دہشت گردی اور غیر قانونی تجارت
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کی شرح غیرمعمولی حد تک بڑھ گئی
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز نے آپریشنز کے دوران سات دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا، جب کہ پانچ فوجی جوان شہید ہوگئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق مسلح افواج قوم کے ساتھ مل کر امن، استحکام کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر تجارت نے کہا ہے کہ 160روپے میں ملنے والا ڈالر تاجروں کی وجہ سے 320روپے تک پہنچا تھا، افغان ٹرانزٹ کے ذریعے اسمگلنگ میں تاجر ملوث ہیں، چین سے بائیس ارب ڈالرکی امپورٹ کرکے مقامی تاجروں نے اسے بارہ ارب ڈالرکا ظاہرکیا، ہمارے تاجر بڑے پیمانے پر انڈر انوائسنگ میں ملوث ہیں۔
پاکستان جدید ہتھیاروں سے لیس اور تربیت یافتہ دہشت گرد جو کارروائیاں کرتے ہیں، عوام ان سے آگاہ ہیں،پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ان ہتھیار بند دہشت گردوں سے لڑ رہی ہیں، پاکستان اس لڑائی میں ہزاروں شہادتیں دے چکا ہے جب کہ دہشت گردوں کو بھی جہنم واصل کیا ہے لیکن ایک دہشت گردی کی ایک اور قسم بھی ہے، جسے معاشی دہشت گردی کہا جاتا ہے، معاشی دہشت گردی ہتھیار بند دہشت گردی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔پاکستان برسوں سے ان دونوں قسم کی دہشت گردی کا شکار ہے۔
افغان طالبان حکومت کے قیام کے بعد صورتحال سنگین ترین ہوچکی ہے،کیونکہ ہتھیار بند دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں موجود ہیں، اور افغان حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ پاک افغان سرحد ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ہے، پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس سرحد پر دوستانہ ماحول نہیں رہا۔ ناہموار سرحد کی وجہ سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ اس سرحد سے غیرقانونی تجارت، آمدورفت اور اسمگلنگ عروج پر رہتی ہے۔
پاکستان کی ضیاء حکومت اور اس کے بعد ضیاء باقیات کی حکومت نے افغان مہاجرین کو پورے ملک میں ہر جگہ آنے جانے اور کاروبار کرنے کی کھلی آزادی دیے رکھی۔ 2017 میں پاکستان نے غیرقانونی تجارت اور دہشت گردی کے سدباب کے لیے پاک افغان سرحد پر پچاس کروڑ ڈالرز سے سیکیورٹی باڑ لگائی۔ یہ باڑ پاکستان کے ایریا میں لگائی ہے لیکن افغانستان نے اس باڑ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی،2021 میں امریکی فورسزکے انخلا کے بعد کابل میں طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی، تو اس وقت کی پاکستانی حکومت اور ایک مخصوص طبقے خوشی کا اظہارکیا ، پاکستان میں یہ پراپگینڈا کیا گیا کہ امریکا شکست کھا کر بھاگ گیا، طالبان فتح یاب ہوگئے۔ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں، افغانستان پر پاکستان کے ہمدردوں کا اقتدار قائم ہوگیا ہے، اب افغانستان میں میں دہشت گردوں کے اڈے ختم ہوجائیں، لیکن یہ سب کچھ شخ چلی کا خواب ثابت ہوا۔افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل مختلف طالبان دھڑوں کے الگ الگ مفادات اور سوچ کھل کر سامنے آگئی۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کی شرح غیرمعمولی حد تک بڑھ گئی، ٹی ٹی پی کی زیر زمین قیادت منظر عام پر آگئی اور افغانستان میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے لگی۔انھی خطرات کو مدنظر رکھ کر پاکستان نے حالیہ چند ماہ کے دوران ایک دستاویزی نظام کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کراسنگ کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
