میں زندہ ہے ۔'' مجلد کتاب کو دس ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ علم و معرفت کے راز جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ بہت مفید ہے اس لیے ضرور پڑھنی چاہیے ۔
میرے وقتوں کا امرتسر اور لاہور
مصنف : منیر احمد منیر، قیمت : 1500روپے، صفحات: 464
ناشر:آتش فشاں، 78 ستلج بلاک ، علامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور(03334332920)
لاہور اور امرتسر برصغیر کے تاریخی شہر ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ تہذیب و ثقافت کے مرکز ہیں تو غلط نہ ہو گا ۔ دونوں شہروں کی خوبی ہے کہ یہاں جو بھی آیا پھر اس کا من انھی شہروں میں لگ گیا ، درجنوں مشہور شخصیات ہیں جنھوں نے ان شہروں سے محبت کو ایسے بیان کیا ہے جیسے وہ اپنی کسی محبوبہ کا ذکر کر رہے ہوں ۔
منیر احمد منیر ایسے تاریخی مشاہدات کو بیان کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں ۔ واقعات کی تحقیق تو یوں کرتے ہیں کہ جیسے یہ ان کے لیے کوئی من چاہا شوق ہے اور وہ اپنے اس شوق کے ہاتھوں یوں مجبور ہیں کہ اسے کئے بغیر رہ نہیں سکتے ہیں اور پھر بال کی کھال اتار کر رکھ دیتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب بھی لاہور اور امرتسر کے حوالے سے تاریخی انکشافات کا ایک پٹارا ہے ۔
ایک واقعہ کی حقیقت جان کر قاری حیران ہو رہا ہوتا ہے تو آگے کوئی اور واقعہ اسے مزید حیران کر دیتا ہے ، اس پر مصنف کی تحریر کی چاشنی ، قاری اس میں لت پت ہو جاتا ہے ۔ جیسے مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان سے پہلے گنگا رام ہسپتال میں مسلمان مریض کا داخلہ ممنوع تھا ۔ سرگنگا رام کے قائم کردہ دیگر ادارے بھی ہندوانہ تعصب سے اٹا اٹ تھے۔ بھگت سنگھ انقلابی قطعاً نہ تھا ۔ وہ اسلام دشمن شیوا جی اور گورو گوبند سنگھ سے متاثر تھا ۔
بھارت بڑی چالاکی سے بھگت سنگھ کو پاکستان کا بھی ہیرو قرار دلوا رہا ہے ۔ علامہ مشرقی زبردست کنجوس تھے اور جلسہ عام میں مسلم لیگ کو ننگی گالیاں دیتے تھے ۔ امرتسر کی ممتاز باؤلے والی کے حسن نے ہندوستان اور انگلستان بھر میں ہلچل مچا دی ۔ صوفی کلچا ، پریم ناتھ کا بن مکھن ، ساگر ہوٹل کی آئس کریم اور ہیرامنڈی کے رس گلے لاہور بھر میں مشہور تھے ۔
الغرض زیر تبصرہ کتاب میں لاہور اور امرتسر کے سو سالہ سیاسی ، ثقافتی ، فلمی اور حسن و جمال کے اتار چڑھاؤ کے آنکھوں دیکھے دلچسپ اور تاریخی حقائق بیان کئے گئے ہیں ۔ ڈاکٹر احمد حسن کے طویل انٹرویو کے علاوہ محمد حنیف آف بے نظیر سموسہ ، آصف حسین ایڈووکیٹ ، انور خلیل شیخ ، کرنل سید امجد حسین، گرافک آرٹسٹ عبدالسلیم اور پروفیسر محمد جمیل خاں کے انٹرویو بھی شامل ہیں ۔ انتہائی شاندار کتاب ہے ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ بہت سے ڈھکے چھپے حقائق سے آگاہی حاصل ہو ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
پابلونرودا کی شاعری
مترجم: بشیر احمد شاد، قیمت:600 روپے، صفحات:80
ناشر: بک ہوم، 46 مزنگ روڈ،لاہور (03014208780)
شاعری خیالات کے اظہار کا خوبصورت انداز ہے ۔ بالخصوص اشاریوں کنایوں میں شاعر وہ کچھ کہہ جاتا ہے جو کسی اور طرح سے شاید ممکن نہ ہو، اور شعر کی خوبصورتی دل کو چھو لیتی ہے۔ کس کو پتہ تھا کہ چھوٹے سے شہر پارال میں ایک معمولی ریلوے کارکن کے ہاں پیدا ہونے والا بچہ آنے والے وقت میں اپنی شاعری سے چار دانگ عالم مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دے گا ۔
