انٹر بورڈ امتحانی پرچہ لے جانے والے اساتذہ کی نگرانی کا فیصلہ واپس

سال اول میں فیل طلبہ کی شکایات/ اعلی سطح کمیٹی کے بجائے صرف اسکروٹنی سے امیدیں انتہائی کم ہیں

—فائل فوٹو

انٹر بورڈ کراچی کا اضافی چارج سنبھالنے والے کمشنر کراچی سہیل راجپوت نے اپنی ناتجربہ کاری کے سبب سی سی اووز کی نگرانی بورڈ ملازمین کے سپرد کیے گئے فیصلے کو بالآخر واپس لے لیا ہے اور اس سلسلے می ایک آفس آرڈر جاری کرتے ہوئے اس سلسلے میں 12 جنوری کا دفتری حکم نامہ منسوخ کردیا ہے۔

دوسری جانب انٹر سال اول کے نتائج میں بے پناہ شکایات اور بڑی تعداد میں طلبہ کے فیل ہوجانے پر صرف اسکروٹنی کا اعلان کیا گیا ہے معاملے پر کوئی اعلی سطح کمیٹی بنائی گئی ہے نہ کسی قسم کی انکوائری شروع کی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ یہ اسکروٹنی قوائد کے مطابق روایتی طور پر ہر سال ہی کی جاتی ہے اور اس میں طلبہ کی شکایات کے ازالے کی گنجائش موجود نہیں ہوتی۔ تفصیلات کے مطابق انٹر بورڈ کراچی میں کمشنر کراچی کی زیر صدارت دو مختلف اجلاس منعقد ہوئے ان اجلاسوں میں پیر سے شروع ہونے والے انٹر کے ضمنی امتحانات کی تیاری کے ساتھ ساتھ امتحانی پرچے لے جانے والے اساتذہ /سی سی اووز کی نگرانی اور انٹر سال اول کی مختلف فیکلٹیز میں طلباء و طالبات کے فیل ہوجانے کے معاملے کا جائزہ بھی لیا گیا۔

اجلاس میں گفت و شنید کے بعد کمشنر کراچی پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ امتحانی پرچے لے جانے کے مرحلے میں سی سی اووز کے ساتھ بورڈ ملازمین کو شامل کرنے یا بورڈ ملازمین کے ذریعے سی سی اووز کی ویجلنس کا کوئی قانون موجود ہے اور نہ رولز میں اس کی گنجائش ہے جس کے بعد اس فیصلے کو واپس لیتے ہوئے ایک نیا آفس آرڈر جاری کیا گیا ہے۔


اس میں بتایا گیا ہے کہ فیصلے کے تحت ضمنی امتحانات گزشتہ برسوں کی طرز پر ہی ہوں گے جس میں ہر امتحانی مراکز پر ایک ہی سینٹر کنٹرول آفیسر ہوگا 12 جنوری کو جاری آفس آرڈر 600/2024 منسوخ کردیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اس اجلاس کے بعد انٹر بورڈ کراچی کی جانب سے ایک پریس اعلامیہ بھی جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ انٹر سال اول پری میڈیکل،پری انجینیئرنگ،سائنس جنرل ،ہوم اکنامکس اور خصوصی امیدواروں کے سالانہ امتحانات 2023 کے نتائج میں طلبہ کی شکایات اور تحفظات کا نوٹس لیا گیا ہے۔

اعلامیہ کے مطابق اسکروٹنی کے عمل کے ذریعے طلبہ کی شکایات کا ازالہ کیا جائے گا جس کے لیے 17 جنوری سے بورڈ میں اسکروٹنی فارم جمع ہونگے۔ یہاں قابل توجہ امر یہ ہے کہ تعلیمی بورڈز کے رولز کے تحت متاثرہ طالب علم کو اس کی امتحانی کاپی نہیں دکھائی جاتی بلکہ صرف اسکروٹنی کے نتیجے سے آگاہ کردیا جاتا ہے مزید براں اسکروٹنی میں محض جوابی کاپی پر طالب علم کے لکھے گئے جواب پر دیے گئے مارکس کی "ری ٹوٹلننگ" ہوتی ہے یا اگر کوئی جواب اسسمنٹ سے رہ جائے تو اسے assess کروایا جاتا ہے تاہم ممتحن/استاد نے سوال و جواب کی جانچ کس معیار پر کی ہے اور دیے گئے مارکس درست ہیں یا یا مطلوبہ معیار سے کم ہیں اس کی اسسمنٹ نہیں ہوتی کیونکہ اس کا قانون ہی موجود نہیں جس کے سبب امکان ہے کہ اسکروٹنی کے نتیجے میں بھی کمشنر کراچی انٹر سال اول کے طلبہ کی شکایات یا تحفظات کا ازالہ نہیں کرسکیں گے۔

کراچی کے ایک کالج پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "ان کی امتحانی کاپیاں جانچنے والے کئی اساتذہ سے بات چیت ہوئی ہے ان اساتذہ نے خوف کے عالم میں کاپیوں کی جانچ کی ہے کیونکہ بورڈ میں پہلے سے 2022 کے نتائج کی انکوائری چل رہی تھی لہذا کئی اساتذہ کی رائے تھی کہ کاپیوں کی جانچ کے دوران مارکس ہاتھ روک کر دیے جائیں اور امکان ہے کہ ایسی صورت میں بڑی تعداد میں طلبہ کی حق تلفی ہوگئی ہے۔

پرنسپل نے سوال کیا کہ اگر اساتذہ نے کاپیاں جانچنے میں بے جا سختی سے کام لیا ہے تو اب اس کا ازالہ کمشنر کیسے کرسکتے ہیں اس کے لیے تو سبجیکٹ اسپیشلسٹ پر مشتمل ایک اعلی سطح کی کمیٹی بنی چاہئے جس میں وہ اساتذہ ہی شامل نہ ہوں جنھوں نے کاپیوں کی جانچ کی ہے " یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کاپیوں کی اس سر نو جانچ کے دوران اساتذہ کی غلطیاں سامنے آتی ہیں تو کیا ان اساتذہ کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوسکے گی واضح رہے کہ اگر انٹر سال اول کے یہی نتائج باقی prevail رہے تو انٹر سال دوئم میں طلبہ کے نتائج کا تناسب انتہائی کم رہنے کا خدشہ ہے جس کے سبب جامعات میں 2025 کے بیچ کے لیے داخلہ لینے والے طلبہ کا میرٹ بھی گر سکتا ہے۔
Load Next Story