نئی بارڈرکراسنگ پالیسی کے نفاذ کے بعد چمن میں بارڈر حکام نے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر دونوں جانب سے کسی کو بھی پاک افغان سرحد عبورکرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، یعنی پاسپورٹ اور ویزے کے بغیرکسی کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔پاکستان ایسے قوانین بنانے اور انھیں نافذ کرنے کا پورا حق رکھتا ہے۔
اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ شمال مغربی سرحد نرم ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، لہٰذا پاکستان کی قومی سلامتی اور معاشی سلامتی کے لیے شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت وقت کا اہم ترین تقاضا اور ضرورت ہے۔
بلوچستان میں ایرانی پیٹرول، ڈیزل اور دیگر سامان کی اسمگلنگ کا حجم کئی ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکا ہے ، پاک افغان سرحد پاکستان کے لیے دو دھاری تلوار بن گئی ہے۔افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں ، ہزاروں کی تعداد میں لوگ بلا روک ٹوک اور بغیر کسی ٹھوس قانونی دستاویز سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں،پاکستان کے اسپتالوں میں علاج کراتے ہیں۔
پاکستان کا انفرا اسٹرکچر استعمال کرتے ہیں، اسمگلنگ کا مال فروخت کرتے ہیں، ریاست پاکستان نے اپنے شہریوں کے لیے جو سہولیات دے رکھی ہیں، انھیں استعمال کرتے ہیں، اربوں روپے کماتے ہیں، لیکن پاکستان کو کوئی ٹیکس نہیں دیتے، ان کی وجہ سے پاکستان میں کالے دھن کی معیشت کا حجم غیر معمولی طور پر بڑھ گیا ہے، پاکستان میں موجود ایک بااثر اور طاقتور طبقے کے مالی مفادات بھی ان کے ساتھ وابستہ ہوچکے ہیں۔
یہ طبقہ پاکستان کے سسٹم کو کرپٹ کرنے میں کامیاب ہوکر آئین اور قانون کو توڑ رہا ہے۔شمال مغربی سرحد سے ملحق پاکستانی علاقوں کو اسمگلنگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اسلحہ، منشیات، ،استعمال شدہ گاڑیاں، ٹائرز، تعمیراتی فنشڈ گڈز ، پٹرولیم مصنوعات ، انسانی اسمگلنگ ،سمیت کئی غیر قانونی کاروبار دہائیوں سے جاری ہیں لیکن اب صورتحال پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں ایک طرف شدت پسند اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب اسحلہ ڈیلرز، ڈرگ مافیا سرگرم عمل ہیں۔
ڈیزل اور پٹرول بلا کسی روک ٹوک فروخت ہوتا ہے۔ جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو۔ انھی وجوہات کی بنا پر پاکستان نے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو ریگولرائزڈ کرنے کے اقدامات کرہی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق تجارتی قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی وجہ سے کراچی بندرگاہ پر افغانستان جانے والے کنٹینرزکی ترسیل متاثر ہوئی ہے کیونکہ پاکستانی حکام اس تجارت پر قانون کے مطابق ٹیکس اور ڈیوٹی کی ادائیگی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ قومی خزانے کو اس تجارت سے ٹیکسوں کی مد میں لاکھوں ڈالرکا نقصان ہوتا ہے، کیونکہ اس کی بندرگاہوں سے ڈیوٹی فری سامان افغانستان کو بھیجا جاتا ہے لیکن اسے سرحد پار کرکے دوبارہ پاکستان میں اسمگل کردیا جاتا ہے۔ یوں پاکستان کو بھاری ریونیو سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔چونکہ اب قانون پر عملدرآمد ہورہاہے، اس لیے افغانستان کے تاجرحضرات مزاحمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔
خیبر پختونخوا کی ٹرائبل بیلٹ، سوات، بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بھرمار ہے۔ لوگ اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلز پر نمبر پیلٹ تک لگاتے، اس سے وفاق اور صوبوں کو بھاری مالی نقصان نقصان پہنچ رہا ہے، وفاق کو کسٹمزاورٹیرف کی مد میں جب کہ صوبائی حکومتوں کا ایکسائز ریونیو متاثر ہورہا ہے۔