پابلو نرودا کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ان کی شاعری متعدد زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے بلکہ ایک ہی زبان میں بھی کئی مرتبہ ترجمہ ہوئی ہے ۔
بشیر احمد شاد کہتے ہیں کہ ایمرسن کی طرح پابلو نرودا نے بینائی سے محروم چیزوں کو آنکھیں عطا کی ہیں اور قوت گویائی سے محروم چیزوں کو زبان ، گویا اس کی شاعری میں نابینا دیکھ سکتے ہیں اور گونگے بول سکتے ہیں ۔ جس طرح لائنکیاس ہمیں کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا عکس ایک آئینے میں دکھاتا ہے ۔
اسی طرح نرودا بھی ایسی شاعری پر یقین رکھتے ہیں جس میں خاموشی کے طلسم کو جنگل اور اس میں بکھری چیزیں توڑ رہی ہوتی ہیں ۔ پتھر اور سمندر ایک ہی وقت میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ محض فطرت کا شاعر ہی نہیں ہے اس سے بھی ماورا بہت کچھ ہے۔
ہسپانوی امریکن شاعری میں کائنات کے اسرار و رموز پرنگاہ رکھنے کا نرودا کا اپنا ایک ڈھنگ ہے جو اسے اپنے ہم عصروں میں ممتاز اور نمایاں کرتا ہے ۔ وہ نہ صرف عوام کا شاعر ہے بلکہ خلاؤں اور فضاؤں کا بھی ۔
تمھارا چمکتا ہوا شفاف سینہ
جس پر باد صبا نے ملمع کاری کی ہے
ایسے ہے جیسے تکونی چٹان
لامحدود چمکیلے پتھر سے بنی
یہ دھرتی جس نے ابھی سانس بھی نہیں لیا
تنہا تنہا گرد اور غربت سے کوسوں دور
نرودا کی شاعری کے بے شمار روپ ہیں ، اس کی شاعری کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا ایک مشکل کام ہے ۔ اس کا فن اس کی زندگی کی طرح مختلف مراحل سے گزرا اور بالآخر اسے ادب کے افق پر درخشندہ ستارے کی طرح رہتی دنیا تک روشن کر گیا۔
شاہد پرویز جامی کہتے ہیں '' زیر نظر کتاب چلی کے ترقی پسند نوبل انعام یافتہ شاعر پابلونرودا کی نظموں پر مشتمل ہے ۔کسی بھی بڑے شاعر کے کلام کا ترجمہ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔اس سے قبل بہت سے لکھاریوں نے نرودا کی نظموں کے تراجم کیے ہیں جن میں پروفیسر عبدالقیوم صاحب کا انتخاب '' میرے منہ سے بولو'' قابل ستائش ہے۔
میرے خیال میں بشیر شاد کی یہ کاوش بائیں بازو کے انقلابی شاعر سے محبت کا خوبصورت اظہار ہے۔'' مترجم شاعری کی دو کتابوں ' دھوپ اور سائے' اور ' چپ دی واج' کے مصنف ہیں ۔ انھوں نے پورے دل و جان کے ساتھ ادب کی خدمت کی ہے ۔ مجلد کتاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گئی ہے ۔
توحید کی آواز
مصنف : مولانا عثمان منیب،حافظ محمد اقبال ، صفحات: 328
ناشر: دارالسلام انٹر نیشنل، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لوئر مال، لاہور
برائے رابطہ : 042-37324034
انسان کی تخلیق فطرت توحید پر ہوئی ہے اس لیے اسے سمجھنا ہر انسان کے لیے نہایت ضروری اور آسان ہے لیکن افسوس کہ توحید کی دعوت جس قدر عام فہم اور عقل و شعور رکھنے والوں کو اپیل کرتی ہے کچھ لوگوں نے آج اسے اتنا ہی مشکل بنا دیا ہے ۔
جس توحید کے تصور کو نمایاں کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتھک محنت کی اور قرآن مجید کی سینکڑوں آیات اور امثال کے ذریعے اس کے درست مفہوم کو سمجھانے کی کوشش کی وہ تصور آج فلاسفہ کی موشگافیوں کی نذر ہو چکا ہے یعنی توحید کی صاف ستھری دعوت کو چھوڑ کر ہم ا نہی پہیلیوں میں سرگرداں ہو گئے ہیں۔
جن سے نکالنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے ۔ توحید کے حقیقی تصور کو اجاگر کرنے کے لیے دارالسلام نے ایک جامع کتاب '' توحید کی آواز '' ترتیب دی ہے جو درج ذیل خصوصیات کی حامل ہے:
