وکیل پی ٹی آئی کو کیوں لے ڈوبے

پی ٹی آئی نے مقدمہ کسی قانونی بنیاد پر لڑنے سے گریز کیا تو اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی

farooq.adilbhuta@gmail.com

سپریم کورٹ میں جس وقت پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے مقدمے پر بحث جاری تھی، وکلا کی ایک جیسی باتوں کی تکرار سے طبیعت تھوڑی اوبھ گئی۔

بس اسی اثنا میں میری نگاہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی کتاب ''میرے راہنما ، میرے ہم نوا'' پر پڑی۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ ان لوگوں کے تذکرے لکھے ہیں، اپنے سیاسی سفر کے دوران میں ان کا جن جن سے واسطہ پڑا۔ کتاب کے مصنف کا تعلق جماعت اسلامی کی دوسری پیڑھی سے ہے لیکن ان کا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جو پہلی دوسری اور تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مزاج اور افتاد طبع سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں۔

اس لیے وہ جماعت سے وابستگی رکھنے والی جس شخصیت پر بھی قلم اٹھائیں، اس کا حق ادا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں لہٰذا مولانا مودودی ہوں، میاں طفیل محمد ہوں، قاضی حسین احمد ہوں یا مولانا گلزار احمد مظاہری، سید اسعد گیلانی یا صفدر چودہری، وہ کسی بھی شخصیت پر پوری تفصیل سے قلم اٹھا سکتے ہیں، اس طرح کہ تاریخ کا ایک بیانیہ مرتب ہو جائے۔

شاید یہی احساس تھا کہ ان تذکروں کے اختصار کے باعث خیال پیدا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب اپنی گونا گوں مصروفیات میں سے اس کام کے لیے پورا وقت نہیں نکال سکے۔ پھر خیال ہوا کہ ایسا تو ممکن نہیں ہے کہ جن لوگوں سے تعلق خاطر میں زندگی گزر گئی ہو، ان کے بارے میں تفصیل سے بات نہ ہو سکتی ہو۔ بات یقیناً کی جا سکتی ہے لیکن ڈیجیٹل میڈیا کے زمانے میں شاید تفصیل کی ضرورت نہیں۔

سبب یہ ہے کہ آج کا سیاسی کارکن جس کے ہاتھ میں سیل فون ہے، فیس بک، انسٹا گرام اور ایکس ہے، اس کے پاس اتنی فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ ہمارے ہم عصروں کی طرح سے کئی سو صفحے کی کتاب لے کر بیٹھے اور اسے گھول کر اپنے من میں اتار لے۔ یہ زمانہ مختلف ہے۔

آج کے سیاسی کارکن کی تربیت اور بگڑے ہوئے مزاج کو درست رکھنے کے لیے چھوٹی چھوٹی اور مختصر تحریریں ہی مؤثر ہو سکتی ہیں، خاص طور پر اس پس منظر میں جب اختلاف دشمنی میں بدل چکا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ اختلاف رکھنے والے لوگ باہم مصافحہ بھی کر سکیں۔

ہماری سیاسی ثقافت میں فروغ پانے والے اس افسوس ناک رجحان سے صرف پی ٹی آئی کے لوگ ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ ہر سیاسی جماعت کے کارکنوں نے یہ مضر اثرات قبول کیے ہیں۔ اس صورت حال کی اصلاح کا، ایک طریقہ بزرگوں کا طرز عمل ہے جنھوں نے بڑی بڑی آزمائشوں کا سامنا کرنے کے باوجود کبھی وہ طرز عمل اختیار نہیں کیا جس کا چلن آج ہمیں دکھائی دیتا ہے۔

مثلاً مولانا مودودی کے تذکرے میں انھوں نے لکھا ہے کہ وہ مریض سے نہیں مرض سے نفور کرتے تھے جب کہ مریض کو گلے لگا لیا کرتے تھے۔ اس پس منظر میں میں یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ مختصر تذکرے لکھ کر فرض کفایہ ادا کیا ہے۔ اﷲ کرے کہ یہ کوشش اصلاح احوال کی تحریک کی ابتدا بن جائے۔

ڈاکٹر فرید پراچہ کی یہ تحریریں پڑھتے ہوئے اچانک یہ خیال ذہن میں آیا کہ انھیں اگر عمران خان اور ان کی جماعت کے بارے میں لکھنا پڑتا تو ان کی تحریر کیسی ہوتی؟ ڈاکٹر صاحب کے مزاج کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ انھیں اس مقصد کے لیے زیادہ محنت نہ کرنی پڑتی، صرف انتخابی نشان کے مقدمے کی کارروائی ہی اس تذکرے کے لیے کافی و شافی ہوتی۔


یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی سے اس کا انتخابی نشان واپس لیے جانے کے فیصلے سے اس کے وابستگان میں مایوسی پیدا ہوئی ہے اور بہ طور جماعت اس کے لیے سیاسی عمل میں شرکت آسان نہیں رہی لیکن اس واقعے میں پاکستان کے حقیقی سیاسی کارکن کے لیے بڑے سبق بھی پوشیدہ ہیں۔