حقیقت ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی اور عوام کو جمہوری ثمرات کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ غیر قانونی تجارت بھی ہے جو برس ہا برس سے پاکستان کی قانونی معیشت کے سامنے ایک عفریت کی صورت کھڑی ہے، سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی سلامتی کے لیے سرحدیں محفوظ رہیں توکسی کو دراندازی کی جرات نہیں ہوگی۔نان کسٹم پیڈگاڑیاں پاکستان میں کون لاتا ہے، یہ راز نہیں رہا ہے، پاکستان سے چینی، گندم، مسالحہ جات، الائچی، تک غیرقانونی تجارت کے ذریعے افغانستان تک جاتا ہے حتی کہ ازبکستان اور تاجکستان تک میں فروخت ہورہا ہے۔
شمال مغربی سرحد سے اس غیر مرئی تجارتی میکنزم کے اثرات ہولناکی کی ایک تاریخ رکھتے ہیں، اسمگلنگ chain کے کارندے مصروف ترین مارکیٹوں اور بازاروں میں ہزارہا اقسام اور برانڈ کی اشیاء لا اور لے جارہے ہیں، اس کا نیٹ ورک ، دکھائی نہیں دیتا ، کروڑوں اربوں کا کاروبار اسی غیر قانونی تجارت کے نام پر ہوتا ہے۔
جس کے بہروپ دھارے کارندے لیگل بزنس اور قانونی کاروباری کارٹیل کے متوازی تجارت کرتے ہوئے ملک کے طول وعرض میں قانونی معاشی اور تجارتی سرگرمیوں پر مبنی معیشت کو مفلوج کرنے کا ہر وہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جن سے ملکی معیشت اور کاروبار کے مفادات پر زد پڑتی ہے اور ان پارٹیوں کا سرمایہ بیرون ملک بھی منتقل ہوتا ہے۔
غیر قانونی تجارت پر قدغن ناگزیر ہے۔ملک کے بڑے شہروں میں اسمگل شدہ مال دھڑلے سے فروخت ہوتا ہے ، غیرقانونی تجارت کے ذریعے ناقص اور غیرمیعاری پلاسٹک گڈز، الیکٹرانک سامان کے انبار لگائے گئے ہیں، کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں چھوٹی بڑی مارکیٹوں اور شاپنگ مالز تک غیر معیاری پروڈ کٹس سے بھری ہوئی ہیں، دستی گھڑی سے جوگر تک مل جاتے ہیں لیکن کہیں بھی کوالٹی کنٹرول نہیں ہے، دھڑلے سے انٹرنیشنل برانڈز کی ناقص نقل فروخت کی جارہی ہیں۔
یہاں راکھ کو بھی آنکھوں کے لیے سرمہ بناکر بیچنے والے تاجروں اور ان غیر معیاری اشیاء کو ملک میں پہنچانے والے سرکاری عمال کی کمی نہیں، منشیات اور اسلحہ کی غیر قانونی تجارت بھی اسی روٹ سے ہوتی ہے، چونکہ خطے میں سیاسی صورتحال غیر یقینی ہے، ملک کے پالیسی سازوں کو اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق مسلح افواج قوم کے ساتھ مل کر امن، استحکام کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
دوسری جانب وفاقی وزیر تجارت نے کہا ہے کہ 160روپے میں ملنے والا ڈالر تاجروں کی وجہ سے 320روپے تک پہنچا تھا، افغان ٹرانزٹ کے ذریعے اسمگلنگ میں تاجر ملوث ہیں، چین سے بائیس ارب ڈالرکی امپورٹ کرکے مقامی تاجروں نے اسے بارہ ارب ڈالرکا ظاہرکیا، ہمارے تاجر بڑے پیمانے پر انڈر انوائسنگ میں ملوث ہیں۔
پاکستان جدید ہتھیاروں سے لیس اور تربیت یافتہ دہشت گرد جو کارروائیاں کرتے ہیں، عوام ان سے آگاہ ہیں،پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ان ہتھیار بند دہشت گردوں سے لڑ رہی ہیں، پاکستان اس لڑائی میں ہزاروں شہادتیں دے چکا ہے جب کہ دہشت گردوں کو بھی جہنم واصل کیا ہے لیکن ایک دہشت گردی کی ایک اور قسم بھی ہے، جسے معاشی دہشت گردی کہا جاتا ہے، معاشی دہشت گردی ہتھیار بند دہشت گردی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔پاکستان برسوں سے ان دونوں قسم کی دہشت گردی کا شکار ہے۔
افغان طالبان حکومت کے قیام کے بعد صورتحال سنگین ترین ہوچکی ہے،کیونکہ ہتھیار بند دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں افغانستان میں موجود ہیں، اور افغان حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ پاک افغان سرحد ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ہے، پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود اس سرحد پر دوستانہ ماحول نہیں رہا۔ ناہموار سرحد کی وجہ سے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ اس سرحد سے غیرقانونی تجارت، آمدورفت اور اسمگلنگ عروج پر رہتی ہے۔