اس کی زبان سادہ اور عام فہم ہے ۔ علمی مباحث کو عوام الناس کے لیے آسان انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ ذات باری تعالی کے حوالے سے مذاہب عالم کے تصورات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان میں پائے جانے والے توحید کے تصور کی حقیقت آشکارا کی گئی ہے ۔
توحید کی اقسام بیان کر کے ان میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی وضاحت کی گئی ہے ۔ شرک اور اس کے مظاہر کا مدلل رد کیا گیا ہے نیز دور حاضر کے حساس مسئلے یعنی مسئلہ تکفیر کی مکمل وضاحت کرتے ہوئے اس کے اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی گئی ہے ، یوں ان اہم اور مفید مباحث پر مشتمل یہ کتاب علماء طلباء اور عوام کے لیے توشہ علم اور رشد و ہدایت کا ذریعہ ہے ۔
کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نزول قرآن کے وقت ذات باری تعالی کے بارے میں اس وقت کے مذاہب اور اقوام میں کیا تصور پایا جاتا تھا مثلاََ چینی تہذیب میں ذات باری تعالیٰ کا کیا تصور تھا ۔ اسی طرح ہندوستانی ، شمنی ، ایرانی ، مجوسی ، یہودی، عیسائی ، یونانی ، مشرکین مکہ اور اہل عرب کے ہاں ذات باری تعالیٰ کے بارے میں کیا تصور پایا جاتا تھا ۔
یہ تمام تصورات بیان کرنے کے بعد بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید نے توحید کا کیا تصور اور سبق دیا ہے ۔ کتاب میں معرفت باری تعالیٰ کے عقلی اور نقلی دلائل بیان کیے گئے ہیں جو دل کو چھوتے اور عقل کو جھنجھوڑتے ہیں ۔ توحید کے لغوی و اصطلاحی معنی ، توحید کی حقیقت واہمیت توحید کی فضیلت ، توحید کی اقسام ، صفات باری تعالیٰ کے بارے میں ائمہ اسلاف کے اقوال کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔
کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ توحید باری تعالی ہی تمام عبادات کی بنیاد ہے توحید اور مسئلہ تکفیر پر بھی بحث کی گئی ہے ، صحیح عقیدہ توحید کے حصول کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے ۔ قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں شرعی اور غیر شرعی وسیلہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔ مسلمانوں پر مختلف تہذیبوں کے اثرات کو زیر بحث لاتے ہوئے فلسفہ وحدت الوجود ، وحدت الشہود اور حلول کے بارے میں بتایا گیا ہے ۔
تقدیر ایک اہم ترین اور حساس مسئلہ ہے اس کی بھول بھلیوں میں بڑے بڑے دانشور اور اہل علم الجھ کر رہ گئے اور صراط مسقتیم سے بھٹک گئے ہیں لہذا تقدیر کے مسئلہ کی حقیقت اور ماہیت کو بھی سمجھنا ضروری ہے ، اس ضمن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کیا ہر چیز تقدیر میں لکھی ہوئی ہے اور کیا دعا سے تقدیر بدل سکتی ہے ؟ ان تمام سوالات کے جوابات تفصیل سے دیے گئے ہیں جنھیں پڑھ کر انسان کیلئے مسئلہ تقدیر کو سمجھنا نہایت آسان ہو جاتا ہے ۔
جادو کی بعض اقسام ، قرآنی تعویذ ، غیر قرآنی تعویذ ، علم نجوم کی شرعی حیثیت ، بدفالی اور بدشگونی کی حقیقت جیسے اہم موضوعات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔ یوں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ توحید کے موضوع پر پیش نظر کتاب ایک منفرد کاوش ہے ۔
اس کتاب کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ اس میں علمی باریکیوں کی بجائے عام فہم اسلوب اختیار کیا گیا ہے ۔ یوں یہ کتاب اہل علم کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کیلئے بھی بے حد مفید ہے ۔