مثلاً ہماری سیاسی جماعتوں میں ٹھوس کام کرنی کی روایت نہیں رہی اور سارا کام ہی ہوائی اور زبانی چلتا ہے، ڈاکٹر صاحب اس جماعت کی مثال سے ہمیں بتاتے سیاسی جماعت بنانا اور چلانا مذاق نہیں، اسے چلانے اور اس میں جان ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ ٹھوس کام بھی کیے جائیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ چیف جسٹس سوال کرے کہ اگر آپ نے الیکشن کرا دیے ہیں تو براہ کرم یہ بتا دیں کہ الیکشن کیسے ہوئے۔

انتخابی عمل کے دوران میں جو مختلف مراحل ہوتے ہیں، ان کے دستاویزات کیا ہیں تو علی ظفر ایڈوکیٹ اور حامد خان ایڈوکیٹ کے پاس نہ تو بتانے کے لیے کچھ ہو بلکہ وہ ثبوت کے طور پر دستاویز بھی نہ پیش کر سکیں۔

یہ وکلا جب یہ الزام لگائیں الیکشن کمیشن ان کی جماعت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھ رہا ہے اور اس الزام پر جب عدالت ان سے پوچھے کہ آپ جو الزام لگا رہے ہیں، اس کا ثبوت کیا ہے تو وہ آئیں بائیں شائیں نہ کریں، ان کے پاس کہنے کے لیے بھی بہت کچھ ہو اور ثبوت کے طور پر پیش کرنے کے لیے ان کی فائل خالی نہ ہو۔

سچی بات یہ ہے کہ ہماری تاریخ میں پی ٹی آئی ایک عجیب جماعت کی حیثیت سے ابھری۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر جب اسے کوئی چلاتا رہا، اس وقت کے معاملات چلتے رہے لیکن جیسے ہی سرپرستوں نے ہاتھ اٹھا لیے، اس جماعت کا پورا نظام ہی بگاڑ کا شکار ہوگیا۔

سوال پیدا ہوتا کہ پی ٹی آئی اس انجام سے دوچار ہوئی کیوں؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ جماعت اور اس کی قیادت کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کی ساری زندگی الل ٹپ گزر جاتی ہے، کرنے کے لیے اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور نہ کچھ کرنے کی اس میں خواہش ہوتی ہے۔

یہی سبب ہے کہ اس کے وکلا اس کا مقدمہ لڑنے کے لیے میدان میں اترے تو وہ جانتے تھے کہ دفاع کرنے کے لیے ان کے پاس نہ کوئی قانونی نکتہ ہے اور کوئی دلیل لہٰذا انھوں نے ہر سطح پر اس جماعت کے مقدمات قانونی بنیاد پر لڑنے کے بہ جائے سیاسی بنیاد پر لڑے۔ سیاسی بنیاد پر مقدمہ لڑنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اس کا اندازہ پیپلز پارٹی سے زیادہ اور کسے ہو سکتا ہے جسے ذوالفقار علی بھٹو جیسی شخصیت کو قربان کرنا پڑا۔

تو بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے بھٹو کا مقدمہ قتل سیاسی بنیاد پر لڑا تو اپنے لیڈر سے ہاتھ دھوئے۔ پی ٹی آئی نے مقدمہ کسی قانونی بنیاد پر لڑنے سے گریز کیا تو اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی۔ ممتاز تجزیہ کار ڈاکٹر طاہر نعیم ملک اس رائے سے مکمل طور پر اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی زندگی کا یہ حادثہ مستقبل کے سیاسی کارکنوں کے لیے ایک سبق ہوگا کہ اگر سیاسی عمل میں شریک ہونا ہے تو اسے ایک سنجیدہ سرگرمی بھی بنانا ہے پی ٹی آئی اور اس کے لیڈر کی طرح سے اسے محض کھیل تماشا نہیں بنانا۔ رضا سید اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں لیکن اس میں ایک اور نکتے کا اضافہ کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کے زمانے میں ایک بار وہ کچھ دوستوں کے ساتھ بانی ایم کیو ایم سے ملے اور ان سے پوچھا کہ کیا کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا یہ بہترین وقت نہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ ان کے جواب نے انھیں حیران کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ مسئلہ حل کر دیا تو پھر ان کی سیاست کا کیا بنے گا؟ وہ کہتے ہیں کہ یہی حادثہ پی ٹی آئی کے ساتھ بھی بیتا ہے۔

عمران خان نے ہمیشہ کی طرح زیادہ غور و فکر کیے بغیر اپنی جماعت وکیلوں کو سونپ دی۔ اب اگر اس جماعت کے مسائل حل ہو جاتے ہیں تو آج وکیلوںکی جو اہمیت ہے، اس کا تو خاتمہ ہو جائے گا، پھر وہ کیوں سنجیدگی سے کوئی مقدمہ لڑیں گے ؟
Load Next Story