پاکستان کی ضیاء حکومت اور اس کے بعد ضیاء باقیات کی حکومت نے افغان مہاجرین کو پورے ملک میں ہر جگہ آنے جانے اور کاروبار کرنے کی کھلی آزادی دیے رکھی۔ 2017 میں پاکستان نے غیرقانونی تجارت اور دہشت گردی کے سدباب کے لیے پاک افغان سرحد پر پچاس کروڑ ڈالرز سے سیکیورٹی باڑ لگائی۔ یہ باڑ پاکستان کے ایریا میں لگائی ہے لیکن افغانستان نے اس باڑ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی،2021 میں امریکی فورسزکے انخلا کے بعد کابل میں طالبان کی حکومت دوبارہ قائم ہوئی، تو اس وقت کی پاکستانی حکومت اور ایک مخصوص طبقے خوشی کا اظہارکیا ، پاکستان میں یہ پراپگینڈا کیا گیا کہ امریکا شکست کھا کر بھاگ گیا، طالبان فتح یاب ہوگئے۔ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں، افغانستان پر پاکستان کے ہمدردوں کا اقتدار قائم ہوگیا ہے، اب افغانستان میں میں دہشت گردوں کے اڈے ختم ہوجائیں، لیکن یہ سب کچھ شخ چلی کا خواب ثابت ہوا۔افغانستان کی عبوری حکومت میں شامل مختلف طالبان دھڑوں کے الگ الگ مفادات اور سوچ کھل کر سامنے آگئی۔
پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کی شرح غیرمعمولی حد تک بڑھ گئی، ٹی ٹی پی کی زیر زمین قیادت منظر عام پر آگئی اور افغانستان میں آزادانہ نقل و حرکت کرنے لگی۔انھی خطرات کو مدنظر رکھ کر پاکستان نے حالیہ چند ماہ کے دوران ایک دستاویزی نظام کے ذریعے پاکستان اور افغانستان کے درمیان کراسنگ کو ریگولرائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
نئی بارڈرکراسنگ پالیسی کے نفاذ کے بعد چمن میں بارڈر حکام نے پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر دونوں جانب سے کسی کو بھی پاک افغان سرحد عبورکرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے، یعنی پاسپورٹ اور ویزے کے بغیرکسی کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔پاکستان ایسے قوانین بنانے اور انھیں نافذ کرنے کا پورا حق رکھتا ہے۔
اس پر کسی کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ شمال مغربی سرحد نرم ہونے کی وجہ سے پاکستان کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، لہٰذا پاکستان کی قومی سلامتی اور معاشی سلامتی کے لیے شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت وقت کا اہم ترین تقاضا اور ضرورت ہے۔
بلوچستان میں ایرانی پیٹرول، ڈیزل اور دیگر سامان کی اسمگلنگ کا حجم کئی ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکا ہے ، پاک افغان سرحد پاکستان کے لیے دو دھاری تلوار بن گئی ہے۔افغانستان سے روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں ، ہزاروں کی تعداد میں لوگ بلا روک ٹوک اور بغیر کسی ٹھوس قانونی دستاویز سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں،پاکستان کے اسپتالوں میں علاج کراتے ہیں۔
پاکستان کا انفرا اسٹرکچر استعمال کرتے ہیں، اسمگلنگ کا مال فروخت کرتے ہیں، ریاست پاکستان نے اپنے شہریوں کے لیے جو سہولیات دے رکھی ہیں، انھیں استعمال کرتے ہیں، اربوں روپے کماتے ہیں، لیکن پاکستان کو کوئی ٹیکس نہیں دیتے، ان کی وجہ سے پاکستان میں کالے دھن کی معیشت کا حجم غیر معمولی طور پر بڑھ گیا ہے، پاکستان میں موجود ایک بااثر اور طاقتور طبقے کے مالی مفادات بھی ان کے ساتھ وابستہ ہوچکے ہیں۔
یہ طبقہ پاکستان کے سسٹم کو کرپٹ کرنے میں کامیاب ہوکر آئین اور قانون کو توڑ رہا ہے۔شمال مغربی سرحد سے ملحق پاکستانی علاقوں کو اسمگلنگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں اسلحہ، منشیات، ،استعمال شدہ گاڑیاں، ٹائرز، تعمیراتی فنشڈ گڈز ، پٹرولیم مصنوعات ، انسانی اسمگلنگ ،سمیت کئی غیر قانونی کاروبار دہائیوں سے جاری ہیں لیکن اب صورتحال پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں ایک طرف شدت پسند اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں تو دوسری جانب اسحلہ ڈیلرز، ڈرگ مافیا سرگرم عمل ہیں۔
ڈیزل اور پٹرول بلا کسی روک ٹوک فروخت ہوتا ہے۔ جیسے یہ کوئی معمولی بات ہو۔ انھی وجوہات کی بنا پر پاکستان نے پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو ریگولرائزڈ کرنے کے اقدامات کرہی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق تجارتی قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی وجہ سے کراچی بندرگاہ پر افغانستان جانے والے کنٹینرزکی ترسیل متاثر ہوئی ہے کیونکہ پاکستانی حکام اس تجارت پر قانون کے مطابق ٹیکس اور ڈیوٹی کی ادائیگی کا مطالبہ کررہے ہیں۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ قومی خزانے کو اس تجارت سے ٹیکسوں کی مد میں لاکھوں ڈالرکا نقصان ہوتا ہے، کیونکہ اس کی بندرگاہوں سے ڈیوٹی فری سامان افغانستان کو بھیجا جاتا ہے لیکن اسے سرحد پار کرکے دوبارہ پاکستان میں اسمگل کردیا جاتا ہے۔ یوں پاکستان کو بھاری ریونیو سے محروم ہونا پڑ رہا ہے۔چونکہ اب قانون پر عملدرآمد ہورہاہے، اس لیے افغانستان کے تاجرحضرات مزاحمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے۔
خیبر پختونخوا کی ٹرائبل بیلٹ، سوات، بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی بھرمار ہے۔ لوگ اپنی گاڑیوں اور موٹر سائیکلز پر نمبر پیلٹ تک لگاتے، اس سے وفاق اور صوبوں کو بھاری مالی نقصان نقصان پہنچ رہا ہے، وفاق کو کسٹمزاورٹیرف کی مد میں جب کہ صوبائی حکومتوں کا ایکسائز ریونیو متاثر ہورہا ہے۔
حقیقت ہے کہ ملک کی اقتصادی ترقی اور عوام کو جمہوری ثمرات کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ غیر قانونی تجارت بھی ہے جو برس ہا برس سے پاکستان کی قانونی معیشت کے سامنے ایک عفریت کی صورت کھڑی ہے، سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی سلامتی کے لیے سرحدیں محفوظ رہیں توکسی کو دراندازی کی جرات نہیں ہوگی۔نان کسٹم پیڈگاڑیاں پاکستان میں کون لاتا ہے، یہ راز نہیں رہا ہے، پاکستان سے چینی، گندم، مسالحہ جات، الائچی، تک غیرقانونی تجارت کے ذریعے افغانستان تک جاتا ہے حتی کہ ازبکستان اور تاجکستان تک میں فروخت ہورہا ہے۔
شمال مغربی سرحد سے اس غیر مرئی تجارتی میکنزم کے اثرات ہولناکی کی ایک تاریخ رکھتے ہیں، اسمگلنگ chain کے کارندے مصروف ترین مارکیٹوں اور بازاروں میں ہزارہا اقسام اور برانڈ کی اشیاء لا اور لے جارہے ہیں، اس کا نیٹ ورک ، دکھائی نہیں دیتا ، کروڑوں اربوں کا کاروبار اسی غیر قانونی تجارت کے نام پر ہوتا ہے۔
جس کے بہروپ دھارے کارندے لیگل بزنس اور قانونی کاروباری کارٹیل کے متوازی تجارت کرتے ہوئے ملک کے طول وعرض میں قانونی معاشی اور تجارتی سرگرمیوں پر مبنی معیشت کو مفلوج کرنے کا ہر وہ طریقہ استعمال کرتے ہیں جن سے ملکی معیشت اور کاروبار کے مفادات پر زد پڑتی ہے اور ان پارٹیوں کا سرمایہ بیرون ملک بھی منتقل ہوتا ہے۔
غیر قانونی تجارت پر قدغن ناگزیر ہے۔ملک کے بڑے شہروں میں اسمگل شدہ مال دھڑلے سے فروخت ہوتا ہے ، غیرقانونی تجارت کے ذریعے ناقص اور غیرمیعاری پلاسٹک گڈز، الیکٹرانک سامان کے انبار لگائے گئے ہیں، کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، پشاور، کوئٹہ میں چھوٹی بڑی مارکیٹوں اور شاپنگ مالز تک غیر معیاری پروڈ کٹس سے بھری ہوئی ہیں، دستی گھڑی سے جوگر تک مل جاتے ہیں لیکن کہیں بھی کوالٹی کنٹرول نہیں ہے، دھڑلے سے انٹرنیشنل برانڈز کی ناقص نقل فروخت کی جارہی ہیں۔
یہاں راکھ کو بھی آنکھوں کے لیے سرمہ بناکر بیچنے والے تاجروں اور ان غیر معیاری اشیاء کو ملک میں پہنچانے والے سرکاری عمال کی کمی نہیں، منشیات اور اسلحہ کی غیر قانونی تجارت بھی اسی روٹ سے ہوتی ہے، چونکہ خطے میں سیاسی صورتحال غیر یقینی ہے، ملک کے پالیسی سازوں کو اس صورتحال کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے۔